رضوان
محفلین
کوہ آتش فشاں ميں چھلانگ
بالآخر ايک سہاني صبح بشارت نے بقلم خود رقعہ لکھا اور رجسٹري سے بھجواديا، حالانکہ مکتوب اليہ کے مکان کي ديوار ملي ہوئي تھي۔ رقعہ 23 صفحات اور کم و بيش پچاس اشعار پر مشتمل تھا۔ جن ميں سے آدھے اپنے اور آدھے عندليب شاداني کے تھے جن سے قبلہ کے برادرانہ مراسم تھے۔ اس زمانے ميں رقعے زعفران سے لکھے جاتے تھے۔ ليکن اس رقعے کے ليے تو زعفران کا ايک کھيت بھي ناکافي ہوتا۔ لہذا صرف القاب و آداب زعفران سے اور بقيہ مضمون سُرخ روشنائي سے زيڈ کے موٹے نِب سے لکھا۔ جن حصوں پر بطور خاص توجہ دلاني مقصود تھي انھيں نيلي روشنائي سے باريک حروف ميں لکھا۔ مدّعا اگرچہ گستاخانہ ليکن لہجہ برابر فدويانہ اور مضمون بے حد خوشامدانہ تھا۔ قبلہ کے حسن اخلاق، شفقت، خوش خوئي، خوش معاملگي، صلہ رحمي، نرم گفتاري، مردانہ وجاہت ------ مختصر يہ کہ ہر اس خوبي کي جي کھول کر تعريف کي جس کا شائبہ تک قبلہ کے کردار ميں نہ تھا۔ ساتھ ساتھ قبلہ کے دشمنوں کے نام بنام ڈٹ کر برائي کي۔ ان کي تعداد اتني تھي کہ23 صفحات کے کوزے ميں بند کرکے کھرل کرنا انھي کا کام تھا۔ بشارت نے جي کڑا کر کے يہ تو لکھ ديا کہ ميں شادي کرنا چاہتا ہوں۔ ليکن اس وضاحت کي ہمت نہ پڑي کہ کس سے۔ مضمون بے ربط وژوليدہ سہي ليکن قبلہ اپنے حسنِ سيرت اور دشمنوں کي حرمزدگيوں کے بيان سے بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے ان کو کسي نے وجیہہ بھي نہيں کہا تھا۔ دو دفعہ پڑھ کر اپنے منشي کو پکڑا ديا کہ تم ہي پڑھ کر بتاؤ صاحب زادے کس سے نکاح کرنا چاہتے ہيں۔ اوصاف تو ميرے بيان کيے ہيں۔
قبلہ دير تک اپنے مبينہ اوصاف حميدہ پر دل ہي دل ميں اِترايا کيے۔ گليشيئر تھا کہ پگھلا جارہا تھا۔ مسکراتے ہوئے، منشي جي سے گويا ہوئے، بعضے بعضے بے استادے شاعر کے اشعار ميں کبھي کبھي الف گرتا ہے۔ اس کے اشعار ميں تو الف سے لے کر ے تک سارے حروف تہجّي ايک دوسرے پر گرے پڑ رہے ہيں۔ جيسے عيدگاہ ميں نمازي ايک دوسرے کي کمر پر رکوع وسجود کررہے ہوں۔
بشارت کي جرات رندانہ کي کہاني جس نے سني ششدر رہ گيا۔ خيال تھا کہ کوہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔ قبلہ نے اگر ازراہِ ترحم سارے خاندان کو قتل نہيں کيا تو کم از کم ہر ايک ٹانگيں ضرور توڑديں گے۔ يہ سب کچھ نہيں ہوا قبلہ نے بشارت کو اپني غلامي قبول کرليا۔
بالآخر ايک سہاني صبح بشارت نے بقلم خود رقعہ لکھا اور رجسٹري سے بھجواديا، حالانکہ مکتوب اليہ کے مکان کي ديوار ملي ہوئي تھي۔ رقعہ 23 صفحات اور کم و بيش پچاس اشعار پر مشتمل تھا۔ جن ميں سے آدھے اپنے اور آدھے عندليب شاداني کے تھے جن سے قبلہ کے برادرانہ مراسم تھے۔ اس زمانے ميں رقعے زعفران سے لکھے جاتے تھے۔ ليکن اس رقعے کے ليے تو زعفران کا ايک کھيت بھي ناکافي ہوتا۔ لہذا صرف القاب و آداب زعفران سے اور بقيہ مضمون سُرخ روشنائي سے زيڈ کے موٹے نِب سے لکھا۔ جن حصوں پر بطور خاص توجہ دلاني مقصود تھي انھيں نيلي روشنائي سے باريک حروف ميں لکھا۔ مدّعا اگرچہ گستاخانہ ليکن لہجہ برابر فدويانہ اور مضمون بے حد خوشامدانہ تھا۔ قبلہ کے حسن اخلاق، شفقت، خوش خوئي، خوش معاملگي، صلہ رحمي، نرم گفتاري، مردانہ وجاہت ------ مختصر يہ کہ ہر اس خوبي کي جي کھول کر تعريف کي جس کا شائبہ تک قبلہ کے کردار ميں نہ تھا۔ ساتھ ساتھ قبلہ کے دشمنوں کے نام بنام ڈٹ کر برائي کي۔ ان کي تعداد اتني تھي کہ23 صفحات کے کوزے ميں بند کرکے کھرل کرنا انھي کا کام تھا۔ بشارت نے جي کڑا کر کے يہ تو لکھ ديا کہ ميں شادي کرنا چاہتا ہوں۔ ليکن اس وضاحت کي ہمت نہ پڑي کہ کس سے۔ مضمون بے ربط وژوليدہ سہي ليکن قبلہ اپنے حسنِ سيرت اور دشمنوں کي حرمزدگيوں کے بيان سے بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے ان کو کسي نے وجیہہ بھي نہيں کہا تھا۔ دو دفعہ پڑھ کر اپنے منشي کو پکڑا ديا کہ تم ہي پڑھ کر بتاؤ صاحب زادے کس سے نکاح کرنا چاہتے ہيں۔ اوصاف تو ميرے بيان کيے ہيں۔
قبلہ دير تک اپنے مبينہ اوصاف حميدہ پر دل ہي دل ميں اِترايا کيے۔ گليشيئر تھا کہ پگھلا جارہا تھا۔ مسکراتے ہوئے، منشي جي سے گويا ہوئے، بعضے بعضے بے استادے شاعر کے اشعار ميں کبھي کبھي الف گرتا ہے۔ اس کے اشعار ميں تو الف سے لے کر ے تک سارے حروف تہجّي ايک دوسرے پر گرے پڑ رہے ہيں۔ جيسے عيدگاہ ميں نمازي ايک دوسرے کي کمر پر رکوع وسجود کررہے ہوں۔
بشارت کي جرات رندانہ کي کہاني جس نے سني ششدر رہ گيا۔ خيال تھا کہ کوہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔ قبلہ نے اگر ازراہِ ترحم سارے خاندان کو قتل نہيں کيا تو کم از کم ہر ايک ٹانگيں ضرور توڑديں گے۔ يہ سب کچھ نہيں ہوا قبلہ نے بشارت کو اپني غلامي قبول کرليا۔