رضوان
محفلین
وہ آدمي ہے مگر ديکھنے کي تاب نہيں:
يادش بخير! ميں نے 1945 ميں جب قبلہ کو پہلے پہل ديکھا تو ان کا حليہ ايسا ہو گيا تھا جيسا اب ميرا ہے۔ ليکن ذکر ہمارے يار طرح دار بشارت علي فاروقي کے خسر کا ہے، لٰہذا تعارف کچھ انہي کي زباں سے اچھا معلوم ہوگا۔ ہم ني بارہا سنا آپ بھي سنيے۔
،،وہ ہميشہ سے ميرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے ميں ميرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے ميں انہيں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھي يقينا وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت ميں نے بولنا شروع نہیں کيا تھا۔ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور ميں رشتے ناتے ابلي ھوئي سويّوں کي طرح الجھے اور پيچ در پيچ گھتے ہوتے ہیں۔ ايسا جلالي، ايسا مغلوب الغضب آدمي زندگي ميں نہيں ديکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا توميري عمر آدھي ادھر ، آدھي ادھر ، چاليس کے لگ بھگ تو ہوگي۔ ليکن صاحب! جيسي دہشت ان کي آنکھيں ديکھ کر چھٹ پن ميں ہوئي تھي، ويسے ہي نہ صرف ان کے آخري دم تک رہي، بلکہ ميرے آخري دم تک بھي رہےگي۔ بڑي بڑي آنکھيں اپنے ساکٹ سے نکلي پڑتي تھيں۔ لال سرخ۔ ايسي ويسي؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑي بڑي پتليوں کے گردلال ڈوروں سے ابھي خون کے فوارے چھوٹنے لگيں گے اور ميرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے ميں بھرے رھتے تھے۔ جنے کيوں۔گالي ان کا تکيہ کلام تھي۔ اور جو رنگ تقرير کا تھا وہي تحرير کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے ۔ ظاہر ہے کچہ ايسے لوگوں سے بھي پالا پڑتا تھا، جنہيں بوجوہ گالي نہيں دے سکتے۔ ايسے موقعوں پر زبان سے تو کچہ نہ کہتے ليکن چہرے پر ايسا ايکسپريشن لاتے کہ قد آدم گالي نظر آتے۔ کس کي شامت آئي تھي کہ ان کي کسي بھي رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئي شخص محض ڈر کے مارے ان کي رائے سے اتفاق کرليتا تو فورا اپني رائے تبديل کر کے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔
،،ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کي بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہو جاتے تھے، آپ کچھ بھي کہيں، کيسي ہي سچي اور سامنے کي بات کہيں وہ اس کي ترديد ضرور کريں گے۔ کسي کي رائے سے اتفاق کرنے ميں اپني سبکي سمجھتے تھے۔ ان کا ھر جملہ نہيں سے شروع ہوتا تھا۔ ايک دن کانپور ميں کڑاکے کي سردي پڑ رہي تھي۔ ميرے منھ سے نکل گيا کہ ،آج بڑي سردي ہے، بولے ،نہيں۔ کل اس سے زيادہ پڑے گي،۔
،،وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر ليکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کي جسارت نہ ہوئي۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو ميں بيٹھے تھے۔ قاضي نے مجھ سے پوچھا قبول ہے؟ ان کے سامنے منھ سے ہاں کہنے کي جرائت نہ ہوئي۔ بس اپني ٹھوڑي سے دو مودبانہ ٹھونگيں مارديں جنہيں قاضي اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کيلئے ناکافي سمجھا قبلہ کڑک کر بولے ،لونڈے بولتا کيوں نہیں؟