رضوان

محفلین
کوہ آتش فشاں ميں چھلانگ
بالآخر ايک سہاني صبح بشارت نے بقلم خود رقعہ لکھا اور رجسٹري سے بھجواديا، حالانکہ مکتوب اليہ کے مکان کي ديوار ملي ہوئي تھي۔ رقعہ 23 صفحات اور کم و بيش پچاس اشعار پر مشتمل تھا۔ جن ميں سے آدھے اپنے اور آدھے عندليب شاداني کے تھے جن سے قبلہ کے برادرانہ مراسم تھے۔ اس زمانے ميں رقعے زعفران سے لکھے جاتے تھے۔ ليکن اس رقعے کے ليے تو زعفران کا ايک کھيت بھي ناکافي ہوتا۔ لہذا صرف القاب و آداب زعفران سے اور بقيہ مضمون سُرخ روشنائي سے زيڈ کے موٹے نِب سے لکھا۔ جن حصوں پر بطور خاص توجہ دلاني مقصود تھي انھيں نيلي روشنائي سے باريک حروف ميں لکھا۔ مدّعا اگرچہ گستاخانہ ليکن لہجہ برابر فدويانہ اور مضمون بے حد خوشامدانہ تھا۔ قبلہ کے حسن اخلاق، شفقت، خوش خوئي، خوش معاملگي، صلہ رحمي، نرم گفتاري، مردانہ وجاہت ------ مختصر يہ کہ ہر اس خوبي کي جي کھول کر تعريف کي جس کا شائبہ تک قبلہ کے کردار ميں نہ تھا۔ ساتھ ساتھ قبلہ کے دشمنوں کے نام بنام ڈٹ کر برائي کي۔ ان کي تعداد اتني تھي کہ23 صفحات کے کوزے ميں بند کرکے کھرل کرنا انھي کا کام تھا۔ بشارت نے جي کڑا کر کے يہ تو لکھ ديا کہ ميں شادي کرنا چاہتا ہوں۔ ليکن اس وضاحت کي ہمت نہ پڑي کہ کس سے۔ مضمون بے ربط وژوليدہ سہي ليکن قبلہ اپنے حسنِ سيرت اور دشمنوں کي حرمزدگيوں کے بيان سے بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے ان کو کسي نے وجیہہ بھي نہيں کہا تھا۔ دو دفعہ پڑھ کر اپنے منشي کو پکڑا ديا کہ تم ہي پڑھ کر بتاؤ صاحب زادے کس سے نکاح کرنا چاہتے ہيں۔ اوصاف تو ميرے بيان کيے ہيں۔
قبلہ دير تک اپنے مبينہ اوصاف حميدہ پر دل ہي دل ميں اِترايا کيے۔ گليشيئر تھا کہ پگھلا جارہا تھا۔ مسکراتے ہوئے، منشي جي سے گويا ہوئے، بعضے بعضے بے استادے شاعر کے اشعار ميں کبھي کبھي الف گرتا ہے۔ اس کے اشعار ميں تو الف سے لے کر ے تک سارے حروف تہجّي ايک دوسرے پر گرے پڑ رہے ہيں۔ جيسے عيدگاہ ميں نمازي ايک دوسرے کي کمر پر رکوع وسجود کررہے ہوں۔
بشارت کي جرات رندانہ کي کہاني جس نے سني ششدر رہ گيا۔ خيال تھا کہ کوہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔ قبلہ نے اگر ازراہِ ترحم سارے خاندان کو قتل نہيں کيا تو کم از کم ہر ايک ٹانگيں ضرور توڑديں گے۔ يہ سب کچھ نہيں ہوا قبلہ نے بشارت کو اپني غلامي قبول کرليا۔
 

رضوان

محفلین
راون کيوں مارا گيا؟
قبلہ کي دکان داري اور اس کي لائي ہوئي آفتوں کي ايک مثال ہوتو بيان کريں۔ کوئي گاہک اشارۃً يا کنايتًہ بھي ان کي کسي بات يا بھاؤ پر شک کرے تو پھر اس کي عزت ہي نہيں، ہاتھ پير کي بھي خير نہيں۔ ايک دفعہ عجلت ميں تھے۔ لکڑي کي قيمت چھوٹتے ہي دس روپے بتادي۔ ديہاتي گاہک نے پونے دس لگائے اور يہ گالي ديتے ہوئے مارنے کو دوڑے کہ جٹ گنوار کو اتني جرات کيسے ہوئي۔ دکان ميں ايک ٹوٹی ہوئي چارپائي پڑي رہتي تھي۔ جس کے بانوں کو چرا چرا کر آرا کھينچنے والے مزدور چلم ميں بھر کے سلفے کے دم لگاتے تھے۔ قبلہ جب باقاعدہ مسلح ہو کر حملہ کرناچاہتے تو اس چارپائي کا سيروا يعني سرھانے کي پٹّي نکال کر اپنے دشمن يعني گاہک پر جھپٹتے۔ اکثر سيروے کو پچکارتے ہوئے فرماتے "عجب سخت جان ہے۔ آج تک اس ميں فريکچر نہيں ہوا۔ لٹھ رکھنا بزدلوں اور گنواروں کا وتيرہ ہے۔ اور لاٹھي چلانا، قصائي ، کنجڑوں ، غنڈوں، اور پوليس کا کام ہے۔“ استعمال کے بعد سيروے کي فرسٹ ايڈ کرکے يعني انگوچھے سے اچھي طرح جھاڑ پونچھ کر واپس جھلنگے ميں لگا ديتے۔ اس طريقہ واردات ميں غالباً يہ حکمت عملي پوشيدہ تھي کہ چار پائي تک جانے اور سيروا نکالنے کے وقفے ميں اگر غصے کو ٹھنڈا ہونا ہے تو ہوجائے۔ اور اگر ان کے معتوب کي بينائي اور عقل زائل نہيں ہوئي ہے تو وہ اپني ٹانگوں کے استعمال ميں مزيد بخل سے کام نہ لے۔ ايک قديم چيني کہاوت ہے کہ لڑائي جو370 پينترے داناؤں نے گنوائے ہيں، ان ميں جو پينترا سب سے کارآمد بتايا گيا ہے وہ يہ ہے کہ بھاگ لو! اس کي تصديق ہندو دیومالاسے بھي ہوتي ہے۔ راون کے دس سر اور بيس ہاتھ تھے۔ پھر بھي مارا گيا۔ اس کي وجہ ھماري سمجھ ميں تو يہي آتي ہے کہ بھاگنے کے ليے صرف دو ٹانگيں تھيں۔ حملہ کرنے سے پہلے قبلہ کچھ دير خوخياتے تاکہ مخالف اپني جان بچانا چاہتا ہے توبچا لے۔ فرماتے تھے، آج تک ايسا نہيں ہوا کہ کسي شخص کي ٹھکائي کرنے سے پہلے ميں نے اسے گالي دے کر خبردار نہ کيا ہو۔ کيا شعر ہے وہ بھلا سا؟ ہاں!
پشّہ سے سيکھے شيوہ مردانگي کوئي
جب قصدِ خوں کو آئے تو پہلے پکار دے​
انساني کردار ميں مچھر کي صفات پيدا کرکے اتنا فخر کرتے ہم نے انھي کو ديکھا۔ پروفيسر قاضي عبدالقدوس، ايم اے ، بی ٹي نے ان کے خيالات سےمتاثر ہو کر اپنےدو بقراطي ليکچروں کے مجموعے بعنوان "خطابات چاکسو" کي آؤٹ لائن بنائي۔ "مشرقي شعر و روايت ميں پشہ کا مقام: تاريخي تناظر ميں معروضي زاويے سے“ اور " موازنہ پشہ و شاھين“ ہمارے قارئين ماشااللہ عاقل ہيں۔ اشارے کي بھي ضرورت نہيں کہ ميدان کس کے ہاتھ رہا۔
 

