توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
میرے عذر ِ جرم پر مطلق نہ کیجیے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے
خاطر ِ محروم کو کو کر دیجیے محو ِ الم!
درپے ایذائے جانِ مبتلا ہو جائیے
راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فورا" جدا ہو جائیے...
اور تو پاس مرے ہجر ميں کيا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو ميں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ھم نے ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں ميں بسارکھے ہيں
شوق کو اور بھي ديوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثير محبت کہ انہيں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے...