عبید انصاری
محفلین
ہمیں بھی!!ہمیں کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے
مگر ہم نے پالے نہیں۔ ان کی گھات کے قریب پہنچنے سے پہلے ایک دو "وٹّے" اٹھالیتے ہیں۔ خوب ہے!!
ہمیں بھی!!ہمیں کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے
آج میں ڈیرے سے واپس آ رہا تھا کہ دو بچوں (10-11سالہ) نے ہاتھ کا اشارہ کیا- میں رُکا تو کہنے لگے بھائی فلاں مٹھائی والی دکان پر اتار دینا- میں نے کہا بیٹھ جاؤ- وہ بیٹھے ہی رہے تھے کہ پیچھے بیٹھے ایک مائی اور بابا (50 کی دہائی میں) نظر آئے- اماں جی کو پیٹ میں درد تھا- جسکی وجہ سے دوہری ہو رہی تھیں- میں نے پوچھا چاچا جی کیا ہوا کہنے لگے اسکا بی پی لو ہو گیا ہے فلاں جگہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے- رکشے کا انتظار کر رہے- اماں جی کی حالت دیکھ کر میں نے بچوں کو اتارا کہ کسی اور کے ساتھ چلے جانا- اور بابا جی سے کہا جلدی آؤ بیٹھو، رکشہ جانے کب آئے میں چھوڑ دیتا ہوں-
اماں مشکل سے موٹرسائیکل پر بیٹھیں، باباجی پیچھء انکو پکڑ کر بیٹھ گئے- میں نے کہا وہاں کیوں جانا (چونکہ وہ کمپوڈر نما ڈاکٹر تھا)- بابا جی کہنے لگے پرسوں بھی بی پی لو ہو گیا تھا تو اس نے بوتل لگائی تو ٹھیک ہوگیا- میں نے کہا چاچا سرکاری پستال چلتے ہیں وہاں سے مفت اور اچھا علاج ہو گا- انشاءاللہ امں ٹھیک ہو جائیں گی آپ فکر نہ کریں- کہنے لگے نہیں پہلے بھی اسی سے لیتے ہیں تم وہیں لے چلو- میں نے کہا چلو مرضی ہے- لیکن جب سرکاری ہسپتال کے سامنے سے گزرے تو ایک دفعہ پھر کہا کہ چاچا چلتے ہیں- چاچے نے کہا "چنگا پُتر توں کہنا اے چلنے آں"-
میرا ایک دوست ادھر جاب کرتا تو میں نے اس سے پوچھ ایمرجنسی میں کوئی ہے تو اسنے بتایا کہ لیڈی ڈاکٹر بیٹھی ہیں ادھر لے جاؤ- اماں جی سے چلنا تو کیا کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا- چاچے نے انکو سہارا دیے رکھا اور آہستہ آہستہ ڈاکٹر کے پاس لے گیا انہوں نے تفصیل سے سارا مسئلہ پوچھا-پُرانی دوائیاں بھی دیکھیں اور پھر نرس سے بلڈپریشر اور بخار چیک کرنے کو- اس نے دیکھا تو بلڈ پریشر تیز تھا، لو ہونے کی بجائے- انہوں نے فوراً گولی دی اور انجکیشن لگوائے اور کہا بستر پر لیٹ جاؤ وارڈ میں آدھے گھنٹے بعد پھر دکھانا- نرس دوائی دینے لگی تو میں نے چاچے سے اجازت چاہی- و ہ کہنے لگا ٹھیک اے پُتر جا- میں نکلنے ہی لگا تھا کہ بارش برسنے لگی- میں رُک گیا کہ کچھ آہستہ ہو توجاتا ہوں- جب تک بارش تھمی تو انجکیشن اپنا اثر دکھا رہے تھے بالآخر اماں بغیر سہارے کے بیڈ پر بیٹھ گئی اور اُٹھ کر ڈاکٹر کے پاس گئی دوبارہ معائنہ کروایا- ڈاکٹر صاحبہ نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے- میں ابھی تک ادھر ہی تھا تو سوچا چلو ٹیسٹ بھی کروا دیتا ہوں لیکن شام کا وقت تھا تو لیب بندہو چُکی تھی- میں نے کہا چلو پرسوں آ جانا میں کروا دوں گا میرا نمبر لے لیں-
