یہ تب کی بات ہے جب میں ایک ترقیاتی ادارے میں ایک معمولی سا سرکاری افسر، اور ایک سائٹ پلانٹ کا انچارج تھا، اور اپنا مذاق آپ یوں اُڑایا کرتا تھا کہ ع
دو پشت سے ہے پیشہ آباء کلرکی
کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے
میں اس ”پاکستانی ادارے“ میں، جہاں کوئی 25-30 افراد ملازم تھے، ملک و قوم کی ”خدمت“
کے جذبہ کے تحت آیا تھا۔ قبل ازیں کئی کثیر القومی اداروں میں ملازمت کر چکا تھا اور اسی دوران ایک کالم میں نہ جانے کس دُھن میں سادگی میں یہ لکھ بیٹھا کہ یا اللہ میں ان امریکی و برطانوی اداروں کی کب تک ”خدمت“ کرتا رہوں گا۔ اپنے ”ملکی اداروں“ میں خدمت کا موقع کب ملے گا
بس قبولیت ِ دعا کا وقت تھا کہ اس سرکاری ملازمت کی آفر ایک ”امتحان“ کی صورت میں مل گئی۔ امتحان یوں کہ نئی ملازمت کی تنخواہ پرانی ملازمت سے نصف تھی۔
لیکن چونکہ یہ نئی ملازمت ایک دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھی، لہٰذا خوشی خوشی قبول کرلی کہ اب میں (بھی) ملک و قوم کی خدمت کیا کروں گا
جلد ہی سرکاری اداروں میں قومی خدمت کا ”راز“ فاش ہوگیا۔ پتہ چلا کہ بربنائے عہدہ ہر پروجیکٹ پر میرا سرکاری کمیشن (رشوت
) تین فیصد اور میرے باس کا چار فیصد ہے۔ اس سے زائد بھی مل سکتا ہے، اگرمحنت، کوشش اور جدو جہد کی جائے۔
لیکن ہم نے روز اول یہ اعلان مشتہر کروادیا کہ ہم یہاں کمیشن لینے نہیں بلکہ قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر آئے ہیں۔ لہٰذا خبردار اگر کسی نے ہمیں کمیشن دینے کی کوشش کی۔ البتہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ دوسروں کے کمیشن لینے پر ہمیں کوئی ”اعتراض“ نہ ہوگا کہ ہمیں یہاں آتے ہی یہ ”معلوم“ ہوگیا تھا کہ جو دوسروں کے ” اضافی رزق“ کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے، اُسے ”عبرتناک مثال“ بنا دیا جاتا ہے۔ اس ادارہ کے ایک ایسے ہی سرکاری افسر کوجو نہ کمیشن لیتا تھا اور نہ کسی کو لینے دیتا تھا، اینٹی کرپشن کے ہاتھوں نشان زدہ نوٹ لیتے ہوئے گرفتار کروا کر اس کی خبر اخبارات میں لگواکر جیل بھجوایاجاچکا تھا۔ اینٹی کرپشن کی ٹیم کو اس ”خدمت“ کا معقول معاوضہ ملا تھا اور دیانت دار افسر اہل محلہ اور اہل خاندان میں یوں رُسوا ہوا کہ ۔۔۔ بڑے دیانت دار بنے پھرتے تھے۔ سب سے چھپ کر اندر ہی اندر یہ ”گُل کھلاتے“ رہے ہیں۔
اور میں اپنی اس قسم کی تشہیر نہیں چاہتا تھا، وہ بھی اپنے ”ہم پیشہ صحافی“ بھائیوں کے سامنے۔
القصہ مختصر اس دوران کئی پروجیکٹس میں حصہ لیا۔ اپنے حصہ کا کام ڈرتے ڈرتے