، ڈانٹ سے ميں نروس ہوگيا۔ ابھي قاضي کا سوال بھي پورا نہيں ہوا تھا کہ ميں نے ،جي ہاں قبول ہے، کہہ ديا۔ آواز ايک لخت اتنے زور سے نکلي کہ ميں خود چونک پڑا قاضي اچھل کر سہرے ميں گھس گيا۔ حاضرين کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہيں کہ اتنے زور کي ہاں سے بيٹي والوں کي ہيٹي ہوتي ہے۔ بس تمام عمران کا يہي حال رہا۔ اور تمام عمر ميں کربِ قرابت داري وقربتِ قہري دونوں ميں مبتلا رہا۔
،،حالانکہ اکلوتي بيٹي، بلکہ اکلوتي اولاد تھي اور بيوي کو شادي کے بڑے ارمان تھے،ليکن قبلہ نے مائيوں کے دن عين اس وقت جب ميرا رنگ نکھارنے کيلئے ابٹن ملا جارہا تھا، کہلا بھيجا کہ دولہا ميري موجودگي ميں اپنا منہ سہرے سے باھر نہيں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواري سے اتر جائے گا اور پيدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نےاس طرح کہا جيسے اپنے فيض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہيں۔ اور سچ تو يہ ھے کہ قبلہ کي دہشت دل ميں ايسي بيٹھ گئي تھي کہ مجھے تو عروسي چھپر کھٹ بھي پھانسي گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نےيہ شرط بھي لگائي کہ براتي پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہر گز يہ نہيں کہيں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈيوڑھي نہيں پڑي۔ خوب سمجھ لو، ميري حويلي کے سامنے بينڈ باجا ہر گز نہيں بجے گا۔ اور تمہيں رنڈي نچواني ہے تو Over my dead body، اپنے کوٹھے پر نچواؤ۔
،،کسي زمانے ميں راجپوتوں اور عربوں ميں لڑکي کي پيدائش نحوست اور قہر الٰہي کي نشاني تصور کي جاتي تھي۔ ان کي غيرت يہ کيسے گوارا کرسکتي تھي کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائيدہ لڑکي کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشيانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑدينے کے حق ميں تھے۔
،،چہرے، چال اور تيور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈي ميں ان کي عمارتي لکڑي کي ايک معمولي سي دکان ہے۔ نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد سينہ اور آنکھيں ، تينوں بيک وقت نکال کر چلتے۔ ارے صاحب! کيا پوچھتے ہيں؟ اول تو ان کے چہرے کي طرف ديکھنے کي ہمت نہيں ہوتي تھي، اور کبھي جي کڑا کرکے ديکھ بھي ليا تو بس لال بھبو کا آنکھيں نظر آتي تھيں۔
،،واللہ! ميں تو يہ تصور کرنے کي بھي جرات نہيں کرسکتا کہ دائي نے انہيں چوڑي دار کے بغير ديکھا ہوگا۔ بھري بھري پنڈليوں پر خوب کھبتا تھا۔ ہاتھ کے بنےريشمي ازار بند ميں چابيوں کا گچھا چھنچھناتا رہتا۔ جو تالے برسوں پہلے بے کار ھوگئے تھے ان کي چابياں بھي اس گچھے ميں محفوظ تھيں۔ حد يہ کہ اس تالے کي بھي چابي تھي جو پانچ سال پہلے چوري ہوگيا تھا۔ محلے ميں اس چوري کابرسوں چرچا رہا۔ اس لئے کہ چور صرف تالا، پھرہ دينے والا کتا اور ان کا شجرہ نصب چرا کر لے گيا تھا۔ فرماتے تھے کہ اتني ذليل چوري صرف کوئي عزيز رشتے دار ہي کرسکتا ہے۔ آخري زمانے ميں يہ ازاربندی گچھا بہت وزني ہو گيا تھا اور موقع بے موقع فلمي گيت کے بازو بند کي طرح کھل کھل جاتا۔ کبھي جھک کر گرم جوشي سےمصافحہ کرتے تو دوسرے ہاتھ سے ازار بند تھامتے، مئي جون ميں ٹمپريچر 110 ہوجاتااور منہ پر لو کے تھپڑ سے پڑنے لگتے تو پاجامے سے ائير کنڈينشنگ کرليتے۔ مطلب يہ کہ چوڑيوں کو گھٹنوں گھٹنوں پاني ميں بگھو کر سر پر انگوچھا ڈالے، تربوز کھاتے۔ خس خانہ و برفاب کہاں سے لاتے۔ اس کے محتاج بھی نہ تھے۔ کتني ہي گرمي پڑے۔ دکان بند نہيں کرتےتھے۔ کہتے تھے ،مياں! يہ تو بزنس، پيٹ کا دھندا ہے۔ جب چمڑے کي جھونپڑي ( پيٹ ) ميں آگ لگ رہي ہو تو کيا گرمي کيا سردي،۔ ليکن ايسےميں کوئي شامت کا مارا گاہک آنکلے تو برا بھلا کہہ کے بھگا ديتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کھنچا کھنچا دوبارہ انہي کے پاس آتا تھا۔ اس لئے کہ جيسي عمدہ لکڑي وہ بيچتے تھے۔ ويسي سارے کانپور ميں کہيں نہيں ملتي تھي۔ فرماتے تھے، داغي لکڑي بندے نے آج تک نہيں بيچي، لکڑي اورداغ دار؟ داغ تو دو ہي چيزوں پرسجتا ہے۔ دل اور جواني۔
يادش بخير! ميں نے 1945 ميں جب قبلہ کو پہلے پہل ديکھا تو ان کا حليہ ايسا ہو گيا تھا جيسا اب ميرا ہے۔ ليکن ذکر ہمارے يار طرح دار بشارت علي فاروقي کے خسر کا ہے، لٰہذا تعارف کچھ انہي کي زباں سے اچھا معلوم ہوگا۔ ہم ني بارہا سنا آپ بھي سنيے۔
،،وہ ہميشہ سے ميرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے ميں ميرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے ميں انہيں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھي يقينا وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت ميں نے بولنا شروع نہیں کيا تھا۔ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور ميں رشتے ناتے ابلي ھوئي سويّوں کي طرح الجھے اور پيچ در پيچ گھتے ہوتے ہیں۔ ايسا جلالي، ايسا مغلوب الغضب آدمي زندگي ميں نہيں ديکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا توميري عمر آدھي ادھر ، آدھي ادھر ، چاليس کے لگ بھگ تو ہوگي۔ ليکن صاحب! جيسي دہشت ان کي آنکھيں ديکھ کر چھٹ پن ميں ہوئي تھي، ويسے ہي نہ صرف ان کے آخري دم تک رہي، بلکہ ميرے آخري دم تک بھي رہےگي۔ بڑي بڑي آنکھيں اپنے ساکٹ سے نکلي پڑتي تھيں۔ لال سرخ۔ ايسي ويسي؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑي بڑي پتليوں کے گردلال ڈوروں سے ابھي خون کے فوارے چھوٹنے لگيں گے اور ميرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے ميں بھرے رھتے تھے۔ جنے کيوں۔گالي ان کا تکيہ کلام تھي۔ اور جو رنگ تقرير کا تھا وہي تحرير کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے ۔ ظاہر ہے کچہ ايسے لوگوں سے بھي پالا پڑتا تھا، جنہيں بوجوہ گالي نہيں دے سکتے۔ ايسے موقعوں پر زبان سے تو کچہ نہ کہتے ليکن چہرے پر ايسا ايکسپريشن لاتے کہ قد آدم گالي نظر آتے۔ کس کي شامت آئي تھي کہ ان کي کسي بھي رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئي شخص محض ڈر کے مارے ان کي رائے سے اتفاق کرليتا تو فورا اپني رائے تبديل کر کے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔
