آئی ایس آئی امریکہ کو بدترین دشمن مانتی ہے‘

نایاب

لائبریرین
120911133647_dominic-di-natale.jpg


امریکی صحافی ڈومینک ڈی نیٹیلی جنہوں نے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انٹرویو کیا
پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انٹرویو کرنے والے امریکی صحافی ڈومینک ڈی نیٹیلی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس انٹرویو میں کامیابی سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔
اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد دینے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا ’بدترین دشمن‘ مانتی ہے۔
ٹوئٹر پر ’ڈوم اپڈیٹس‘ کے نام سے ٹویٹ کرنے والے ڈومینک ڈی نیٹیلی نے اپنی ٹویٹس میں بتایا کہ وہ کس طرح یہ انٹرویو کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر پہلی ٹویٹ کی ’میرا خصوصی انٹرویو سی آئی اے کے مخبر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ فاکس نیوز پر۔۔۔‘ جس کے بعد مختلف لوگوں نے ان سے انٹرویو سے متعلق سوالات پوچھنا شروع کیے۔
چد آنند راج گھٹا نے ان سے پوچھا کہ ’اس انٹرویو پر مزید روشنی ڈالیں کہ یہ کب، کہاں اور کیسے کیا، یہ آڈیو یا ویڈیو تھا، حالات و واقعات وغیرہ۔ (یہ سب بتانا) اچھا ہوتا۔ اسے نہ بتانے کی کوئی خاص وجہ ہے؟
اس پر ڈومینک ڈی نیٹیلی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ’یقیناً ان کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے جنہوں نے یہ انٹرویو ممکن بنایا۔ یہ میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ میں نے ان سے سنیچر کو براہ راست بات کی ہے‘۔
انہوں نے دوبارہ بتایا کہ’وضاحت کے لیے میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے براہ راست ڈاکٹر آفریدی سے سنیچر کو بات کی تھی، ان لوگوں کی حفاظت کے لیے میں یہ نہیں افشاء کروں گا کہ میں نے کیا ذرائع استعمال کیے‘۔
جب ان سے ایک اور شخص اعجاز رشید نے پوچھا کہ ’آپ نے یہ کیسے کیا میرے خیال میں بہت بھاری رشوتیں دے کر‘۔
اس پر ان کا جواب تھا کہ ’نہیں ہم نے یہ میرٹ پر کیا اور صحافت کے پرانے روایتی صحافت کے طریقے کے مطابق۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں یہ ممکن ہے۔‘
شہریار سہیل نے ٹویٹ میں ڈومینک ڈی نیٹیلی سے کہا کہ ’میں اپنی ہنسی نہیں روک پا رہا کیا آپ روزنامہ ڈزنی لینڈ کے لیے لکھتے ہیں ہا ہا ہا ہم صحافیوں کے قابل رحم کام سے اچھی طرح واقف ہیں‘۔
اس پر ڈومینک ڈی نیٹیلی نہ کہا کہ ’آسانی سے یہ سمجھیں کہ یہ بہت بڑی گرما گرم خبر تھی‘۔
پاکستان میں امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے بیورو چیف سباسچین ایبٹ نے جب ڈومینک ڈی نیٹیلی سے پوچھا کہ ’ مجھے تجسس ہے کہ آپ نے کیسے یہ تصدیق کی کہ آپ شکیل آفریدی سے ہی بات کر رہے ہیں‘۔
اس پر ڈومینک ڈی نیٹیلی نے سبیسشن ایبٹ کو مزاح میں جوابی ٹویٹ کی اور کہا کہ ’ہا ہا ہا شکیل ونیلا لاٹے (کافی کی ایک قسم) پسند کرتے ہیں، اضافی جھاگ کے ساتھ‘۔
ایک پاکستانی امریکی عارف رفیق نے ان سے پوچھا کہ ’لگتا ہے کہ آپ نے آفریدی سے ٹیلی فون پر بات کی ہے کیونکہ آپ پاکستان میں نہیں ہیں۔ ایک رشتہ دار نے فون جیل میں سمگل کر کے دیا ہو گا اپنی ملاقات کے دوران‘؟
ڈومینک ڈی نیٹیلی نے اس پر جواب دیا کہ ’درست، میں اس وقت امریکہ میں ہوں۔ اور دو صحافی اس خبر پر مقرر تھے اور ہم نے مہینوں اس کہانی پر پشاور سے کام کیا ہے‘۔
اس پر عارف رفیق نے دوسرا سوال پوچھا کہ ’میں دیکھ سکتا ہو ں کہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے ان سے بات کی لیکن یہ نہیں کہا کہ آپ ان سے ملے۔ آپ کو کیسے معلوم تھا کہ آیا آپ آفریدی سے بات کر ہے ہیں؟‘
ڈومینک نے اس پر جواب دیا کہ ’ہم نے پہلے شناخت کی غرض سے بعض بنیادی سوال کیے جو ہمارے پاس موجود چند اہم معلومات کی بنیاد پر تھے جس کے بعد میں نے براہ راست چالیس منٹ تک ان سے سنیچر کو بات کی‘۔
عارف رفیق نے پھر پوچھا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ روایتی صحیح لفظ ہوگا کیونکہ آپ نے کیسے یہ انٹرویو کیا کیونکہ وہ ایک سزا یافتہ خفیہ اداروں کا اثاثہ ہے‘۔
ڈومینک نے جواب دیا ’ہمیں ایک بڑی خبر ایک روایتی طریقے سے ملی۔ اور اچھے ذرائع اور مستعدی سے کام کیا گیا‘۔ ڈومینک نے جواباً کہا کہ ’ہم اس پر مہینوں سے کام کر ہے تھے اور بالاخر اس تک پہنچ گئے‘۔
سب سے آخر میں ڈومینک نے ٹویٹ کی کہ ’میں اس وقت ایک مطلوب شخص ہوں۔۔۔‘
ربط
بشکریہ بی بی سی اردو
 
