رضوان

محفلین
وہ آدمي ہے مگر ديکھنے کي تاب نہيں:
يادش بخير! ميں نے 1945 ميں جب قبلہ کو پہلے پہل ديکھا تو ان کا حليہ ايسا ہو گيا تھا جيسا اب ميرا ہے۔ ليکن ذکر ہمارے يار طرح دار بشارت علي فاروقي کے خسر کا ہے، لٰہذا تعارف کچھ انہي کي زباں سے اچھا معلوم ہوگا۔ ہم ني بارہا سنا آپ بھي سنيے۔
،،وہ ہميشہ سے ميرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے ميں ميرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے ميں انہيں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھي يقينا وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت ميں نے بولنا شروع نہیں کيا تھا۔ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور ميں رشتے ناتے ابلي ھوئي سويّوں کي طرح الجھے اور پيچ در پيچ گھتے ہوتے ہیں۔ ايسا جلالي، ايسا مغلوب الغضب آدمي زندگي ميں نہيں ديکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا توميري عمر آدھي ادھر ، آدھي ادھر ، چاليس کے لگ بھگ تو ہوگي۔ ليکن صاحب! جيسي دہشت ان کي آنکھيں ديکھ کر چھٹ پن ميں ہوئي تھي، ويسے ہي نہ صرف ان کے آخري دم تک رہي، بلکہ ميرے آخري دم تک بھي رہےگي۔ بڑي بڑي آنکھيں اپنے ساکٹ سے نکلي پڑتي تھيں۔ لال سرخ۔ ايسي ويسي؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑي بڑي پتليوں کے گردلال ڈوروں سے ابھي خون کے فوارے چھوٹنے لگيں گے اور ميرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے ميں بھرے رھتے تھے۔ جنے کيوں۔گالي ان کا تکيہ کلام تھي۔ اور جو رنگ تقرير کا تھا وہي تحرير کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے ۔ ظاہر ہے کچہ ايسے لوگوں سے بھي پالا پڑتا تھا، جنہيں بوجوہ گالي نہيں دے سکتے۔ ايسے موقعوں پر زبان سے تو کچہ نہ کہتے ليکن چہرے پر ايسا ايکسپريشن لاتے کہ قد آدم گالي نظر آتے۔ کس کي شامت آئي تھي کہ ان کي کسي بھي رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئي شخص محض ڈر کے مارے ان کي رائے سے اتفاق کرليتا تو فورا اپني رائے تبديل کر کے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔
،،ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کي بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہو جاتے تھے، آپ کچھ بھي کہيں، کيسي ہي سچي اور سامنے کي بات کہيں وہ اس کي ترديد ضرور کريں گے۔ کسي کي رائے سے اتفاق کرنے ميں اپني سبکي سمجھتے تھے۔ ان کا ھر جملہ نہيں سے شروع ہوتا تھا۔ ايک دن کانپور ميں کڑاکے کي سردي پڑ رہي تھي۔ ميرے منھ سے نکل گيا کہ ،آج بڑي سردي ہے، بولے ،نہيں۔ کل اس سے زيادہ پڑے گي،۔
،،وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر ليکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کي جسارت نہ ہوئي۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو ميں بيٹھے تھے۔ قاضي نے مجھ سے پوچھا قبول ہے؟ ان کے سامنے منھ سے ہاں کہنے کي جرائت نہ ہوئي۔ بس اپني ٹھوڑي سے دو مودبانہ ٹھونگيں مارديں جنہيں قاضي اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کيلئے ناکافي سمجھا قبلہ کڑک کر بولے ،لونڈے بولتا کيوں نہیں؟، ڈانٹ سے ميں نروس ہوگيا۔ ابھي قاضي کا سوال بھي پورا نہيں ہوا تھا کہ ميں نے ،جي ہاں قبول ہے، کہہ ديا۔ آواز ايک لخت اتنے زور سے نکلي کہ ميں خود چونک پڑا قاضي اچھل کر سہرے ميں گھس گيا۔ حاضرين کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہيں کہ اتنے زور کي ہاں سے بيٹي والوں کي ہيٹي ہوتي ہے۔ بس تمام عمران کا يہي حال رہا۔ اور تمام عمر ميں کربِ قرابت داري وقربتِ قہري دونوں ميں مبتلا رہا۔
،،حالانکہ اکلوتي بيٹي، بلکہ اکلوتي اولاد تھي اور بيوي کو شادي کے بڑے ارمان تھے،ليکن قبلہ نے مائيوں کے دن عين اس وقت جب ميرا رنگ نکھارنے کيلئے ابٹن ملا جارہا تھا، کہلا بھيجا کہ دولہا ميري موجودگي ميں اپنا منہ سہرے سے باھر نہيں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواري سے اتر جائے گا اور پيدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نےاس طرح کہا جيسے اپنے فيض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہيں۔ اور سچ تو يہ ھے کہ قبلہ کي دہشت دل ميں ايسي بيٹھ گئي تھي کہ مجھے تو عروسي چھپر کھٹ بھي پھانسي گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نےيہ شرط بھي لگائي کہ براتي پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہر گز يہ نہيں کہيں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈيوڑھي نہيں پڑي۔ خوب سمجھ لو، ميري حويلي کے سامنے بينڈ باجا ہر گز نہيں بجے گا۔ اور تمہيں رنڈي نچواني ہے تو Over my dead body، اپنے کوٹھے پر نچواؤ۔
،،کسي زمانے ميں راجپوتوں اور عربوں ميں لڑکي کي پيدائش نحوست اور قہر الٰہي کي نشاني تصور کي جاتي تھي۔ ان کي غيرت يہ کيسے گوارا کرسکتي تھي کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائيدہ لڑکي کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشيانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑدينے کے حق ميں تھے۔
،،چہرے، چال اور تيور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈي ميں ان کي عمارتي لکڑي کي ايک معمولي سي دکان ہے۔ نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد سينہ اور آنکھيں ، تينوں بيک وقت نکال کر چلتے۔ ارے صاحب! کيا پوچھتے ہيں؟ اول تو ان کے چہرے کي طرف ديکھنے کي ہمت نہيں ہوتي تھي، اور کبھي جي کڑا کرکے ديکھ بھي ليا تو بس لال بھبو کا آنکھيں نظر آتي تھيں۔
نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتي ہے اسد​
رنگ گندمي آپ جيسا ، جسےآپ اس گندم جيسا بتاتے ہيں جسے کھاتے ہي حضرت آدم، بيک بيوي و دو گوش جنت سے نکال ديے گئے۔ جب ديکھو جِھلاّ تے تنتناتے رہتے ہيں۔ مزاج ،زبان اور ہاتھ کسي پر قابو نہ تھا۔ دائمي طيش سي لرزہ براندام رہنے کے سبب اينٹ، پتھر، لاٹھي، گولي، گالي،کسي کا بھي نشانہ ٹھيک نہيں لگتا تھا۔ گچھي گچھي مونچھيں جنہيں گالي دينے سے پہلے اور بعد ميں تاؤ ديتے۔ آخري زمانے ميں بھوؤں کو بھي بل دينے لگے۔ گھٹا ہوا کسرتي بدن ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا۔ چني ھوئي آستين اور اس سے بھي مہين چني ہوئي دوپلي ٹوپي۔ گرميوں ميں خس کا عطر لگاتے۔ کيکري کي سِلائي کا چوڑي دار پاجامہ، چوڑيوں کي يہ کثرت کہ پاجامہ نظر نہيں آتا تھا۔ دھوبي الگنی پر نہیں سکھاتا تھا۔ علیحدہ بانس پر دستانے کی طرح چڑھا دیتا تھا۔ آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر بلائيں تو چوڑي دار ہي ميں برآمد ہوں گے۔
،،واللہ! ميں تو يہ تصور کرنے کي بھي جرات نہيں کرسکتا کہ دائي نے انہيں چوڑي دار کے بغير ديکھا ہوگا۔ بھري بھري پنڈليوں پر خوب کھبتا تھا۔ ہاتھ کے بنےريشمي ازار بند ميں چابيوں کا گچھا چھنچھناتا رہتا۔ جو تالے برسوں پہلے بے کار ھوگئے تھے ان کي چابياں بھي اس گچھے ميں محفوظ تھيں۔ حد يہ کہ اس تالے کي بھي چابي تھي جو پانچ سال پہلے چوري ہوگيا تھا۔ محلے ميں اس چوري کابرسوں چرچا رہا۔ اس لئے کہ چور صرف تالا، پھرہ دينے والا کتا اور ان کا شجرہ نصب چرا کر لے گيا تھا۔ فرماتے تھے کہ اتني ذليل چوري صرف کوئي عزيز رشتے دار ہي کرسکتا ہے۔ آخري زمانے ميں يہ ازاربندی گچھا بہت وزني ہو گيا تھا اور موقع بے موقع فلمي گيت کے بازو بند کي طرح کھل کھل جاتا۔ کبھي جھک کر گرم جوشي سےمصافحہ کرتے تو دوسرے ہاتھ سے ازار بند تھامتے، مئي جون ميں ٹمپريچر 110 ہوجاتااور منہ پر لو کے تھپڑ سے پڑنے لگتے تو پاجامے سے ائير کنڈينشنگ کرليتے۔ مطلب يہ کہ چوڑيوں کو گھٹنوں گھٹنوں پاني ميں بگھو کر سر پر انگوچھا ڈالے، تربوز کھاتے۔ خس خانہ و برفاب کہاں سے لاتے۔ اس کے محتاج بھی نہ تھے۔ کتني ہي گرمي پڑے۔ دکان بند نہيں کرتےتھے۔ کہتے تھے ،مياں! يہ تو بزنس، پيٹ کا دھندا ہے۔ جب چمڑے کي جھونپڑي ( پيٹ ) ميں آگ لگ رہي ہو تو کيا گرمي کيا سردي،۔ ليکن ايسےميں کوئي شامت کا مارا گاہک آنکلے تو برا بھلا کہہ کے بھگا ديتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کھنچا کھنچا دوبارہ انہي کے پاس آتا تھا۔ اس لئے کہ جيسي عمدہ لکڑي وہ بيچتے تھے۔ ويسي سارے کانپور ميں کہيں نہيں ملتي تھي۔ فرماتے تھے، داغي لکڑي بندے نے آج تک نہيں بيچي، لکڑي اورداغ دار؟ داغ تو دو ہي چيزوں پرسجتا ہے۔ دل اور جواني۔
 

