آؤ زندگی سیکھیں

ابھی تو ہم خود زندگی سے سیکھ رہے ہیں چھوٹے بھائی
سکھا کیا سکیں گے۔۔۔ ؟؟؟:)
بڑے بھیا! اب اتنے بھی کمسن نہ بنو آپ، 60 سال کا تجربہ لئے پھرتے ہو آپ تو :)
زندگی سے سیکھتے جاؤ اور جو کچھ سیکھا ہے، ہمیں بھی ساتھ ساتھ سکھاتے جاؤ آپ۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
ویسے محسن بھائی کی صحیح واٹ لگی ہوئی ہے ہر دھاگے میں ٹیگ نامہ حاضر کرنا پڑتا ہے وہ بھی بار بار کیوں راجا صاحب !
ارے میاں ہمیں بھی بتا دو یہ ٹیگ نامے والی کہانی تاکہ تمہیں تکلیف نہ دیا کریں ۔اور جناب کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہے کیا جس سے ہم غریب کچھ سیکھ سکیں۔۔۔۔۔۔!
 
یہ 1990 کا ذکر ہے میں ان دنوں پنڈی بھٹیاں کے نزدیک زیر تعمیر کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز میں سائٹ انجینئر کی حیثیت سے تعینات تھا کمپنی نقصان میں چلی گئی تمام سٹاف ایک ایک کر کے چھوڑ گئے ایک وقت آیا کہ سٹاف میں میں اکیلا رہ گیا کمپنی کو بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لئے پراگریس دینی ضروری تھی پیسوں کی شدید کمی تھی ساری ذمہ داری مجھ پر تھی 6 ماہ تھ تنخواہ کے بغیر کام کرتا رہا کیونکہ تجربہ حاصل کرنے کا بہت اچھا موقع تھا خرچ کی بہت تنگی تھی میس بند تھاکھانا کھانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے کسی دن ایک وقت کا کھانا کسی دن فاقہ کرنا پڑتا 6 ماہ بہت مشکل سے گزرے اور ان 6 ماہ کے دوران مجھے پتا چلا کہ بھوک اورغربت کتنی ظالم ہوتی ہیں اور یہ بھوک اور غربت ہی ہے جو انسان کو برائی پر اکساتی ہیں تمام تر کوشش کے باوجود کمپنی بلیک لسٹ ہو گئی اور مجھے سائٹ چھوڑنے کا نوٹس مل گیا ھیڈ آفس لاہور میں تھا لاہور جانے کے لئے کرایہ بھی پورا نہ تھا اور نہ ہی تنخواہ ملنے کی امید تھی جیب میں بمشکل سو روپے تھے ھیڈ آفس سے میں نے گھر واپس بھی جانا تھا کچھ سمجھ نہ آئی کیا کروں خیر سائٹ پر پڑا ہوا کچھ سکریپ فروخت کیا جو پینٹ کے خالی ڈبوں اور سیمنٹ کے خالی بیگز پر مشتمل تھا اس کے مجھے پانچ سو روپے ملے کل میرے پاس 6 سو روپے ہو گئے اگلے دن لاہور کے لئے نکل پڑا ھیڈ آفس جا کر رپورٹ کی اور تنخواہ مانگ تو ٹکا سا جواب ملا میں مایوس ہو کر گھر کے لئے نکل پڑا ریگل چوک کے پاس چڑیا گھر کے عین سامنے دو موٹر سائکل سوار میرے پاس آئے اور پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو اور کدھر جا رہے ہو میں نے ان کو بتایا کہ پنڈی بھٹیاں سے آ رہا ہوں اور اب گوجرانوالہ جا رہا ہوں ان سے استفسار کیا کہ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں جواب ملا کہ ہمیں کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی یہ کہ کر وہ آگے نکل گئے اور میں اپنی راہ ہو لیا ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ وہی موٹر سائکل سوار میرے پاس دوبارہ آئے اور میرے بالکل قریب آ کر موٹر سائکل روک دی پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی نے پسٹل نکال کر نال میری کمر سے لگا دی اور کہنے لگا کہ جو کچھ ہے نکال دو میں نے خاموشی سے جو کچھ پاس تھا ان کے حوالے کر دیا یقین کریں انہوں نے اس میں سےایک سو روپے واپس کر دئے کہ یہ کرایہ رکھ لو اوریہ سو روپے وہی تھے جو میرے ذاتی تھےباقی رقم لے کر رفوچکر ہو گئے میں نے شور مچانا چاہا مگر مجھے یوں لگا کہ کی غیبی طاقت نے مجھے روک دیا ہوکہ یہ ناجائز پیسے تھے ان کو اسی طرح نکلنا تھا اس وقت مجھے یہ بہت بڑا سبق ملا کہ ناجائز آمدنی جس طرح آتی ہے اسی طرح نکل جاتی ہے الحمدللہ اس کے بعد کبھی آمدنی کے لئے کوئی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کیا قلیل آمدنی میں تین بچوں کی پرورش کی ان کو اعلیٰ تعلیم دلائی بڑا بیٹا ایم بی اے کر رہا ہے بیٹی بی ایس سی کر چکی ہے اور چھوٹا بیٹا اس سال آئی کام کا امتحان دے کر بی کام میں آ جائے گا خاندان محلے اور دوستوں میں عزت ہے وقار ہے یہ سب حلال آمدنی کی برکت ہے اور میں دوسروں کو بھی یہ ہی تلقین کروں گا کہ کبھی بھی آمدنی کے لئے ناجائز طریقہ اختیار نہ کریں اس سے کبھی برکت نہیں ہوئی اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے آمین
 

