محب علوی
مدیر
میر تقی میر ایک عظیم و معتبر نام ایک ایسا نام جو کسی بھی اردو پڑھنے والے کے لیے تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ریختہ گویان ہند کے استاد اعظم شاعرانِِ اردو کے رہبر علم، ادب اور زبان دانی کے ماہر فن، خوش گلو ، شیریں بیان شخصیت کے مالک تھے۔ غزل گوئی کی جب بات ہوگی تو ایک نام سب سے پہلے ذہن میں وارد ہوگا اور وہ ہوگا میر تقی میر کا۔
میر ہمیشہ تلاش معاش میں ہی سرگرداں رہے اور کبھی با فراغت زندگی بسر نہ ہوئی۔ ان حالات میں شگفتہ مزاجی تو دور کی بات بھرم قائم رکھنا ہی دوبھر ہوجاتا ہے۔ انہی مصائب کے دنوں میں میر کی بیٹی اپنی شادی کے کچھ ہی دنوں بعد انتقال کر گئی۔ میر حالات کی چکی میں پسنے والے کی طرح تڑپ اٹھے اور جنازے پر کھڑے ہو کر کہا
اب آیا خیال اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں
اس سے آپ اندازہ کریں کہ ایک تو تلاش معاش کے سلسلے میں ایک سے دوسرے شہر کا سفر اور پھر یہ قدرتی آفات ۔ اپنی اس کیفیت یعنی جلد برہم ہونا اور تنگ مزاجی سے خود بھی واقف تھے۔ ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
حالت تو یہ ہے مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ
از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار
اپنی کم مائیگی اور غریبی کا احساس ان کو شدید تر تھا۔ جسکی وجہ سے ان کی شاعری میں مایوسی اور درد شامل ہو کر رہ گیا۔ میر کی پوری زندگی خاص طور پر ابتدائی عمر ان کی نہایت بدترین مصائب کا شکاررہی۔ بچپن سے ہی مصیبت کا شکار رہے۔ دس برس کی عمر سے ہی معاش کی فکر لاحق ہوئی بڑے بھائی نے سرپرستی کی بجائے بے رخی اختیار کی۔ دلی گئے وہاں بھی بہت تکلیف اٹھائی ۔ خالو خان آرزو بھی درپہ آزار ہوگئے۔ ان حالات میں میر ازحد ملول، دل شکستہ اور دل گرفتہ رہنے لگے۔ اس پر بے نوائی بے بسی۔ اسی غم و غصہ میں ان کو تنہائی کی عادت پڑی اور جنونی کیفیت طاری ہوئی جو کافی دیر علاج سے دور ہوئی۔ غرض یہ کہ دلی میں جب تک رہے روزی کا مستقل ذریعہ کوئی نہ تھا۔ کبھی کبھی تو فاقہ کی نوبت بھی پہنچی ۔ اس طرح فقر و مسکینی میں زندگی گزری۔ اپنی اس حالت کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میر کی وضع یاد ہے ہم کو
ایک اور جگہ مایوسی کی انتہا کو پہنچ کر کہتے ہیں کہ
بہت سعی کیجیے تو مر رہیے میر
بس اپنا تو یہی مقدور ہے
میر ہمیشہ تلاش معاش میں ہی سرگرداں رہے اور کبھی با فراغت زندگی بسر نہ ہوئی۔ ان حالات میں شگفتہ مزاجی تو دور کی بات بھرم قائم رکھنا ہی دوبھر ہوجاتا ہے۔ انہی مصائب کے دنوں میں میر کی بیٹی اپنی شادی کے کچھ ہی دنوں بعد انتقال کر گئی۔ میر حالات کی چکی میں پسنے والے کی طرح تڑپ اٹھے اور جنازے پر کھڑے ہو کر کہا
اب آیا خیال اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں
اس سے آپ اندازہ کریں کہ ایک تو تلاش معاش کے سلسلے میں ایک سے دوسرے شہر کا سفر اور پھر یہ قدرتی آفات ۔ اپنی اس کیفیت یعنی جلد برہم ہونا اور تنگ مزاجی سے خود بھی واقف تھے۔ ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
حالت تو یہ ہے مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ
از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار
اپنی کم مائیگی اور غریبی کا احساس ان کو شدید تر تھا۔ جسکی وجہ سے ان کی شاعری میں مایوسی اور درد شامل ہو کر رہ گیا۔ میر کی پوری زندگی خاص طور پر ابتدائی عمر ان کی نہایت بدترین مصائب کا شکاررہی۔ بچپن سے ہی مصیبت کا شکار رہے۔ دس برس کی عمر سے ہی معاش کی فکر لاحق ہوئی بڑے بھائی نے سرپرستی کی بجائے بے رخی اختیار کی۔ دلی گئے وہاں بھی بہت تکلیف اٹھائی ۔ خالو خان آرزو بھی درپہ آزار ہوگئے۔ ان حالات میں میر ازحد ملول، دل شکستہ اور دل گرفتہ رہنے لگے۔ اس پر بے نوائی بے بسی۔ اسی غم و غصہ میں ان کو تنہائی کی عادت پڑی اور جنونی کیفیت طاری ہوئی جو کافی دیر علاج سے دور ہوئی۔ غرض یہ کہ دلی میں جب تک رہے روزی کا مستقل ذریعہ کوئی نہ تھا۔ کبھی کبھی تو فاقہ کی نوبت بھی پہنچی ۔ اس طرح فقر و مسکینی میں زندگی گزری۔ اپنی اس حالت کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میر کی وضع یاد ہے ہم کو
ایک اور جگہ مایوسی کی انتہا کو پہنچ کر کہتے ہیں کہ
بہت سعی کیجیے تو مر رہیے میر
بس اپنا تو یہی مقدور ہے