رضوان

محفلین
لفظ کے لچّھن اور بازاري پان
تمباکو، قوام، خربوزے اور کڑ ہے ہوئے کُرتے لکھنو سے حقہ مراد آباد اور تالے علي گڑھ سے منگواتے تھے۔حلوہ سوہن اور ڈپٹی نذير احمد والے محاورے دلّي سے۔ دانت گرنے کے بعد صرف محاوروں پر گزارا تھا۔ گالياں البتہ مقامي بلکہ خانہ ساز ديتے جن ميں سلامت ورواني پائي جاتي تھي۔ طبع زاد ليکن بلاغت سے خالي۔ بس جغرافيہ سا کھينچ ديتے تھے۔ سليم شاہي جوتياں اور چنري آپ کے جے پور سے منگواتے تھے۔ صاحب آپ کا راجھستان بھي خوب تھا۔ کيا کيا سوغاتيں گنوائيں تھيں اس دن آپ نے۔۔۔۔۔؟ کھانڈ، سانڈ ، بھانڈ اور رانڈ۔ اور يہ بھي خوب رہي کہ مارواڑيوں کو جس چيز پر بھي پيار آتا ہے اس کے نام ميں ٹھ ، ڈ، اور ڑ لگا ديتے ہيں۔ مگر يہ بات آپ نے عجيب بتائي کہ راجستھان ميں رانڈ سے مراد خوب صورت عورت ہوتي ہے۔ مارواڑي زبان ميں سچ مچ کي بيوہ کے لئے بھي کوئي لفظ ہے کہ نہيں؟ يا سبھي خوب صورت نورُ ُ عليٰ نور بلکہ حورُ ُعليٰ حور ہوتي ہيں۔ ليکن يہ بھي درست ہے کہ سوسوا سو سال قبل تک رنڈي سے بھي مراد صرف عورت ہي ہوتي تھي۔ جب سے مردوں کي نيتيں خراب ہوئيں، اس لفظ کے لچھن بھي بگڑ گئے۔ صاحب! راجستھان کے تين طرفہ تحفوں کے تو ہم بھي قائل اور گھائل ہيں۔ ميرا بائي، مہندي حسن اور ريشماں۔
،،ہاں تو ميں کہہ يہ رہا تھا کہ باہر نکلتے تو ہاتھ ميں پان کي ڈبيا اور بٹوہ رہتا۔ بازار کا پان ھر گز نہيں کھاتے تھے۔ کہتے تھے بازاري پان صرف رنڈوے ،تماش بين اور بمبئي والے کھاتے ہيں۔ صاحب، يہ نفاست اور پرہيز ميں نے انھي سے سيکھا۔ ڈبيا چاندي کي۔ نقشين۔ بھاري۔ ٹھوس۔ اس ميں جگہ جگہ ڈينٹ نظر آتے تھے جو انساني سروں سے تصادم کے باعث پڑے تھے۔ طيش ميں اکثر پانوں بھري ڈبیا پھينک مارتے۔ بڑي دير تک تو يہ پتہ ہي نہيں چلتا تھا کہ مضروب کے سر اور چہرے سے خون نکل رہا ہے یا بکھرے پانوں کي لالي نے غلط جگہ رنگ جمايا ہے۔ بٹوے خاص طور سے آپ کي جائے پيدائش رياست ٹونک سے منگواتے تھے۔ کہتے تھے کہ وہاں کے پٹوے ايسے ڈورے ڈالتے ہيں کہ اک ذرا گھنڈي کو جھوٹوں ہاتھ لگا دو تو بٹوہ آپي آپ مصاحبوں کي باچھوں کي طرح کھلتا چلا جاتا ہے۔ گٹکا بھوپال سے آتا تھاليکن خود نہيں کھاتے تھے۔ فرماتے تھے ميٹھا پان، ٹھمري، گٹکا اور ناول۔ يہ سب نابالغوں کے شغل ہيں۔ شاعري سے کوئي خاص دلچسپي نہ تھي۔ رديف قافيے سے آزاد شاعري سے بطور خاص چڑتے تھے۔ يوں بھي، بقول شخصے، آزاد شاعري کي مثال ايسي ہے جيسے بغير نيٹ کے ٹينس کھيلنا۔ ليکن اتنا ضرور تھا کہ اردو فارسي کےجتنے بھي اشعار لکڑي ، آگ ، دھويں، ہيکڑي، لڑمرنے، ناکامي اور خوداري سے متعلق ہيں سب ياد کررکھے تھے۔ صورت حال کبھي قابو سے باہر ہوجاتي تو شعر سے اس کا دفعيہ فرماتے۔ آخري زمانے ميں عزلت گزيں اور مردم بيزار ھوگئے تھے اور صرف دشمنوں کے جنازے کو کندھا دينے کے لئے باہر نکلتے تھے۔ خود کوکاسني اور بيوي کو موتيا رنگ پسند تھا۔ شيرواني ہميشہ موتيا رنگ کے ٹسر کي پہني۔،،
 

رضوان

محفلین
واہ کيا بات کورے برتن کي

واہ کيا بات کورے برتن کي!
بشارت کي زباني تعارف ختم ہوا۔ اب کچھ ميري کچھ ان کي زباني سنيے اور رہي سھي زبان خلق سے جسے کوئي نہيں پکڑسکتا۔
کانپور ميں پہلے بانس منڈي اور پھر کوپرگنج ميں قبلہ کي عمارتي لکڑي کي دکان تھي۔ اسي کو اپ ان کا حیلہ معاش اور وسيلہ مردم آزاري کہہ سکتے ہيں۔ تھوڑي بہت جلانے کي لکڑي بھي رکھتے تھے مگر اسے کبھي بھي لکڑي نہیں کہا۔ سوختہ يا ہيزم سوختنی کہتے تھے۔ ان کي دکان کو کبھي کوئي نا آشنا ئے مزاج ٹال کہہ ديتا تو دوسيري لے کر دوڑتے تھے۔ جواني ميں پنسيري لے کر دوڑتے تھے۔ تمام عمر پتھر کے باٹ استعمال کئے فرماتے تھے۔ لوہے کے فرنگي باٹ بھاري اور بے برکت ہوتے ہيں۔ پتھر کے باٹ کوبازؤں ميں بھر کے، سينے سے لگا کر اٹھانا پڑتا ہے۔ اعمال تو دور رہے ، کسي کو يہ جرات نہيں ہوئي کہ ان پتھروں کا وزن ہي کروالے۔ کس کي شامت آئي تھي کہ ان کی دی ہوئي رقم يا لوٹائي ہوئي ريزگاري گن لے۔ اس زمانے ميں، يعني اس صدي کي تيسري دہائي ميں عمارتي لکڑي کي کھپت بہت کم تھي۔ ،سال، اور چيڑ کا رواج عام تھا۔ بہت ھوا تو چوکھٹ اور دروازے شيشم کے بنواليے۔ ساگوان تو صرف امرا رؤسا کي ڈائننگ ٹيبل اور گوروں کے تابوت ميں استعمال ہوتي تھي۔ فرنيچر ہوتا ہي کہاں تھا۔ بھلےگھروں ميں فرنيچر کے ذيل ميں صرف چارپائي آتي تھي۔ جہاں تک ہميں ياد پڑتا ہے۔ ان دنوں کرسي صرف دو موقعوں پر نکالي جاتے تھي۔ اول ، جب حکيم ، ويد، ھوميوپيتھ ، پير ، فقير اور سيانوں سے مايوس ہو کر ڈاکٹر کو گھر بلايا جائے۔ اس پر بيٹھ کے وہ جگہ جگہ اسٹے تھس کوپ لگا کر ديکھتا کہ مريض اور موت کے درميان جو خليج حائل تھي اسے ان حضرات نے اپني دواؤں اور تعويز گنڈوں سے کس حد تک پُر کيا ہے۔ اس زمانے کا دستور تھا کہ جس گھر ميں موسمبي يا مہين لکڑي کي پٹاري ميں روئي ميں رکھے ہوئے پانچ انگور آئيں يا سولا ہيٹ پہنے ڈاکٹر آئے (اور اس کے آگے آگے ہٹو بچو کرتا ہوا تيمار دار خصوصي اس کا چمڑے کا بيگ اٹھائے) تو اڑوس پڑوس والے جلدي جلدي کھانا کھا کر خود کو تعزيت اور کاندھا دينے کے لئے تيار کرليتے تھے۔ در حقيقت ڈاکٹر کو صرف اس مرحلے پر بلا کر اس کرسي پر بيٹھا ديا جاتا تھا جب وہ صورت حال پيدا ہو جائے جس ميں دو ہزار سال پہلے لوگ حضرت عيسي کو آزماتے تھے۔ کرسي کے استعمال کا دوسرا اور آخري موقع ہمارے يہاں ختنوں پر آتا تھا جب لڑکے کو دولہا کي طرح سجا بنا کر اور مٹّي کا کھلونا ہاتھ ميں دے کر اس کرسي پر بيٹھا ديا جاتا تھا۔ اس جلاّدي کرسي کو ديکھ اچھے اچھوں کي گھگھي بندھ جاتي تھي۔ غريبوں ميں اس مقصد کے ليے نئے ماٹ يا لمبي وضع کےکورے مٹکے× کو الٹا کرکے سرخ کپڑا ڈال ديتے تھے۔


--------------------------------------------------------------------------------------------