یوسف-2

محفلین
خاندان محلے اور دوستوں میں عزت ہے وقار ہے یہ سب حلال آمدنی کی برکت ہے اور میں دوسروں کو بھی یہ ہی تلقین کروں گا کہ کبھی بھی آمدنی کے لئے ناجائز طریقہ اختیار نہ کریں اس سے کبھی برکت نہیں ہوئی اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے آمین
ماشاء اللہ ۔ بہت خوب اللہ ہم سب کو اس تلقین پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لو جی اب ہم کیا سنائیں :grin: ہم تو کرپٹ ہیں :biggrin:
عسکری زندگی تو سرفروشوں کی زندگی ہے اس میں تو وفا کے پھول ہیں ایسی ہی کوئی واقعہ شریک محفل کردیں
عسکری کی صاف گوئی ۔:rollingonthefloor: ۔بھی بجائے خود زندگی کا ایک بہت بڑا سبق ہے ۔ بشرطیکہ کوئی گوش نصیحت نیوش رکھتا ہو۔:laughing:
 

یوسف-2

محفلین
یہ 1990 کا ذکر ہے میں ان دنوں پنڈی بھٹیاں کے نزدیک زیر تعمیر کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز میں سائٹ انجینئر کی حیثیت سے تعینات تھا کمپنی نقصان میں چلی گئی تمام سٹاف ایک ایک کر کے چھوڑ گئے ایک وقت آیا کہ سٹاف میں میں اکیلا رہ گیا کمپنی کو بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لئے پراگریس دینی ضروری تھی پیسوں کی شدید کمی تھی ساری ذمہ داری مجھ پر تھی 6 ماہ تھ تنخواہ کے بغیر کام کرتا رہا کیونکہ تجربہ حاصل کرنے کا بہت اچھا موقع تھا خرچ کی بہت تنگی تھی میس بند تھاکھانا کھانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے کسی دن ایک وقت کا کھانا کسی دن فاقہ کرنا پڑتا 6 ماہ بہت مشکل سے گزرے اور ان 6 ماہ کے دوران مجھے پتا چلا کہ بھوک اورغربت کتنی ظالم ہوتی ہیں اور یہ بھوک اور غربت ہی ہے جو انسان کو برائی پر اکساتی ہیں تمام تر کوشش کے باوجود کمپنی بلیک لسٹ ہو گئی اور مجھے سائٹ چھوڑنے کا نوٹس مل گیا ھیڈ آفس لاہور میں تھا لاہور جانے کے لئے کرایہ بھی پورا نہ تھا اور نہ ہی تنخواہ ملنے کی امید تھی جیب میں بمشکل سو روپے تھے ھیڈ آفس سے میں نے گھر واپس بھی جانا تھا کچھ سمجھ نہ آئی کیا کروں خیر سائٹ پر پڑا ہوا کچھ سکریپ فروخت کیا جو پینٹ کے خالی ڈبوں اور سیمنٹ کے خالی بیگز پر مشتمل تھا اس کے مجھے پانچ سو روپے ملے کل میرے پاس 6 سو روپے ہو گئے اگلے دن لاہور کے لئے نکل پڑا ھیڈ آفس جا کر رپورٹ کی اور تنخواہ مانگ تو ٹکا سا جواب ملا میں مایوس ہو کر گھر کے لئے نکل پڑا ریگل چوک کے پاس چڑیا گھر کے عین سامنے دو موٹر سائکل سوار میرے پاس آئے اور پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو اور کدھر جا رہے ہو میں نے ان کو بتایا کہ پنڈی بھٹیاں سے آ رہا ہوں اور اب گوجرانوالہ جا رہا ہوں ان سے استفسار کیا کہ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں جواب ملا کہ ہمیں کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی یہ کہ کر وہ آگے نکل گئے اور میں اپنی راہ ہو لیا ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ وہی موٹر سائکل سوار میرے پاس دوبارہ آئے اور میرے بالکل قریب آ کر موٹر سائکل روک دی پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی نے پسٹل نکال کر نال میری کمر سے لگا دی اور کہنے لگا کہ جو کچھ ہے نکال دو میں نے خاموشی سے جو کچھ پاس تھا ان کے حوالے کر دیا یقین کریں انہوں نے اس میں سےایک سو روپے واپس کر دئے کہ یہ کرایہ رکھ لو اوریہ سو روپے وہی تھے جو میرے ذاتی تھےباقی رقم لے کر رفوچکر ہو گئے میں نے شور مچانا چاہا مگر مجھے یوں لگا کہ کی غیبی طاقت نے مجھے روک دیا ہوکہ یہ ناجائز پیسے تھے ان کو اسی طرح نکلنا تھا اس وقت مجھے یہ بہت بڑا سبق ملا کہ ناجائز آمدنی جس طرح آتی ہے اسی طرح نکل جاتی ہے الحمدللہ اس کے بعد کبھی آمدنی کے لئے کوئی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کیا قلیل آمدنی میں تین بچوں کی پرورش کی ان کو اعلیٰ تعلیم دلائی بڑا بیٹا ایم بی اے کر رہا ہے بیٹی بی ایس سی کر چکی ہے اور چھوٹا بیٹا اس سال آئی کام کا امتحان دے کر بی کام میں آ جائے گا خاندان محلے اور دوستوں میں عزت ہے وقار ہے یہ سب حلال آمدنی کی برکت ہے اور میں دوسروں کو بھی یہ ہی تلقین کروں گا کہ کبھی بھی آمدنی کے لئے ناجائز طریقہ اختیار نہ کریں اس سے کبھی برکت نہیں ہوئی اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے آمین
ویسے تواس مراسلہ میں جذبہ تقویٰ اپنے عروج پر ہے۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو جس کمپنی سے 6 ماہ کی تنخواہ نہ ملی ہو اور کمپنی بھی ختم ہوگئی ہو، وہاں کے اسکریب کو فروخت کرکے بقدر ضرورت حاصل شدہ رقم کو ”حرام“ قرار نہیں دیاجا سکتا۔ اسے زیادہ سے زیادہ صرف ”خلاف ضابطہ“ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن شاید اللہ رب العزت کو یہ بھی پسند نہیں تھا کہ میرا یہ بندہ اس ”خلاف ضابطہ“ کاروائی میں ملوث ہو ۔:)
 
