غزل
سواری پیار کی پھر ایک بار گُزرے گی
نجانے دِل کو یہ کیوں اعتبار، گُزرے گی
نہ عُمر یُوں ہی رَہِ خاردار گُزرے گی
ضرور راہ کوئی پُر بہار گُزرے گی
گُماں کِسے تھا اُسے آنکھ بھر کے دیکھا تو
نظر سے میری وہ پھر بار بار گُزرے گی
تمھاری یاد بھی گُزری جو غمکدے سے مِرے
نشاطِ زِیست کی رتھ پر سوار...
غزل
نہ دِل میں غلبۂ قُرب و وصال پہلا سا
کبھی کبھی ہی رہے اب خیال پہلا سا
لئے ہم اُن کو تصوّرمیں رات بھر جاگیں
رہا نہ عِشق میں حاصِل کمال پہلا سا
زمانے بھر کی رہی دُشمنی نہ یُوں ہم سے
رہا نہ عِشق میں جوش و جلال پہلا سا
ذرا سا وقت گُزرنے سے کیا ہُوا دِل کو
رہا نہ حُسن وہ اِس پر...
غزل
آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے
گھر پھربھی میری قید کا بُہتان تھا لئے
طرزوعمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے
جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے
کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے
دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے
دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے
ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ...
غزلِ
شفیق خلش
منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے
مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے
بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے
اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب...
غزلِ
دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ...
غزلِ
روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو...
غزلِ
ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس
خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس
حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس
کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم...
غزلِ
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج...
غزلِ
دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم
لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم
دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم
بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے...
غزلِ
جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا
قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا
سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری
چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا
چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشِق ہُوں مگر...
غزلِ
یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے
جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے
دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے
ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے
راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے
کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے
اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے
گھر جو مرضی...
غزلِ
گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم
جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم
بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں
لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم
نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور
توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم
اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں
نبرد آرا سا رہتے ہیں...
غزلِ
پیار اچھّا نہ محبّت کا وبال اچّھا ہے
جس سے پُوری ہو تمنّا وہ کمال اچّھا ہے
ضُعف سے جوشِ محبّت کو زوال اچّھا ہے
مر مِٹے جانے کو ورنہ وہ جمال اچّھا ہے
گھر بَسائے ہُوئے مُدّت ہُوئی جن کو، اُن سے
اب بھی کیوں ویسی محبّت کا سوال اچّھا ہے
کچھ سنبھلنے پہ گلی پھر وہی لے جائے گا
دِل کا غم سے...
غزلِ
چل اب یہاں سے کسی اور کو بنانے جا
کروں یقین میں تیرا گئے زمانے جا
کہا یہ گریہ کا احوال سُن کے قاصد سے
کہ خوب آتے ہیں ٹسوے اُنھیں بہانے جا
صدا تھی دِل کی نہ مِلنے کے ہر تہیّہ پر
بس ایک بار نصیب اور آزمانے جا
بذاتِ خود بھی کہی بات پر مِلا یہ جواب
یہ سبز باغ کسی اور کو دِکھانے جا...
بدستِ دِل!
کہے ہے اب بھی وہی دِل، کہ جا بتانے جا
گُزر رہی ہے جو فُرقت میں وہ سُنانے جا
چُھپا خُلوص تُو میرا اُنھیں جتانے جا
جَبِیں بہ سنگِ درِ مہ جبیں لگانے جا
نہ چاہتے ہیں وہ مِلنا تو کوئی بات نہیں
بس ایک دِید سے اُن کی مجھے لُبھانے جا
قریب جانے کا اُن کے کہے ہے کون تجھے
دِکھا کے...
غزلِ
شفیق خلش
مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے
جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے
جوحال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے
تھکتے نہیں یہ کہہ کے، مِرے ہمنشیں رہے
قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے
خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے
زرخیزئ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر
زیرِ...
غزلِ
شفیق خلش
اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں
کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں
ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک
کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں
سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ
کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں
سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم
اب...
شاعری !
شفیق خلش
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں
ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں
یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں
تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں
بھائی...