× کورے مٹکے کاذکر آیا تو نوکِ قلم پر بے اختیار نظیر اکبر آبادی جسے نقل کیے بغیر رہا نہیں جاتا:
تازگی دل کی اور تَری تن کی
واہ کیا بات کورے برتن کی​
نظیر اکبر آبادی کی کیا بات ہے۔ کوئی سی نظم اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ انھیں جہاں کہیں قدرت کی کاریگری یا خدا کی شان نظر آجاتی ہے، وہیں پائے بتاں پہ سر بسجود ہو کر ثنائے سراپا میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ پنہاری کے سر پر کورا مٹکا دیکھا تو ردیف کافیے کی کانی اوٹ لیکر سارے سراپا کو نظروں سے کھوند ڈالا۔ پھر تو ،، اس کا جوبن کچھ اور ہی مٹکا،، اس میں وہ اپنے دل اور قافیے کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ جہاں جہاں وہ لے جائیں، چاؤ سے جاتے ہیں۔ حد یہ کہ گھڑونچی اور لوٹا دیکھ کر صبر و قافیہ ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ دل میں خیالاتِ فاسد پیدا ہونے لگتے ہیں:
کوری ٹھلیا پہ دیکھ کرلوٹا
دل لگا ہونے کچھ کھرا کھوٹا​
اس میں بیچارے (ٹونٹی دار؟) لوٹے کا بظاہر صرف اتنا قصور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے معشوق سے مشابہت رکھتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
چارپائي
سچ تو يہ ہے کہ جہاں چارپائي ہو وہاں کسي فرنيچر کي ضرورت، نہ گنجائش، نہ تُک، انگلستان کا موسم اگر اتنا ذليل نہ ہوتا اور انگريزوں نے بروقت چار پائي ايجاد کرلي ہوتي تو نہ صرف يہ کہ وہ موجودہ فرنيچر کي کھکھیڑ سے بچ جاتے ، بلکہ پھر آرام دہ چار پائي چھوڑ کر، کا لونيز بنانے کي خاطر، گھر سے باہر نکلنے کو بھي ان کا دل نہ چاہتا، اوور ورکڈ سورج ان کي سلطنت پر ايک صدي تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کي ڈيوٹي سے بچ جاتا۔ اور کم از کم آج کل کے حالات ميں اٹواٹي کھٹواٹي لےکر پڑا رہنے کے لئے ان کے گھر ميں کوئي ڈھنگ کي چيز تو ہوتي۔ ہم نے ايک دن پروفيسر قاضي عبدالقدوس ايم اے ، بي ٹي سے کہا کہ بقول آپ کے، انگريز تمام ايجادات کے موجد ہيں۔ آسائش پسند، بے حد پريکٹکل لوگ ہيں۔ حيرت ہے چار پائي استعمال نہيں کرتے! بولے ادوان کسنے سے جان چراتے ہيں۔ راقم الحروف کے خيال ميں ايک بنيادي فرق ذہن ميں ضرور رکھنا چاہئيے۔ وہ يہ کہ يورپين فرنيچر صرف بيٹھنے کے ليے ہوتا ہے۔ جب کہ ہم کسي ايسي چيز پر بيٹھتے ہي نہيں جس پر ليٹ نہ سکيں۔ مثال ميں دري، گديلے، قالين، جازم، چاندني، چارپائي،کوچہ يار اور پہلوئے دلدار کو پيش کيا جاسکتا ہے۔ ايک چيز ہمارے ہاں البتہ ايسي تھي، جسے صرف بيٹہنے کے لئے استعمال کيا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتےہيں۔ ليکن جب انہيں اس پر لٹکا کر اور پھر لٹا کر نہلا ديا جاتا ہے تو يہ تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
اسٹيشن، لکڑي مَنڈي اور بازارِ حُسن ميں بجوگ
مقصد اس تمہيد غير دل پزير کا يہ کہ جہاں چارپائي کا چلن ہو وہاں فرنيچر کي بزنس پنپ نہيں سکتي۔ اب اسے چوب عمارتي کہيے يا ہيزم غير سوختني، دھندا اس کا بھي ہميشہ مندا ہي رہتا تھا کہ دکانوں کي تعداد گا ہکوں سے زيادہ تھي۔ لہذا کوئي شخص ايسا نظر آجائے جو حليے اور چال ڈھال سے ذرا بھي گا ہک معلوم ہوتو لکڑ منڈي کے دکان دار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بيشتر گاہک گرد نواح کے دیہاتي ہوتے جو زندگي ميں پہلي اور آخري بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑي سے دو ہي مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ايک، اپنا گھر بناتے وقت۔ دوسرے اپنا کريا کرم کرواتے سمے۔ قيام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلي يا لاہور کے ريلوے اسٹيشن کا نقشہ ديکھا ہے، وہ اس چھينا جھپٹي کا بخوبي اندازہ کرسکتے ہيں۔ 1945 ميں ہم نے ديکھا کہ دلي سے لاہور آنے والي ٹرين کے رکتے ہي جيسے مسافر نے اپنے جسم کا کوئي حصہ دروازے يا کھڑکي سے باہر نکالا، قلي نے اسي کو مضبوطي سے پکڑ کے سالم مسافر کو ہتھيلي پررکھا اور ہوا ميں اَدھر اٹھاليا۔ اور اٹھا کر پليٹ فارم پر کسي صراحي يا حقے کی چلم پر بٹھا ديا۔ ليکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خود بخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ويسا ہي ہوا جيسا اردو کي کسي نئي نويلي کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جوچيز جتني بھي جس کے ہاتھ لگي، سر پر رکھ کر ہوا ہو گيا۔ دوسرے مرحلے ميں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ايجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفيد ڈرل کا کوٹ پتلون، سفيد قميض، سفيد رومال، سفيد کينوس کے جوتے، سفيد موزے، سفيد دانت۔ اس کے باوجود ہم محمد حسين آزاد کے الفاظ ميں ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ چنبيلي کا ڈھير پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کي ہر چيز سفيد اور اجلي ہوتي۔ سوائے چہرے کے، ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔ يہ مسافر پر اس طرح گرتے جيسے انگلستان ميں رگبي کي گيند اور ايک دوسرے پر کھلاڑي گرتے ہيں۔ ان کي ساري تگ ودو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نھيں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلّی اور یو پی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹي دار لوٹے، مستورات، کثرت اطفال اور قيمے پراٹھے کے بھبکے سے فورا پہچان ليتے اور ،، اسلام عليکم Brother in Islam ،، کہہ کر لپٹ جاتے۔ مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ھي دھينگا مشتي کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترين حصے پر پڑتا وہي اسے گھسٹيتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور يا بوسيدہ حصوں پر پڑتا وہ بعد ميں ان کو بطور دستي رومال استعمال کرتے۔ نيم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپني سترکشائي کرواتا۔ اسٹيشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنھوں نے اکھاڑے کو ناکافي محسوس کرتے ہوئے تانگہ چلانے کا پيشہ اختيار کر ليا تھا۔ خود کو اس پر چھوڑ ديتے تھے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئي چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھي نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رام چندر جي کي کھڑاؤں کي طرح سجاديتے۔ اگر کسي کے چوڑي دار کمر بند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غريب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی ميں بندھا چلا آتا۔ کوئي مسافر کا دامن آگے سے کھينچتا، کوئي پیچھے سے زليخائي کرتا۔ آخري راونڈ ميں س ايک تگڑا سا تانگے والا سواري کا داياں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا باياں ہاتھ پکڑ کے tug of war کھيلنے لگتے۔ ليکن قبل اس کے ہر دو فريقين اپنے اپنے حصے کي ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگوں کے چرے ہوئے چمٹے کے نيچے بيٹھ کر مسافر کو يکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا ليتا اور تانگے ميں جوت کر ہوا ہو جاتا۔
کم و بيش يہي نقشہ کو پر گنج کي لکڑ منڈي کاہوا کرتا تھا۔جس کے قلب ميں قبلہ کي دکان تھي۔ گودام بالعموم دکان سے ملحق، عقب ميں ہوتے تھے۔ گاہک پکڑنے کے ليے قبلہ اور تين چڑي مار دکان داروں نے يہ کيا کہ دکانوں کے باہر سڑک پر لکڑي کے چھوٹے چھوٹے کيبن بناليے۔ قبلہ کا کيبن مسند تکيے، حقے، اگال دان اور اسپرنگ سے کھلنے والے چاقو سےآراستہ تھا۔ کيبن گويا ايک نوع کا مچان تھا جہاں سے گاہک کو مار گراتے تھے۔ پھر اسے چمکار پچکار کر اندر لے جايا جاتا جہاں کوشش يہ ہوتي تھي کہ خالي ہاتھ اور بھري جيب واپس نہ جانے پائے۔ جيسے ہي کوئي شخص جو قيافے سے گاہک لگتا، سامنے سے گزرتا تو دور و نزديک کے دکان دار اسےہا تھ کے اشارے سے يا آواز دے کر بلاتے ،، مہاراج مہاراج،، ان مہاراجوں کو دوسرے دکان داروں کے پنجے سے چھڑانے کيلئے اور خود گھسيٹ کر اپنے کچھار ميں لے جانے کے دوران اکثر ان کي پگڑياں کھل کر پيروں ميں الجھ جاتيں۔ اس سلسلے ميں آپس ميں اتنے جھگڑے اور ہاتھا پائي ہوچکي تھي کہ منڈي کے تمام بيوپاريوں ني پنجايتي فيصلہ کيا کہ گاہک کو صرف وہي دکان دار آواز دے کر بلا ئےگا جس کي دکان کے سامنے سے وہ گزر رہا ہو۔ ليکن جيسے ہي وہ کسي دوسرے دکان دار کے حلقہ تشدد ميں داخل ہوگا تو اسے کوئي اور دکان دار ہرگز آواز نہ دے گا۔ اس کے باوجود چھينا جھپٹي اور کشتم پچھاڑ بڑھتي ہي گئي تو ہر دکان دار کے آگے چونے سے حد بندي لائين کھينچ دي گئي۔اس سے يہ فرق پڑا کہ کشتي بند ہوگئي۔ کبڈي ہونے لگي۔ بعض دکان داروں نے مار پيٹ، گاہکوں کا ہانکا کرنے اور انہيں ڈنڈا ڈولي کرکے اندر لانے کے لئے بگڑے پہلوان اور شہر کے چھٹے ھوئے شُہدے اور مسٹنڈے پارٹ ٹائم ملازم رکھ لئے تھے۔ کساد بازاري اپني انتہا کو پہنچي ہوئي تھي۔ يہ لوگ دن ميں لکڑ منڈي ميں گاہکوں کو ڈرا دھمکا کر ناقص اور کنڈم مال خريدواتے اور رات کو يہي فريضہ بازار حسن ميں بھي انجام ديتے۔ بہت سے طوائفوں نے اپني آبرو کو ہر شب زيادہ سے زيادہ غير محفوظ رکھنے کي غرض سے ان کو بطور پمپ ملازم رکھ چھوڑا تھا۔ قبلہ نے اس قسم کا کوئي غنڈا یا بد کردار پہلوان ملازم نہيں رکھا کہ انہيں اپنے زورِبازو پر پورا بھروسہ تھا۔ ليکن اوروں کي طرح مال کي چِرائي کٹائي ميں مار کٹائي کا خرچہ بھي شامل کرليتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
آلات اخراجِ خون: جونک، سينگي، لاٹھي
ہمہ وقت طيش کا عالم طاري رہتا تھا۔ سونے سے پہلے ایسا موڈ بنا کر ليٹتے کہ آنکھ کھلتے ھي غصہ کرنے ميں آساني ہو۔ پيشاني کے تين بل سوتے ميں بھي نہيں مٹتے تھے۔ غصے کي سب سے خالص قسم وہ ہوتي ہے جو کسي اشتعال کي محتاج نہ ہو یا کسي بہت معمولي سے بات پر آجائے۔ غصے کے آخر ہوتے ہوتے يہ بھی یاد نہيں رہتا کہ آيا کس بات پر تھا۔ بيوي ان کو روزہ نہیں رکھنے ديتي تھيں۔ غالباً 1935 کا واقعہ ہے۔ ايک دن عشا کي نماز کے بعد گڑگڑا گڑگڑا کر اپني ديرينہ پريشانياں دور ہونے کي دعائيں مانگ رہے تھے کہ ايک تازہ پريشاني کا خيال آتے ہي ايک دم جلال آگيا۔ دعا ہي ميں کہنے لگے کہ تو نے ميري پراني پريشاني ہي کون سی رفع کرديں جو اَب یہ نئي پريشاني دور کرے گا اس رات مصّلا تہ کرنے کے بعد پھر کبھي نماز نہيں پڑھي۔
ان کے غصّے پر ياد آيا کہ اس زمانے ميں کن ميليے محلّوں بازاروں ميں پھيري لگاتے تھے۔ کان کاميل نکالنے پر ہي کيا موقوف، دنيا جہان کے کام گھر بيٹھےہوجاتے تھے۔ سبزي، گوشت اور سودا سلف کي خريداري، حجامت ، تعليم، زچگي، پيڑہي، کھاٹ، کھٹولے کي ------------يہاں تک کہ خود اپني مرمت بھي، سب گھر بيٹھے ہوجاتي۔ بيبيوں کے ناخن نہرني سے کاٹنے اور پيٹھ ملنے کے لئے نائنين گھر آتي تھيں۔ کپڑے بھي مغلانياں گھر آکر سيتيں تھيں تاکہ نامحرموں کو ناپ تک کي ہوا نہ لگے۔ حالانکہ اس زمانے کی زنانہ پوشاک کے جو نمونے ہماري نظر سے گزرے ہيں وہ ايسے ہوتے تھے کہ کسي بھي ليٹربکس کا ناپ ليکر سيے جاسکتے تھے۔ غرض کہ سب کام گھر ميں ہي ہوجاتے۔ حد یہ کہ موت تک گھر ميں واقع ہوتي تھي۔ اس کے لئے باہر جا کر کسي ٹرک سے اپني روح قبض کروانے کي ضرورت نہيں پڑتي تھي۔ فسادِ خون سے کسي کے بار بار پھوڑے پھنسي نکليں، يا دماغ ميں خيالاتِ فاسدہ کا ہجوم دن دہاڑے بھي رہنے لگے، تو گھر پر ہي فصد کھول دي جاتي تھی۔ فاضل و فاسد خون نکلوانے کي غرض سے اپنا سر پھڑوانے يا پھوڑنے کے لئے کسي سياسي جلسے ميں جانے يا حکومت کے خلاف مظاہرے کرکے لاٹھي کھانے کي ضرورت نہیں پڑتي تھي۔ اس زمانے ميں لاٹھي کو آلہ اخراج خون کے طور پر استعمال نہيں کيا جاتا تھا۔ جونک اور سينگي× لگانے والي کنجرياں روز پھيري لگاتي تھيں۔ اگر اس زمانے کے کسي حکيم کا ہاتھ آج کل کے نوجوانوں کي نبض پر پڑجائے تو کوئي نوجوان ايسا نہ بچے جس کے جہاں تہاں سينگي لگي نظر نہ آئے۔ رہے ہم جيسے آج کل کے بزرگ کہ
کي جس سے بات اس کو ہدايت ضرور کي​
تو کوئي بزرگ ايسا نہ بچے گا جس کي زباں پر حکيم صاحبان جونک نہ لگواديں۔
ہم واقعہ يہ بيان کرنے چلے تھے کہ گرميوں کے دن تھے قبلہ ادلے کا قورمہ اور خربوزہ تناول فرما کر کيبن ميں قيلولہ کر رہے تھے کہ اچانک کن ملييے نے کيبن کے دروازے پر بڑے زور سے آواز لگائي ،،کان کا ميل،، خدا جانے ميٹھي نيند سورہے تھے يا کوئي بہت ہي حسين خواب ديکھ رہے تھے جس ميں گاہک ان سے تگنے داموں دَھڑادَھڑ لکڑي خريد رہے تھے۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بيٹھے۔ ايک دفعہ تو دہل گئے۔ چق کے پاس پڑي ھوئي لکڑي اُٹھا کر اس کے پیچھے ہوليے۔ کمينے کي يہ جرات کہ ان کے کان سے فقط ايک گز دور بلکہ پاس ايسے گستاخانہ طريقے سے چيخے۔ يہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ آگے آگے وہ اور پيچھے پيچھے يہ، اس لئے قبلہ غصے ميں ايسے بھرے ہوئے تھے کہ کبھي کبھي اس سے آگے بھي نکل جاتے۔ سڑک پر کچھ دور بھاگنے کے بعد کن ميليا گليوں ميں نکل گيا اور آنکھوں سے اوجھل ھوگيا۔ مگر قبلہ محض اپني چھٹي حس کي بتائي ہوئي سمت ميں دوڑتے رہے اور يہ وہ سمت تھي جس طرف کوئي شخص جس کے پانچوں حواس سلامت ہوں، جارحانہ انداز ميں لکڑي لاٹھي گھماتا ہرگز نہ جاتا کہ يہ تھانے کي طرف جاتی تھي۔ اس وحشيانہ دوڑ ميں قبلہ کي لکڑي اور کن میليے کا پگڑ جس کے ھر پيچ ميں اس نےميل نکالنے کے اوزار اڑس رکھے تھے، زمين پر گر گيا۔ اس ميں سے ايک ڈبيا بھي نکلي جس ميں اس نے کان کا ميل جمع کر رکھا تھا۔ نظر بچا کر اسي ميں سے تولہ بھر ميل نکال کر دکھا ديتا کہ ديکھو يہ تمھارے کان سے نکلا ہے ۔ کسي کے کان سے گولر کے بھنگے برآمد کر کے کہتا کہ تمھارے کان ميں جو بھن بھن تن تن کي آوازيں آرہي تھيں وہ انھيں کي تھيں۔ ليکن يہ سچ ہے کہ وہ کان کي بھول بھليوں ميں اتني دور تک سہج سہج سلائي ڈالتا چلاجاتا کہ محسوس ہوتا ابھي کان کے راستے آنتيں بھي نکال کر ہتھيلي پر رکھ دے گا۔ قبلہ نے اس پگڑ کو بَلّي پر چڑھا کر بَلّی اپني کيبن کے سامنے اس طرح گاڑ دي جس طرح اگلے وقتوں ميں کوئي بے صبرا ولي عہد، يا وہ نہ ہو تو پھر کوئي دشمن، بادشاہ سلامت کا سرکاٹ کر نيزے پر ہر خاص و عام کي اطلاع کيلئے بلند کرديتا تھا۔ اس کي دہشت ايسي بيٹھي کہ دکان کے سامنے سے بڑھئي، کھٹ بُنے، سينگي لگانے واليوں اور سحري کيلئے جگانے والوں ني بھي نکلنا چھوڑ ديا۔ ملحقہ مسجد کا کريہہ الصوت موذّن بھي عقب والي گلي سے آنے جانے لگا۔
-----------------------------------------------------------------------------------
× سینگی: درد یا فسادِ خون ے مقام پر ہلکا سا شگاف لگایا جاتا تھا۔ پھر سوراخ کیے ہوئے سینگ کے بڑے دہانے کو اس پر رکھ کر اور سوراخ والے سرے کو منھ سے لگا کر سارا فاسد خون کھنچ لیا جاتاتھا۔ اس عمل کو یونانی طب کی اصطلاح میں سینگی لگانا اور اردو شاعری میں قافیہ کہتے ہیں۔
 