مجیب الرحمن کو " اپنا " جان کر مغربی پاکستان نے تو صرف نظر کرتے اسے مشرقی پاکستان بھیج دیا تھا ۔
اور پھر اس نے پاکستان دشمنوں سے مل کر کیسے بنگلہ دیش کی تخلیق کی ۔ یہ کس سے مخفی ہے ۔
یہ الگ بات کہ اپنی اس غداری کی سزا اس کی اپنی ہی قوم نے بہت قلیل عرصے میں دے دی تھی ۔
اور " سونار بنگلہ " کے افسانے میں موجود حقیقت بے نقاب ہو گئی تھی ۔
غلط
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بنتے وقت اور نوے ہزار پاکستان فوجی جوانوں (سویلین شامل نہیں) جنگی قیدی بنتے وقت مجیب پاکستان میں قید تھا
اس کو 23 مارچ 1971 میں گرفتار کرکے شاید مغربی پاکستان میں قید کیا ہوا تھا۔
 

نایاب

لائبریرین
غلط
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بنتے وقت اور نوے ہزار پاکستان فوجی جوانوں (سویلین شامل نہیں) جنگی قیدی بنتے وقت مجیب پاکستان میں قید تھا
اس کو 23 مارچ 1971 میں گرفتار کرکے شاید مغربی پاکستان میں قید کیا ہوا تھا۔
محترم خان صاحب
مجیب الرحمن کو جب "اپنا " سمجھ معاف کیا گیا تھا ، اس بارے اس کی بیٹی کا ہی بیان کافی ہے ۔

بنگلہ دیش کی آج کی حکمران حسینہ واجد شیخ مجیب کی لخت جگر ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ پاکستان توڑنے کی سازش پر مبنی اگرتلہ کیس سچا تھا۔22 اپریل1969 ء کو شیخ مجیب الرحمن کو اس مقدمے سے رہائی ملی چھ ماہ بعد شیخ مجیب الرحمان22 اکتوبر1969 ء کو لندن چلے گئے تھے جہاں پاکستان سے علیحدگی کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی تھی۔۔
 
چلیے جیسے اپ کی مرضی
ورنہ اٹھانے اور مارنے والوں کی ناکامی کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ 48، 65 اور 71 کی جنگ سے لے کر کارگل، ایبٹ اباد اور سلالہ۔
خیر جانے دیجیے
 

