غزل
پلکوں پہ دِل کا رنگ فروزاں نہیں رہا
اب ایک بھی دِیا سَرِ مِژگاں نہیں رہا
قلبِ گُداز و دِیدۂ تر تو ہے اپنے پاس
میں شاد ہُوں، کہ بے سَروساماں نہیں رہا
آنکھوں میں جَل اُٹھے ہیں دِیے اِنتظار کے
احساسِ ظُلمتِ شَبِ ہجراں نہیں رہا
تُجھ سے بچھڑ کے آج بھی زندہ تو ہُوں، مگر
وہ اِرتعاشِ تارِ...
غزل
آ ہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی
یاد ٹلتی نظر نہیں آتی
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے
دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی
گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا
یاس ہٹتی نظر نہیں آتی
یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج
سانس چلتی نظر نہیں آتی
کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو...
غزل
شفیق خلش
عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے
ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے
زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل
وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے
بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن
دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے
کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی
ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے
وہ جنھیں ہم نے دی ذرا...
غزل
یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے
میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں...
غزل
جب چلا وہ مجھ کو بِسمِل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتِل کا داماں چھوڑ کر
میں وہ مجنوں ہُوں جو نِکلوں کُنجِ زِنداں چھوڑ کر
سیبِ جنّت تک نہ کھاؤں سنگِ طِفلاں چھوڑ کر
میں ہُوں وہ گمنام، جب دفتر میں نام آیا مِرا
رہ گیا بس مُنشیِ قُدرت جگہ واں چھوڑ کر
سایۂ سروِ چمن تجھ...
ُ
غزل
نِیم جاں چھوڑ گئی نِیم نِگاہی تیری
زندگی تا صد و سی سال الٰہی تیری
ناز نیرنگ پہ، اے ابلقِ ایّام نہ کر
نہ رہے گی یہ سفیدی یہ سِیاہی تیری
دِل تڑپتا ہے تو کہتی ہیں یہ آنکھیں رو کر
اب تو دیکھی نہیں جاتی ہے تباہی تیری
کیا بَلا سے توُ ڈراتی ہے مجھے، اے شَبِ گور
کچھ شبِ ہجْر سے بڑھ کر ہے...
غزل
خود حِجابوں سا، خود جمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خیمۂ گل
دُورِیوں میں عجب کمال سا تھا
بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک موسم، کہ لازوال سا تھا
تھا ہتھیلی پہ اِک چراغِ دُعا
اور ہر لمحہ اِک سوال سا...
غزلِ
سیماب اکبرآبادی
چمک جُگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
کہانی میری رُودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سُنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ہَوائے شوق کی قوّت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزِل بھی گردِ کارواں معلوم ہوتی ہے...
غزل
سواری پیار کی پھر ایک بار گُزرے گی
نجانے دِل کو یہ کیوں اعتبار، گُزرے گی
نہ عُمر یُوں ہی رَہِ خاردار گُزرے گی
ضرور راہ کوئی پُر بہار گُزرے گی
گُماں کِسے تھا اُسے آنکھ بھر کے دیکھا تو
نظر سے میری وہ پھر بار بار گُزرے گی
تمھاری یاد بھی گُزری جو غمکدے سے مِرے
نشاطِ زِیست کی رتھ پر سوار...
غزل
محبّت کِس قدر یاس آفریں معلوُم ہوتی ہے
تِرے ہونٹوں کی ہر جُنْبش نہیں معلوُم ہوتی ہے
یہ کِس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبِیں، اپنی جبِیں معلوُم ہوتی ہے
محبّت تیرے جلوے کتنے رنگارنگ جلوے ہیں
کہِیں محسُوس ہوتی ہے، کہِیں معلوُم ہوتی ہے
جوانی مِٹ گئی، لیکن خَلِش دردِ...
