خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلؔش ::::: یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو ::::: Shafiq Khalish

    غزل یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو! عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر اُن کا، گلی میں آنے...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش تب اَوج پر مِری واماندگی سی ہوتی ہے جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے پِھر روز و شب لِئے افسُردگی سی ہوتی ہے بس اُس کے مِلنے پہ آسودگی سی ہوتی ہے ترس رہے ہیں ذرا سی ہنسی، خوشی کے لیے کہ زندگی بھی نہ اب زندگی سی ہوتی ہے دِیا سُخن کو نیا رنگ تیری فُرقت نے اب بول چال میں...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب:::::: Shafiq Khalish

    غزل مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب تعبیر وسوَسے لئے سب چاہتوں کے خواب دِل کے یقینِ وصل کو پُختہ کریں کُچھ اور ہرشب ہی ولوَلوں سے بھرے ہمّتوں کے خواب پَژمُردہ دِل تُلا ہے مِٹانے کو ذہن سے اچّھی بُری سبھی وہ تِری عادتوں کے خواب کیسے کریں کنارا، کہ پیشِ نظر رہیں تکمیلِ آرزُو سے جُڑے...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے :::::: Shafiq Khalish

    غزل کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ ہو مِثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ آ بسو دِل کی طرح، گھر میں بھی اے خوش اِلحان ! زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے ہمسفرتم...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے محبّت کو جیسے اثر مِل گئی ہے سرِشام وہ بام پر آئے ، شاید ! ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے تھی قسمت میں جومُختصرمِل گئی ہے گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا توسُّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے ہَمہ وقت طاری جو رہتی...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: خاک بے خوابی کو تھپک دیکھوں ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش خاک بے خوابی کو تھپک دیکھوں غم کی ہر اُور سے لپک دیکھوں خُونِ دِل سا ہی اب ٹپک دیکھوں سیلِ غم میں وہی چَپَک دیکھوں اب بھی سینے میں تیری یاد سے وہ شُعلۂ عِشق کی لپک دیکھوں ہے توقُّف بھی اِنتظار میں کُچھ کاش پلکیں ذرا جھپک دیکھوں اُلفت اِس دِل میں وہ ہُوئی یُوں خلش...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::خواب ہی خواب اب تلک دیکھوں :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش خواب ہی خواب اب تلک دیکھوں کب حقیقت میں اِ ک جھلک دیکھوں کوئی صُورت دِکھے وہی صُورت معجزہ کچھ تو، اے فلک دیکھوں چشم ترسے ہے بَوجھ پلکوں پر جی کرے غم ذرا چھلک دیکھوں گِرتےقطرے کی کیا حقیقت ہے بن کے آنسو میں خود ڈھلک دیکھوں دِید سے جس کی ، زندگی بدلی! کاش اُس کی میں...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں:::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں قُربِ محبُوباں میں اپنی نارَسائی کے سبب گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں گو قرار آئے نہ میرے دِل کو اُن سے رُوٹھ کر جب کہ مِلنے سے اِسی پر زخم کھا آیا ہُوں میں بے سبب اُن سے...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::چراغِ دِل تو ہو روشن، رَسد لہُو ہی سہی :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش چراغِ دِل تو ہو روشن، رَسد لہُو ہی سہی ' نہیں وصال میسّر تو آرزُو ہی سہی ' کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں نہیں جو پیارمقدّر، توجُستجُو ہی سہی یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں ! وہ گل مِلے نہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی عجیب بات ہے حاصِل وصال ہے نہ فِراق جو تیرے...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: رنجشوں کو دِل میں تم اپنے جگہ دینے لگے:::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش رنجشوں کو دِل میں تم اپنے جگہ دینے لگے غم ہی کیا کم تھے جو اَب یوں بھی سزا دینے لگے خواہشیں دِل کی دبانےسے کہیں دبتی ہیں کیا بُھول کرمیری وفاؤں کو جفا دینے لگے یوں تمھاری یاد نے فُرقت کا عادی کردِیا ہجرکےغم بھی بالآخر اب مزہ دینے لگے کیا یہ تجدِیدِ محبّت ہی عِلاجِ دِل بھی...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجود تھا :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں:::::: Shafiq Khalish