رضوان

محفلین
کانسي کي لٹيا، بالي عمريا اور چگي داڑھي
قبلہ اپنا مال بڑي توجہ، محنت اور محبت سے دکھاتے تھے۔ ،محبت، کا اضافہ ہم نے اس ليے کيا کہ وہ گاہک کو تو شير کي نظر سے ديکھتے، مگر اپني لکڑي پر محبت سے ہاتھ پھيرتے رہتے۔ کوئي سا گوان کا تختہ ايسا نہيں تھا۔ جس کے ريشوں کے ابر اور رگوں ( veins ) کا طغرٰي، اگر وہ چاہيں تو، يادداشت سے کاغذ پر نہ بناسکتےہوں۔ لکڑ منڈي ميں وہ واحد دکان دار تھے جو گاہک کو اپنا اور ہر شہتير اور بَلّي کا شجرہ نسب ازبر کراديتے تھے۔ ان کا اپنا شجرہ نسب بَلي سے بھي زيادہ لمبا تھا۔ اس پر اپنے جداعليٰ کو ٹانگ رکھا تھا۔ ايک بَلي کي قامَتِ زيبا کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ،،سوا انتاليس فٹ لمبي ہے! گونڈہ کي ہے۔ افسوس! اصغر گونڈوي کے غوغائے شاعري نے گونڈہ کي بَليوں کي شہرت کا بيڑا غرق کرديا۔ لاکھ کہو، اب کسي کو يقين ہي نہيں آتا کہ گونڈے کي اصل وجہِ شہرت خوب صورت بَلياں تھيں۔ اصغر گونڈوي سے پہلے ايسي سيدھي، بے گانٹھ بَلي ملتي تھي کہ چاليس فٹ اونچے سرے پر سے چھلاّچھوڑ دو تو بے روک ، سيدھا نيچےجھَن سے آگے ٹہرتا ہے۔،، ان کے ہاں کا ہر شہتير اصيل اور خانداني تھا۔ بيش تر تو خالص مغل يا روہيل کھنڈ کے پٹھان معلوم ہوتے تھے کہ ہر آئے گئے کے کپڑے پھاڑ تے اور خود مشکل سے چِرتے تھے۔ کبھي قبلہ کونے ميں پڑے ھوئے گرم و سرد سيلاب چشيدہ seasoned تختے کي طرف اتنے ادب و احترام سے اشارہ کرتے گويا ابھي ابھي جودي پہاڑ کي ترائي سے کشتي نوح ميں سے اکھاڑ کر بطور خاص ايک ,دانہ، آپ کے approval کے لئے لے آئے ہيں۔ کبھي برمي ساگوان کے لٹھے پر شفقت سے ہاتھ پھيرتے ہوئے کہتے ، مياں! ابھي اس کي عمر ہي کيا ہے! بچہ ہے۔ بہت سے بہت اسّي سال کا ڈيڑھ ڈيڑھ سو سال کا ساگوان اراودي کے جنگلوں ميں آندھي طوفان ميں بالکل کھڑي کمر استادہ رہتا ہے۔ ليکن صاحب ہے بلا کا سيز نڈ۔ سيکڑوں بارشوں اور سات درياؤں کا پاني پي کر يہاں پہنچا ہے۔ اور اس لٹھے پر تو مگر مچھ نے پيشاب بھي کيا ہے۔ (انگلي سے اشارہ کرتے ہوئے) يہ جو کنول نين گرہ نظر آرہي ہے، اس پر۔ مگر مچھ جس لکڑي پر مُوت دے اس کوحشر تک نہ ديمک لگ سکتي ہے، نہ آگ! اس پر خواجہ عبدالمجيد جو منشيانہ ڈيسک کے ليےلکڑي خريدنے آئےتھے، پوچھ بيٹھے ,,کيا مگرمچھ کھمبے کے بجائے درخت پر------ ،، وہ جملہ مکمل نہ کرپائے تھے کہ قبلہ تنک کر بولے جي نہيں! مگرمچھ تو سبيلِ اہلِ اسلام ميں زنجير سے بندھے ہوئے ٹين کے گلاس سے پاني پي کے، سڑک پر ٹہل ٹہل کر استنجا سکھاتے ہيں۔ آپ کے والدِ ماجد کي طرح ، آيا خيال شريف ميں؟،،
بس چوبيس گھنٹے مزاج کي کچھ ايسي ہي جوالا مکھي کيفيت رہتي تھي۔ ايک دفعہ حاجي محمد اسحاق چمڑے والے کچھ شیشم خريدنے آئے۔ قبلہ يوں تو ہر قسم کي لکڑی کی تعريف ميں زمين آسمان کے قلابے ملا ديتے تھے۔ ليکن شیشم پر سچ مچ فريفتہ تھے۔ اکثر فرماتےتخت طاؤس ميں شاہجہاں نے شيشم ہي لگوائی تھي۔ شيشم کے گن گاہک اور قدر دان تو قبر ميں جا سوئے۔ مگر کيا بات ہے شيشم کي جتنا استعمال کرو اتنے ہي جوہر کھلتے ہيں۔ شيشم کي جس چارپائي پر میں پیدا ہوا، اسی پر دادا میاں کی ولادت ہوئی تھی۔،، اپنے حسنِ تولد وتوارد کو قبلہ چارپائي اور دادا جان دونوں کے لئے باعث سعادت و افتخار سمجھتے ہيں۔ حاجي محمد اسحاق بولے ,,يہ لکڑي تو صاف معلوم نہيں ہوتي،، قبلہ نہ جانے کتنے برسوں بعد مسکرائے۔ حاجي صاحب کي داڑھي کو ٹکٹکي باندھ کر ديکھتے ہوئے ارشاد فرمايا ،،يہ بات ہم نے شيشم کي لکڑي،کانسي کي لٹيا، بالي عمريا اور چگي داڑھي ميں ہي ديکھي کہ جتنا ہاتھ پھيرو اتني ہي چمکتي ہے۔ اعلي ذات کي شيشم کي پہچان يہ ہے کہ آرا ، رندہ، برما سب کھُنڈے (کند) اورہاتھ شل ہوجائيں۔ يہ چيڑ تھوڑا ہي ہے کہ ايک ذرا کيل ٹھونکو توالف سے لے کر ے تک چِر جائے۔ پر ايک بات ہے۔ تازہ کٹي ہوئي چيڑ سے بَن مہکار کا ايک آبشار پھوٹ پڑتا ہے لگتا ہے اس ميں نہايا جا رہا ہوں۔ جس دن کارخانے ميں چيڑ کي کٹائي ہونے والي ہو۔ اس دن ميں عطر لگا کر نہيں آتا۔،،
قبلہ کا موڈ بدلا تو حاجی محمد اسحاق کی ہمت بندھی۔ کہنے لگے، یہ شیشم تو واقعی اعلیٰ درجے کی معلوم ہوتی ہے مگر سیزنڈ نہیں لگتی۔ قبلہ کے آگ ہی تو لگ گئی۔ فرمایا،، سیزنڈ! کتنے فاقوں میں سیکھا ہے یہ لفظ؟ اگر فقط سیزنڈ ہی چاہیے تو سب سے زیادہ سیزنڈ سامنے والی مسجد کے غسلِ میت کا تختہ ہے۔ بڑا پانی پیا ہے اس نے! لاؤں؟ اسی پہ لٹال دوں گا۔،،

 

