آؤ‌ کہ ذکرِ میر کریں

خشتِ اوّل قسطِ دوم:
۔۔۔شکیل احمد خان
لغات:تاجوری،نوحہ گری، آفاق، شَور، اسباب، سَفَری ، زِنداں، شَورش، جُنوں، سنگ، مداوا، آشفتہ سری، آنکھ لڑنا، پھروہیں دیکھو،لپکا، پریشاں نظری،صد، موسمِ گل،تہِ بال، گزرے،مقدور، بے بال و پری، ٹک، جگرسوختہ، خبرلینا،چراغِ سحری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
مطالب اور مفاہیم:
میرتقی میؔرکی اِس غزل کی لغات بھی اِس لحاظ سے خوب ہے کہ بعض الفاظ کے مفاہیم میؔرجیسے قادرالکلام شاعر نے اپنی اپج سے خود متعین کیے ہیں جیسے سَفری کا مطلب مسافر اور وہیں دیکھو کا مفہوم باز دید یعنی دوبارہ دیکھنا ، پلٹ کر دیکھنا یا بار بار دیکھنا/کسی کو اُس طرف متوجہ کرنے یا کسی بات پر زوردینے کے لیے بولاجاتا ہے ، پریشاں نظری کامطلب شعرکے سیاق وسباق میں حیرت واستعجاب کی نظر سے دیکھنا نکلتا ہے۔
اب ترتیب سے ان الفاظ کے مطالب دیکھتے ہیں جواوپر لکھے گئے ہیں ۔ تاجوری =سرداری ، بادشاہت، شہنشاہیت۔نوحہ گری=رونا پیٹنا۔آفاق= دنیا اور کبھی کبھی اِس سے کائنات بھی مراد لی جاتی ہے۔شور=ہنگامہ، مچلنے اور تڑپنے کے دوران چیخنا چلانا۔اسباب =سازوسامان۔سفری=مسافر۔زنداں=قیدخانہ۔شورش=چیخ و پکار۔جُنوں= دیوانگی کا دورہ/ہوش و حواس میں نہ رہنا۔سنگ=پتھر۔مداوا=علاج۔آشفتہ سری=دیوانگی/حواس میں نہ رہنا۔آنکھ لڑنا=آنکھیں چارہونا/محبت ہونا/محبت کا اشارہ کرنا یا دینا۔پھر وہیں دیکھو=بارباردیکھو۔لپکا=لت /چسکا/مزہ(لگنا)۔پریشاں نظری=حیران و پریشانی کے عالم میں نظر کا نہ ٹھہرنا۔صد=ایک سو۔ موسمِ گل=بہار کا موسم۔تہِ بال= وہ پرندہ جس کے پر بندھے ہوں کنایہ ہے مجبورکا۔گزرے= بیتے۔مقدور=طاقت اور اختیار۔بے بال و پری=مجبوری کی حالت۔ٹک =ذرا۔جگر سوختہ = کلیجہ جلا ہوا ۔خبرلینا=توجہ کرنا /مزاج پُرسی کرنا/ خیرخیریت لینا۔چراغ سحری= آخر دموں پر ہونے کا کنایہ
جملوں میں استعمال کی مثالیں:تاجوری یہ غزل ہندُستان میں مغلوں کےزوال کے زمانے میں کہی گئی تھی۔ اُس وقت کے بادشاہوں کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ آج اُن کی تاجوری کا جشن منایا گیا اور کل معزولی نے اُنھیں کہیں کا نہ چھوڑا۔نوحہ گری معزولی کے بعد بادشاہ اور اُس کے خاندان کی نوحہ گری قابلِ دیدہوتی تھی۔آفاق شہرۂ آفاق ادبی شہ پارے اور علمی شہکار اپنے خالق اور کسی ایک عالم فاضل اور ماہرِ فن کی بجائے تمام عالم کی جاگیر ہوجاتے ہیں ۔شور چور مچائے شور کی کہاوت بھی خوب ہے کہ ظالم اپنے جُرم پرشرمندہ ہونے کی بجائے دُہائیاں دینے لگتا ہے،اُس کا یہ مکر و دجل گوچھپ نہیں سکتا مگر تھوڑی دیر کےلیے وہ دنیا کی ہمدردیاں ضرورسمیٹ لیتا ہے۔