غزلِ
جگر مُراد آبادی
دِل کو کسی کا تابعِ فرماں بنائیے
دُشوارئ حیات کو آساں بنائیے
درماں کو درد، درد کو درماں بنائیے
جس طرح چاہیئے، مجھے حیراں بنائیے
پھر دِل کو محوِ جلوۂ جاناں بنائیے
پھر شامِ غم کو صُبحِ درخشاں بنائیے
پھر کیجئے اُسی رُخِ تاباں سے کسبِ نُور
پھر داغِ دِل کو شمْعِ شبِستاں...
غزل
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہُوں
میں نہیں ہُوں نغمۂ جاں فِزا، مجھے سُن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہُوں صدا، میں بڑے دُکھی کی پُکار ہُوں
میرا رنگ رُوپ بِگڑ گیا، مِرا یار مجھ سے بِچھڑ گیا
جو چمن...
غزلِ
عجب روِش سے اُنھیں ہم گلے لگا کے ہنسے
کہ گُل تمام گلِستاں میں کِھلکِھلا کے ہنسے
جنھیں ہے شرم وحیا اِس ہنسی پہ روتے ہیں
وہ بے حیا ہے ہنسی پر جو بے حیا کے ہنسے
غم والم مِرا اُن کی خوشی کا باعث ہے
کہ جب ہنسے وہ، مجھے خُوب سا رُلا کے ہنسے
نِکالا چارہ گروں نے جو ذکر مرہم کا
تو خُوب...
غزلِ
گُلشن میں جب ادا سے وہ رنگِیں ادا ہنسے
غُنچے کا مُنہ ہے کیا کہ جو پھر اے صبا ہنسے
دِیوانے کو نہیں تِرے پروا، کہ اے پری !
دِیوانگی پہ میری کوئی روئے یا ہنسے
روئے غمِ فِراق میں برسوں ہم، اے فلک
گر وصل کی خوشی میں کبھی اِک ذرا ہنسے
چارہ کرے اگر تِرے بِیمارِ عِشق کا
تدبِیرِ چارہ ساز...
جہاں میں ہُوں !
آنند نرائن مُلّا
وہی حِرص و ہَوَس کا تنگ زِنداں ہے جہاں میں ہُوں
وہی اِنساں، وہی دُنیائے اِنساں ہے، جہاں میں ہُوں
تمنّا قید، ہمّت پابَجولاں ہے جہاں میں ہُوں
مجھے جکڑے ہُوئے زنجیرِ اِمکاں ہے جہاں میں ہُوں
کبھی شاید فرشتہ آدمِ خاکی بھی بن جائے
ابھی تو بھیس میں اِنساں کے...
غزلِ
شاعر فتحپوری
چُھوتی ہے تِرے گیسو بَدمست ہَوا کیسے
ہم بھی تو ذرا دیکھیں اُٹھتی ہے گھٹا کیسے
گردِش میں تو جام آئے، معلوُم تو ہو جائے
میخانہ لُٹاتی ہے ساقی کی ادا کیسے
کیا راہِ محبّت میں کُچھ نقشِ قدم بھی ہیں
کھوئے ہُوئے پاتے ہیں منزِل کا پتا کیسے
نظریں تو اُٹھاؤ تم، دِل ہنْس کے بتا...
غزلِ
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضِیا دِل میں اِک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
بے حِس ہیں تمنّائیں نیند آئی کہ موت آئی
اب دِل کو کسی کروَٹ آرام نہیں مِلتا
اِک عُمْر کا رونا ہے دو...
غزلِ
بَد مَست شوق شاہدِ کون و مکاں ہے آج
شاید فِضا میں جذب مئے ارغواں ہے آج
جو پندِ عقل و ہوش ہے وہ رائیگاں ہے آج
حرفِ جُنوں کے آگے خِرد بے زباں ہے آج
برقِ جَفا بھی خوف سے گِرتی نہیں جہاں
اِک ایسی شاخِ گُل پہ مِرا آشیاں ہے آج
لال و گُہر سُبک سے سُبک تر ہُوئے ہیں اب
جنسِ وفا کا خیر سے...
غزلِ
ابرُو تو دِکھا دیجیے شمشِیر سے پہلے
تقصِیر تو کُچھ ہو، مِری تعزِیر سے پہلے
معلوُم ہُوا اب مِری قِسمت میں نہیں تم
مِلنا تھا مجھے کاتبِ تقدِیر سے پہلے
اے دستِ جنُوں توڑ نہ دروازۂ زِنداں
میں پُوچھ تو لوُں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
اچھّا ہُوا، آخر مِری قِسمت میں سِتم تھے
تم مِل گئے مجھ کو...
غزلِ
بُھلا دو، رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے
بہت تارِیک دِن ہے، پھر بھی دیکھو
اُجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
نہیں پاتِیں جسے بَیدار نظریں
خُدایا یہ مِرے خوابوں میں کیا ہے
یہ کیا ڈُھونڈے چَلے جاتی ہے دُنیا
تماشہ سا گلی کوُچوں میں کیا ہے
ہے وحشت سی یہ ہرچہرے...
غزلِ
امیر مینائی
گھر گھر تجلّیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالبِ دیدار بھی تو ہو
اے تیغِ یار! کیا کوئی قائل ہو برق کا
تیری سی اُس میں تیزئ رفتار بھی تو ہو
دِل درد ناک چاہیے لاکھوں میں خُوب رُو
عیسیٰ ہیں سینکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
چھاتی سے میں لگائے رہُوں کیوں نہ داغ کو
اے...