رضوان

محفلین
ہوں لائق تعز ير، پہ الزام غلط ہے
قبلہ کي ہيبت سب کے دلوں پر بيٹھي تھي۔ بجز دائيں جانب والے دکان دار کے۔ وہ قنوج کا رہنے والا، نہايت خود سر، ہتھ چھُٹ، بدمعاملہ اور بد زبان آدمي تھا۔ عمر ميں قبلہ سے بيس سال کم ہوگا۔ يعني جوان اور سرکش، چند سال پہلے تک اکھاڑے ميں باقاعدہ زور کرتا تھا۔ پہلوان سيٹھ کہلاتا تھا۔ ايک دن ايسا ہوا کہ ايک گاہک قبلہ کي سرحد ميں 4/3 داخل ہوچکا تھا کہ پہلوان سيٹھ اسے پکڑ کر گھسيٹتا ہوا اپني دکان ميں لے گيا اور قبلہ “مہاراج! مہاراج!“ پکارتے رہ گئے۔ کچھ دير بعد وہ اس کي دکان ميں گھس کر گاہک کو چھڑا کر لانے کي کوشش کررہے تھے۔ کہ پہلوان سيٹھ نے ان کو وہ گالي دي جو وہ خود سب کو ديا کرتے تھے۔
پھر کيا تھا قبلہ نے اپنے اسلحہ خانہ خاص يعني چارپائي سے پٹي نکالي اور ننگے پير دوڑتے ہوئے اس کي دکان ميں دوبارہ داخل ہوئے۔ گاہک نے بيچ بچاؤ کرانے کي کوشش کي اور اولين غفلت ميں اپنا دانت تڑوا کر مصالحتي کاروائي سے ريٹائر ہوگيا۔ دريدہ دہن پہلوان سيٹھ دکان چھوڑ کر بگٹٹ بھاگا۔ قبلہ اس کے پیچھے سر پٹ۔ تھوڑي دور جاکر اس کا پاؤں ريل کي پٹڑي ميں الجھا اور وہ منھ کے بل گرا قبلہ نے جا ليا۔ پوري طاقت سے ايسا وار کيا کہ پٹّي کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ معلوم نہيں اس سے چوٹ آئي یا ريل کي پٹڑي پر رگرنے سے۔ وہ دير تک بے ہوش پڑا رہا۔ اس کے گرد خون کي تليا سي بن گئي۔
پہلوان سيٹھ کي ٹانگ کے multiple فريکچر ميں گنگرين ہوگيا اور ٹانگ کاٹ دي گئي۔ فوجداري مقدمہ بن گيا۔ اس نے پوليس کو خوب پيسا کھلايا اور پوليس نے ديرينہ عداوت کي بنا پر قبلہ کا اقدام قتل ميں چالان پيش کرديا۔ تعزيرات ہند کي اور بہت سی دفعات بھي لگاديں۔ لمبي چوڑي فردِ جرم سن کر قبلہ فرمانے لگے کہ ٹانگ کا نہيں، تعزيراتِ ہند کا ملٹي پل فريکچر ہوا ہے۔ پوليس گرفتار کرکے لے جانے لگي تو بيوي نے پوچھا “اب کيا ہوئے گا؟“ کندھے اچکاتے ہوئے بولے“ديکھيں گے“ عدالت مجسٹريٹي ميں بيچ بچاؤ کرنے والے گاہک کا دانت اور آلہ قتل يعني چار پائي مع خون پلائي ہوئي پٹّي کے بطور exhibits پيش ہوئے۔ مقدّمہ سيشن سپرد ہوگيا۔ قبلہ کچھ عرصے ريمانڈ پر جوڈيشنل حوالات ميں رہے تھے۔ اب جيل ميں باقاعدہ خونيوں ، ڈاکوؤں ، جيب کتروں اور عادي مجرموں کے ساتھ رہنا پڑا۔ تين چار مچیٹوں کے بعد وہ بھي قبلہ کو اپنا چچا کہنے اور ماننے لگے۔
ان کي طرف سے يعني بحثيت وکيل صفائي کانپور کي ايک لائق بيرسٹر مصطفٰے رضا قزلباش نے پيروي کي۔ مگر وکيل اور مؤکل کا کسي ايک نکتے پر بھي اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ مثلا قبلہ بضد تھےکہ حلف اٹھا کر بيان دوں گا مضروب نے اپني ولديت غلط لکھوائي ہے۔ اس کی صورت اپنے باپ سے نہيں، باپ کے ايک اوباش دوست سے ملتي ہے۔ بيرسٹر موصوف يہ موقف اختيار کرنا چاہتے تھے کہ چوٹ ريل کي پٹڑي پر گرنے سے آئي ہے، نہ کہ ملزم کي مبينہ ضرب سے۔ ادھر قبلہ کمرھ عدالت ميں فلمي بيرسٹروں کي طرح طرح ٹہل ٹہل کراور کٹہر ے کو جنھجھوڑ جنھجھوڑ کر يہ اعلان کرنا چاہتے تھے کہ ميں سپاھي بچّہ ہوں۔ دکان داری ميرے ليے کبھی ذريعہ عزت نہين رہي بلکہ عر صہ دراز سے ذريعہ آمدني بھي نہيں رہی۔ ٹانگ پر وار کرنا ہماري شانِ سپہ گري اور شيوہ مردانگي کي توہين ہے۔ ميں تو دراصل اس کا سر پاش پاش کرنا چاہتا تھا۔ لہذا اگر مجھےسزا ديني ہي تو ٹانگ توڑنےکي نہيں، غلط نشانے کي ديجئیے: ہوں لائق تعزير ، پہ الزام غلط ہے۔
 

