پاکستان ٹورنامنٹ میں بہت اچھا کھیلا۔ اگر آپ ٹیم کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ آپ 17 سال کے ایک بالر کے بل بوتے پر دنیا کی بہترین ٹیم کو ہرانے میں کامیاب ہوئے (بھارت) اور انتہائی کم ہدف کے باوجود دفاعی چیمپین (آسٹریلیا) کو شکست کے دہانے پر لے آئے۔ سیمی فائنل تک پاکستان کی رسائی ہی بہت بڑی بات تھی۔ ایک ایسے گروپ میں جس کا اس کا مقابلہ آسٹریلیا اور بھارت جیسی مضبوط ٹیموں سے تھا مجھے تو امید ہی نہ تھی کہ پاکستان پہلے راؤنڈ سے باہر نکل پائے گا۔
میرے خیال میں یونس کا کھیلنے کا فیصلہ اچھا تھا، شاید انہیں ورلڈ کپ 96ء کے کوارٹر فائنل کے بعد وسیم اکرم کی آج تک ہونے والی بے عزتی یاد ہے جب وسیم نے ان فٹ ہونے کے باعث کھیلنے سے انکار کیا تھا اور شکست کی تمام تر ذمہ داری پھر انہی پر ڈالی گئی۔ اگر یونس کی عدم موجودگی میں پاکستان نیوزی لینڈ سے ہارتا تو قوی امکان تھا کہ تمام تر ذمہ داری یونس پر ڈال دی جاتی کہ وہ سٹہ کھیل کر الگ ہو گئے۔ یونس سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اتنے بڑے گیم میں جب آپ کے اوپر دباؤ ہو تو غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے ہاتھ سے میچ اسی وقت نکل گیا تھا جب اس کی 4 وکٹیں گر گئی تھیں۔ اگر عمر اکمل سائمن ٹوفل کے اندھے فیصلے کا نشانہ نہ بنتے تو امید تھی کہ شاید کچھ مزید اسکور ہو جاتا لیکن شعیب ملک، شاہد آفریدی اور رانا نوید الحسن نے جس بے وقوفانہ انداز میں اپنی وکٹیں گنوائی ہیں اس پر ان کی بازپرس ہونی چاہئے۔
شائقین کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ٹیم ایسے ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل تک پہنچی جس میں بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا جیسی ہاٹ فیورٹ ٹیمیں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو گئیں۔