آؤ‌ کہ ذکرِ میر کریں

سیما علی

لائبریرین

میر ان شعراء کرام میں سے ہیں ،جو اپنی حقیقت کو خود خوب پہچانتے تھے ۔ اسی لئے اکثر اپنے اشعار میں شاعرانہ تعلی کا اطلاق کیا ہے۔اپنے لئے فرماتے ہیں۔​

سب دیئے ہیں میر کو جگہ اپنی آنکھوں پہ
اس خاک رہ عشق کا اعزاز تو دیکھو
 

سیما علی

لائبریرین

درحقیقت میر کی شاعری درد و غم ، رنج والم ، آنسو کی ترجمان ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری شاعری کو غم کے سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔ گویا غزل نہیں ان کا غم حقیقت کے پردے سے نکل کر غزل کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔​

شعر ملاحظہ ہو :

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا​

لہو آتا ہے تب نہیں آتا​

 

سیما علی

لائبریرین

میر نے اپنی ذاتی زندگی میں والد کی وفات ،سوتیلے بھائیوں کا ناروا سلوک پھر اس پر اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کا سلوک ۔ ان کے غم کو اور سنیے کی جلن کو آتش نوا بنانے کے لئے کافی تھا یہ غم غزل کا لبا دہ اوڑھ کر اک بہتا دریا بن گیا ۔​

ہمیشہ آنکھ ہے نمناک ہاتھ دل پر ہے​

خداکسی کومجھ سا سادرد مند نہ کرے​

 

سیما علی

لائبریرین

محبت نے طلمت سی کاڑھاہے تور​

نہ ہوئی محبت نہ ہوتا ظہور​

محبت ہی اس کا رخانےمیں ہے​

محبت ہی سب کچھ زمانے میں ہے
 

سیما علی

لائبریرین

میر تقی میر بڑے سخن فہم ،خود نگر اور خود شناس انسان تھے ۔اسی لئے اپنی حیثیت اور مقام کو واضح انداز میں پہچانتےتھے۔ اور بر ملا کئی مقامات پر انہوں نے اپنے عظیم تر ہونے کا اظہار کیا۔۔۔۔۔​

اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ​

پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا​

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا​

مستند ہے میرا فرمایا ہوا​

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیئے گا​

پڑھتے کسی کو سنیئے گا تو دیر تلک سر دھنئیے گا​

میر دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی​

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​

 

سیما علی

لائبریرین

تشبیہات اور استعارات کے باب میں میر۔۔۔۔۔۔

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے​

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے​

میر ؔ ان نیم باز آنکھوں میں​

ساری مستی شراب کی سی ہے​

میر ؔ دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی​

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت​

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا​

 

سیما علی

لائبریرین

میر نے اپنی شاعری میں انسانی عظمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو بڑی کثرت سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون ان کی شاعری کا مستقل موضوع بن گیا ہے ۔اوران کے کلام میں جگہ جگہ اس رنگ کی نشانیاں موجود ہیں۔۔۔۔۔​

آدمی کو ملک سے کیا نسبت​

شان ارفع ہے میر انساں کی​

کعبے سو بار وہ گیا تو کیا​

جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی​

 

سیما علی

لائبریرین
تھا میر بھی دیوانہ، پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا
جس سر کو غرو ر آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
 

یاسر شاہ

محفلین
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے

ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے

میر
 

سیما علی

لائبریرین
دلکش یہ منزل آخر دیکھا تو آہ نکلی
سب یار جاچکے تھے آئے جو ہم سفر سے

آوارہ میر شاید واں خاک ہو گیا ہے
یک گرد اٹھ چلے ہے گاہ اس کی رہگذر سے
 

سیما علی

لائبریرین
کہتا ہے کوئی عاشق کوئی کہے ہے خبطی
دنیا سے بھی نرالا رنجور ہے تو یہ ہے

کیا جانوں کیا کسل ہے واقع میں میر کے تیں
دو چار روز سے جو مشہور ہے تو یہ ہے
 
کیا خوبصورت سلسلہ شروع کیا گیاتھا اور اب یہ کس بے رُخی سے دوچار ہے ۔؏کچھ علاج اِس کابھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں؟ہے اور ضرور ہے ۔ان شاء اللہ بہت جلد چاہے فرصت میسر آئے کہ کھینچ کھانچ اور اینچ تان کے نکالنی پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرور اِس موضوع پر خامہ فرسائی کی کوشش کی جائیگی،ان شاء اللہ۔​
 
خشتِ اوّل(پہلی قسط)
شکیل احمد خان
میرتقی میؔر کی اِس غزل کے پہلے شعر (مطلع)میں انقلاباتِ زمانہ کی طرف اشارہ ہے کہ وقت بدلتے ذرادیر نہیں لگتی،ابھی خوشی ہے ابھی غم کا دوردورا ہے۔دوسرے شعرمیں انسان کے مرتے وقت اور دم نکلنے کے بعدکی تصویر کھینچی ہے کہ دنیا کا ساز و سامان تو ایک طرف وہ چیزیں جو پیدائش سے اب تک اِس کا سرمایہ تھیں جیسے عقلی و فکری صلاحیتیں اور جسمانی طاقتیں ، وہ سب اِس کے پاس نہ رہیں یوں لگتا ہے جیسے کسی نے لُوٹ کر اِسے ہر شے سے محروم کردیا ہے۔ تیسرے شعرمیں عشق کے جنون کی شِدت کا حال ہے کہ لوگوں نے ازراہِ علاج بند کردیا مگر اِس میں کمی نہ آئی ۔گویا اِس جُنون کا علاج سوائے سراُڑادینے کے اور کچھ نہیں۔نہ رہے گا سر نہ سمائے گا سودا(جُنون)۔چوتھے شعر میں محبوب کی بے رُخی اور عدم توجہی سے دل پر جو کاری چوٹیں دن رات لگتی ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے انصاف مانگیں گی اور کہیں ایسا نہ ہو محبوب کو بھی اِسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔اپنی تو جہاں آنکھ لڑی۔۔۔۔۔اِس شعر میں میؔر نے بہت انوکھے انداز میں اپنے محبوب کے حسن و جمال کی کیفیت بیان کی ہے کہ جو نظر اُس بے مثال حسن پر پڑی ممکن نہیں ہے کہ اُس نظر سے حیرت و استعجاب کے اثرات کبھی جائیں۔بعد والے شعر میں میؔر صاحب نے اپنی بے نوائی ،بیچارگی اور بیکسی کا نقشہ کھینچا ہے کہ ہر موسمِ بہار اِسی مجبوری میں آیااور چلاگیا کسی نے بھی اُن کابے بال و پر ی کے عالم میں محبوب سے ملنے کی تمنا لیے بارباراُڑنا ، گرنا اور تڑپنا نہ دیکھا اور آخر(مقطع) میں سوباتوں کی ایک بات کہ یہ سارے صدمے سہتے سہتے مریضِ عشق کی زندگی کا چراغ گُل ہونے کو ہے اب بھی کسی نے اُس کے حال کی خبر نہ لی تو کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا۔۔۔۔کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا!
 
آخری تدوین:
Top