رضوان

محفلین
ايام اسيري اور جوں کا بلڈ ٹيسٹ
عدالت ميں فوجداري مقدّمہ چل رہا تھا۔ قرائن کہتے تھے کہ سزاہوجائے گي اور خاصي لمبي۔ گھر ميں ہر پيشي کے دن رونا پيٹنا مچتا۔ اعزاہ اور احباب اپني جگہ پريشان اور سراسيمہ کہ ذرا سي بات پر يہ نوبت آگئي۔ پوليس انھيں ہتھکڑي پہنا کر سارے شہر کا چکر دلا کر عدالت ميں پيش کرتي اور پہلوان سيٹھ سے حق الخدمت وصول کرتي۔ بھولي بھالي بيوي کو يقين نہيں آتا تھا۔ ايک ايک سے پوچھتيں “بھيا! کيا سچ مچ کي ھتھکڑي پہنائي تھي؟“ عدالت کے اندر اور باہر قبلہ کے تمام دشمنوں يعني سارے شھر کا ہجوم ہوتا۔ سارے خاندان کي ناک کٹ گئي۔ مگر قبلہ نے کبھي منھ پر توليا اور ہتھکڑي پر رومال نہيں ڈالا۔ گشت کے دوران مونچھوں پر تاؤ ديتے تو ہتھکڑي جھن جھن جھن جھن کرتي۔ رمضان آيا تو کسي نے مشورہ ديا کہ نماز روزہ شروع کرديجئے۔ اپنےکان ہي پور* کے مولانا حسرت موہاني تو روزے ميں چکي بھي پيستے تھے۔ قبلہ نے بڑي حقارت سے جواب ديا “لاحول ولا قوۃ! ميں شاعر تھوڑا ہي ہوں۔ يہ نام ہوگا غمِ روزگار سہ نہ سکا۔“
بيوي نے کئي مرتبہ پچھوايا “اب کياہوئے گا؟“
ہر بار ايک ہي جواب ملا “ديکھ ليں گے۔“
طيش کے عالم ميں جو بات منھ سے نکل جائے يا جو حرکت سرزد ہو جائے، اس پر انھيں کبھي نادم ہوتے نہيں ديکھا۔ فرماتے تھے کہ آدمي کے اصل کردار کي جھلک تو طيش کے کوندے ميں ہي دکھائي ديتي ہے ۔ چنانچہ اپنے کسي کرتوت يعني اصل کردار پر پشيمان يا پريشان ہونے کو مردوں کي شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ ايک دن ان کا بھتيجا شام کو جيل ميں کھانا اور جوئيں مارنے کي دوا دے گيا۔ دوا کے اشتہار ميں لکھا گيا تھا کہ اس کے ملنے سے جوئيں اندھي ہوجاتيں ہيں۔ پھر انھيں آساني سے پکڑ کر مارا جاسکتا ہے۔ جوں اور لیکھ مارنے کي مروّجہ ترکيب بھي درج تھي۔ يعني جوں کو بائيں ہاتھ کے انگوٹھے پر رکھو اور دائيں انگوٹھے کے ناخن سے چٹ سے کچل دو۔ اگر جون کے پيٹ سے کالا يا گہرا عُنابي خون نکلے تو فوراً ہماری دوا “اکسير جالينوس“ مصفّي خون پي کر اپنا خون صاف کيجئے۔ پرچے ميں يہ ہدايت بھي تھي کہ دوا کو کورس اس وقت جاري رکھا جائے جب تک جوں کے پيٹ سے صاف شدہ خون نہ نکلنے لگے۔قبلہ نے جنگلے کے اس طرف اشارے سے بھتيجے کو کہا کہ اپنا کان ميرے منھ کے قريب لاؤ۔ پھر اس سے کہا کہ برخوردار! زندگي کا بھروسہ نہيں۔ دنيا، اس جيل سميت، سرائے فاني ہے۔ غور سے سنو۔ يہ ميرا حکم بھي ہے اور وصيت بھي۔ لوہے کي الماري ميں دو ہزار روپے آڑے وقت کے ليے ردّي کے اخباروں کے نيچے چھپا آيا تھا۔ يہ رقم نکال کر الّن (شھر کا نامي غنڈہ) کو دے دينا۔ اپني چچي کو ميري طرف سے دلاسا دينا۔ الن کو ميري دعا کہنا اور يہ کہنا کہ ان چھئوں کي ايسي ٹھکائي کرے کہ گھر والے صورت نہ پہچان سکيں۔ يہ کہہ کر اخبار کا ايک مسلا ہوا پرزہ بھتيجے کو تھما ديا، جس کے حاشيے پر ان چھ گواہانِ استغاثہ کے نام درج تھے جن کو پٹوانے کا انھوں نے جيل ميں اس وقت منصوبہ بنايا تھا جب ايسي ہی حرکت پر انھيں آج کل ميں سزا ہونے والي تھي۔
ايک دفعہ اتوار کو ان کا بھتيجا جيل ميں ملاقات کيلئے آيا اور بولا کہ جيلر تک بآساني سفارش پہنچائي جاسکتي ہے۔ اگر آپ کا جي کسي خاص کھانے مثلا زردہ يا دہي بڑے، شوق کي مثنوي، سگريٹ يا مہوے کے پان کو چاہے تو چوري چھپے ہفتے ميں کمازکم ايک بار آساني سے پہنچايا جاسکتا ہے۔ چچي نے تاکيد سے کہا ہے۔ عيد نزديک آرہي ہے۔ رورو کر آنکھيں سجالي ہيں۔
قبلہ نے جيل کے کھدر کے نيکر پر دوڑتا ہوا کھٹمل پکڑتے ہوئے کہا، مجھے قطعي کسي چيز کي حاجت نہيں۔ اگلي دفعہ آؤ تو سراج فوٹو گرافر سے حويلي کا فوٹو کھنچوا کر لانا کئي مہينے ہوگئے ديکھے ہوئے۔ جدھر تمہاري چچي کے کمرے کي چق ہے، اس رخ سے کھينچے تو اچھي آئے گي۔
سنتري نے زمين پر زور سے بوٹ کي تھاپ لگاتے اور تھری ناٹ تھري کي رائفل کا کندہ بجاتے ہوئے ڈپٹ کر کہا ملاقات کا وقت ختم ہوچکا۔ عيد کا خيال کرکے بھتيجے کي آنکھيں ڈبڈبا آئيں اور اس نے نظريں نيچي کرليں۔اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ قبلہ نے اس کا کان پکڑا اور کھينچ کر اپنے منھ تک لانے کے بعد کہا، ہاں! ہوسکے تو جلد ايک تيز چاقو کم از کم چھ انچ کے پھل والا، ڈبل روٹي يا عيد کي سويوں ميں چھپا کر بھجوادو۔ دوم ، بمبئي ميں **Pentangular شروع ہونے والا ہے۔ کسے ترکيب سے مجھے روزانہ اسکور معلوم ہو جائے تو واللہ! ہر روز عيد ہو، ہر شب شبِ برات! خصوصا وزير علي کا اسکور دن کے دن معلوم ہو جائے تو کيا کہنا۔
سزا ہوگئي، ڈيڑھ سال قيدِ بامشقّت۔ فيصلہ سنا۔ سراٹھا کر اوپر ديکھا۔ گويا آسمان سے پوچھ رہے ہوں “تو ديکھ رہا ہے! کيا ہو رہا ہے؟ ?How's that “ پوليس ني ہتھکڑي ڈالي۔ قبلہ نے کسي قسم کے رد عمل کا اظہار نہيں کيا۔ جيل جاتے وقت بيوي کوکہلا بھيجا کہ آج ميرے جدّاعليٰ کي روحِ پُر فتوح کتني مسرور ہوگي۔ کتني خوش نصيب بي بي ہوتم کہ تمہارا دولھا (جي ہاں! یہي لفظ استعمال کيا تھا) ايک حرامزادے کي ٹھکائي کرکے مردوں کا زيور پہنےجيل، جارہا ہے۔ لکڑي کي ٹانگ لگوا کر گھر نہيں آرہا۔ دو رکعت نماز شکرانے کي پڑھنا۔ بھتيجے کو تاکيد کي کہ حويلي کي مرمت کراتے رہنا۔ اپني چچي کا خيال رکھنا۔ ان سے کہنا يہ دن بھي گزر جائيں گے۔ دل بھاري نہ کريں اور جمعے کوکاسني دوپٹا اوڑھنا نہ چھوڑيں۔
بيوي نے پچھوايا “اب کيا ہوئے گا؟“
جواب ملا، “ديکھا جائے گا۔“
------------------------------------------------------------------
* کان ہی پور کے: کانپور والے اکثر “ کانپور ہی کے “ کہنے کی بجائے “ کان ہی پور کے“ کہتے ہیں!
** Pentagular بمبئی میں سالانہ کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا تھا جس میں ہندو، مسلم، پارسی، اینگلوانڈین اور یورپین ٹیمیں حصّہ لیتی تھیں۔
 