رضوان

محفلین
سائي کے ساتھ عزتِ سادات بھي گئي
يوں تو ان کي زندگي ڈيل کارنيگي کے ہر اصول کي اول تا آخر نہايت کامياب خلاف ورزي تھي۔ ليکن بزنس ميں انہوں نے اپنے ہتھکنڈے الگ ايجاد کيے تھے۔ گاہک سے جب تک يہ نہ کہلواليں کہ لکڑي پسند ہے۔ اس کي قميت اشارتا بھي نہيں بتاتے تھے۔ وہ پوچھتا بھي تو صاف ٹال جاتے۔،، آپ بھي کمال کرتے ہيں۔ آپ کو لکڑي پسند ہے۔ لے جائيے۔ گھر کي بات ہے۔،، گاہک جب قطعي طور پر لکڑي پسند کرليتا تو قبلہ قيمت بتائے بغير، ہاتھ پھيلا کر بيعانہ طلب کرتے۔
سستا سماں تھا۔ وہ دونّي ياچونّي کي سائي پيش کرتا جو اس سودے کيلئے کافي ہوتي۔ اشارے سے دھتکارتے ہوئے کہتے، چاندي دکھاؤ (يعني کم ازکم ايک کلدار روپيہ نکالو) وہ بے چارہ شرما حضوري ايک روپيہ نکالتا جو اس زمانے ميں پندرہ سير گيہوں يا سير بھر اصلي گھي کے برابر ہوتا تھا۔ قبلہ روپيہ لے کر اپني ہتھيلي پر اس طرح رکھے رہتے کہ اسےتسلي کے لئے نظر تو آتا رہے، مگر جھپٹانہ مارسکے۔ ہتھيلي کو اپنے زيادہ قريب بھي نہ لاتے۔ مبادا سودا پٹنے سے پہلے گاہک بدک جائے۔ کچھ دیر بعد خود بخود کہتے ،،مبارک ہو! سودا پکا ہوگيا۔،، پھر قیمت بتاتے جسے سن کر وہ ہکا بکا رہ جاتا۔ وہ قيمت پر حجت کرتا تو کہتے ،،عجيب گھن چکر آدمي ہو۔ سائي دے کر پھرتے ہو۔ ابھي روپيہ دے کر سودا پکا کيا ہے۔ ابھي تو اس ميں سے تمھارے ہاتھ کي گرمائي بھي نہيں گئي اور ابھي پھر گئے۔ اچھا کہہ دو کہ يہ روپيہ تمھارا نہيں ہے۔ کہو، کہو،، قيمت ناپ تول کر ايسي بتاتے کہ کائياں سے کائياں گاھک دُبدھا ميں پڑ جاتا اور يہ فيصلہ نہ کرسکے کہ پيشگي ڈوبنے ميں زيادہ نقصان ہے يا اس بھاؤ لکڑي خريدنے ميں۔
دورانِ حجت کتني ہي گرما گرمي بلکہ ہاتھا پائي ہو جائے وہ اپني ہتھيلي کو چت ہی رکھتے۔ مٹھي کبھي بند نہيں کرتے تھے تاکہ بے آبرو ہوتے ہوئے گاہک کو اطمينان رہے کہ کم از کم سائي تو محفوظ ہے۔ ان کے بارے ميں ايک قصہ مشہور تھا کہ ايک سر پھرے گاہک سے جھگڑا ہوا تو دھوبي پاٹ کا داؤں لگا کر زمين پر دے مارا اور چھاتي پر چڑھ کے بيٹھ گئے۔ ليکن اس پوز ميں بھي اپني ہتھيلي جس پر روپيہ رکھا تھا، چت ہي رکھي تاکہ اسے يہ بدگماني نہ ہو کہ روپيہ ہتھيانا چاہتے ہيں۔ ليکن اس ميں شک نہيں کہ جيسي بے داغ اور اعلي لکڑي وہ بيچتے تھے، ويسي بقول ان کے ،،تمہيں باغِ بہشت ميں شاخِ طوبٰي سے بھي دستياب نہ ہوگي۔ داغي لکڑي بندے نے آج تک نہيں بيچي۔ سو سال بعد بھي ديمک لگ جائے تو پورے دام واپس کر دوں گا۔،، بات دراصل يہ تھی کہ وہ اپنے اصولوں کے پکے تھے۔ مطلب يہ کہ تمام عمر ،،اونچي دکان، صحيح مال، غلط مال،، پر سختي سے کار بند رہے۔ سنا ہے کہ دنيا کے سب سے بڑے فيشن ايبل اسٹور ،،ہيرڈز،، کا دعوي ہے کہ ہمارے پاس سوئي سے لے کر ہاتھي تک دستياب ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ قيمت بھي دونوں کي ايک ہی ہوتي ہے! ہيرڈز اگر لکڑي بيچتا تو باخدا ايسي ہي اوران ہي داموں بيچتا۔
 

رضوان

محفلین
يہ چھوڑ کر آئے ہيں
کانپور سے ہجرت کرکے کراچي آئے تو دنيا ہي اور تھي۔ اجنبي ماحول، بے روزگاري، بے گھري، اس پر مستزاد۔ اپني آبائي حويلي کے دس بارہ فوٹو مختلف زاويوں سے کھنچوا کر لائے تھے۔ “ذرا يہ سائيڈ پوز ديکھیے۔ اور يہ شارٹ تو کمال کا ہے۔“ ہر آئے گئے کو فوٹو دکھا کر کہتے “يہ چھوڑ کر آئے ہيں۔“ جن دفتروں ميں مکان کے الاٹ منٹ کي درخواستيں دي تھيں، ان کے بڑے افسروں کو بھي کٹہرے کے اس پار سے تصويري ثبوتِ استحقاق دکھاتے: “يہ چھوڑ کرآئے ہيں۔“ واسکٹ اور شيرواني کي جيب ميں کچھ ہو يا نہ ہو، حويلي کا فوٹو ضرور ہوتا تھا۔ يہ درحقيقت ان کا وزيٹنگ کارڈ تھا۔ کراچي کے فليٹوں کو کبھي ماچس کي ڈبيا ، کبھي دڑبے، کبھي کابک کہتے۔ ليکن جب تين مہينے جوتياں چٹخانے کے باوجود ايک کابک ميں سر چھپانے کو جگہ نہ ملي تو آنکھيں کھليں۔ احباب نے سمجھايا “فليٹ ايک گھنٹے ميں مل سکتا ہے۔ کسٹوڈين کي ہتھيلي پر پيسا رکھو اور جس فليٹ کي چاہو چابي لے لو۔“ مگر قبلہ تو اپني ہتھيلي پر پيسا رکھوانے کے عادي تھے، وہ کہاں مانتے۔ مہينوں فليٹ الاٹ کروانے کے سلسلے ميں بھوکے پياسے، پريشان حال سرکاري دفتروں کے چکر کاٹتے رہے۔ زندگي بھر کسي کے ہاں مہمان نہ رہے اب بيٹي داماد کے ہاں مہمان رہنے کا عذاب بھي سہا۔
 

رضوان

محفلین
اب کيا ہوئے گا؟
انسان جب کسي گھلادينے والے کرب يا آزمائش سے گزرتا ہے تو ايک ايک ساعت ايک ايک برس بن جاتي ہے اور يوں لگتا ہے جيسے
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار​
بيٹي کے گھر ٹکڑے توڑ نے يا اس پر بار بننےکا وہ تصور بھي نہيں کرسکتے تھے۔ کانپور ميں کبھي اس کے ہاں کھڑے کھڑے ايک گلاس بھی پاني پيتے تو ہاتھ پر پانچ دس روپے رکھ ديتے۔ ليکن اب؟ صبح سرجھکائے ناشتہ کرکے نکلتے تو دن بھر خاک چھان کر مغرب سے ذرا پہلے لوٹتے۔ کھانے کے وقت کہہ ديتےکہ ايراني ہوٹل ميں کھا آيا ہوں۔ جوتے انہوں نے ہميشہ رحيم بخش جفت ساز سے بنوائے۔اس لیے کہ اس کے بنائے جوتے چرچراتے بہت تھے۔ ان جوتوں کے تلے اب اتنے گھس گئے تھے، کہ چر چرانے کے لائق نہ رہے۔ پيروں ميں ٹھيکيں پڑگئيں۔ شيروانياں ڈھيلي ہوگئيں۔ بيمار بيوي رات کو درد سے کراہ بھي نہيں سکتي تھي کہ سمدھيانے والوں کي نيند خراب ہونے کا انديشہ تھا۔ ململ کے کرتوں کي لکھنوي کڑھائي ميل ميں چھپ گئي۔ چنٹيں نکلنے کے بعد آستينيں انگليوں سے ايک ايک بالشت نيچے لٹکي رہتيں۔ خضابي مونچھوں کا بل تو نہيں گيا، ليکن صرف بل کھائي ہوئي نوکيں سياہ رہ گئيں۔ چار چار دن نہانے کو پاني نہ ملتا۔ موتيا کا عطر لگائے تين مہينے ہوگئے۔
بيوي گھبرا کر بڑے بھولپن سے مضافاتي لہجے ميں کہتيں “اب کيا ہوئے گا؟“ ہوگا کے بجائے ،ہوئے گا، ان کے منھ سے بہت پيارا لگتا تھا۔ اس ايک فقرے ميں وہ اپني ساري سراسيمگي، معصوميت، بے بسي اور مخاطب کے علم نجوم اور اس کی بے طلب مدد پر بھروسا --------- سبھي کچھ سموديتي تھيں۔ قبلہ اس کے جواب ميں ہميشہ بڑے اعتماد اور تمکنت سے “ديکھتے ہيں“ کہہ کر ان کي تشفي کر ديتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
يہ زورِ دست و ضربتِ کاري کا ہے مقام
ہر دکھ، ہر عذاب کے بعد زندگي آدمي پر ايک راز کھول ديتي ہے۔ بودھ گيا کي چھاؤں تلے بدھ بھي ايک دکھ بھري تپسيا سے گزرے تھے۔ جب پيٹ پيٹھ سے لگ گيا، آنکھيں اندھے کنوؤں کي تہ ميں بےنور ہوئيں اور ہڈيوں کي مالا ميں بس سانس کي ڈوري اٹکي رہ گئي، تو گوتم بدھ پر بھي ايک بھيد کھلا تھا۔ جيسا اور جتنا اور جس کارن آدمي دکھ بھوگتا ہے، ويسا ہي بھيد اس پر کھلتا ہے۔ نروان ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے، اور جو دنيا کي خاطر کشت اٹھاتا ہےتو دنيا اس کو راستہ ديتي چلي جاتي ہے۔
سو گلي گلی خاک پھانکنے اور دفتر دفتر دھکے کھانے کے بعد قبلہ کے قلب حزيں پر کچھ القا ہوا۔ وہ يہ کہ قاعدے قانون، داناؤں اور جابروں نے کمزور دل والوں کو قابو ميں رکھنے کيلئے بنائے ہيں۔ جو شخص ہاتھي کي لگام ہي تلاش کرتا رہ جائے، وہ کبھي اس پر چڑھ نہيں سکتا۔ جام اس کا ہے جو بڑھ کر خود ساقي کو جام ومينا سميت اٹھالے۔ بالفاظ ديگر، جو بڑھ کرتالے توڑ ڈالے۔ مکان اسی کا ہوگيا۔ کانپور سے چلے تو اپني جمع جتھا، شجرہ، اسپرنگ سے کھلنے والا چاقو، اختري بائي فيض آبادي کےتين ريکارڈ، مراد آبادي حقے اور صراحي کے سبزکيرير اسٹینڈ کے علاوہ اپني دکان کا تالا بھي ڈھو کر لے آئے تھے۔ علي گڑھ سے خاص طور پر بنوا کرمنگوایا تھا۔ تين سير سے کم کا نہ ہوگا۔ مذکورہ بالا القا کے بعد برنس روڈ پر ايک اعليٰ درجے کا فليٹ اپنے ليے پسند فرمايا۔ ماربل کي ٹائلز ، سمندري ہوا کي رخ کھلنے والي کھڑکياں جن ميں رنگين شيشے لگے تھے۔ دروازے کے زنگ آلود تالے پر اپنے عليگ تالے کي ايک ہي ضرب سے فليٹ ميں اپني آباد کاري بلا منتِ سرکار کرلي۔ گويا پروفيسر قاضي عبدالقدوس کے الفاظ ميں، اول الذکر کو ثاني الذکر پر مار کر آخر الذکر کا قبضہ لے ليا۔ تختي دوبارہ پينٹ کروا کے لگادي۔ اس سے پہلے اس پر کسٹوڈين متروکہ املاک کا نام لکھا تھا۔ قبلہ عالمِ جلال ميں اسے وہيں سے کيلوں سميت اکھاڑ لائےتھے۔ تختي پر نام کے آگے “مضطر کانپوري“ بھي لکھواديا۔ پرانے واقف کاروں نے پوچھا کہ آپ شاعر کب سے ہوگئے؟ فرمايا ميں نے آج تک کسي شاعر پر ديواني مقدمہ چلتے نہيں ديکھا، نہ ڈگري، قُرقي ہوتے ديکھي۔
فليٹ پر قابض ہونے کے کوئي چار ماہ بعد قبلہ چوڑي دار کا گھُٹنا رفو کر رہےتھے کہ کسي نے بڑے گستاخانہ انداز سے دروازہ کھٹکھٹايا۔ مطلب يہ کہ نام کي تختي کو پھٹ پھٹايا۔ جيسے ہي انہوں نے ہڑ بڑا کر دروازہ کھولا۔ آنے والے نے خود کا تعارف اس طرح کروايا کہ گويا اپنے عہدے کي چپڑاس ان کے منھ پر اُٹھا کر دے ماري ہو۔ “افسر، محکمہ کسٹوڈين، ايويکوي پراپرٹي“ پھر ڈپٹ کر کہا “بڑے مياں! فليٹ کا الاٹ منٹ آرڈر دکھاؤ“ قبلہ نے واسکٹ کي جيب سے حويلي کا فوٹو نکال کر دکھايا۔ “يہ چھوڑ کر آئے ہيں“ اس نے فوٹو کا نوٹس نہ ليتے ہوئے قدرے درشتي سے کہا “بڑے مياں سنا نہيں کيا؟ الاٹ منٹ آرڈر دکھاؤ۔“ قبلہ نے بڑي رسان سے اپنے بائيں پير کا سليم شاہي جوتا اتارا۔ اور اتني ہي رسان سے کہ اس کو گمان تک نہ ہوا کيا کرنے والے ہيں۔ اس کے منھ پر مارتے ہوئے بولے “يہ ہے ياروں کا الاٹ منٹ آرڈر، کاربن کاپي بھي ملاحظہ فرمائيے گا“ اس نے اب تک يعني تا دم تذليل، رشوت یہ رشوت کھائي تھی، جوتے نہيں کھائے تھے۔ پھر کبھي ادھر کا رخ نہيں کيا۔
 