،،ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کي بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہو جاتے تھے، آپ کچھ بھي کہيں، کيسي ہي سچي اور سامنے کي بات کہيں وہ اس کي ترديد ضرور کريں گے۔ کسي کي رائے سے اتفاق کرنے ميں اپني سبکي سمجھتے تھے۔ ان کا ھر جملہ نہيں سے شروع ہوتا تھا۔ ايک دن کانپور ميں کڑاکے کي سردي پڑ رہي تھي۔ ميرے منھ سے نکل گيا کہ ،آج بڑي سردي ہے، بولے ،نہيں۔ کل اس سے زيادہ پڑے گي،۔
،،وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر ليکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کي جسارت نہ ہوئي۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو ميں بيٹھے تھے۔ قاضي نے مجھ سے پوچھا قبول ہے؟ ان کے سامنے منھ سے ہاں کہنے کي جرائت نہ ہوئي۔ بس اپني ٹھوڑي سے دو مودبانہ ٹھونگيں مارديں جنہيں قاضي اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کيلئے ناکافي سمجھا قبلہ کڑک کر بولے ،لونڈے بولتا کيوں نہیں؟، ڈانٹ سے ميں نروس ہوگيا۔ ابھي قاضي کا سوال بھي پورا نہيں ہوا تھا کہ ميں نے ،جي ہاں قبول ہے، کہہ ديا۔ آواز ايک لخت اتنے زور سے نکلي کہ ميں خود چونک پڑا قاضي اچھل کر سہرے ميں گھس گيا۔ حاضرين کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہيں کہ اتنے زور کي ہاں سے بيٹي والوں کي ہيٹي ہوتي ہے۔ بس تمام عمران کا يہي حال رہا۔ اور تمام عمر ميں کربِ قرابت داري وقربتِ قہري دونوں ميں مبتلا رہا۔
،،حالانکہ اکلوتي بيٹي، بلکہ اکلوتي اولاد تھي اور بيوي کو شادي کے بڑے ارمان تھے،ليکن قبلہ نے مائيوں کے دن عين اس وقت جب ميرا رنگ نکھارنے کيلئے ابٹن ملا جارہا تھا، کہلا بھيجا کہ دولہا ميري موجودگي ميں اپنا منہ سہرے سے باھر نہيں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواري سے اتر جائے گا اور پيدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نےاس طرح کہا جيسے اپنے فيض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہيں۔ اور سچ تو يہ ھے کہ قبلہ کي دہشت دل ميں ايسي بيٹھ گئي تھي کہ مجھے تو عروسي چھپر کھٹ بھي پھانسي گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نےيہ شرط بھي لگائي کہ براتي پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہر گز يہ نہيں کہيں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈيوڑھي نہيں پڑي۔ خوب سمجھ لو، ميري حويلي کے سامنے بينڈ باجا ہر گز نہيں بجے گا۔ اور تمہيں رنڈي نچواني ہے تو Over my dead body، اپنے کوٹھے پر نچواؤ۔
،،کسي زمانے ميں راجپوتوں اور عربوں ميں لڑکي کي پيدائش نحوست اور قہر الٰہي کي نشاني تصور کي جاتي تھي۔ ان کي غيرت يہ کيسے گوارا کرسکتي تھي کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائيدہ لڑکي کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشيانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑدينے کے حق ميں تھے۔