اماں اور بابے کے چہرے پر اطمینان تھا ایک تو درد سے نجات کا- اور دوسرا شاید پیسے بچ جانے گا- میں نے کہا اماں آپ اطمینان سے ایدھر آ جایا کریں جب بھی کوئی مسئلہ ہو ہر وقت یہاں ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے- اور دوائی مفت ہوتی ہے- انہوں نے ٹھیک اے پُتر سانوں تے آرام نال غرض اے ہن ایتھے اے آواں کراں گے-
واضح رہے کہ میں ایک قصبہ میں رہتا ہوں -پہلے یہاں صرف کوے بولا کرتے تھے تاہم پچھلے 10 سالوں میں یہاں واضح فرق آیا ہے- اب ہمہ وقت ڈاکٹر موجود ہوتا ادویات بھی زیادہ تر وہاں دستیاب ہوتی ہیں- البتہ ایمرجنسی صرف 5 ہی بیڈ کی ہے اور جنرل وارڈ 10 بیڈ کی -تاہم مناسب اور بہتر سہولیات ملتی ہیں- ایک ایمبولینس بھی موجود ہے جو زیادہ سیرئس کیسز کو فوراً ڈی ایچ کیو پہنچا دینی-میرے ذاتی خیال میں یہ فرق پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں آیا ہے- پہلے میری بھی یہی ترجیح ہوتی تھی کہ سرکاری نہ جایا جائے تاہم اب میری یہی کوشش ہوتی کہ سرکاری ہسپتال جایا جائے اور آپ سے بھی التماس ہے فرق خود ملاحظہ کریں- شکریہ
آپی اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں ۔آمینکیس نمبر1:
ایمی اپنی ایک ہم جماعت کے بارے میں بتایا کرتی تھی کہ اس کی امی فوت ہو چکی ہیں۔ وہ دو بہنیں ہیں۔ ابو باہر ہیں اور دادی جان ہی ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ پڑھائی میں وہ بہت کمزور ہے۔ ہمارے گھر سے نزدیک ہی گھر ہے۔
میں اسے کہتی کہ مجھے اس کے گھر لے کے چلو۔ کئی بار اسے کہا اور خود بھی دل میں سوچا کہ اس بچی کے لیے کچھ کیا جائے۔ وہ ایمی کے ساتھ بیٹھ کے پڑھ لیا کرے۔ ایمی خود ہی پڑھتی ہے۔ مدد کبھی کبھار ہی لیتی ہے۔
ایسے ہی کچھ وقت گذر گیا۔ ایک دن کسی ٹرم کے نتیجہ کے موقع پہ دادی جان اپنی چھوٹی پوتی کے ساتھ سکول میں آئیں اور ان کے آنے سے پہلے میں استانی جی سے اس بڑی بچی کی معلومات اور دادی جان کا فون نمبر لے چکی تھی۔ وہ فیل تھی۔ دادی جان اور چھوٹی بچی سے ملاقات ہوئی۔ انھیں گاڑی پہ گھر کے قریب چھوڑا۔
چند دن بعد ان کی ٹیوٹر سے ملاقات کرنے گئی۔ دادی جان بھی تھیں۔ بچی سے بات کی تو وہ رونے لگی۔ ابو دوسری شادی کر چکے تھے۔ دوسری امی کا میکہ ساتھ والے گھر میں ہے۔ وہ بالکل بھی نہیں پوچھتیں۔ ایم فل کر رہی ہیں۔ بس اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔ کام والی ماسی کام کرتی ہے۔ وہی الٹا سیدھا پکا جاتی ہے۔ بڑی بچی بیمار بھی رہتی ہے۔ اسے تسلی دی۔ ٹیسٹ کرانے لے گئی۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آئی۔ کچھ نہیں تھا۔ بس بخار رہتا ہے۔ دادی جان ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ ڈاکٹر نے ڈپریشن بتایا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ میں کبھی کبھی سالن، پراٹھے وغیرہ جو بھی کچھ اچھا/ زیادہ بنا ہو اور موقع بھی مل جائے تو بھیج دیتی ہوں۔ کبھی خود چکر لگا لیتی ہوں۔ مصروفیت کے اس دور میں روز جانا یا روز کھانا بھیجنا بھی مشکل ہے۔ بہرحال ابھی چند پہلے دادی جان بھی بیمار تھیں۔ انھیں چھوٹی بچی کے ساتھ رکشہ کرا کے دیا کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
ایک دن بیچاری ہمارے گھر کا راستہ بھول گئیں اور بہت پریشانی اٹھانے کے بعد ملا۔
اب وہ بیٹے کے مشورہ پہ سکول بدلنا چاہ رہی ہیں۔ میں نےکچھ سکولوں دے متعلق معلومات لی ہیں۔ دیکھیں۔۔۔۔
آج نتیجہ تھا۔ بڑی بچی فیل تھی۔
دادی جان کا موبائل خراب ریتا ہے۔ بیٹے نے باہر سے جو موبائل بھیجا۔ بہو نے نجانے کون سا تھمایا کہ وہ بھی خراب ہے۔
اب ارادہ ہے کہ کسی دن بیٹے سے فون پہ بات کروں ۔۔۔
آپ میں سے کسی کے ذہن میں کوئی تجویز ہو تو شریک کریں۔
آپی جی جو سب سے اہم کام ہے وہ یہ کہ سب سے پہلے دادی جان کے موبائل کا مسئلہ حل کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی ایمرجنسی میں وہ مدد کے لیے رابطہ کر سکیں ۔دادی جان کا موبائل خراب ریتا ہے۔ بیٹے نے باہر سے جو موبائل بھیجا۔ بہو نے نجانے کون سا تھمایا کہ وہ بھی خراب ہے۔
ان کے بیٹے سے بات کرکے ان کے گھریلو حالات سے مطلع کیا جائے ،بیٹے سے بات کرکے آپ کو یہ بھی انداز ہو جائے گا کہ وہ اپنے گھریلو معاملات میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے ،ہوسکتا ہو کہ موجود صورتحال سے وہ ناواقف ہو یا معلومات رکھنے کے باوجود بھی غافل ہو ۔اب ارادہ ہے کہ کسی دن بیٹے سے فون پہ بات کروں ۔۔۔
آپی جی محبت اور توجہ جو اپنے سگے رشتوں سے میسر آتی ہے وہ کسی اور سے شاید ممکن نہیں ہوتی ۔ملازمہ تو روز آتی ہے اور دیگر کاموں کے ساتھ جیسا تیسا کھانا بھی پکا جاتی ہے لیکن وہ اکثر بچیوں کو پسند نہیں آتا، نیز بڑی بچی تو کھانا کھاتی ہی نہیں۔ ڈپریشن کی وجہ سے اکثر بھوکی رہتی ہے۔ میں کبھی چلی جاؤں تو جو چیز لے کے جاتی ہوں، ڈانٹ کر ، پیار سے کھلا دیتی ہوں۔ بچیاں پیار و محبت اور توجہ کی متلاشی ہیں۔
خالصتاً اخلاص بھرا جملہ۔۔۔خاتون کا مسلۂ حل ہؤا تو اُس نے امّی جان سے بے رُخی اختیا ر کر لی۔ ہم اُنہیں خوب چھیڑتے۔کبھی وہ مُسکرا دیتیں اور کبھی چِڑ کے کہتیں "فیر کی ہویا۔
آپی جی آپ نے جو حالات و واقعات بیان کیے ہیں وہ واقعی نہایت افسوس ناک اور رنجیدہ کر دینے والے ہیں۔اللہ کریم ان بچیوں کا حامی و ناصر ہے ،یقینا کوئی نا کوئی اسباب پیدا ہو ہی جائے گا ،ان پر جو آج سختی کا وقت ہے وہ بھی گزر جائے گا مگر ان کی ذہنی نشوونما اور اور ان کا مستقبل کیا ہوگا ،پریہ بھی ایک سوالیا نشان ہے ۔استغفراللہ۔