دیانتداری سے انجام دیتا رہا اور میرے حصہ کا کمیشن میرے نیچے اور اوپر والے مل بانٹ کر کھاتے رہے۔ اور میں اس آدھی تنخواہ کے ساتھ صحافت کی دوسری نوکری کر کے گذارا کرتا رہا ۔ ۔ ۔ کہ اسی دوران ایک بہت بڑا پروجیکٹ شروع ہوا۔ ایک روز میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ ایک صاحب آئے پتہ چلا وہ ورلڈ بنک کی فنڈنگ سے شروع کئے جانے والے اس پروجیکٹ کے روح رواں ہیں۔ جب انہیں میرا پس منظر معلوم ہوا کہ میں اندرون اور بیرون ملک کئی کثیر القومی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتا ہوں تو انہوں نے مجھے پیشکش کی کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ اس نئے پروجیکٹ میں آجائیے۔ ہم اس پروجیکٹ کا جلد ہی آغاز کرنے والے ہیں۔ اور ٹیکنیکل اسٹاف کو ٹریننگ کے لئے یوکے وغیرہ بھی بھجوائیں گے اور یہ پروجیکٹ اتنے ارب روپے کا ہے وغیرہ وغیرہ میں نے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم پروجیکٹ میں کام کرنے پر مجھے بھی خوشی ہوگی۔ انہوں نے پوچھا کہ پھر کب سے وہاں جوائن کرسکتے ہیں۔ میں آپ کا ٹرانسفر وہاں کروادیتا ہوں۔ میں نے کہا۔ لیکن پہلے آپ مجھے یہ تو بتلا دیں کہ وہاں آپ مجھے سیلری پیکیج وغیرہ کیا دیں گے؟ موصوف نے مجھے ایسے گھور کر دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں آپ جیسا بیوقوف پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ جو ہُن برسنے والے پروجیکٹ میں جانے کے لئے سیلری پیکیج کی بات کر رہا ہے۔
وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ چلیں پھر آپ سے بعد میں بات ہوگی۔ اُن کے رخصت ہونے کے بعد میری (نادان) سمجھ
میں آیا کہ یکایک ان کا لہجہ کیوں بدل گیا۔ اور چند برس بعد جب وہ پروجیکٹ مکمل ہوگیا تو اس پروجیکٹ کے ایک حصہ کا چارج سنبھالنے کا مجھے ” آفس آرڈر“ مل گیا اور یہ بدھو (مفت میں) ملک و قوم کی خدمت کرنے وہاں پہنچ گیا، جہاں سے لوگ اپنی اپنی جیبیں بھرنے کے بعد واپس ہورہے تھے، بیک ٹرانسفر کروا کروا کر۔ ہم نے یہاں بھی سوکھی تنخواہ پر شہر سے کافی دور ”قومی خدمت“ انجام دیتے رہے۔ جہاں آنے جانے کے لئے (کوئی دو عشرہ قبل) مجھے اپنی گاڑی میں روزانہ چار سو کا فیول ڈلوانہ پڑتا تھا۔
اس دوران شیطانی وسوسہ کے تحت یہ بھی حساب کتاب لگاتا رہا کہ اگر ابتدا ہی میں آجاتا تو اب تک کتنا کما چکا ہوتا۔ فلاں اور فلاں نے تو اتنا اتنا کما لیا ہے
لیکن پھر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اُس نے رزق حرام سے بچائے رکھا۔ پھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور مجھے ایک بار پھر ایک کثیر الاقومی ادارے میں جاب کی آفر ہوئی اور میں بلا کسی تامل کے وہاں پہنچ گیا کہ تب تک مجھے ”قومی خدمت“ کا حقیقی مفہوم معلوم ہوچکا تھا کہ اس خدمت کے لئے کسی سرکاری ادارہ میں ملازمت کرنا ضروری نہیں ہے
اور جلد ہی میں نے وہ ”سب کچھ“ حاصل کرلیا جو میرے ساتھیوں نے اُس پروجیکٹ کے کمیشن سے حاصل کیا تھا۔ لیکن میں نے الحمدللہ وہی سب کچھ رزق حلال سے حاصل کرلیا ۔ میرا پہلے بھی ایمان تھا کہ جو نصیب میں میرے نام لکھا ہے، وہ مجھے مل کر رہے گا۔ لیکن اس ذاتی تجربہ نے اس ایمان کو اور بھی مضبوط کردیا۔ یہ میری ”اقتصادی زندگی“ کا ایک اہم ترین تجربہ ہے۔ اللہ ہم سب کو رزق حلال کمانے کی توفیق دے اور یہ ایمان بھی دے کہ جو کچھ نصیب میں ہے، وہ مل کر رہے گا۔ خواہ ہم اسے جائز طریقہ سے حاصل کریں یاناجائز طریقہ سے۔