،،چہرے، چال اور تيور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈي ميں ان کي عمارتي لکڑي کي ايک معمولي سي دکان ہے۔ نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد سينہ اور آنکھيں ، تينوں بيک وقت نکال کر چلتے۔ ارے صاحب! کيا پوچھتے ہيں؟ اول تو ان کے چہرے کي طرف ديکھنے کي ہمت نہيں ہوتي تھي، اور کبھي جي کڑا کرکے ديکھ بھي ليا تو بس لال بھبو کا آنکھيں نظر آتي تھيں۔
نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتي ہے اسد
رنگ گندمي آپ جيسا ، جسےآپ اس گندم جيسا بتاتے ہيں جسے کھاتے ہي حضرت آدم، بيک بيوي و دو گوش جنت سے نکال ديے گئے۔ جب ديکھو جِھلاّ تے تنتناتے رہتے ہيں۔ مزاج ،زبان اور ہاتھ کسي پر قابو نہ تھا۔ دائمي طيش سي لرزہ براندام رہنے کے سبب اينٹ، پتھر، لاٹھي، گولي، گالي،کسي کا بھي نشانہ ٹھيک نہيں لگتا تھا۔ گچھي گچھي مونچھيں جنہيں گالي دينے سے پہلے اور بعد ميں تاؤ ديتے۔ آخري زمانے ميں بھوؤں کو بھي بل دينے لگے۔ گھٹا ہوا کسرتي بدن ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا۔ چني ھوئي آستين اور اس سے بھي مہين چني ہوئي دوپلي ٹوپي۔ گرميوں ميں خس کا عطر لگاتے۔ کيکري کي سِلائي کا چوڑي دار پاجامہ، چوڑيوں کي يہ کثرت کہ پاجامہ نظر نہيں آتا تھا۔ دھوبي الگنی پر نہیں سکھاتا تھا۔ علیحدہ بانس پر دستانے کی طرح چڑھا دیتا تھا۔ آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر بلائيں تو چوڑي دار ہي ميں برآمد ہوں گے۔،،واللہ! ميں تو يہ تصور کرنے کي بھي جرات نہيں کرسکتا کہ دائي نے انہيں چوڑي دار کے بغير ديکھا ہوگا۔ بھري بھري پنڈليوں پر خوب کھبتا تھا۔ ہاتھ کے بنےريشمي ازار بند ميں چابيوں کا گچھا چھنچھناتا رہتا۔ جو تالے برسوں پہلے بے کار ھوگئے تھے ان کي چابياں بھي اس گچھے ميں محفوظ تھيں۔ حد يہ کہ اس تالے کي بھي چابي تھي جو پانچ سال پہلے چوري ہوگيا تھا۔ محلے ميں اس چوري کابرسوں چرچا رہا۔ اس لئے کہ چور صرف تالا، پھرہ دينے والا کتا اور ان کا شجرہ نصب چرا کر لے گيا تھا۔ فرماتے تھے کہ اتني ذليل چوري صرف کوئي عزيز رشتے دار ہي کرسکتا ہے۔ آخري زمانے ميں يہ ازاربندی گچھا بہت وزني ہو گيا تھا اور موقع بے موقع فلمي گيت کے بازو بند کي طرح کھل کھل جاتا۔ کبھي جھک کر گرم جوشي سےمصافحہ کرتے تو دوسرے ہاتھ سے ازار بند تھامتے، مئي جون ميں ٹمپريچر 110 ہوجاتااور منہ پر لو کے تھپڑ سے پڑنے لگتے تو پاجامے سے ائير کنڈينشنگ کرليتے۔ مطلب يہ کہ چوڑيوں کو گھٹنوں گھٹنوں پاني ميں بگھو کر سر پر انگوچھا ڈالے، تربوز کھاتے۔ خس خانہ و برفاب کہاں سے لاتے۔ اس کے محتاج بھی نہ تھے۔ کتني ہي گرمي پڑے۔ دکان بند نہيں کرتےتھے۔ کہتے تھے ،مياں! يہ تو بزنس، پيٹ کا دھندا ہے۔ جب چمڑے کي جھونپڑي ( پيٹ ) ميں آگ لگ رہي ہو تو کيا گرمي کيا سردي،۔ ليکن ايسےميں کوئي شامت کا مارا گاہک آنکلے تو برا بھلا کہہ کے بھگا ديتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کھنچا کھنچا دوبارہ انہي کے پاس آتا تھا۔ اس لئے کہ جيسي عمدہ لکڑي وہ بيچتے تھے۔ ويسي سارے کانپور ميں کہيں نہيں ملتي تھي۔ فرماتے تھے، داغي لکڑي بندے نے آج تک نہيں بيچي، لکڑي اورداغ دار؟ داغ تو دو ہي چيزوں پرسجتا ہے۔ دل اور جواني۔