    غزل ۔ ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں تھا رحم دِل میں لوگوں کے، اب نام کو نہیں شُرفا کی سرزَنِش ہو تو، سب لوگ پیش پیش پُو چھیں بُرے عمل پہ بھی بدنام کو نہیں غافل ہُوئے ہیں سب ہی حقوق العباد سے رُحجانِ قوم ،کیا زبُوں انجام کو نہیں؟ تحرِیر اُن پہ کیسے ہو بارآور آپ کی دَیں اہمیت ذرا بھی...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کُچھ اِس سے بڑھ کےہوگا بَھلا کیا حَسِیں عِلاج:::::: Shafiq Khalish

    غزل کُچھ اِس سے بڑھ کےہوگا بَھلا کیا حَسِیں عِلاج کرتے ہیں غم کا غم سے مِرے دِلنشیں عِلاج پُر رحم دِل کے درد کا ہوگا نہیں عِلاج رو رو کے پک رہے جو، ہو اُس کا کہِیں عِلاج کِس کِس کی موت کا وہاں رونا رہے ، جہاں ! بالا زمِیں کے غم کا ہو زیرِ زمِیں عِلاج انسانیت کا خون اُنہی سے ہے اب ہُوا...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: اےشبِ عید اب بتا ، دِیدار پائیں کِس طرح :::::: Shafiq Khalish

    غزل اےشبِ عید اب بتا ، دِیدار پائیں کِس طرح اپنی نظروں میں سُہانا چاند لائیں کِس طرح اِک ہجومِ شہر ہے نظریں اُٹھائے تاک میں وہ سرِبام اب اگر آئیں تو آئیں کِس طرح باوجود اِس کے، کہ سب وعدے نہ کم تھے عہد سے عید کے مِلنے پہ دیکھو تو ستائیں کِس طرح رشک ہے حیرانگی سے اپنی قسمت پر ، کہ لوگ...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کب کہاں ہوتا نہیں اِنساں ،جہاں میں عام و خاص :::::: Shafiq Khalish

    غزل کب کہاں ہوتا نہیں اِنساں ،جہاں میں عام و خاص جو حقیقت میں نہیں، تو ہے گُماں میں عام و خاص وہ بھی منظر دیکھنے کا تھا ، گلی اور دِید کا خاک پر بیٹھے رہے اکثر جہاں، میں، عام و خاص ایک مُدّت تک رہا یہ شور ، وہ آنے کو ہیں ایک مدّت، منتظر تھے سب وہاں ، میں، عام و خاص ڈر بَھلا کب ذہن میں خدشے...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے :::::: Shafiq Khalish

    غزل پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے پیار جس کو یہ، حادثہ سا لگے ضبط ِغم ہی کا یہ صِلہ سا لگے مُنہ میں اشکوں کا ذائقہ سا لگے بدشگونی کا سلسلہ سا لگے کچھ بھی کہیے، اُنھیں گِلہ سا لگے جب بھی ناراضگی کا غلبہ ہو دو قدم اُن کو فاصلہ سا لگے راز وہ خاک راز رکھیں گے! ہرعمل جن کا ، ناطقہ سا لگے اب...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: دُعا میں اب وہ اثر کا پتہ نہیں چلتا :::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلؔش دُعا میں اب وہ اثر کا پتہ نہیں چلتا کُچھ اِلتفاتِ نظر کا پتہ نہیں چلتا اُتر کے خود سےسمندر میں دیکھنا ہوگا کہ ساحلوں سے بھنور کا پتہ نہیں چلتا خیالِ یار میں بیٹھے ہُوئے ہمَیں اکثر گُزرتے شام و سَحر کا پتہ نہیں چلتا نظر میں روزِ اوائل کا چاند ہو جیسے نِگہ بغور کمر کا پتہ...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: گوشہ آنکھوں کے دریچوں میں جو نم سا ہوگا :::::: Shafiq Khalish

    غزل گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں ہم نہ مل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا روئے گی صُبح ہمَیں، شام بھی مُضطر ہوگی کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے جاں...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا :::::: Shafiq Khalish

    غزل موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا ہنس کے جینے کا، اگر تھا تو بہانہ وہ تھا اِک عجب دَور جوانی کا کبھی یُوں بھی رہا میں کہانی جو زبانوں پہ، فسانہ وہ تھا اپنا کر لایا ہر اِک غم مَیں کہ جس پر تھوڑا یہ گُماں تک بھی ہُوا اُس کا نشانہ وہ تھا دِل عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں، کہ اِسے ایک...
Top