رضوان

محفلین
ٹارزن کي واپسي
دو سال تک دکان ميں تالا پڑا رہا۔ لوگوں کا خيال تھا جيل سے چھوٹنے کے بعد چپ چپاتے کہيں اور چلے جائيں گے۔ قبلہ جيل سے چھوٹے۔ ذرا جو بدلے ہوں۔ ان کي ريڑھ کي ہڈي ميں جوڑ نہيں تھے۔ جاپاني زبان ميں کہاوت ھے کہ بندر درخت سے زمين پر گر پڑے، پھر بھي بندر ہي رہتا ہے۔ سو وہ بھي ٹارزن کي طرح ! AAuuaauuuu چنگاڑتے ہوئے جيل سے نکل کر سيدھے اپنے آبائي قبرستان گئے۔ والد کي قبر کي پائينتي کي خاک سر پر ڈالي۔ فاتحہ پڑھي اور کچھ سوچ کر مسکرا ديے۔
دوسرے دن دکان کھولي، کيبن کے باہر ايک بَلي گاڑ کر اس پر ايک لکڑي کي ٹانگ بڑھئي سے بنواکر لٹکادي۔ صبح و شام اس کو رَسّي سےکھينچ کر اس طرح چڑھاتے اوراتارتےتھے جس طرح اس زمانے ميں چھاؤنيوں ميں يونيں جيک چڑھايا اتارا جاتا تھا۔ جن نادہندوں نے دو سال سے رقم دبا رکھي تھي انھيں ياد دھاني کے دھمکي آميز خطوط لکھے۔ اور اپنے نام کے دستخط کے بعد بريکٹ ميں (سزا يافتہ) لکھا۔ جيل جانے سے پہلے خطوط ميں خود کو بڑے فخر سے “ننگِ اسلاف“ لکھا کرتے تھے۔ کس کي مجال نہ تھي کہ اس سےاتفاق کرے۔، اتفاق تو درکنار،مارے ڈر کے اختلاف بھي نہيں کرسکتا تھا۔ اب اپنےنام کے ساتھ ننگِ اسلاف کے بجائے “سزايافتہ“ اس طرح لکھنے لگے جيسے لوگ ڈگرياں يا خطاب لکھتے ہيں۔ قانون اور جيل سے ان کي جھجھک نکل چکي تھي۔
تو قبلہ جیسے گئے تھے ویسے ہی جیل کاٹ کر واپس آگئے۔ طنطنے اور آواز کے کڑکے میں ذرا فرق نہ آیا۔ اس اثنا میں اگر زمانہ بدل گیا تو اس میں انکا کوئی قصور نہیں تھا۔ اب ان کی رائے میں قطعیت کے ساتھ فقطیت بھی پیدا ہوگئی۔ ان کا فرمایا ہوا مستند تو پہلے ہی تھا، اب مختمم بھی ہوگیا۔ سیاہ مخمل کی رام پوری ٹوپی اور زیادہ تِرچھّی ہوگئی۔ یعنی اتنی جھکا کر ٹیڑھی اوڑھنے لگے کہ دائیں آنکھ ٹھیک سے نہیں کھول سکتے تھے۔ اب کبھی بیوی گبھرا کے “ اب کیا ہوئے گا؟“ کہتیں تو وہ “دیکھتے ہیں “ کے بجائے “دیکھ لیں گے“ اور دیکھتی جاؤ“ کہنے لگے۔ رہائی کے دن قریب آئے تو داڑھی کے علاقے کے بال بھی گپھے دار مونچھوں میں شامل کرلیے جو اَب اتی گھنی ہوگئی تھیں کہ ایک ہاتھ سے پکڑ کر اٹھاتے، تب کہیں دوسرے ہاتھ سے لقمہ رکھ پاتے تھے۔ جیل ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی۔ فرماتے تھے “یہیں تیسرے بیرک میں ایک منشی فاضل پاس جعلیا ہے۔ فصاحت یار خان۔ ٍبن اور دھوکہ دھی میں تین سال کی کاٹ رہا ہے۔ بامشقت۔ پہلے شعلہ اب حزیں تخلص کرتا ہے۔ بلا کا بسیار گو۔ چکی پیسنے میں اپنی ہی تازہ غزل گاتا رہتا ہے۔ موٹا پیستا ہے اور پٹتا ہے۔ اب یہ کوئی شاعری تو ہے نہیں۔تس پر خود کو غالب سے کم نہیں سمجھتا۔ حالاں کہ مماثلت صرف اتنی ہے کہ دونوں نے جیل کی ہوا کھائی۔ خود کو روہیلہ بتا تا ہے۔ ہوگا۔ لگتا نہیں۔ قیدیوں سے بھی منھ چھپائے پھرتا ہے۔ اپنے بیٹے کو ہدایت کر رکھی ہے کہ میرے بارے میں کوئی پوچھے تو کہہ دینا والد صاحب عارضی طور پر نقل مکانی کر گئے ہیں۔ جیل کو کبھی جیل نہیں کہتا۔ زنداں کہتا ہے۔ اور خود کو قیدی کے بجائے اسیر! ارے صاحب! غنیمت ہے کہ جیلر کو عزیزِمصر نہیں کہتا۔ اسے تو چکی کو آسیا کہنے میں بھی عار نہ ہوتی، مگر میں تو جانوں پاٹ کی عربی معلوم نہیں۔ شاید وہ سمجھتا ہے استفراغ اور اسہال کہنے سے قے دست تو بند نہیں ہوتے، بو جاتی رہتی ہے۔ کس واسطے کہ اس کے باپ کا انتقال ہیضے میں ہوا تھا۔ ارے صاحب! میں یہاں کسی کی جیب کاٹ کر تھوڑا ہی آیا ہوں۔ شیر کو پنجرے میں بند کردو، تب بھی شیر ہی رہتا ہے۔ گیڈر کو کچھار میں آذاد چھوڑ دو، اور زیادہ گیڈر ہوجائے گا۔ اب ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں کہ جیل کا گھٹنا ( گھٹنوں تک نیکر) پہنتے ہی طبیعت میں سوزو گداز پیدا ہوجائے۔“ بلکہ ہمیں تو قبلہ کی باتوں سے ایسا لگتا تھا کہ پھٹا ہوا کپڑا پہننے اور جیل میں قیام فرمانے کو سنتِ ئوسفی سمجھتے ہیں۔ ان کی مزاج میں جو ٹیڑھ تھی وہ کچھ اور بڑھ گئی۔ کوے پر کتنے ہی صدمے گزر جائیں، کتنا ہی بوڑھا ہوجائے، اس کے پروبال کالے ہی رہتے ہیں۔ اکل کھُرّے، کھُرّے، کھُردرے کھَرے یا کھوٹے، وہ جیسے کچھ بھی تھے، ان کا ظاہروباطن ایک تھا۔
تن اُجرا ( اُجلا ) من گادلا ( گدلا ) بگلا جیسے بھیس
ایسے سے کاگا بھلے، باہر بھیتر ایک​
فرماتے تھے، الحمد اللہ میں منافق، ریاکار نہیں۔ میں نے گناہ کو ہمیشہ گناہ سمجھ کر کیا۔
دکان دو سال سے بند پڑی تھی۔ چھوٹ کر گھر آئے تو بیوی نے پوچھا:
“ اب کیا ہوئے گا؟“
“ بیوی، ذرا تم دیکھتی جاؤ۔“
 

رضوان

محفلین
لب معشوق
اب کے دکان چلي اور ايسي چلي کہ اوروں ہی کو نہیں خود انھيں بھي حيرت ہوئي۔ دکان کے باہر اسي شکارگاہ يعني کيبن ميں اسي ٹھّسے سے گاؤ تکيے کي ٹیک لگا کر بيٹھتے۔ مگر زاويہ پسر گيا تھا۔ پيروں کا رخ اب فرش کي بہ نسبت آسمان کي طرف زیادہ تھا۔ جيل ميں سکونت پزير ہونے سے پہلے قبلہ گاہک کو ہاتھ کے ملتجيانہ اشارے سے بلایا کرتے تھے۔ اب صرف انگشتِ شہادت کے خفيف سے اشارے سے طلب کرنے لگے۔ انگلي کو اس طرح حرکت ديتے جيسے ڈانواں ڈول پتنگ کو ٹھمکي دے کر اس کا قبلہ درست کررہے ہوں۔ حقّے کي نَے ميں اب ايک فٹ کا اضافہ کرليا۔ حقّہ اب پيتے کم، گڑگڑاتے زيادہ تھے۔ بدبودار دھويں کا چھلا اس طرح چھوڑتے کہ گاہک کي ناک ميں نتھ کي طرح لٹک جائے۔ اکثر فرماتے واجد علي شاہ، جانِ عالم پيا نے، جوخوب صورت نام رکھنے ميں اپنا ثاني نہ رکھتے تھے، حقّے کا کيسا پيارا نام رکھا تھا--------- لبِ معشوق۔ جو شخص کبھي حقّے کے پاس سے بھي گزرا ہو وہ بخوبي اندازہ لگاسکتا ہے کہ جانِ عالم پيا کا پالا کيسے لبوں سے پڑا ہوگا۔ چناچہ معزولي کے بعد وہ فقط حقّہ اپنے ہمراہ مٹيا برج لےگئے۔ پري خانے کے تمام معشوق لکھنؤ ميں ہي چھوڑ گئے، اس ليے کہ معشوق کو نيچہ پکڑ کے گڑ گڑايا نہيں جاسکتا۔
 

رضوان

محفلین
بلي پہ لٹکا دوں گا

منشي ديا نرائن نگم کے رسالے “زمانہ“ کے کاتب سے عرفي کا مشہور شعر احاطے کي ديوار پر ڈامر سي لکھواديا:
عرفي تو ميندیش زغوغائے رقيباں
آواز سگاں کم نہ کندر رزق گدارا*
ہميں اس شعر سے نسلي عصبيت اور جانب دار کي بو آتي ہے۔ کتّے اگر شعر کہہ سکتے تو دوسرا مصرع کچھ يوں ہوتا:
آوازِ گدا کم نہ کند رزقِ سگاں را **
کچھ دن بعد ان کا لنگڑا دشمن يعني پہلوان سيٹھ دکان بڑھا کر کہيں اور چلا گيا۔ قبلہ بات بے بات ہر ايک کو دھمکي دينے لگے کہ سالےکو بَلي پر لٹکا دوں گا۔ ہيبت کا يہ عالم کہ اشارہ تو بہت بعد کي بات ہے ، قبلہ جس گاہک کي طرف نظر اٹھا کر بھی ديکھ ليں، اسے کوئي دوسرا نہیں بلاتا تھا۔ اگر وہ از خود کسي دوسري دکان ميں چلاجاتا تو دکان دار اسے لکڑي نہيں دکھاتا تھا۔ ايک دفعہ ايسا بھي ہوا کہ سڑک پر يوں ہي کوئي راہ گير منھ اٹھائے جارہا تھا کہ قبلہ نے اسے انگلي سےاندر آنے کا اشارہ کيا۔ جس دکان کے سامنے سے وہ گزرہا تھا اس کا مالک اور منيم اسے گھسیٹتے ہوئے قبلہ کي دکان ميں اندر دھکیل گئے۔اس نے قبلہ سے روہانسا ہو کر کہا ميں تو مول گنج پتنگوں کے پيج ديکھنے جارہا تھا!
----------------------------------------------------------------------------------------
* مطلب یہ کہ عرفی تو رقیبوں کے شورو غوغا کرنے سے اندیشے میں مبتلا نہ ہو۔ کتّوں کے بھونکنے سے گدا کا رزق کم نہیں ہوتا۔
** گدا کی صدا سے کتّوں کا رزق کم نہیں ہوتا۔
 