توبہ توبہ۔
اتنے دنوں کی مختصر ترین کہانی یہ ہے کہ بچیوں کو ایک کم درجہ کے این جی او سکول میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ داخلہ تو "آنٹی" نئی ماں نے کرایا اور باقی سب کام میں نے اماں کے ساتھ مل کے کیے کیونکہ بیٹئے نے صرف 5000 بھیجنے کو کہا تھا اور شام تک بھیج بھی دیے تھے۔ بچیوں کے یونیفارمز، کتابیں، جوتے، اور کئی طرح کی چیزیں۔۔۔صرف 5000۔
وہ شخص اپنی بہنوں کی طرف سے بھی کوئی نصیحت نہیں سنتا، ماں کی بھی بے عزتی کرتا ہے۔ اس لیے میں اسے فون نہیں کر رہی۔ آج صبح بھی اماں میرے پاس آکر روتی رہیں۔ انھوں نے اپنے میاں کی دوسری شادی، خود کو گھر سے نکال دینے اور میکہ جا کے رہنے کا احوال سنایا۔ کیسے سخت محنتیں کر کے بچے پالے، پڑھائے۔ زیور، جائیداد بیچی۔۔۔ اب گھر بھی نئی بیوی کے نام ہے۔
کل ماں سے کہنا لگا کہ آپ لوگ میری بیوی کا مقابلہ کرتے ہیں کہ اگر اُسے ایک لاکھ بھیجتا ہوں تو آپ کو بھی بھیجوں۔ وہ تو میرا فرض ہے۔ اور آپ لوگ اتنے خرچے کرے ہیں۔ میرے پاس درختوں پہ نوٹ نہیں لگے۔ اتنی مشکل سے کماتا ہوں۔ وغیرہ
اماں بتانے لگیں کہ بڑی پوتی یہ سب سُٖن کے روتی رہی۔ رات کو اسے دیکھا تو جاگ رہی تھی اور چپ لیٹی چھت کو دیکھتی تھی۔
اماں بھی آج کل کھانسی اور بخار میں مبتلا ہیں۔ بڑی پوتی تو تھوڑے تھوڑے دن بعد بیمار ہو جاتی ہے۔ کوئی پُرسانِ حال نہیں۔
بہو کہتی ہے کہ سارا فرض بیٹے کا ہی نہیں، بیٹیوں کا بھی تو فرض ہے۔
پہلے بیٹا ہر دو تین ماہ بعد آجاتا تھا، اب ایک سال ہونے کو آیا، نئی بہو خود جا کر مل آتی ہے۔
وٹزایپ پہ تینوں کی نئے سکول کے دروازہ پہ تصویر کھینچ کے بھیجی تو بیٹے کا فون آگیا اور بہت زیادہ ناراض ہوا۔
اب سوچ رہی ہوں کہ اُس ملک میں کسی جاننے والے سے رابطہ کروں ، شاید اسے سمجھانے کا کچھ سلسلہ بن سکے!
محفلین تجاویز دیں۔
ان کا تو رمضان میں بھی بیٹے نے خیال نہیں کیا۔ نہ عید کے کپڑے۔ نہ گرمیوں کے۔ نہ رمضان کے اسباب۔ اللہ نے توفیق اور آسانی دی کہ افطاری بنا کے بھیجتی رہی۔ عید کے کپڑے بنائے۔ دیگر چیزوں کی خریداری بچیوں کو لے جا کے کرائی۔ اماں ایک دن گر پڑیں۔ طبیعت خراب۔ دوا بھیجی۔ گرم دودھ میں بادام، مغز اور خشخاش پیس کر بھیجتی ہوں۔۔۔جس کے بارے میں کہتی ہیں کہ انہیں طاقت ملتی ہے۔
کل عید کے لیے کچھ بنا بنایا کھانے کا سامان دے آؤں گی۔ ذرا سی کوشش سے بچیاں بنا لیں گی ان شاءاللہ۔
ماشاءاللہ ،اس بار اللہ نے کئی کام لیے۔ ہم نے تقریبا 13 گھروں میں راشن، چھ گھروں میں آٹا، ایک ادارہ کے لوگوں میں کپڑے، ہائی جین کٹ، کتابیں، سٹیشنری،مستحق لوگوں میں 32 سوٹ، پانچ جوتے اور پانچ لوگوں کے علاج کی رقم۔۔۔۔دی۔
پچھلے سالوں کی نسبت اس بار اللہ نے ہم سے زیادہ کام لیا۔
الحمداللہ رب العالمین۔
