فرخ منظور
لائبریرین
غزل
آؤ کرتے ہیں موت کی باتیں
غم کے پاتال میں ذرا جھانکیں
کریں خالی مکان یہ اپنا
لامکاں کو کہیں نکل جائیں
گھڑی کھولیں کلائی سے اپنی
اور زماں کے بھنور میں پھینک آئیں
اب کے ٹوٹے شہابِ ثاقب تو
اُس کے پیچھے ہوا میں اڑ جائیں
اب کے آتش فشاں پھٹے تو کہیں
موت کی روٹیاں پکا کھائیں
میٹھے کڑوے یہاں کے پانی کو
آخری گھونٹ کیوں نہ پی جائیں
زہر پی کر امر ہوا اک شخص
کیوں نہ ہم بھی کوئی پُڑی پھانکیں
ہم نے مر مر کے زندگی کاٹی
ہم سمجھتے ہیں موت کی گھاتیں
کوئی سویا، تو رہ گیا سوتا
بس کہ لمبی ہیں موت کی راتیں
کئی گولی کی زد میں آ کے مرے
چار جانب بکھر گئیں لاشیں
اک صدا سینی ٹوریم سے اٹھی
پانچ نمبر کو آؤ داب آئیں
بہہ گیا پانیوں میں کوئی جہاز
لے کے کمپاس ڈھونڈتا راہیں
مرنے والے نے سادھ لی ہے چُپ
ہم تو زندہ ہیں ہم تو کُرلائیں
(رفیق اظہر)
آؤ کرتے ہیں موت کی باتیں
غم کے پاتال میں ذرا جھانکیں
کریں خالی مکان یہ اپنا
لامکاں کو کہیں نکل جائیں
گھڑی کھولیں کلائی سے اپنی
اور زماں کے بھنور میں پھینک آئیں
اب کے ٹوٹے شہابِ ثاقب تو
اُس کے پیچھے ہوا میں اڑ جائیں
اب کے آتش فشاں پھٹے تو کہیں
موت کی روٹیاں پکا کھائیں
میٹھے کڑوے یہاں کے پانی کو
آخری گھونٹ کیوں نہ پی جائیں
زہر پی کر امر ہوا اک شخص
کیوں نہ ہم بھی کوئی پُڑی پھانکیں
ہم نے مر مر کے زندگی کاٹی
ہم سمجھتے ہیں موت کی گھاتیں
کوئی سویا، تو رہ گیا سوتا
بس کہ لمبی ہیں موت کی راتیں
کئی گولی کی زد میں آ کے مرے
چار جانب بکھر گئیں لاشیں
اک صدا سینی ٹوریم سے اٹھی
پانچ نمبر کو آؤ داب آئیں
بہہ گیا پانیوں میں کوئی جہاز
لے کے کمپاس ڈھونڈتا راہیں
مرنے والے نے سادھ لی ہے چُپ
ہم تو زندہ ہیں ہم تو کُرلائیں
(رفیق اظہر)