ویسے تواس مراسلہ میں جذبہ تقویٰ اپنے عروج پر ہے۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو جس کمپنی سے 6 ماہ کی تنخواہ نہ ملی ہو اور کمپنی بھی ختم ہوگئی ہو، وہاں کے اسکریب کو فروخت کرکے بقدر ضرورت حاصل شدہ رقم کو ”حرام“ قرار نہیں دیاجا سکتا۔ اسے زیادہ سے زیادہ صرف ”خلاف ضابطہ“ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن شاید اللہ رب العزت کو یہ بھی پسند نہیں تھا کہ میرا یہ بندہ اس ”خلاف ضابطہ“ کاروائی میں ملوث ہو ۔:)
میرے بھائی ان 6 ماہ میں جو کچھ حاصل ہوا وہ حاصل زندگی ہے
کام چلانے کے لئے بعض اوقات افرادی قوت نہیں ہوتی تھی کبھی کبھی لیبر کے ساتھ خود بھی کام کرنا پڑتا مجھے یاد ہے ایک بار چھت کا لینٹر ڈالنے کے لئے مکسر آپریٹر نہیں تھا پورا دن میں ہی مکسر چلاتا رہا مستری کے ساتھ مزدوری کی صرف اس لئے کہ وہ پراجیکٹ انٹرنیشنل لیول کا پراجیکٹ تھا وہاں سے مجھے جو قیمتی تجربہ حاصل ہوا اج تک کام آ رہا ہے اور زندگی جو سب سے بڑا سبق ملا وہ یہ کہ کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے اس کے بعد مختلف عہدوں پر فائز رہا جہاں ناجائز آمدنی کے بہت مواقع تھے مگر اللہ نے کرم کیا کبھی دامن آلودہ نہ ہوا
 