ساجد

محفلین
بنگلہ دیش کبھی پاکستان ہوا کرتا تھا ، اب نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ابھی بھی بنگلہ دیش پاکستان سے زیادہ عزیز ہے ان سے گزارش ہے کہ وہ یک طرفہ ٹریفک چلانے سے قبل تقسیم کے وقت کے حالات کا بغور مطالعہ کریں اور بطور خاص بنگالی قوم کی جبلت اور شیخ مجیب کی تنک مزاجی کو ضرور ذہن میں رکھا کریں۔ جب غدر مچتا ہے تو ملکی افواج اس پر قابو پانے کے لئے سختیاں بھی کرتی ہیں اور ناجائز خون خرابہ بھی ہوتا ہے لیکن ان سب چیزوں کا مدعا ایک ہی فریق پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ نہ تب کے مغربی پاکستان کے سیاستدان دودھ کے دھلے تھے اور نہ بنگال کے غدار جنہوں نے اگر تلہ میں بیٹھ کر سازشیں کیں ۔ اب چونکہ یہ ماضی کا قصہ بن چکا ہے اور بنگلہ دیش ایک مسلم ملک کے طور پر قائم ہے ہمیں ان باتوں میں پڑنے کی بجائے آگے کی طرف دیکھنا ہو گا۔ نہ کہ پرانی باتیں ادھیڑ کر اپنی توانائیاں ایک فریق کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان ثابت کرنے پر لگا کر کنفیوژن پیدا کرنا چاہئیے۔ شیخ مجیب کا پورے خااندان سمیت قتل بنگالی قوم کی متلون مزاجی کا ایک ثبوت ہے اور آج بھی ان میں یہ بات بدرجہ اتم موجودہے اور ہمارے ہاں ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی روایت بھی پوری ڈھٹائی سے نبھائی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ بلوچستان بھی کمزور مرکز سے گریز کی طرف رواں ہے۔ ہمیں اس قسم کے تاریخی المیوں کا ایک قومی احساس اور ذمہ داری سے ادراک کر کے اسے داخلی اور بین الاقوامی سیاست کے پس منظر میں سمجھنے کی عادت ڈالنی چاہئیے نہ کہ سکول کے بچوں کی طرح الزام برائے الزام میں الجھیں۔
 
یہ ہی تو بیماری ہے۔ کہ حکمران طبقہ اپنے ہر عمل کو حب وطنی سمجھتا ہے چاہے وہ کمزور لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ ماضی سے سیکھنے کی کوئی روایات نہیں ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہر دشمن کے سامنے ذلت کی سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے وہ امریکہ ہو چاہے طالبان چاہے انڈیا ہو۔ ماضی کی پالیسیوں سے ذلت ملتی ہے پھر بھی وہی پالیسیاں۔ اور زعم اس بات کا کہ ہم بڑے فنکار ہیں
 

ساجد

محفلین
یہ ہی تو بیماری ہے۔ کہ حکمران طبقہ اپنے ہر عمل کو حب وطنی سمجھتا ہے چاہے وہ کمزور لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ ماضی سے سیکھنے کی کوئی روایات نہیں ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہر دشمن کے سامنے ذلت کی سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے وہ امریکہ ہو چاہے طالبان چاہے انڈیا ہو۔ ماضی کی پالیسیوں سے ذلت ملتی ہے پھر بھی وہی پالیسیاں۔ اور زعم اس بات کا کہ ہم بڑے فنکار ہیں
خان صاحب کیا آپ مجھ سے بڑھ کر حکومت کے نقاد ہیں؟۔ سیاست کے زمرے میں حکومت کا جس قدر لتاڑا میرے ہاتھوں اب تک ہو چکا ہے دیگر تمام اراکین کا مجموعہ بھی اس سے کم ہو گا۔ لیکن یہ کیا کہ ہر بات کی تان صرف اور صرف پاکستان ہی کو نشانہ بنانے پر ٹوٹے۔ کیا آپ نے کبھی بنگلہ دیش کی داخلی سیاست کا مطالعہ کیا ہے؟ آپ کو پتہ ہے نا کہ وہاں مخالفین کو سرعام سڑک کے اوپر ہی لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی سعودیہ کی سیاست میں تانک جھانک کی ہے۔ جانتے ہیں کہ بندہ ایسے غائب کیا جاتا ہے جیسے کہ گدھے کے سر سے سینگ اور پھر کبھی ملتا ہی نہیں۔ ملائشیا میں انور ابراہیم کے حامیوں کے ساتھ مہاتیر محمد (جس کا میں مداح ہوں) کی فورسز نے کیا سلوک کیا تھا ؟۔ شمالی کوریا میں مخالفین کی جو درگت بنتی ہے وہ آپ سے پوشیدہ تو نہیں رہی ہو گی۔ چین کا تیانا من چوک یاد ہے نا؟۔ Occupy Wall Street اور اس کی ذیلی تحریکوں کے شرکاء پر امریکی فورسز نے جو ظالمانہ تشدد کیا اس کی بھی کچھ یادیں تازہ کر لیجئے۔
اب بتائیے کہ ان ممالک پر آپ کون سی دفعہ لگائیں گے؟۔ دیکھ لیا نا آپ نے کہ پاکستان سے بھی بڑے فنکار آپ کے ارد گرد موجود ہیں اور اپنی عوام پر تمام تر مظالم ڈھانے کے باوجود دھڑلے سے اپنے ملک چلا رہے ہیں۔ جو ہو چکا وہ ماضی ہے اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن جو ہونے جا رہا ہے اس کی پیش بندی کے لئے ہمین عالمی حالات پر گہری نظر رکھنی ہو گی ۔تنقید برائے تنقید سے کچھ نہیں ہونے والا۔
 