رضوان

محفلین
وہ انتظار تھا جس کا يہ وہ شجر تو نہيں
پھر يکا يک ان کا کاروبار ٹھپ ہو گيا۔ وہ کٹّر مسلم ليگي تھے۔ اس کا اثر ان کي بزنس پر پڑا۔ پھر پاکستان بن گيا۔ انھوں نے اپنے نعرے کو حقيقت بنتے ديکھا۔ اور دونوں کي پوري قيمت ادا کي۔ گاہکوں نےآنکھيں پھر ليں۔ لکڑ منڈي کے چو ہے شير ہوگئے۔ عزيز و اقارب جن سے وہ تمام عمر لڑتے جھگڑتے اور نفرت کرتے رہے، ايک ايک کرکے پاکستان چلے گئے تو ايک جھٹکے کے ساتھ يہ انکشاف ہوا کہ وہ ان نفرتوں کے بغير زندہ نہيں رہ سکتے۔ اور جب اکلوتي بيٹي اور داماد بھي اپني دکان بيچ کھوچ کے کراچي سدھارے توانھوں نے بھي اپنے خيمے کي طنابيں کاٹ ڈاليں۔ دکان اونےپونے ايک دلال کے ہاتھ بيچي۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ “بے نامي“ سودا ھے۔ دلال کي آڑ ميں دکان دراصل اسی لنگڑے پہلوان سيٹھ نے خريد کر ان کي ناک کاٹي ہے۔ خفيف سا شبہ تو قبلہ کو بھي ہوا تھا، مگر “اپني بلا سے بُوم بسے يا ہُما ر ہے“ والي صورتِ حال تھي۔ ايک ہي جھٹکے ميں پيڑھیوں کے رشتے ناتے ٹوٹ گئے اور قبلہ نے پُرکھوں کي جنم بھوم چھوڑ کر ان کے خوابوں کي سر زمين کا رُخ کيا۔
ساري عمر شيش محل ميں اپني مور پنکھ اَنا کا ناچ ديکھتے ديکھتے، قبلہ ہجرت کرکے کراچي آئےتو نہ صرف زمين اجنبي لگي، بلکہ اپنے پيروں پر نظر پڑي تو وہ بھي کسي اور کے لگے۔ کھولنے کو تو لي مارکيٹ ميں ہرچندرائے روڈ پر لشتم پشتم دکان کھول لي، مگر بات نہيں بني۔ گجراتي ميں مثل ہے کہ پرانے مٹکے پر نيا منھ نہيں چڑھايا جاسکتا۔ آنے کو تو وہ ايک نئي سرسبز زمين ميں آگئے، مگر ان کي بوڑھي آنکھيں پلکھن کوڈھونڈھتي رہيں۔ پلکھن تو درکنا ، انھيں تو کراچي ميں نيم تک نظر نہ آيا۔ لوگ جيسے نيم بتاتے تھے، وہ دراصل بکائن تھي جس کي ‘بنولي‘ کو لکھنؤ ميں حکيم صاحب عالم ، پیچش اور بواسير کے نسخوں ميں لکھا کرتے تھے۔
وہ انتظار تھا جس کا يہ وہ شجر تو نہيں
کہاں کانپور کے ديہاتي گاہک، کہاں کراچي کے نخريل ساگوان خريدنے والے۔ در حقيقت انھيں جس بات سے سب سے زيادہ تکليف ہوئي وہ يہ تھي کہ يہاں اپنے قرب و جوار ميں ، يعني اپنے سایہء زحمت ميں ايک شخص بھي ايسا نظر نہيں آيا جسے وہ بے وجہ و بے خطر گالي دے سکيں۔ ايک دن کہنے لگے “يہاں تو بڑھئي آري کا کام زبان سے ليتا ہے۔ چار پانچ دن ہوئے ايک دريدہ دہن بڑھئي آیا، اقبال مسيح نام تھا۔ ميں نے کہا ،ابے! پرے ہٹ کرکھڑا ہو۔ کہنے لگا: حضرت عيسٰي بھي تو ترکھان تھے۔ ميں کہا، کيا کفر بکتا ہے؟ ابھي بَلي پہ لٹکادوں گا۔ کہنے لگا، اوہ لوک وي ايہي کہندےساں! (وہ لوگ بھي حضرت عيسٰي سے يہي کہتے تھے! )
 

رضوان

محفلین
مير تقي مير کراچي ميں
پہلي نظر ميں انھوں نے کراچي کو اور کراچي نے ان کو مسترد کرديا۔ اٹھتے بيٹھتے کراچي ميں کيڑے ڈالتے۔ شکايت کا انداز کچھ ايسا ہوتا تھا:
“حضت! يہ مچھر ہیں يا مگرمچھر؟ کراچي کا مچھر ڈي ڈي ٹي سے بھي نہيں مرتا۔ صرف قوالوں کي تاليوں سے مرتاہے۔ يا غلطي سے کسي شاعر کو کاٹ لے تو باؤلا ہو کر بےاولادا مرتا ہے۔ نمرود مردود کي موت ناک ميں مچھرگھسنےسےواقع ہوئي تھي۔ کراچي کے مچھروں کا شجرہء نسب کئي نمرودوں کےواسطےسےاسي مچھرسےجاملتاہے۔اور ذرا زبان تو ملاحظہ فرمائیے، ميں نے پہلي بار ايک صاحب کو پٹّے والے کو پُکارتے سنا تو ميں سمجھا اپنے کتے کو بلا رہے ہيں۔معلوم ہوا يہاں چپراسي کو پٹے والا کہتے ہيں۔ ہروقت کچھ نہ کچھ پھڈا اور لفڑا ہوتا رہتا ہے۔ٹوکو تو کہتے ہیں، اردو ميں اس صورتحال کيلئے کوئي لفظ نہیں ہے۔ بھائي ميرے! اردو ميں يہ صورتحال بھي تو نہيں ہے۔ بمبئي والے لفظ اور صورتِحال دونوں اپنے ساتھ لائےہیں۔ مير تقي مير اونٹ گاڑي ميں منھ باندھے بيٹھے رہے۔اپنے ہم سفر سے اس ليے بات نہ کي کہ “زبانِ غیر سے اپني زباں بگڑتي ہے“۔ ميرصاحب کراچي ميں ہوتے تو بخدا ساري عمر منھ پر ڈھاٹا باندھے پھرتے، يہاں تک کہ ڈاکوؤں کا سا بھيس بنائے پھرنے پر کسي ڈکيتي ميں دھر ليے جاتے۔اماں! ٹونک والوں کو امرود کو صفري کہتے تو ہم نے بھي سنا تھا۔ يہاں امرود کو جام کہتے ہيں۔اور اس پر نمک مرچ کے بجائے‘صاحب‘ لگاديں تومُراد نواب صاحب لسبيلہ ہوتے ہيں۔ اپني طرف وکٹوريہ کا مطلب ملکہ ٹوريہ ہوتاتھا۔ يہاں کسي ترکيب سے دس بارہ جنے ايک گھوڑے پرسواري گانٹھ ليں تواسے وکٹوريہ کہتے ہيں۔ ميں دو دن لاہور رکا تھا۔ وہاں ديکھاکہ جس بازار ميں کوئلوں سے منھ کالا کيا جاتا ہے، وہ ہيرامنڈي کہلاتي ہے! اب يہاں نيا فيشن چل پڑا ہے۔ گانے والے کو گلوکار اور لکھنے والے کو قلم کار کہنےلگے ہيں۔ مياں! ہمارے وقتوں ميں تو صرف نيکوکار اور بدکار ہوا کرتے تھے۔ قلم اور گلے سے يہ کام نہيں ليا جاتا تھا۔
“ميں نے لالو کھيت، بہار کالوني، چاکي واڑہ اور گوليمار کا چپہ چپہ ديکھا ہے۔ چودہ پندرہ لاکھ آدمي (اخبار والے اب آدمي کہنے سےشرماتے ہيں۔ افراد اور نفوس کہتے ہيں) ضرور رہتے ہوں گے، ليکن کہيں کتابوں اور عطريات کي دکان نہ ديکھي، کاغذ تک کے پھول نظر نہ آئے ، کانپور ميں ہم جيسے شرفا کے گھروں ميں کہيں نہ کہيں موتيا کي بيل ضرور چڑھي ھوتي تھي، حضور والا! يہاں موتيا صرف آنکھوں ميں اترتا ہے! حد ہوگئي، کراچي ميں لکھ پتي، کروڑ پتي سيٹھ لکڑي اس طرح نپواتا ہے گويا کم خواب کا پارچہ خريد رہا ہے۔ لکڑي دن ميں دو فٹ بکتي ھے اور برادہ خريدنے والے پچاس! ميں نے برسون اپلوں پر پکايا ہواکھانا بھي کھايا ہے۔ ليکن برادے کي انگھيٹي پر جوکھانا پکے گا وہ صرف دو زخمي مُردوں کے چاليسويں کے ليے مناسب ہے۔