رضوان

محفلین
جس حويلي ميں تھا ہمارا گھر
قبلہ نے بڑے جتن سے لي مارکيٹ ميں ايک چھوٹي سے لکڑي کي دکان کا ڈول ڈالا۔ بيوي کےجہيز کے زيور اور ويبلي اسکاٹ کي بندوق اونے پونے بيچ ڈالي۔ کچھ مال ادھار خريدا۔ ابھي دکان ٹھيک سے جمي بھي نہ تھي کہ ايک انکم ٹیکس انسپکٹر آنکلا۔ کھاتے، رجسٹريشن، روکڑبہي، اور رسيد بک طلب کيں۔ دوسرےدن قبلہ ہم سے کہنے لگے“ مشتاق مياں! سنا آپ نے؟ مہينوں جوتياں چٹخاتا، دفتروں ميں اپني اوقات خراب کرواتا پھرا۔ کسي نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ بھيا کون ہو! اب دل لگي ديکھيے، کل ايک انکم ٹيکس کا تيس مار خان دنداناتا ہوا آيا۔ لقہ کبوتر کي طرح سينہ پھُلائے۔ ميں نے سالے کو يہ دکھادي “يہ چھوڑ کرآئے ہيں“ چندرا کر پوچھنے لگا “يہ کيا ہے؟“ ہم نے کہا “ہمارے ہاں اسے محل سرا کہتے ہيں۔“
سچ جھوٹ کا حال مرزا جانيں کہ انھيں سے روايت ہے کہ اس محل سرا کا ايک بڑا فوٹو فريم کروا کے اپنے فليٹ کي کاغذي سي ديوار ميں کيل ٹھونک رہے تھےکہ ديوار کے اس پار والے پڑوسي نے آکر درخواست کي کہ ذرا کيل ايک فٹ اوپر ٹھونکيں تاکہ دوسرے سرے پر ميں اپني شيرواني لٹکا سکوں۔ دروازے زور سے کھولنے اور بند کرنے کي دھمک سے اس زنگيائي کيل پر ساري محل سرا پنڈولم کي طرح جھولتي رہتي تھي۔ گھر ميں ڈاکيا يا نئي دھوبن بھي آتي تو اسے بھي دکھاتے “يہ چھوڑ کر آئے ہيں۔“
اس حويلي کا فوٹو ہم نے بھي بار بار ديکھا۔ اس سے ديکھ کر ايسا لگتا تھا جيسے کيمرے کو موٹا نظر آنے لگا ہے۔ ليکن کیمرے کے ضعف بصارت کو قبلہ اپنے زور بيان سے دور کردیتے تھے۔ يوں بھي ماضی ہر شے کے گردايک روماني ہالہ کھينچ ديتاہے۔ گزرا ہوا درد بھي سہانا لگتا ہے۔ آدمي کا جب کچھ چھن جائے تو وہ یا تو مست ملنگ ہوجاتاہے یا کسي فينٹسي لينڈ ميں پناہ ليتا ہے۔
نہ ہو گر یہ فریب پیہم تو دَم نکل جائے آدمی کا​
شجرہ اور حویلی بھی ایک ایسی ہی جائے اماں تھی۔ ممکن ہے بے ادب نگاہوں کو یہ تصویر میں ڈھنڈار دکھلائی دے، لیکن جب قبلہ اس کی تعمیراتی نزاکتوں کی تشریح فرماتے تو اس کے آگے تاج محل بھی بالکل سپاٹ گنوارو گھروندا معلوم ہوتا۔ مثلاً دوسری منزل پر ایک دروازہ نظر آتا تھا جس کی چوکھٹ اور کواڑ جھڑ چکے تھے۔ قبلہ اسے فرانسیسی دریچہ بتاتے تھے۔ اگر یہاں واقعی کوئی ولائتی دریچہ تھا تو یقیناً یہ وہی دریچہ ہوگا جس میں جڑے ہوئے آئینہ جہاں نما کو توڑ کر سای کی ساری ایسٹ انڈیا کمپنی آنکھوں میں اپنے جوتوں کی دھول جھونکتی گزر گئی۔ ڈیوڑھی میں داخل ہونے کا جو بے کواڑ پھاٹک تھا وہ دراصل شاہ جہانی محراب تھی۔ اس کے اوپر ٹوٹا ہوا ایک چھّجا تھا جس پر سرِدست ایک چیل قیلولہ کر رہی تھی۔ یہ راجپوتی جھروکے کی باقیات بتائی جاتی تھیں، جن کے عقب میں ان کے دادا کے وقتوں میں ایرانی قالینوں پر آذربائیجانی طرز کی قوالی ہوتی تھی۔ پچھلے پہر جب نیند کے غلبے سے غلافی آنکھیں مندنے لگتیں تو وقفے وقفے سے نقرئی گلاب پاشوں سے حِضّار محفل پر عرقِ گلاب مقطر چھڑکا جاتا۔ فرش اور دیورین قالینوں سے ڈھکی رہتی تھیں۔ فرماتے تھے کہ “ جتے پھول غلیچے پہ تھے وتے ہی باہر بغیچے میں تھے۔“ یہاں اطالوی مخمل کے کار چوبی زیر انداز پر گنگا جمنی منقّش اگال دان رکھے رہتے تھے، جن میں چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی گلوریوں کی پیک جب تھوکی جاتی تو بلوریں گلے میں اترتی چڑھتی صاف نظر آتی، جیسے تھرمامیٹر میں پارا۔
 

رضوان

محفلین
وہ ازدحام کہ عقل دھرنے کي جگہ نہيں
حويلي کے چند اندروني کلوز اپ بھي تھے۔ کچھ کيمرے کي آنکھ اور کچھ چشم تصور کے رہينِ منّت۔ ايک سہ دري تھي جس کي دو محرابوں کي دراڑوں ميں بازنطنيي اينٹوں پر کانپوري چڑيوں کے گھونسلے نظر آرہے تھے۔ ان پر Moorish arches کي تہمت تھي۔ چراغ رکھنے کا ايک آلہ (طاقچہ ) ايسے آرٹسٹک زاويے سےڈہا تھا کہ پرتگالي آرچ کے آثار دکھائي پڑتے تھے۔ فوٹو ميں اس کے پہلو ميں ايک چوبي گھڑونچي نظر آرہي تھي جس کا شاہ جہاني ڈيزائن ان کے جد نے آب دار خانہ خاص سے بدست خود چرايا تھا۔ شاہ جہاني ہو يا نہ ہو، اس کے مغل ميں کوئي شبہ نہ تھا، اس ليے کہ اس کي ايک ٹانگ تيموري تھي۔ حويلي کي غلام گردشيں فوٹو ميں نظر نہيں آتي تھيں،ليکن ايک ہمسائےکا بيان ہے کہ ان ميں گردش کے مارے خانداني بڑے بوڑھے رُلے پھرتے تھے۔ شمالي حصّے ميں ايک ستون جو مدتيں ہوئيں چھت کا بوجھ اپنے اوپر سے اوچھے کے احسان کي طرح اتار چکا تھا، Roman Pillars کا نادر نمونہ بتايا جاتا تھا۔ حيرت تھي کہ يہ چھت سے پہلے کيوں نہ گرا۔ اس کي ايک وجہ يہ ہوسکتي ہے کہ چاروں طرف گردن گردن ملبے ميں دبے ہونے کے باعث، اس کے گرنےکےلیے کوئي خالي جگہ نہ تھي۔ ايک شکستہ ديوار کے ساتھ لکڑي کي بوسيدہ نسيني (سيڑھي) اس طرح کھڑي تھي کہ يہ کہنا مشکل تھا کہ کون کس کے سہارے کھڑا ہے۔ ان کي بيان کے مطابق جب دوسري منزل منھدم نہيں ہوئي تھي تو يہاں وکٹورين اسٹائل کا Grand staircase ہوا کرتا تھا۔ اس غير موجود چھت پر جہاں اب چمگادڑيں بھي لٹک نہيں سکتي تھیں، قبلہ ان آہني کڑيوں کي نشان دہي کرتے جن ميں دادا کے زمانے ميں المانوي فانوس لٹکے رہتے تھے، جن کي چمپئ روشني ميں وہ گھنگرالي خنجرياں بجتيں جو کبھي دو کوہان والے باختري اونٹوں کي محمل نشينوں کےساتھ آئي تھيں۔ اگر يہ فوٹو ان کي رننگ کمنڑي کے ساتھ نہ ديکھے ہوتے تو کسي طرح يہ قياس و ذہن ميں نہيں آسکتا تھا کہ پانچ سو مربع گز کي ايک لڑ کھڑاتي حويلي ميں اتنے فنون تعمير اور ڈھير ساري تہذيبوں کا ايسا گھمسان کا ازدحام ہوگا کہ عقل دھرنے کي جگہ نہ رہے گي۔ پہلي مرتبہ فوٹو ديکھيں تو خيال ہوتا تھا کہ کيمرا ہل گيا ہے۔ پھر ذرا غور سے ديکھيں تو حيرت ہوتي تھی کہ يہ ڈھنڈار حويلي اب تک کيسے کھڑي ہے۔ مرزا کا خيال تھا کہ اب اس ميں گرنے کي بھي طاقت نہيں رہی۔
 