نایاب

لائبریرین
’انٹرویو دیا ہے تو مشکلات بڑھ سکتی ہیں‘
بشکریہ بی بی سی اردو
ربط

اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کو مدد دینے کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کے ’فاکس نیوز‘ کو دیے جانے والے انٹرویو سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ نے منگل کو بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منگل کی صبح سے ان سے ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ادارے انٹرویو سے متعلق رابطے کر رہے ہیں۔
نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر ان کے موکل نے واقعی امریکی ٹی وی چینل ’فاکس نیوز‘ کو انٹرویو دیا ہے اور اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ سچ پر مبنی ہیں تو اس سے آنے والے دنوں میں شکیل آفریدی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس انٹرویو کی تصدیق نہیں کر سکتے اور نہ ہی شکیل آفریدی کے خاندان کے افراد اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ سے کسی قسم کی بات کرنے کےلیے تیار ہیں۔
نجی امریکی ٹی وی چینل ’فاکس نیوز‘ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف دو مئی سنہ دو ہزار گیارہ کو ہونے والے آپریشن میں امریکی حکام کی مدد کرنے والے پاکستانی شہری ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کے حکام امریکہ کو اپنا ’بد ترین دشمن‘ مانتے ہیں۔
سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کے مطابق سینٹرل جیل پشاور میں شکیل آفریدی کی سکیورٹی شروع دن سے انتہائی سخت ہے اور ان سے ملاقات پر پابندی بھی تھی جبکہ کچھ پولیس اہلکار ہر وقت ان کے سیل میں موجود رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان سختیوں کے خلاف انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی جس میں شکیل آفریدی سے ملاقات پر پابندی ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں ڈاکٹر شکیل آفریدی سے جیل کے اندر کسی رپورٹر کی جانب سے انٹرویو کرنا ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ انٹرویو واقعی ان سے کیا گیا ہے اور اس میں کہی گئی باتیں بھی سچ پر مبنی ہیں تو اس سے آنے والے دنوں میں ان کے موکل کے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرویو میں بعض ایسی باتیں شکیل آفریدی سے منسوب کی گئی ہیں جو خود ان کے موکل اور ان کے خاندان کے افراد کےلیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ہوسکتا ہے یہ انٹرویو موبائل فون کے ذریعے کیا گیا ہو تو اس پر سمیع اللہ آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے اور جیلوں میں موبائل فون رکھنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
’فاکس نیوز‘ کا یہ انٹرویو منگل کو ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور ویب سائٹس نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے جس میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے متعلق باتیں لکھی گئی ہیں۔
غالب امکان یہی ہے کہ یہ انٹرویو موبائل فون کے ذریعے سے کیا گیا ہے۔
 