“ بھر پائے ايسي بزنس سے! مانا کہ روپيہ بہت کچھ ہوتا ہے، مگر سبھي کچھ تو نہيں، زر کو حاجت روا کرنے والا، قاضي الحاجات کہا گيا ہے۔ تسليم۔ مگر جب يہ خود سب سے بڑي حاجت بن جائے تو وہ صرف موت سے رفع ہوگي، ميں نے تو ازندگي ميں ايسي کاني کھتري لکڑي نہيں بچي، نہ فروختني، نہ سوختني۔ بڑھئي کي يہ مجال چھاتي پہ چڑھ کر کميشن مانگے۔ نہ دو تو مال کو گندے انڈے کي طرح قيامت تک سيتے رہو۔ ہائے نہ ہوا کانپور بسولے سےسالے کي ناک اتار کر ہتھیلي پر رکھ ديتا کہ جا اپني جروا کو دين مہر ميں دے دينا! واللہ! يہاں کا تو باوا آدم ہي نرالا ہے۔، سنتا ہوں کہ يہاں کے بازار حسن نیپئير روڈ اور جاپاني روڈ پر شب زادياں اپنے اپنے درشن دريچوں ميں لال بتياں جلتے ہي خنجراب چھاتيوں کے خوانچے لگا کر بيٹھ جاتي ہيں۔ فلموں ميں بھي اشرف المعلاقات ہي کي نمائش ہوتي ہے، يہ تو وہ ہي مثل ہے کہ اوچھے کے گھر تيتر، باہر باندھوں کے بھيتر۔ جمہوريہ اسلاميہ کي سرکار بے سروکار کچھ نہيں کہتی۔ ليکن کسي طوائف کو شادي بياہ ميں مجرے کيلے بلانا ہو تو پہلے اس کي اطلاع تھانہ متعلقّہ کو ديني پڑتي ہے! رنڈي کو پرمٹ راشن کارڈ پہ ملتے ہم نے يہیں ديکھا، نقد عيش عندلطلب نہ ملاتو کس کام کا، درشني منڈيوں میں درشنی ہنڈیوں کا کيا کام۔“
مرزا عبد الودود بيگ اس صورت حال کي کچھ اور ہي تاويل کرتے تھے، فرماتے ھيں کہ طوائف کو تھانے سے NOC (نو آبجکشن سرٹیفکٹ) اس ليے لينا پڑتا ہےکہ پوليس پوري طرح اطمينان کرلے کہ وہ اپنے دھندے پرہي جارہي ہے۔ وعظ سننے يا سياست ميں حصہ لينے نہيں جارہي ہے۔ايک دن قبلہ فرمانے لگے “ابھي کچھ دن ہوئے کراچي کي ايک نامي گرامي طوائف کا گانا سننے کا اتفاق ہوا۔ اماں! اس کا تلفظ توچال چلن سے بھي زيادہ خراب نکلا۔ ہائے ايک زمانہ تھا، کہ شرفا اپنے بچوں کو ادب آداب سيکھنے کے ليے چوک کي طوائفوں کے کوٹھے پر بھيجتے تھے۔“
اس باب ميں بھي مرزا سوظن سے کام ليتے ہيں، فرماتے ہيں کہ طوائفوں کے کوٹھوں پر تو اس ليے بھيجتے تھے، کہ بزرگوں کي صحبت اور گھر کےماحول سے بچے رہیں۔
 

رضوان

محفلین
دوڑتا ہوا درخت
کراچي شہر انھيں کسي طور پر اور کسي طرف سے اچھا نہيں لگا۔ جھنجھلا کر بار بار کہتے “اماں! يہ شہر ہے يا جہنم؟“ مرزا کسي دانا کے قول ميں تصرفِ بے جا کر کے فرماتے ہيں کہ قبلہ اس دار المحن سے کوچ فرمانے کے بعد اگر خدانخواستہ وہيں پہنچ گئے جس سے کراچي کو تشبيہ ديا کرتے تھے تو چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد يہي ارشاد ہوگا کہ ہم نے تو سوچا تھا، کراچي چھوٹا سا جہنم ہے۔ جہنم تو بڑا سا کراچي نکلا!
ايک دفعہ ان کے ايک بے تکلّف دوست نے ان سے کہا کہ “ تمھيں معاشرے ميں خرابياں ہي خرابياں نظر آتي ہیں تو بيٹھے بيٹھے ان پر کڑھنے کے بجائے ان کي اصلاح کي فکر کرو۔“
ارشاد فرمايا “سنو! ميں نے ايک زمانے ميں پي ڈبليوڈي کےکام بھي کيے ہيں مگر دوزخ کي ايئر کنڈيشنگ کا ٹھيکا نہيں لے سکتا۔“
بات صرف اتني تھي کہ اپني چھاپ، تلک اور چھپ چھنوانے سے پہلے وہ جس آئينہ ميں خود کو ديکھ ديکھ کر ساري عمر اترايا کيے، اس ميں جب نئي دنيا اور نئے وطن کو ديکھا تو وہ امتدادِ زمانہ سے distorting mirror* بن چکا تھا، جس ميں ہر شکل اپنا ہي منھ چڑاتي نظر آتي تھي۔
ان کے کاروباري حالات تيزي سے بگڑ رہے تھے۔ بزنس نہ ہونے کے برابر تھي۔ ان کي دکان کي ديوار پر ايک تازہ وصلي آويزاں ديکھ کر ہميں بڑا دکھ ہوا:
نہ پوچھ حال مرا، چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا​
ہم نے ان کا دل بڑھانے کيلے کہا کہ، آپ کو چوبِ خشک کون کہہ سکتا ہے؟ آپ کي جواں ہمتي اور مستعدي پر ہميں تو رشک آتا ہے ۔ خلاف معمول مسکرائے۔ جب سے ڈينچرز ٹوٹے، منھ پہ رومال رکھ کر ہنسنے لگے تھے۔ کہنے لگے “ہاں مياں! آپ جوان آدمي ہيں۔ اپنا تو يہ احوال ہوا کہ
“منفعل“ ہوگئے قوٰي غالب
اب عناصر ميں “ابتذال“ کہاں​
پھر منھ سے رومال ہٹاتے ہوئے کہا “برخوردار! ميں وہ درخت ہوں جو ٹرين ميں جاتے ہوئے مسافروں کو دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔“
 

رضوان

محفلین
ميرے ہي من کا مجھ پر دھاوا
يوں وہ حتي الامکان اپنے غصے کو کم نہيں ہونے ديتے تھے۔ کہتے تھے، ميں ايسي جگہ ايک منٹ بھی نہيں رہنا چاہتا جہاں آدمي کسي پر غصہ ہي نہ ہو سکے۔ اور جب انھيں ايسي ہي جگہ رہنا پڑا تو وہ زندگي ميں پہلي باراپنے آپ سے روٹھے۔ اب وہ آپ ہي آپ کڑھتے، اندر ہي اندر کھولتے، جلتے، سلگتے رہتے:
ميرے ہي من کا مجھ پر دھاوا
ميں ہي اگني ميں ہي ايندھن​
انھي کا قول ہے کہ ياد رکھو، غصہ جتنا کم ہوگا، اس کي جگہ اداسي ليتي چلي جائےگي۔ اور يہ بڑي بزدلي کي بات ہے۔ بزدلي کے ايسے ہي اداس لمحوں ميں اب انھیں اپنا آبائی گاؤں جہاں بچپن گزرا تھا، بے تحاشا یاد آنے لگتا۔ وا ماندگیِ زیست نے ماضی میں اپني پناہيں تراش ليں۔ گويا البم کھل گيا۔ دھندلاتے سيپيا رنگ کي تصويريں چشمِ تصّور کے سامنے بکھرتي چلي جاتيں۔ ہر تصوير کے ساتھ زمانے کا ورق الٹتا چلا گيا۔ ہر اسنيپ شاٹ کي اپني ايک کہاني تھي: دھوپ ميں ابرق کے ذروں سے جلتي کچي سڑک پر گھوڑوں کے پسينے کي نرمہکار۔ بھيڑ کے نوزائيدہ بچے کوگلے ميں مفلر کي طرح ڈالے شام کو خوش خوش لوٹتے کسان۔ چلمنوں کے پیچھے ہار سنگھار کے پھولوں سے رنگے ہوئے دوپٹے۔ ارہر کے ہرے بھرے کھيت ميں پگڈنڈي کي مانگ۔ خشک سالي ميں ساون کے تھوتھے بادلوں کو رہ رہ کر تکتي نرآس آنکھيں۔ جاڑے کي اجاڑ راتوں ميں ٹھٹھرتے گيدڑوں کي منحوس آوازيں۔ چراغ جلے باڑے ميں لوٹتي گايوں کے گلے ميں بجتي ہوئي گھنٹياں۔ کالي بھنور رات ميں چوپال کي جلتي بجھتي گشتي چلم پر طويل سے طويل تر ہوتے ہوئے کش۔ موتيا کے گجروں کي لپٹ کے ساتھ کنوارے پنڈے کي بگولا مہکار۔ ڈوبتے سورج کي زرد روشني ميں تازہ قبر پر جلتي اگر بتي کا بل کھاتا ہوا دھواں۔ دہکتي بالو ميں تڑختے چنوں کي سوندھي لپٹ سے پھڑ کتے ہوئے نتھنے۔ ميونسپلٹي کي مٹي کے تيل کي لالٹين کا بھبھکا۔ يہ تھي ان کے گاؤں کی ست سگند۔ يہ ان کے اپنے نافہ ماضي کي مہکار تھي جو يادوں کے دشت ميں دِواني پھرتي تھي۔
 