عمراعظم

محفلین
امجد علی راجا بھائی اور دیگر محفلین کی سرگزشت پڑھ کر مثبت سوچ و فکر کی ترغیب ملتی ہے۔ یقینا" صبر و استقامت پیغمبروں کی اثاث رہے ہیں،اِن کی پیروی کرنے والے ہمیشہ سرخرو اور بلند کردار کے حامل گردانے جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے کردار ہی ہماری اصل پہچان ہیں۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام ابو حنیفہ خانہء کعبہ میں ایک نماز کی امامت فرما رہے تھے۔نماز کی تکمیل ہوئی تو ایک مقتدی نے آپ سے سوال کیا " ہم نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ ہماری نماز قبول بھی ہو رہی ہے"؟ امام نے جواب دیا " تمہارے سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ اگر تمہاری نماز تمہیں برائی سے روک رہی ہے تو سمجھ لو کہ یہ قبول ہو رہی ہے۔"
ہم اکثر ’ان محرومیوں کو یاد کر کے رنجور ہو جاتے ہیں جو ہمارا مقدر رہیں لیکن ’ان نعمتوں اور عنایات کو بھول جاتے ہیں جن کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ اپنی زندگی کے ایک ایسے ہی واقعے کو آپ کی نذر کر رہا ہوں۔
یہ ’ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت حاصل کر چکا تھا،لیکن اس سے حاصل شدہ آمدن ’ان خوابوں کی تکمیل کے لئے قطعی ناکافی تھی جو میں بچپن سے ہی د یکھا کرتا تھا۔والدین کی انتھک محنت،جانفشانی اور شفقت، چھوٹے بہن بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم اور سب کے لئے ایک گھر کی خواہش اس بات کی متقاضی تھی کہ اپنی آمدن میں تیزی سے اضافہ کیا جائے- اس کے لئے مجھے صرف ایک ہی معقول اور قابلِ عمل طریقہ یہ نظر آیا کہ بیرونِ ملک ملازمت حاصل کی جائے۔اس مقصد کے حصول کے لئے جتنے بھی ذرائع بروئے کار لا سکتا تھا لایا لیکن ناکامی سے دوچار ہوا۔ آخر اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا۔
ایک دن جب ڈیوٹی سے واپس گھر لوٹا تو والدہ نے ایک خط مجھے دیا ۔حیرت سے دوچار ہوا چونکہ بھجنے والے کے نام سے بلکل نا آشنا تھا ۔لفا فہ کھولا تو مزید حیرت منتظر تھی ۔اس میں تحریر کے ساتھ ایک چالیس سالہ شخص کی تصویر برآمد ہوئی جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔تعجب اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ خط پڑھنا شروع کیا۔۔ لکھا تھا۔۔۔
ڈئیر عمر اعظم