رضوان

محفلین
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا ياد ہے
حويلي کے صدر دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر جہاں فوٹو ميں گھورے پر ايک کالا مرغا گردن پھيلائے اذان دے رہا تھا، وہاں ايک شکستہ چبوترے کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس کے پتھروں کے جوڑ اور درزوں ميں سے پودے روشني کي تلاش ميں گھبرا کے باہر نکل پڑے تھے۔ ايک دن اس چبوترے کي طرف اشارہ کرکے فرمانے لگے کہ يہاں آبِ مصفّا سے لبريز سنگِ سرخ کا ہشت پہلو حوض ہوا کرتا تھا جس ميں ولايتي گولڈ فش تيرتي رہتي تھيں۔ عارف مياں اس ميں پایونير اخبار کي کشتياں تيرايا کرتے تھے۔ يہ کہتے کہتے قبلہ جوشِ بيان ميں اپني چھڑي لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس سے پھٹي ہوئي دري پر ہشت پہلو حوض کا نقشہ کھينچنے لگے۔ ايک جگہ فرضي لکير قدرے ٹيڑھي کھنچی تو اسے پير سے رگڑ کر مٹايا۔ چھڑي کي نوک سے اس بدذات مچھلي کي طرف اشارہ کيا جو سب سے لڑتي پھرتي تھي۔ پھر ايک کونے ميں اس مچھلي کي بھي نشان دہي کي جس کا جي ماندہ تھا۔ انھوں نے کھل کر تو نہيں کہا کہ آخر ہم ان کے خورد تھے، ليکن ہم سمجھ گئے کہ مچھلي کا جي کھٹي چيزيں اور سوندھي مٹّي کھانے کو بھي چاہ رہا ہوگا۔
قبلہ کبھي ترنگ ميں آتے تو اپنے اکلوتے بے تکلف دوست رئيس احمد قدوائي سے فرماتے کہ جواني ميں مئي جون کي ٹِيک دوپہريا ميں ايک حسين دوشيزہ کا کوٹھوں کوٹھوں ننگے پير اُن کي حويلي کي تپتي چھت پر آنا، اب تک (مع ڈائيلاگ) ياد ہے۔ يہ بات مرزا کي سمجھ ميں آج تک نہيں آئي۔ اس ليے کہ ان کی حويلي سہ منزلہ تھي، جب دائيں بائيں پڑوس کے دونوں مکان ايک ايک منزلہ تھے۔ حسين دوشيزہ اگر ننگے پير ہو اور زيورِ حيا اتارنے کيلئے اتاولي بھی ہورہي ہو، تب بھي يہ کرتب ممکن نہيں، تاوقتے کہ حسينہ ان کے عشق ميں دوشيزہ ہونے کے علاوہ دو لخت بھي نہ ہوجائے۔
 

رضوان

محفلین
پلکھن
فوٹو ميں حويلي کے سامنے ايک چھتنار پِلکھن× اداس کھڑي تھی۔ اس کا تخم ان کے جدّ اعليٰ سمندِ سياہ زانو پر سوار، کارچوبي کام کے چغے ميں چھپا کر قحط کے زمانے ميں دمشق سے لائے تھے۔ قبلہ کے قول کے مطابق، ان کے پر دادا کے اباجان کہا کرتے تھے کہ “ بےسروساماني کے عالم ميں يہ ننگِ خلائق، ننگِ اسلاف، ننگِ وطن ------ ننگے سر، ننگے پير، گھوڑے کي ننگي پيٹھ پر، ننگي تلوار ہاتھ ميں ليے ------ خيبر کے سنگلاخ ننگے پہاڑوں کو پھلانگتا، واردِ ہندوستان ہوا ۔“ جو تصوير وہ فخريہ کھينچتے تھے اس سے تو يہي ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت بزرگوار کے پاس ستر پوشي کے ليے گھوڑے کي دُم کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جائداد، محل سرا، خدام ، مال و متاع ------- سب کچھ وہيں چھوڑ آئے۔ البتہ اثاث البيت کا سب سے قيمتي حصّہ يعني شجرہ نسب اور پِلکھن کا تخم ساتھ لے آئے۔ گھوڑا جو انھي کي طرح نجيب الطرفين اور وطنِ مالوف سے بيزار تھا، تخم اور شجرے کے بوجھ سے رانوں تلے سے نکلا پڑ رہا تھا۔
---------------------------------------------
پِلکھن: جن پڑھنے والوں نے یہ درخت نہیں دیکھا، وہ اس کی تصویر قراۃ العین حیدر کے “کارِ جہاں دراز ہے“ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ہم نے بھی اس درخت کا فوٹو ہی دیکھا ہے۔ یہاں ہمارے پاس جتنے لغات ہیں ان میں یہ لفظ نہیں ہے۔ تذکیر و تانیث کا بھی علم نہیں۔ لیکن جس پیار اور للک سے اس کا ذکر کیا گیا اس پر ہم نے قیاس کیا کہ مونّث ہی ہوگا۔
 

رضوان

محفلین
شجرے کي ہر شاخ پہ نابغہ بيٹھا تھا
زندگي کي دھوپ جب کڑي ہوئي اور پيروں تلے زمين جائداد نکل گئي تو آئندہ نسلوں نے اسي شجر اور شجرے کے سائے تلے بسرام کيا۔ قبلہ کو اپنے بزرگوں کي ذہانت و فطانت پر بڑا ناز تھا۔ ان کا ہر بزرگ نادرہ روزگار تھا اور ان کے شجرے کي ہر شاخ پر ايک نابغہ بيٹھا اونگھ رہا تھا۔
قبلہ نے ايک فوٹو اس پلکھن کے نيچے اس جگہ کھڑے ہو کرکھينچوايا تھا جہاں ان کي نال گڑي تھي۔ فرماتے تھے، اگر کسي تخم ناتحقيق کو ميري حويلي کي ملکيت ميں شبہ ہوتو نال نکال کر ديکھ لے۔ جب آدمي کويہ معلوم نہ ہو کہ اس کي نال کہاں گڑي ہے اور پرکھوں کي ہڈياں کہاں دفن ہيں، تو وہ مني پلانٹ کي طرح ہوجاتا ہے جو مٹي کے بغير صرف بوتلوں ميں پھلتا پھولتا ہے۔ اپني نال ،پرکھوں اور پِلکھن کا ذکر اتنے فخر، غلو اور کثرت سے کرتے کرتے يہ احوال ہوا کہ پِلکھن کي جڑيں شجرے ميں اتر آئيں، جيسے گھٹنوں ميں پاني اُتر آتا ہے ۔
 

رضوان

محفلین
امپورٹڈ بزرگ اور يوناني ناک
وہ زمانے اور تھے۔ شرافت اور نجابت کے معيار بھي مختلف تھے۔ جب تک بزرگ اصلي امپورٹڈ يعني ماورا النہري اور خيبر کے اس پار سے آئے ہوئے نہ ہوں، کوئي ہندوستاني مسلمان خود کو عزت دار اور نجيب نہيں گردانتا تھا۔ غالب کو تو شيخي بگھارنے کے لئے اپنا ( فرضي ) استاد ملاّ عبدالصمد تک ايران سے امپورٹ کرنا پڑا۔ قبلہ کے بزرگوں نے جب بے روزگاري اور عسرت سےتنگ آ کر وطن چھوڑا تو آنکھيں نم اور دل گداز تھے۔ بار بار اپنا دستِ افسوس زانوئے اسپ پر مارتے اور ايک راوِي شيوہ بيان کے بقول ايک دوسرے کي داڑھي پر ہاتھ پھير کر استغفراللہ! استغفراللہ! کہتے۔ تازہ ولايت جس سے ملے ، اپنے حسنِ اخلاق سے اس کا دل جيت ليا۔
پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے​
پھر یہي پيارے لوگ بتدريج
پہلے خاں، پھر خانِ خاں، پھر خانِ خاناں ہوگئے​
حويلي کے آرکي ٹيکچر کي طرح قبلہ کے امراض بھي شاہانہ ہوتے تھے۔ بچپن ميں دائيں رخسار پر غالبا آموں کي فصل ميں پھنسي نکلي تھي جس کا داغ ہنوزباقي تھا۔ فرماتے تھے، جس سال ميرے يہ اورنگ زيبي پھوڑا نکلا، اسي سال بلکہ اسي ہفتے ميں ملکہ وکٹوريہ رانڈ ہوئي۔ ساٹھ کے پيٹے ميں آئے تو شاہجہانی حبسِ بول ميں مبتلا ہوگئے۔ فرماتے تھے کہ غالب مغل بچہ تھا۔ ستم پيشہ ڈومني کو اپنے زہرِعشق سے مار ڈالا، مگر خود اسي، گويا کہ ميرے والے عارضے ميں مرا۔ ايک خط ميں مرقوم ہے کہ جرعہ جرعہ پيتا ہوں اور قطرہ قطرہ خارج کرتا ہوں۔ دمے کا دورہ ذرا تھمتا تو قبلہ بڑے فخر سے فرماتے کہ فيضي کو بھي يہي مرض لاحق تھا۔ اس نے ايک قطعےميں کہا ہے، کہ دوعالم ميرے سينے ميں سما گئے، مگر آدھا سانس کسي طور پر نہيں سمارہا! اپنے والد مرحوم کے با رے ميں فرماتے تھے کہ راج روگ يعني اکبري سنگرہني ميں انتقال فرمايا۔ مراد اس سے آنتوں کي ٹي بي تھي۔ مرض تومرض قبلہ کي ناک تک اپني نہيں تھي۔ يوناني بتاتے تھے۔
 