رضوان

محفلین
اولتي کي ٹپاٹپ
ستر سالہ بچے کے ذہن ميں تصویريں گڈمڈ ہونے لگتيں۔ خوشبوئيں، نرماہٹيں اور آوازيں بھي تصوير بن بن کر ابھرتيں۔ اسے اپنے گاؤں ميں مينہ برسنے کي ايک ايک آواز الگ سنائي ديتي۔ ٹين کي چھت پر تڑ تڑ بجتے ہوئے تاشے۔ سوکھے پتوں پر کراري بوندوں کا شور۔ پکے فرش پر جہاں اُنگل بھر پاني کھڑا ہوجاتا، وہاں موٹی بوند گرتي تو ايک موتيوں کا تاج سا ہوا ميں اچھل پڑتا۔ تپتي کھپريلوں پر اڑتي بدلي کے جھالے کي سنسنا ہٹ۔ گرمي دانوں سے اُپڑے بالک بدن پر برکھا کي پہلي پھوار، جيسے کسي نے منتھول ميں نہلاديا۔ جوان بيٹے کي قبر پر پہلي بارش اور ماں کاننگے سر آنگن ميں آ آ کر آسمان کي طرف ديکھنا۔ پھبک اٹھنے کے ليے تيار مٹّي پر ٹوٹ کے برسنے والے بادلوں کي ہراول گرم لپٹ۔ ڈھولک پر ساون کے گيت کي تال پر بجتي چوڑياں اور بے تال قہقہے۔ سوکھے تالاب کے پیندے کی چکنی مٹّی میں ‌‌پڑی ہوئی دڑاڑوں کے لوزاتی جال میں ترسا ترسا کر برسنے والی بارش کے سرسراتے ريلے۔ تھوني سے لٹکي ہوئي لالٹین کے سامنے، تاحدِروشنی، موتیوں کی رِم جھم جھالر، ہمک ہمک کر پرائے آنگن ميں گرتے پر نالے۔ آموں کے پتوں پر مجيرے بجاتي نرسل بوچھار۔ اور جھولوں پر پينگيں ليتي دوشيزائيں۔
اور پھر رات کے سناٹے ميں، پاني تھمنے کے بعد سوتے جاگتے ميں اولتي* کي ٹپاٹپ! اولتي کي ٹپاٹپ تک پہنچتے پہنچتے قبلہ کي آنکھيں جل تھل ہوجاتيں۔ بارش تو ہم انھيں اپنے لاہور اور نتھيا گلي کي ايسي دکھاسکتے تھے کہ عمرِرفتہ کي ساري ٹپاٹپ بھول جاتے۔ پر اولتي کہاں سے لاتے؟ اسی طرح آم تو ہم ملتان کا ايک سے ايک پيش کرسکتے تھے، دسہري، لنگڑا، ثمر بہشت، انور رٹول۔ ليکن ہمارے پنجاب ميں تو ايسے درخت ناپيد ہيں جن ميں آموں کے بجائے دوشيزائيں لٹکي ہوئي ہوں۔
چنانچہ ايسے نازک موقعوں پر ہم خاموش، ہمہ تن گوش، بلکہ خرگوش بنے اولتي کي ٹپاٹپ سنتےرہتے۔
--------------------------------------------------------------------
* اولتی: چھپّر یا کھپریل کا نچلا کنارہ جہاں سے بارش کا پانی نیچے گرتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
قبلہ کا ريڈيو اونچا سنتا تھا
دريا کے بہاؤکے خلاف تيرنے ميں تو خير کوئي نقصان نہيں۔ ہمارا مطلب ہے کہ دريا کا نقصان نہيں۔ ليکن قبلہ تو سينکڑوں فٹ کي بلندي سےگرتے ہوئے آبشار نياگرا پر تير کر چڑھنا چاہتے تھے، يايوں کہيے کہ تمام عمر نيچے جانے والي ايس کے ليٹر سے اوپر چڑہنے کي کوشش کرتے رہے اور ايس کے ليڑ بنانے والے کو گالياں ديتے رہے۔ ايک دن کہنے لگے “مشتاق مياں! يہ تمہارا کراچي بھي عجب مردم ناشناس شھر ہے۔ نہ خريداري کي تميز، نہ خوردي کے آداب، نہ کسي کي بزرگي کا لحاظ ملاحظہ، ميں جس زمانے ميں بشارت مياں کے ساتھ بہار کالوني ميں رہتا تھا، ايک بيٹري سے چلنے والا ريڈيو خريد ليا تھا۔ اس زمانے ميں ريڈيو ميں کار کي بيٹري لگواني پڑتي تھي۔ بہار کالوني ميں بجلي نہيں تھي۔ اس کا رکھنا اور چلانا ايک درد سر تھا۔ بشارت مياں روزانہ بيٹري اپني کارخانے ميں لے جاتے اور چارج ہونے کيلئے آرامشين میں لگاديتے۔ سات آٹھ گھنٹے ميں اتني چارج ہوجاتي تھي کہ بس ايک آدھ گھنٹے بي بي سي سن ليتا تھا۔ اس کے بعد ريڈیو سے آرا مشين کي آوازيں آنا شروع ہوجاتيں اور ميں اُٹھ کر چلا آتا۔ گھر کے پچھواڑے ايک پچیس فٹ اونچي نہايت قيمتي، بے گانٹھ بلي گاڑ کر ايريل لگارکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ ريڈيو اونچا سنتا تھا۔ آئےدن پتنگ اڑانے والے لونڈے ميرے ايريل سے پيچ لڑاتے۔ مطلب يہ کہ اس ميں پتنگ الجھا کر زور آزمائي کرتے۔ ڈور ٹوٹ جاتي، ايريل خراب ہوجاتا۔ ارے صاحب ايريل کيا تھا، پتنگوں کا فضائي قبرستان تھا، اس پريہ کٹي پتنگيں چوبيس گھنٹے اس طرح پھڑ پھڑاتي رہتيں ، جيسے سڑک کے کنارے کسی نوفوتيدہ پير کےمزار پر جھنڈياں۔ پچيس فٹ کي اونچائي پر چڑھ کر ايريل دوبارہ لگانا۔ نہ پوچھيے کيسا عذاب تھا۔ بس يوں سمجھئيے سُولي پہ لٹک کے بي بي سي سنتا تھا۔ بہر حال جب برنس روڈ کے فليٹ ميں منتقل ہونے لگا تو سوچا، وہاں تو بجلي ہے چلو ريڈيو بيچتے چليں۔ بشارت مياں بھي عاجز آگئے تھے۔ کہتے تھے، اس سے تو پتنگوں کي پھڑ پھڑا ہٹ براڈ کاسٹ ہوتي رہتی ہے۔ ايک دور کے پڑوسي سے 250 روپے ميں سودا پکّا ہوگيا۔ علي الصبح وہ نقد رقم لے آيا اور ميں نے ريڈيو اس کے حوالے کرديا۔ رات کو گيارہ بجے پھاٹک بند کرنے باہر نکلا تو کيا ديکھتا ہوں وہ شخص اور اس کے بيل جیسي گردن والےدو بيٹے کدال پھاؤڑا ليے مزے سے ايريل کي بلي کو اکھاڑ رہے ہيں۔ ميں ڈپٹ کر پوچھا يہ کيا ہورہا ہے؟ سينہ زوري ديکھیے! کہتے ہيں، بڑے مياں بَلي اکھاڑ رہے ہيں۔ ہماري ہے۔
“ڈھائي سو روپے ميں ريڈيو بيچا ہے۔ بَلي سے کيا تعلق“
“ تعلق نہيں تو ھمارے ساتھ چلو اور ذرا بَلي کے بغير بجا کے دکھا دو۔ يہ تو اس کي accessory ہے۔"
“نہ ہوا کانپور ۔سالے کي زبان گدي سے کھينچ ليتا اور ان حرامي پلّوں کي بيل جيسي گردن ايک ہي وار ميں بھٹا سي اڑا ديتا۔ ميں نے تو زندگي ميں ايسا بد معاملہ، بے ايمان آدمي نہيں ديکھا۔ اس اثنا ميں وہ نابکار بَلي اکھاڑ کے زمين پر لٹال چکا تھا۔ ايک دفعہ جي ميں تو آيا کہ اندر جا کر 12 بور لے آؤں اور اسے بھي بَلي کے برابر لمبا لٹال دوں۔ پھر خيال آيا کہ بندوق کا لائنسس تو ختم ہوچکا ہے۔ اس کي بے قصور بيوي رانڈ ہو جائےگي۔ وہ زيادہ قانون چھانٹے لگا تو ميں کہا، جا، جا! تو کيا سمجھتا ہے؟ بَلي کي حقيقت کيا ہے۔ يہ ديکھ يہ چھوڑ کے آئے ہيں۔“ قبلہ حويلي کي تصوير دکھاتے ہي رہ گئے اور وہ تينوں بَلي اٹھا کر لے گئے۔
 