ساجد

محفلین
دو آپشن ہیں
1 : پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دباؤ ڈالا جائے کہ وہ آفریدی کو اس کے حوالے کر دے۔ کیوں کہ یہ بندہ سی آئی اے کا محرم راز ہے۔
2 : آفریدی کو انعام سے نوازا جائے ...وہی انعام ....جو سی آئی اے اپنے محرم رازوں کو جلد یا بدیر دیتی ہے یعنی آفریدی کو عازمِ عدم آباد کر دیا جائے اور الزام لگایا جائے پاکستان پر ، جیسا کہ اس انٹرویو کے بعد کہانی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اسامہ کو مارنے والے اپنے ہی سورماؤں کو ہیلی کاپٹر سمیت اڑا دیا گیا تھا تا کہ .....وہ سکون سے قبروں میں آرام کر سکیں تو اب آفریدی کو امریکہ بہادر بے آرام تو نہیں دیکھ سکتا نا ۔
 

نایاب

لائبریرین
دو آپشن ہیں
1 : پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دباؤ ڈالا جائے کہ وہ آفریدی کو اس کے حوالے کر دے۔ کیوں کہ یہ بندہ سی آئی اے کا محرم راز ہے۔
2 : آفریدی کو انعام سے نوازا جائے ...وہی انعام ....جو سی آئی اے اپنے محرم رازوں کو جلد یا بدیر دیتی ہے یعنی آفریدی کو عازمِ عدم آباد کر دیا جائے اور الزام لگایا جائے پاکستان پر ، جیسا کہ اس انٹرویو کے بعد کہانی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اسامہ کو مارنے والے اپنے ہی سورماؤں کو ہیلی کاپٹر سمیت اڑا دیا گیا تھا تا کہ .....وہ سکون سے قبروں میں آرام کر سکیں تو اب آفریدی کو امریکہ بہادر بے آرام تو نہیں دیکھ سکتا نا ۔
اصل کہانی یہی ہے بلا شبہ
 

عسکری

معطل
دو آپشن ہیں
1 : پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دباؤ ڈالا جائے کہ وہ آفریدی کو اس کے حوالے کر دے۔ کیوں کہ یہ بندہ سی آئی اے کا محرم راز ہے۔
2 : آفریدی کو انعام سے نوازا جائے ...وہی انعام ....جو سی آئی اے اپنے محرم رازوں کو جلد یا بدیر دیتی ہے یعنی آفریدی کو عازمِ عدم آباد کر دیا جائے اور الزام لگایا جائے پاکستان پر ، جیسا کہ اس انٹرویو کے بعد کہانی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اسامہ کو مارنے والے اپنے ہی سورماؤں کو ہیلی کاپٹر سمیت اڑا دیا گیا تھا تا کہ .....وہ سکون سے قبروں میں آرام کر سکیں تو اب آفریدی کو امریکہ بہادر بے آرام تو نہیں دیکھ سکتا نا ۔
آپ کل سی وی لے کر کینٹ چلے جانا ساجد بھائی آپکی بھرتی پکی 7 سالہ کنٹریکٹ پر بالکل یہی بات ہے ۔ اس کو یہ پتا نہیں کہ کومانڈوز مارے جا چکے ہیں ۔ اور یہ بات کم عقل سے کم عقل بھی جانتا ہے کہ ایسے بڑے آپریشن کو انجام دینے والوں کو فیلڈ میں رکھنا ہی اس لئے گیا تھا کہ انہیں راستے سے ہٹایا جائے جو لوگ چھوڑ گئے وہ بچ گئے جو رہ گئے وہ مارے گئے ۔اس کو تو مارتے وقت وہ لوگ ایک منٹ بھی نہیں سوچیں گے یہ شاید جانتا نہیں ۔ جیل میں بھی اس کو خطرہ طالبان سے نہیں امریکہ سے ہے پر یہ بیوقوف کنفرم ہے کیونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے جو کوئی ہوش مند کرنے پر راضی نہیں ہو گا۔ رہی بات ٹارچر کی تو وہ برحق تھا اور ایک سال میں اس کی ایسی درگت بن چکی ہے کہ اب شاید زہنی توازن بھی نہیں رہا جو انٹرویو دیا اور ایسی بات کہہ دی جبکہ آئی ایس آئی وہیں اس سے 10 کلو میٹر دور بیٹھی ہے اور کسی بھی وقت اسے جیل سے نکل کر پھر گلگت بھیج دے :biggrin:
 