میرا نام محبوب الرحمان ہے اور میں آپکے دوست عالمگیر کا بڑا بھائی ہوں۔ آپ کو یہ افسوسناک خبر دے رہا ہوں کہ آپ کا دوست اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ میں ’اسکی تدفین کے سلسلے میں تہران (ایران)سے آیا تھا ۔ میں نے عالمگیر کے لئے تہران میں ملازمت کا انتظام کیا تھا اگر آپ عالمگیر کی جگہ ملازمت حاصل کر سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔اگر آپ دلچسپی رکھتےہیں تو فلاں دن اسلا م آبا د ائر پورٹ پر آ کر اپنے کاغذات میرے حوالے کر دیں ۔ میں نے اس خط کو غیبی امداد سے تعبیر کیا اورمقررہ دن کاغذات محبوب بھائی کے حوالے کر دیئے۔ ’انہی کی زبانی معلوم ہوا کہ ’انہیں میرے بارے میں عالمگیر کی ڈائری سے معلوم ہوا تھاجس میں مرحوم نے کئی جگہ ذکر کیا تھا کہ اگر میں تہران گیا تو سب سے پہلے عمر اعظم کو وہاں بلاؤں گا۔ صرف تین ہفتوں بعد ہی میں تہران پہنچ چکا تھا۔
محبوب بھائی شاہی خاندان کے ایک فرد کی کمپنی میں بطور سینئر انجینیر فائز تھے لہذا باقی مراحل میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔آپ لوگ یہ جان کر یقینا" حیران ہوں گے کہ عالمگیر میرا قریبی دوست ہرگز نہیں تھا۔وہ کالج میں میرا کلاس میٹ تھا ۔میں کبھی کبھار ’اسے ستایا ضرور کرتا تھا جسے بظاہر اس نے کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا ۔وہ گجرات کے قریبی گاؤں کنجاہ کا رہنے والا تھا اور راولپنڈی میں کالج کے ہوسٹل میں قیام پزیر تھا۔سوائے کلاس میں ایک آدھ مڈ بھیڑ کے ’اس کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوتی تھی۔’اس کی ڈائری میں میری مدد کے جذبے میرے لئے حیران ’کن تھے۔
مزید حیرت مجھے اس بات پر بھی تھی کہ محبوب بھائی کے دو چھوٹے بھائی تعلیم کے حصول کے بعد گھر پر فارغ بیٹھے تھے لیکن محبوب بھائی نے ’ان پر مجھے ترجیح دی تھی۔قصّہ صرف اتنا ہی نہیں تھا ، میں کئی ماہ محبوب بھائی کے گھر قیام پزیر رہا۔محبوب بھائی اور بھابی ایسی محبت اور شفقت سے پیش آتے جیسے میں ہی ’ان کا عالمگیر ہوں۔گھر میں میری اہمیت ناقابلِ یقین حد تک اسقدر تھی کہ گھر میں کھانا میری پسند سے بنتا ، میری ہی پسند کے تفریحی مقامات کا رخ کیا جاتا،حتکہ اپنے خاندانی معا ملات کے مشوروں میں مجھے ایسے شامل کیا جاتا جیسے میں ہی عالمگیر ہوں۔یہ فرشہ صفت انسان کئی دھائیوں سے میرے اعصاب پر قابض ہیں۔محبوب بھائی دنیا میں نہیں رہے۔اللہ ’انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔آمین
مندرجہ بالا واقعے سے میں نے یہ سیکھاکہ۔۔۔ " اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اور دوسروں کی مدد کے لئے اپنے دل و ذہن کو کشادہ رکھنا چاہیے۔
 
ماشاءاللہ، کیسے کیسے ولی دل اللہ نے دے رکھے ہیں، اللہ ہماری ساری زندگی کو ہی ایسے ایثار اور قربانی کے جذبات سے سرشار رکھے اور ایسے تمام احسن اقدامات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔
 
Top