غزل
نہ دِل میں غلبۂ قُرب و وصال پہلا سا
کبھی کبھی ہی رہے اب خیال پہلا سا
لئے ہم اُن کو تصوّرمیں رات بھر جاگیں
رہا نہ عِشق میں حاصِل کمال پہلا سا
زمانے بھر کی رہی دُشمنی نہ یُوں ہم سے
رہا نہ عِشق میں جوش و جلال پہلا سا
ذرا سا وقت گُزرنے سے کیا ہُوا دِل کو
رہا نہ حُسن وہ اِس پر...
غزل
آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے
گھر پھربھی میری قید کا بُہتان تھا لئے
طرزوعمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے
جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے
کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے
دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے
دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے
ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ...
غزل
فنِ تشہیر سے کوئی بھی بیگانہ نہیں مِلتا
جرِیدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں مِلتا
ہمارے عہْد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو
یہ کارِ عِشق ہے اِس میں محنتانہ نہیں مِلتا
یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بےروایت ہے
یہاں تو، زیرِدام آنے پہ بھی دانہ نہیں مِلتا
محبّت پیشگاں پر ابْتری کا دور آیا ہے
کہ ان...
غزل
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفوُ کی ہے
نہ کرَم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نِگاہ ہم پہ عدُو کی ہے
صَفِ زاہداں! ہے تو بے یقیں، صَفِ مے کشاں! ہے تو بے طلب
نہ وہ صُبْح، وِرد و وضُو کی ہے، نہ وہ شام، جام و سبُو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ سِتم نیا، کہ تِری جفا کا گِلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے...
مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے
کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بوند لہو کی ہے
کبھی چاک خوں سے چپک گیا کبھی خار خار پرو لیا
مرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بھی تو رفو کی ہے
نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ وہ باغ کے
جنہیں ذکر قیدوقفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلُو...
غزل
نجمہ انصار نجمہ
اے دِل ! یہ تِری شورشِ جذبات کہاں تک
اے دِیدۂ نم اشکوں کی برسات کہاں تک
برہَم نہیں ہم، آپ کی بیگانہ روِی سے !
اپنوں سے مگر ترکِ مُلاقات کہاں تک
آخر کوئی مہتاب تو ہو اِس کا مُقدّر
بھٹکے گی سِتاروں کی یہ بارات کہاں تک
ہو جاتا ہے آنکھوں سے عیاں جُرمِ محبّت
پوشِیدہ...
غزل
فریب کھا کے بھی اِک منزلِ قرار میں ہیں
وہ اہلِ ہجر، کہ آسیبِ اعتبار میں ہیں
زمِین جن کے لِیے بوجھ تھی، وہ عرش مِزاج
نہ جانے کون سے مَحوَر پہ، کِس مَدار میں ہیں
پُرانے درد، پُرانی محبّتوں کے گُلاب
جہاں بھی ہیں، خس و خاشاک کے حِصار میں ہیں
اُڑائی تھی جو گروہِ ہوَس نہاد نے دُھول ...
غزل
اِک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دِل کا
اچّھا کوئی پھر کیوں ہو مسِیحا مِرے دل کا
کیوں بِھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشہ ہے تڑپنا مِرے دِل کا
بازارِ محبّت میں کمی کرتی ہے تقدِیر
بن بن کے بِگڑ جاتا ہے سودا مِرے دِل کا
گر وہ نہ ہُوئے فیصلۂ حشْر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام...
غزل
سبھوں کو مے، ہمَیں خُونابِ دِل پلانا تھا
فلک مجھی پہ تجھے کیا یہ زہر کھانا تھا
لگی تھی آگ جگر میں بُجھائی اشکوں نے
اگر یہ اشک نہ ہوتے تو کیا ٹِھکانہ تھا
نِگہ سے اُس کی بچاتا میں کِس طرح دِل کو
ازل سے یہ تو اُسی تِیر کا نِشانہ تھا
نہ کرتا خُوں میں ہمَیں، کِس طرح وہ رنگیں آہ
اُسے تو...