خان صاحب کیا آپ مجھ سے بڑھ کر حکومت کے نقاد ہیں؟۔ سیاست کے زمرے میں حکومت کا جس قدر لتاڑا میرے ہاتھوں اب تک ہو چکا ہے دیگر تمام اراکین کا مجموعہ بھی اس سے کم ہو گا۔ لیکن یہ کیا کہ ہر بات کی تان صرف اور صرف پاکستان ہی کو نشانہ بنانے پر ٹوٹے۔ کیا آپ نے کبھی بنگلہ دیش کی داخلی سیاست کا مطالعہ کیا ہے؟ آپ کو پتہ ہے نا کہ وہاں مخالفین کو سرعام سڑک کے اوپر ہی لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی سعودیہ کی سیاست میں تانک جھانک کی ہے۔ جانتے ہیں کہ بندہ ایسے غائب کیا جاتا ہے جیسے کہ گدھے کے سر سے سینگ اور پھر کبھی ملتا ہی نہیں۔ ملائشیا میں انور ابراہیم کے حامیوں کے ساتھ مہاتیر محمد (جس کا میں مداح ہوں) کی فورسز نے کیا سلوک کیا تھا ؟۔ شمالی کوریا میں مخالفین کی جو درگت بنتی ہے وہ آپ سے پوشیدہ تو نہیں رہی ہو گی۔ چین کا تیانا من چوک یاد ہے نا؟۔ Occupy Wall Street اور اس کی ذیلی تحریکوں کے شرکاء پر امریکی فورسز نے جو ظالمانہ تشدد کیا اس کی بھی کچھ یادیں تازہ کر لیجئے۔
اب بتائیے کہ ان ممالک پر آپ کون سی دفعہ لگائیں گے؟۔ دیکھ لیا نا آپ نے کہ پاکستان سے بھی بڑے فنکار آپ کے ارد گرد موجود ہیں اور اپنی عوام پر تمام تر مظالم ڈھانے کے باوجود دھڑلے سے اپنے ملک چلا رہے ہیں۔ جو ہو چکا وہ ماضی ہے اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن جو ہونے جا رہا ہے اس کی پیش بندی کے لئے ہمین عالمی حالات پر گہری نظر رکھنی ہو گی ۔تنقید برائے تنقید سے کچھ نہیں ہونے والا۔

ساجد صاحب اپکو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ میری مراد حکومتی طبقہ سے فوجی حکومت تھی یعنی فوجی جنرلز۔

دوسرے بات یہ ہے کہ اگر دنیا میں کہیں غلط ہورہا ہے تو یہ پاکستان میں ہونےوالے اقدام کے لیے جواز نہیں۔
عالمی حالات کے تناظر میں ہی کہہ رہا ہوں کہ یہ جنرلزمشرف کے دور میں پاکستان کو بے حد نقصان پہنچاچکے ہیں اور اسی طرح کی پالیسیاں چلتی رہی تو ملک خدانہ خواستہ پھر ٹوٹ نہ جائے۔ اج اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ ایا ہے بعد میں کہیں کچھ اور قرارداد نہ منظور ہوجاے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذلت کا ایک اور داغ ہماری افواج پر لگ جائے ان فوجی جنرلوں اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے۔
 
دو آپشن ہیں
1 : پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دباؤ ڈالا جائے کہ وہ آفریدی کو اس کے حوالے کر دے۔ کیوں کہ یہ بندہ سی آئی اے کا محرم راز ہے۔
2 : آفریدی کو انعام سے نوازا جائے ...وہی انعام ....جو سی آئی اے اپنے محرم رازوں کو جلد یا بدیر دیتی ہے یعنی آفریدی کو عازمِ عدم آباد کر دیا جائے اور الزام لگایا جائے پاکستان پر ، جیسا کہ اس انٹرویو کے بعد کہانی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اسامہ کو مارنے والے اپنے ہی سورماؤں کو ہیلی کاپٹر سمیت اڑا دیا گیا تھا تا کہ .....وہ سکون سے قبروں میں آرام کر سکیں تو اب آفریدی کو امریکہ بہادر بے آرام تو نہیں دیکھ سکتا نا ۔