رضوان

محفلین
“مُردہ“ ازغيب بروں آيدوکارے بکند
قبلہ کو دو غم تھے۔ پہلے غم کا ذکر بعد ميں آئے گا۔ کہ وہ جاں گسل تھا۔ دوسرا غم دراصل اتنا ان کا اپنا نہيں جتنا بيوي کا تھا جو بيٹے کي تمنّا ميں گھل رہي تھي۔ اس غریب نے بڑي منتيں مانيں۔ قبلہ کو شربت ميں نقش گھول گھول کر پلائے۔ ان کے تکيے کے نيچے تعويز رکھے۔ چھپ چھپ کر مزاروں پر چاردريں چڑھائيں۔ ہمارے ہاں لوگ جب زندوں سے مايوس ہوجاتے ہيں تو ايک ہي آس باقي رہ جاتي ہے۔
مُردہ ازغيب بروں آيدوکارے بکند​
پچاس ميل کے دائرے ميں کوئي مزار ايسا نہ بچا جس کے سرھانے کھڑے ہوکر وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر نہ روئي ہوں کہ اہلِ قبر کے پسماندگان بھي تدفين کے وقت يوں نہ روئے ہوں گے۔ اس زمانے کے اہلِ القبور، صاحب کرامات ہوں يا نہ ہوں کم ازکم قبر کے اندر ضرور ہوتے تھے۔ آج کل جيسا حال نہيں تھا کہ مزار اگر خالي ازميت ہے تو غنيمت جانيے، ورنہ اللہ جانے اندر کيا دفن ھے ، جس کا اس دُھوم سے عرس شريف منايا جارہا ہے۔ کوئي دن نہيں جاتا کہ کراچي کے اخباروں ميں ايسے اشتہارات نہ ہوں کہ آج فلاں آستانہ عاليہ پر چادر شريف چڑہائي جارھي ہے، پانچ بجے گاگر شريف، جلوس کي شکل ميں لے جائي جائے گي۔ پھر اس سے مزارشريف کو غسل ديا جائےگا۔ بعد نماز مغرب لنگرشريف تقسيم ہوگا۔ ہم نے بعض نودريافت بزرگوں کے نوتعمير مزاروں کے ضمن ميں “شريف“ پر تاکيداً اتنا زور ديکھا کہ دل ميں طرح طرح کے وسوسے اٹھنے لگتے ہیں۔ ہم نہ ضعيف العتقاد ہيں،نہ وہابي، ليکن کراچي کے ایک مزار کے بارے ميں جو ہمارے سامنے پُر ہوا ہے، ہم بالاعلان يہ تسليم کرتے ہيں کہ اس سے متعلق ہر چيز شريف ہے، سوائے صاحبِ مزار کے۔
خير يہ تو ايک جملہ معترضہ تھا جو رواني ميں پھيل کر پورا پيرا بن گيا۔ عرض يہ کرنا تھا کہ قبلہ خود کو کسي زندہ پير سے کم نہيں سمجھتے تھے۔ انھيں جب یہ پتہ چلا کہ بيوي اولادِنرينہ کي منت مانگنے چوري چھپے نامحرموں کے مزاروں پر جانے لگي ہيں۔ تو بہت خفا ہوئے ، وہ جب بہت خفا ہوتے تو کھانا چھوڑديتے تھے۔ حلوائي کي دکان سے ربڑي، موتي چور کے لڈو اور کچوري لاکر کھا ليتے۔ دوسرے دن بيوي کاسني رنگ کا دوپٹہ اوڑھ ليتيں اور انکے پسنديدہ کھانے يعني دو پيازہ ، ڈيوڑھي شکر والا زردہ، بہت تيز مرچوں کے ماش کے دہي بڑے کھِلا کے انھيں منا لیتيں۔ قبلہ انھي مرغوبات پر اپنے ايراني اور عربي النسل بزرگوں کي نياز دلواتے۔ البتہ ان کے دہي بڑوں ميں مرچيں برائے نام ڈالواتے۔ مزاروں پر حاضري پر قدغن بڑھا۔ بيوی بہت روئيں دھوئيں تو قبلہ کچھ پگھلے۔ مزاروں پر جانےکي اجازت دے دي، مگر اس شرط پر کہ مزار کا مکين “ذات کا کمبوہ نہ ہو۔ کمبوہ مرد اور غزل گو شاعر سے پردہ لازم ہے، خواہ مردہ ہي کيوں نہ ہو۔ ميں ان کے رگ و ريشہ سے واقف ہوں۔“ ان کے دشمنوں سے روايت ہےکہ قبلہ خود بھي جواني ميں شاعر اور ننھيال کے طرف سے کمبوہ تھے۔ اکثر فرماتے
“مرگِ کمبوہ جشنے دارد۔“
 

رضوان

محفلین
کٹ کھنےبلاؤ کے گلے ميں گھنٹي
رفتہ رفتہ بيوي کو صبر آ گيا۔ ايک بيٹي تھي۔ قبلہ کو وہ عزيز سے عزيز تر ہوتي گئي۔ انھيں اس حد تک صبر آگيا کہ اکثر فرماتے ،خدا بڑا رحيم وکريم ہے۔ اس نے بڑا فضل کيا کہ بيٹا نہ ديا۔ اگر مجھ پر پڑتا تو تمام عمر خوار ہوتا۔ اور اگر نہ پڑتا تو ناخلف کو عاق کرديتا۔
سياني بيٹي، کتني بھي چہيتي ہو، ماں باپ کي چھاتي پر پہاڑ ہوتي ہے۔ لڑکي، ضرورتِ رشتہ کي اشتہاري اصطلاحوں کے مطابق، قبول صورت، سليقہ شعار، خوش اطوار، امورِ خانہ داري سے بخوبي واقف۔ ليکن کس کي شامت آئي تھي کہ قبلہ کي بيٹي کا پيام دے۔ ہميں آتشِ نمرود ميں کودنے کا ذاتي تجربہ تو نہيں، ليکن وثوق سے نہيں کہہ سکتے ہيں کہ آتشِ نمرود ميں بے خطر کُودنے سے کہيں زيادہ خطرناک کام نمرود کے شجرہ نسب ميں کود پڑنا ہے۔ جيسا کہ پہلے عرض کرچکے ہيں، قبلہ ہمارے دوست بشارت کے پھوپا، چچا اور اللہ جانے کيا کيا لگتے تھے۔ دکان اور مکان دونوں اعتبار سے پڑوسي بھي تھے۔ بشارت کے والد بھي رشتے کے حق ميں تھے، ليکن رقعہ بھيجنے سے صاف انکار کرديا کہ بہو کے بغير پھر بھي گزارا ہوسکتا ہے، ليکن ناک اور ٹانگ کے بغير تو شخصيت نامکمل سي معلوم ہوگي۔ بشارت نے ريل کي پٹڑي سے خود کو بندھوا کر بڑي لائن کے انجن سے اپني خودکشي کي دھمکي دي۔ رسيوں سے بندھوانے کے بعد شرط خود اس ليے لگا دي کہ عين وقت پر اٹھ کر بھاگ نہ جائيں۔ ليکن ان کے والد نے صاف کہہ ديا کہ اس کٹ کھنے بلاؤ کے گلے ميں تمھي گھنٹي ڈالو۔
قبلہ “مدمغ“ بد لحاظ، منھ پھٹ مشہور ہي نہیں، تھے بھي۔ وہ دل سے ------- بلکہ بے دلي سے بھي-------- کسي کي عزت نہيں کرتے تھے۔ دوسرے کو حقير سمجھنے کا کچھ نہ کچھ جواز ضرور نکال ليتے۔ مثلاً کسي کي عمر اُن سے ايک مہينے بھي کم ہو تو اس کو لونڈا کہتے اور اگر ايک سال زيادہ ہو تو بڑھؤ!
 

رضوان

محفلین
ب و س ہ اور چار نقطے
بشارت نے ان دنوں بي اے کا امتحان ديا تھا اور پاس ہونے کا امکان ، بقول ان کے، ففٹي ففٹي تھا۔ ففٹي ففٹي اتنے زور، فخر اور وثوق سے کہتے تھے گويا اپني کانٹا تول نصفا نصف نالائقي سے ممتحن کو کڑي آزمائش ميں ڈال ديا ہے۔ فرصت ہي فرصت تھي۔ کيرم اور کوٹ پيس کھيلتے۔ روحوں کو بلاتے اور ان سے ايسے سوالات کرتے کہ زندوں کو حیا آتی۔ کبھي دن بھر بيٹھے نظير اکبر آبادي کے کليات ميں وہ نقطے والے بلينک پُر کرتے رہتے جو منشي نول کشور پريس نے بہ تقاضا ے تہذيب و تعزيراتِ ہند خالي چھوڑ ديے تھے۔ گفتگو ميں ہر جملے کے بعد شعر کا “ ٹھيکا “ لگاتے۔ افسانہ نویسي کي مشق ومشقت بھي جاري تھي۔ نياز فتح پوري کي اطلسي فقرہ طرازي اور ابوالکلام کي جھومتي جھامتي گج گامني نثر کي چھاپ، ايک انھي پر موقوف نہيں، اچھے اچھوں کي طرز تحرير پر تھي۔ بعض پر ماتھےکےجھومر کے مانند۔ کچھ پر دھوبي کےنشان کي طرح۔ اور کچھ پر اس طرح جيسے انگريز ملاّح اپني محبوباؤں کي تصويريں جسم پر گدواليتے ہيں۔ جب ذرا گردن جھکائي ديکھ لي۔ کسي کي محتاجي نہيں۔ اردو نثر اس زمانے مين فيل پا ميں مبتلا تھي۔ اس ميں کچھ افاقہ ہوا تو معجونِ فلک سير کھا کر ٹيگوري ادب پاروں کے اُڑن غاليچے پر سوار ہوگئي۔ بشارت کے ايک افسانےکا کلا ئمکس کچھ اس طرح تھا۔
انجم آرا کي حسن آفرینيوں، سحر انگيزیوں، اور حشر سامانيوں سے مشامِ جان معطّر تھا۔ وہ لغزيدہ لغزیدہ قدموں سے آگے بڑھي اور فرطِ حيا سے اپني اطلسي بانھوں کو اپني ہي دُزيدہ دُزديدہ آنکھوں پر رکھا۔ سليم نے انجم آرا کے دستِ حنائي کو اپنے آہني ہاتھ ميں لے کر پتھرائي ہوئي آنکھوں سے اس کي ہيرا تراش کلائي اور ساقِ بلوريں کو ديکھا اور گلنار سے لبوں پر .... چار نقطے ثبت کرديے“ اس زمانے ميں لفظ " بوسہ " فحش سمجھا جاتا تھا. لہذا اس کي جگہ نقطے لگا ديئے جاتے تھے. بشارت گن کر اتنے ہي نقطے لگاتے جن کي اجازت اس وقت کے حالات، حيايا ہيروئن نے دي ہو۔ ہميں اچھي طرح ياد ہے کہ اس زمانے ميں انجمنِ ترقيِ اردو کے رسالے ميں ايک مضمون چھپا تھا۔ اس ميں جہاں جہاں لفظ بوسہ آيا، وہاں وہاں مولوي عبدالحق نے بربنانے تہذيب اس کے ہجے يعني ب س و ہ چھاپ کر الٹا اس کي لذت و طوالت ميں اضافہ کرديا۔ يہاں ہميں ان کا يا اپني حبيبِ لبيب کي طرز نگارش کا مذاق اڑانا مقصود نہيں۔ ہر زمانے کا اپنا اسلوب اور آہنگ ہوتا ہے۔ لفظ کبھي انگرکھا، کبھي عبا و عمامہ، کبھي ڈنر جيکٹ يا فولس کيپ، کبھي پير ميں پائل يا بيڑي پہنے نظر آتے تھے۔ اور کبھي کوئي مداري اپني قاموسي ڈگڈگي بجاتا ہے تو لفظوں کے سدھے سدھائے بندر ناچنے لگتے ہيں۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سِن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں:
"يہ غريب الدّيارِ عہد، نا آشنائےعصر، بيگانہ خويش، نمک پرودہ ريش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مد عو بابي الکلام 1888ءمطابق ذوالجحہ 1305 ھ ميں ہستيِ عدم سے اس عدمِ ہستي ميں وارد ہوا اور تہمتِ حيات سے مہتم۔“
اب لوگ اس طرح نہيں لکھتے۔ اس طرح پيدا بھي نہيں ہوتے۔ اتني خجالت، طوالت و اذيت تو آج کل سيزيرين پيدائش ميں بھي نہيں ہوتي۔*
------------------------------------------------------------------------
* اسی طرح نو طرزِ مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے:
"جب ماہتابِ عمر میرے کا بدرجہ چہار دوسالگی کے پہنچا، روزِ روشنِ ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شبِ یلدہ سے ہوا، یعنی پیمانہ عمرو زندگانی مادروپدرِ بزرگوار حظوظِ نفسانی سے لبریز ہوکے اسی سال دستِ قضا سے دہلا۔“
کہنا صرف یہ چاہتے تھے کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہوگئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہوگیا۔
مرزا عبدالودود بیگ نے ایسے pompous style کے لیے سبک ہِندی کی طرز پر ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے: طرزِاسطوخودوس - اس راقم الحروف کا نوٹ " دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ “ کے باب میں ملاحظہ فرمائیے۔ ویسے اس کے لغوی معنی ہیں: نزلے اور پاگل پن کی ایک دوا جسے اطبّا دماغ کی جھاڑو کہتے ہیں۔
 
Top