اسباب برصغیرمیں تقسیم کا حادثہ بھی کم اندوہناک نہ تھا ۔لوگ جمے جمائے گھروں سے بے دخل ہوئے ، اسبا ب لُٹ گیا، حملوں میں زخموں سے چُور ہوکر معذور ہوئے اور لاکھوں اپنی جانوں ہی سے گئے تب اِس خونیں تقسیم کا طوفان جاکر تھما۔سفری اِدھر ٹرین چلی اُدھر اُن کی زبان ،تمام راستے بس بولتے ہی رہے لیکن یہ بات ضرورہے کہ اُن کی ہم سفری میں وقت کا پتا نہ چلا اور منزل آگئی۔زنداں انارکلی کو دروغہ ٔ زنداں کے حوالے کرکے مغلِ اعظم یہ سمجھ رہے تھے شہزادہ سلیم کو بھی اِسی طرح قابو میں کرلیں گے مگر عشق کی یہ کہانی ایسے کیسے ختم ہوجاتی اور حسن کا جادوجو سلیم کے سر چڑھ چکا تھاکب اِس فلم کو ایک انوکھا موڑ دئیے بغیرتمام ہونے دیتا۔شَورش سنتے ہیں دہلی کئی بارشَوش وہنگام سے دوچارہوئی ہےاور ہر شورش کے بعد ایک نئی شان سے اُٹھی اوراُٹھ کر کھڑی بھی ہوئی ہے۔جُنون اُنھیں موسیقی سے جُنون کی حد تک لگاؤ تھا اور گھر کا یہ عالم کہ ابامیاں،اماں بی اور تمام بزرگ اُن کے اِس شوق کو شیطان کا پرکالہ خیال کرتے تھے۔سنگ خس وخاشاک اور سنگ وخشت جیسی خوبصورت ترکیبوں کو غالب نے اپنے اشعار میں لاکر ایک نئی تاب وتوانائی دی ہے۔مداواسیانے کہتے ہیں کہ وقت پر کسی بھی مرض کی روک تھام کرلی جائے تو بہتر ہے ورنہ اِس کا مداوا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ آشفتہ سری عشق میں اُن کی آشفتہ سری کا یہ عالم تھا کہ بارونق اور ہنستی بستی جگہیں بھی اُنہیں اُجاڑ نظر آتیں یعنی دل کہیں لگ کر ہی نہ دیتا تھا۔آنکھ لڑنا/لڑانا کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ جنگ مت کرو آنکھیں لڑاؤ آنکھیں یعنی عشق و محبت کرو۔پھر وہیں دیکھوجونہی کسی کا حال بدلاپھر وہیں دیکھولوگوں کا رویہ بھی وہ پہلے والا نہ رہا۔لپکا اُسے تو جُوے کا ایسا لپکاپڑ اہے کہ گھر کی ساری چیزیں اِسی خرابی میں جاتی رہیں۔پریشاں نظری اُن کے حسن و جمال کا حال کیا کہوں اب تک پریشاں نظری سے دوچارہوں ، نگاہ کسی اور پرتوکیا۔۔۔۔ کہیں ٹکتی ہی نہیں ۔بعضے تو اِس پریشاں نظری کومیری بینائی کا روگ قراردیتے ہیں۔​
۔۔۔۔۔جاری ہے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
لغات:تاجوری،نوحہ گری، آفاق، شَور، اسباب، سَفَری ، زِنداں، شَورش، جُنوں، سنگ، مداوا، آشفتہ سری، آنکھ لڑنا، پھروہیں دیکھو،لپکا، پریشاں نظری،صد، موسمِ گل،تہِ بال، گزرے،مقدور، بے بال و پری، ٹک، جگرسوختہ، خبرلینا،چراغِ سحری۔۔۔۔
خوبصورت غزل ہے ہم نے اسکول کالج میں کسی کورس میں بھی پڑھی تھی۔
سفری سے میر کی مراد یہاں مسافر ہے۔یہ اس وقت کی زبان ہو گی۔
 
Top