افریدی کو پاکستان وی ائی پی جہاز میں بٹھا کر امریکہ کے حوالے کرے گا اور امریکہ اسے ایوارڈ سے نوازے گا۔ صرف جنرلز کی جیب میں رقم جانی باقی ہے ۔ طلب کچھ زیادہ ہے
 

ساجد

محفلین
ساجد صاحب اپکو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ میری مراد حکومتی طبقہ سے فوجی حکومت تھی یعنی فوجی جنرلز۔

دوسرے بات یہ ہے کہ اگر دنیا میں کہیں غلط ہورہا ہے تو یہ پاکستان میں ہونےوالے اقدام کے لیے جواز نہیں۔
عالمی حالات کے تناظر میں ہی کہہ رہا ہوں کہ یہ جنرلزمشرف کے دور میں پاکستان کو بے حد نقصان پہنچاچکے ہیں اور اسی طرح کی پالیسیاں چلتی رہی تو ملک خدانہ خواستہ پھر ٹوٹ نہ جائے۔ اج اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ ایا ہے بعد میں کہیں کچھ اور قرارداد نہ منظور ہوجاے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذلت کا ایک اور داغ ہماری افواج پر لگ جائے ان فوجی جنرلوں اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے۔
جی ہاں آپ سے متفق ہوں کہ فوج کو اپنے پیشہ وارانہ امور سے کام رکھنا چاہئیے ۔ ملک چلانا ، کھاد بیچنا ، اور سیاست کرنا اس میں کرپشن کی آبیاری کرتا ہے۔ تبھی تو اس ناکام ترین موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت کو بھی میں فوجی آمریت پر فوقیت دیتا ہوں۔
ورکنگ گروپ سے نہ ملنے کا چیف جسٹس کا فیصلہ درست ہے۔ لاپتہ افراد کے بارے میں جب پاکستانی عدالت میں کیس چل رہا ہے اور چیف جسٹس اسے خود دیکھ رہے ہیں تو دوسرے کیوں اس میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ برما جائیں جہاں ان کے جانے کا نہ صرف جواز بنتا ہے بلکہ وہیں اس ورکنگ گروپ کی ضرورت ہے۔
ورکنگ گروپ سے بات کرنے کے لئے وزیر کے درجے کا حکومتی بندہ ہی کافی ہے۔زیادہ سے زیادہ حنا ربانی کھر ان کو چائے کا کپ پلا دیں۔ آخر ہم ان کے ناجائز مطالبات کیوں مانیں؟۔ جبکہ اب پاکستان میں انہی کی اتحادی جمہوری حکومت ہے اور اسی جمہوری حکومت کی اعلیٰ ترین عدالت اس کیس کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے تو یہ کس لئے ٹانگ اڑانے ائے ہیں؟ ۔ کیا کوئی دوسرا ملک ہمیں اپنے عدالتی معاملات میں ناک گھسیڑنے کی اجازت دے گا ۔ اقوام متحدہ کا ادارہ ایسے ہی اقدامات سے امریکہ نوازی کرتے ہوئے اپنی ساکھ گنوا رہا ہے۔
 

ساجد

محفلین
افریدی کو پاکستان وی ائی پی جہاز میں بٹھا کر امریکہ کے حوالے کرے گا اور امریکہ اسے ایوارڈ سے نوازے گا۔ صرف جنرلز کی جیب میں رقم جانی باقی ہے ۔ طلب کچھ زیادہ ہے
جناب اب پاکستان میں جنرلز کی نہیں زرداری کی حکومت ہے۔ اب تو جنرلز کی خطا معاف فرما دیں حضور!!!!۔
کہیں اپ کو جنرلز فوبیا تو لاحق نہیں ہے :)
 

