امجد علی راجا بھائی اور دیگر محفلین کی سرگزشت پڑھ کر مثبت سوچ و فکر کی ترغیب ملتی ہے۔ یقینا" صبر و استقامت پیغمبروں کی اثاث رہے ہیں،اِن کی پیروی کرنے والے ہمیشہ سرخرو اور بلند کردار کے حامل گردانے جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے کردار ہی ہماری اصل پہچان ہیں۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام ابو حنیفہ خانہء کعبہ میں ایک نماز کی امامت فرما رہے تھے۔نماز کی تکمیل ہوئی تو ایک مقتدی نے آپ سے سوال کیا " ہم نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ ہماری نماز قبول بھی ہو رہی ہے"؟ امام نے جواب دیا " تمہارے سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ اگر تمہاری نماز تمہیں برائی سے روک رہی ہے تو سمجھ لو کہ یہ قبول ہو رہی ہے۔"
ہم اکثر ’ان محرومیوں کو یاد کر کے رنجور ہو جاتے ہیں جو ہمارا مقدر رہیں لیکن ’ان نعمتوں اور عنایات کو بھول جاتے ہیں جن کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ اپنی زندگی کے ایک ایسے ہی واقعے کو آپ کی نذر کر رہا ہوں۔
یہ ’ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت حاصل کر چکا تھا،لیکن اس سے حاصل شدہ آمدن ’ان خوابوں کی تکمیل کے لئے قطعی ناکافی تھی جو میں بچپن سے ہی د یکھا کرتا تھا۔والدین کی انتھک محنت،جانفشانی اور شفقت، چھوٹے بہن بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم اور سب کے لئے ایک گھر کی خواہش اس بات کی متقاضی تھی کہ اپنی آمدن میں تیزی سے اضافہ کیا جائے- اس کے لئے مجھے صرف ایک ہی معقول اور قابلِ عمل طریقہ یہ نظر آیا کہ بیرونِ ملک ملازمت حاصل کی جائے۔اس مقصد کے حصول کے لئے جتنے بھی ذرائع بروئے کار لا سکتا تھا لایا لیکن ناکامی سے دوچار ہوا۔ آخر اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا۔
ایک دن جب ڈیوٹی سے واپس گھر لوٹا تو والدہ نے ایک خط مجھے دیا ۔حیرت سے دوچار ہوا چونکہ بھجنے والے کے نام سے بلکل نا آشنا تھا ۔لفا فہ کھولا تو مزید حیرت منتظر تھی ۔اس میں تحریر کے ساتھ ایک چالیس سالہ شخص کی تصویر برآمد ہوئی جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔تعجب اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ خط پڑھنا شروع کیا۔۔ لکھا تھا۔۔۔
ڈئیر عمر اعظم
میرا نام محبوب الرحمان ہے اور میں آپکے دوست عالمگیر کا بڑا بھائی ہوں۔ آپ کو یہ افسوسناک خبر دے رہا ہوں کہ آپ کا دوست اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ میں ’اسکی تدفین کے سلسلے میں تہران (ایران)سے آیا تھا ۔ میں نے عالمگیر کے لئے تہران میں ملازمت کا انتظام کیا تھا اگر آپ عالمگیر کی جگہ ملازمت حاصل کر سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔اگر آپ دلچسپی رکھتےہیں تو فلاں دن اسلا م آبا د ائر پورٹ پر آ کر اپنے کاغذات میرے حوالے کر دیں ۔ میں نے اس خط کو غیبی امداد سے تعبیر کیا اورمقررہ دن کاغذات محبوب بھائی کے حوالے کر دیئے۔ ’انہی کی زبانی معلوم ہوا کہ ’انہیں میرے بارے میں عالمگیر کی ڈائری سے معلوم ہوا تھاجس میں مرحوم نے کئی جگہ ذکر کیا تھا کہ اگر میں تہران گیا تو سب سے پہلے عمر اعظم کو وہاں بلاؤں گا۔ صرف تین ہفتوں بعد ہی میں تہران پہنچ چکا تھا۔
محبوب بھائی شاہی خاندان کے ایک فرد کی کمپنی میں بطور سینئر انجینیر فائز تھے لہذا باقی مراحل میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔آپ لوگ یہ جان کر یقینا" حیران ہوں گے کہ عالمگیر میرا قریبی دوست ہرگز نہیں تھا۔وہ کالج میں میرا کلاس میٹ تھا ۔میں کبھی کبھار ’اسے ستایا ضرور کرتا تھا جسے بظاہر اس نے کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا ۔وہ گجرات کے قریبی گاؤں کنجاہ کا رہنے والا تھا اور راولپنڈی میں کالج کے ہوسٹل میں قیام پزیر تھا۔سوائے کلاس میں ایک آدھ مڈ بھیڑ کے ’اس کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوتی تھی۔’اس کی ڈائری میں میری مدد کے جذبے میرے لئے حیران ’کن تھے۔
مزید حیرت مجھے اس بات پر بھی تھی کہ محبوب بھائی کے دو چھوٹے بھائی تعلیم کے حصول کے بعد گھر پر فارغ بیٹھے تھے لیکن محبوب بھائی نے ’ان پر مجھے ترجیح دی تھی۔قصّہ صرف اتنا ہی نہیں تھا ، میں کئی ماہ محبوب بھائی کے گھر قیام پزیر رہا۔محبوب بھائی اور بھابی ایسی محبت اور شفقت سے پیش آتے جیسے میں ہی ’ان کا عالمگیر ہوں۔گھر میں میری اہمیت ناقابلِ یقین حد تک اسقدر تھی کہ گھر میں کھانا میری پسند سے بنتا ، میری ہی پسند کے تفریحی مقامات کا رخ کیا جاتا،حتکہ اپنے خاندانی معا ملات کے مشوروں میں مجھے ایسے شامل کیا جاتا جیسے میں ہی عالمگیر ہوں۔یہ فرشہ صفت انسان کئی دھائیوں سے میرے اعصاب پر قابض ہیں۔محبوب بھائی دنیا میں نہیں رہے۔اللہ ’انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔آمین
مندرجہ بالا واقعے سے میں نے یہ سیکھاکہ۔۔۔ " اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اور دوسروں کی مدد کے لئے اپنے دل و ذہن کو کشادہ رکھنا چاہیے۔