بے شک سب تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔
اماں جی کے کئی فون آئے۔میلیریا تھا انھیں۔۔۔پھر کچھ ٹھیک ہو گئیں۔ ملنے کو کہتیں۔۔۔لیکن میں گھر۔۔۔گھر داری۔۔بچے۔۔بہت مصروف۔ پھر شوال کے روزے۔ کل پکا ارادہ کیا تھا۔۔۔سو آج چلی گئی۔۔۔۔بچیاں بیت خوش۔ اماں خوش۔۔۔اماں کی بیٹی آئی ہوئی تھی۔ملنے کی متمنی تھی۔۔۔اماں کو جاتے بالٹی دی جس میں گرم دودھ میں سردائی والا سامان تھا۔۔انھیں پلایا۔۔بچیوں کو دو دو سو روپے عیدی دی۔ فالسے اور کیلے لے گئی تھی۔چھوٹی تو کہنے پہ فالسے کھانے لگی۔لیکن بڑی بچی نے باوجود کئی بار کہنے کے نہیں کھائے۔بڑی بچی کافی مشکل ہے۔ لیکن شکر ہے کہ اب مل کے مسکرانے لگتی ہے۔ گلے لگاؤں تو پہلے کی نسبت کم اجنبیت دکھاتی ہے۔ خوب باتیں کیں۔ حوصلہ بڑھایا۔ اپنے اور دیگر لوگوں کے قصے سنائے۔ ہنسایا۔ گدگدایا۔اماں کو تسلی دی۔
بچیوں سے کچھ صفائی کروائی گھر کی۔ کچھ نصیحتیں کیں گھر گھرہستی کے حوالے سے۔۔
۔۔۔
فلاحی کاموں میں ایک مشکل پیش آتی ہے جب لوگ فلاحی کارکن سے حد سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور سب کاموں کے لیے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔اماں مجھ سے بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں جبکہ میں ان کا رخ باربار اللہ کی طرف موڑتی ہوں۔
اسی لیے میں چاہ رہی تھی کہ بچیوں کو کسی حد تک کام سکھایا جائے۔۔۔۔لیکن میرے اپنے پاس وقت۔۔۔۔
اللہ وقت و دیگر وسائل میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین!
آپی جی آپ کو اللہ کریم جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمینکیس نمبر 2:
یہ شاید 2011 یا 12 کا قصہ ہے۔ سردی کا موسم تھا۔ ایک شخص نے گھنٹی بجائی۔۔۔باجی کوئی چادر ملے گی۔۔۔صاحب کی نئی چادر اسے دے دی۔۔۔,(بعد میں صاحب کو اور لا کے دی۔)
وہی شخص کچھ دنوں بعد آیا۔۔مالی مدد۔ اس کے پاس سائیکل تھی۔
میں نے چھوٹی سی تقریر کی۔ کچھ مدد کی۔ اور اسے کہا کہ فلاں دن میرے پاس آؤ کوئی منصوبہ لے کے۔ جس میں دو ہزار روپے سے کوئی کام شروع ہو سکے۔ میرے خیال میں آپ کسی سکول کے باہر ایک کپڑے پہ سٹیشنری رکھ کے بیٹھ جاؤ۔ لیکن آپ خود بھی سوچ کے آنا۔
وہ آیا کہ میں ریڑھی پہ سبزی لگاؤں گا۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس کے ساتھ جاتی۔ ریڑھی کرائے پہ لے کے دیتی۔ پھر سبزی منڈی وغیرہ ۔۔۔سو اللہ پہ بھروسہ کر کے دوہزار اسے دے دیے۔
اگلے دن وہ ریڑھی لے کے آیا۔ پھر کئی بار اسے ریڑھی لگائے دیکھا۔ کچھ عرصہ پہلے سائیکل پہ غبارے بیچتے دیکھا۔ میرا دل دکھا بھی۔لیکن خوشی بھی ہوئی کہ بھیک نہیں مانگتا۔ اب کافی دنوں سے نظر نہیں آیا ورنہ ارادہ تھا کہ کوئی نسبتاً بہتر کام شروع کروادوں۔
الحمداللہ رب العالمین۔
کھانا کھلانا بہت بڑی نیکی ہے۔