نایاب

لائبریرین
جی ہاں آپ سے متفق ہوں کہ فوج کو اپنے پیشہ وارانہ امور سے کام رکھنا چاہئیے ۔ ملک چلانا ، کھاد بیچنا ، اور سیاست کرنا اس میں کرپشن کی آبیاری کرتا ہے۔ تبھی تو اس ناکام ترین موجودہ نام نہاد جمہوری حکومت کو بھی میں فوجی آمریت پر فوقیت دیتا ہوں۔
ورکنگ گروپ سے نہ ملنے کا چیف جسٹس کا فیصلہ درست ہے۔ لاپتہ افراد کے بارے میں جب پاکستانی عدالت میں کیس چل رہا ہے اور چیف جسٹس اسے خود دیکھ رہے ہیں تو دوسرے کیوں اس میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ برما جائیں جہاں ان کے جانے کا نہ صرف جواز بنتا ہے بلکہ وہیں اس ورکنگ گروپ کی ضرورت ہے۔
ورکنگ گروپ سے بات کرنے کے لئے وزیر کے درجے کا حکومتی بندہ ہی کافی ہے۔زیادہ سے زیادہ حنا ربانی کھر ان کو چائے کا کپ پلا دیں۔ آخر ہم ان کے ناجائز مطالبات کیوں مانیں؟۔ جبکہ اب پاکستان میں انہی کی اتحادی جمہوری حکومت ہے اور اسی جمہوری حکومت کی اعلیٰ ترین عدالت اس کیس کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے تو یہ کس لئے ٹانگ اڑانے ائے ہیں؟ ۔ کیا کوئی دوسرا ملک ہمیں اپنے عدالتی معاملات میں ناک گھسیڑنے کی اجازت دے گا ۔ اقوام متحدہ کا ادارہ ایسے ہی اقدامات سے امریکہ نوازی کرتے ہوئے اپنی ساکھ گنوا رہا ہے۔
چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جناب اب پاکستان میں جنرلز کی نہیں زرداری کی حکومت ہے۔ اب تو جنرلز کی خطا معاف فرما دیں حضور!!!!۔
کہیں اپ کو جنرلز فوبیا تو لاحق نہیں ہے :)
سب جانتے ہیں ملک میں کس کی حکومت ہے۔
ملک توڑنے والے اور اسکو نقصان پہچانے والے نااہلوں کی کوئی معافی نہیں ۔ جلد ہی اپنے انجام کو پہنچیں گے قوم کو نقصان پہچانے والے
 

سید زبیر

محفلین
تو یہ کونسی نئی بات ہے اس میں کوئی شک ہے کیا ؟ ویسے اب اگر اسے دوبارہ جیل سے نکال کر آئی ایس آئی لے گئی اور دوبارہ لتر پریڈ کی تو کون روک لے گا؟:ROFLMAO:
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنا وسیع نیٹ ورک ، قوم کا ان آڈٹ ایبل سرمایہ استعمال کرنے والی اس ایجنسی کے ہوتے ہوئے یہ سارا کام بخیر و خوبی سر انجام ہو گیا ۔ہم کب تک ہاتھ ملتے ہی رہیں گے اور یہ بیرون ملک کے دورے کرتے رہیں گے ۔عوام لتر پریڈ ہی برداشت کرتی رہے گی اب تو یو این کے باس بھی مسسنگ پرسن کے لیے آگئے ۔
 

باباجی

محفلین
ساجد صاحب اپکو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ میری مراد حکومتی طبقہ سے فوجی حکومت تھی یعنی فوجی جنرلز۔

دوسرے بات یہ ہے کہ اگر دنیا میں کہیں غلط ہورہا ہے تو یہ پاکستان میں ہونےوالے اقدام کے لیے جواز نہیں۔
عالمی حالات کے تناظر میں ہی کہہ رہا ہوں کہ یہ جنرلزمشرف کے دور میں پاکستان کو بے حد نقصان پہنچاچکے ہیں اور اسی طرح کی پالیسیاں چلتی رہی تو ملک خدانہ خواستہ پھر ٹوٹ نہ جائے۔ اج اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ ایا ہے بعد میں کہیں کچھ اور قرارداد نہ منظور ہوجاے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذلت کا ایک اور داغ ہماری افواج پر لگ جائے ان فوجی جنرلوں اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے۔
خان بھائی
جنرلز نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا تو یہ جمہوریت کے نام لیوا
کیا دودھ کے دھلے ہوتے ہیں ؟؟؟
پچھلے 65 سالوں میں
اس ملک کو کس نے چاہا ہے ؟
سب نے کھایا ہے اور یہ اس چھوٹے سے ملک پاکستان کا احسان ہے کہ سب کو کھلا رہا ہے
میرے نزدیک جمہوریت تباہی ہے غداروں کی تحریک کا نام جمہوریت ہے
 
Top