رضوان

محفلین
معذور بيوي اور گشتي چلم
ان کي زندگي کا ايک پہلو ايسا تھا جس کا کسي نے انکو اشارتاً بھی ذکر کرتے نہيں سنا۔ ہم اس کي طرف ابتدائي حصّے ميں اشارہ کرچکے ہيں۔ ان کي شادي بڑے چاؤ چونچلے سے ہوئي تھي۔ بيوي بہت خوب صورت، نيک طينت اور سليقہ شعار خاتون تھيں۔ شادي کے چند سال بعد ايک مرض لاحق ہوا کہ پہنچوں تک دونوں ہاتھوں سے معذور ہوگئيں۔ قريبي اعزہ بھي ملنے سے گريز کرنے لگے۔ روز مرہ کي ملاقاتيں، شادي غمي ميں شرکت، سبھي سلسلے رفتہ رفتہ منقطع ہوگئے۔ گھر کا سارا کام نوکر اور مامائيں تو نہيں کرسکتيں۔ قبلہ نے جس محبت اور دل سوزي سےتمام عمر بے عذر خدمت اور ديکھ ريکھ کي، اس کي مثال مشکل سے ملے گي۔ کبھي ايسا نہيں ہوا کہ ان کي چوٹي بے گندھي اور دوپٹہ بے چنا ہو، يا جمعے کو کاسني رنگ کا نہ ہو۔ وقت نے سر پر کانسي دوپٹے کے نيچے روئي کے گالے جماديے، مگر ان کي توجہ اور پيار ميں جو ذرا فرق آيا ہو۔ يقين نہيں آتا تھا، کہ ايثار و رفاقت کا يہ پيکر وہي مغلوب الغضب آدمي ہے جو گھر کے باہر ايک چلتي ہوئي تلوار ہے۔ زندگي بھر کا ساتھ ہو تو صبر اور سجھاؤ کي آزمائش کے ہزار مرحلے آتے ہيں۔ مگر انھوں نے اس معذور بي بي سے کبھي اونچي آواز ميں بھي بات نہيں کي۔
کہنے والے کہتے ہيں کہ ان کي جھلاہٹ اور غيظ و غضب کي ابتدا اسي سانحہ معذوري سے ہوئي۔ وہ بي بي تو مصلے پر ايسي بيٹھيں کہ دنيا ہی ميں جنت مل گئي۔ قبلہ کو نماز پڑھتے کسي نے نہيں ديکھا۔ ليکن زندگي بھر جيسي سچي محبت اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر جيسي بے عذر اور خاموش خدمت انھوں نے چاليس برس تک کي، وہي ان کي عبادت و رياضت، وہ ہي ان کا ورد وظيفہ اور وہ ہي ان کي دعائے نيم شبي تھي۔ وہ بڑا بخشن ہار ہے۔ شايد يہي انکا وسيلہ بخشائش بن جائے۔
ايک دَور ايسا بھي آيا کہ بيوي سے ان کي يہ حالت نہ ديکھي گئي۔ خود کہا کسي رانڈ، بيوہ سے شادي کرلو۔ بولے ،ہاں! بھاگوان! کريں گے۔ کہيں دو گز زمين کا ايک ٹکڑا ہے جو نہ جانے کب سے ہماري بارات کي راہ ديکھ رہا ہے۔ وہيں چار کاندھوں پہ ڈولا اترے گا۔ بيوي! مٹّي سدا سُہاگن ہے۔ سو جائيں گے اک روز زميں اوڑھ کے ہم بھي۔
بيوي کي آنکھ ميں آنسو ديکھتے تو بات کا رُخ پھير ديا۔ وہ اپني ساري “اميجري“ لکڑي، حقے اور تمباکو سے کشيد کرتے تھے۔ بولے، بيوي! يہ رانڈ بيوہ کي قيد تم نے کياسوچ کر لگائي؟ مانا شيخ سعدي کہہ گئے ہيں، زن بيوہ مکن اگرچہ حور است۔ مگر تم نے شايد وہ پوربي مثل نہيں سني: پہلے پيوے بھکوا۔ پھر پيوے تمکوا۔ پيچھے پيوے حليم چاٹ۔ يعني جو شخص پہلے حقہ پيتا ہے وہ بدھو ہے کہ دراصل وہ تو چلم سلگانے اور تاؤ پر لانے ميں ہي جٹا رہتاہے۔ تمباکو کا اصل مزہ تو دوسرے شخص کے حصّے ميں آتا ہے۔ اور جو آخر ميں پيتا ہے وہ جلے ہوئے تمباکو سے خالي بھک بھک کرتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
جدھر جائيں دہکتے جائيں
کراچي ميں دکان تو پھر بھي تھوڑي بہت چلي، مگر قبلہ بالکل نہيں چلے۔ زمانے کے تغير اور گردش پر کس کا زور چلا ہے جو اُن کا چلتا۔ حوادث کو روکا نہيں جاسکتا۔ ہاں تہذیبِ حواس سے حوادث کا زور توڑا جاسکتا ہے۔ شخصيت ميں پيچ پڑجائيں تو دوسروں کے علاوہ خود کو بھي تکليف ديتے ہيں۔ ليکن جب وہ نکلنے لگيں تو اور زيادہ اذيت ہوتي ہے۔ کراچي ہجرت کرنے کے بعد اکثر فرماتے کہ ڈيڑھ سال جيل ميں رہ کر جو تبديلي مجھ ميں نہ آئي وہ يہاں ايک ہفتے ميں آگئي۔ يہاں تو بزنس کرنا ايسا ہے جيسے سنگھاڑے کے تالاب ميں تيرنا۔ کانپور ہي کے چھٹے ہوئے چھا کٹے يہاں شير بنے دندناتے پھرتے ہيں۔ اور اچھے اچھے شرفا ہيں کہ گيدڑ کي طرح دُم کٹوا کے بھٹ ميں جا بيٹھے۔ ايسا بجوگ پڑا کہ
خود بخود “بل“ ميں ہے ہر شخص سمايا جاتا
جو دانا ہيں وہ اپني دُميں چھپائے بلوں ميں گھسے بيٹھے ہيں۔ باہر نکلنے کي ہمت نہيں پڑتي۔ اس پر مرزا نے ہمارے کان ميں کہا
انيس “ دُم “ کا بھروسا نہيں ٹھہر جاؤ​
ايک دوست نے اپني آبرو جو کھم ميں ڈال کر قبلہ سے کہا کہ گزار ہوا زمانہ لوٹ کر نہیں آسکتا۔ حالات بدل گئے۔ آپ بھي خود کو بدل ليجئے۔ مسکرائے۔ فرمايا، خربوزہ خود کو گول کرلے تب بھي تربوز نہيں بن سکتا۔
بات دراصل يہ تھي کہ زمانے کا رُخ پہچاننے کي صلاحيت، حلم و بُردباري، نرمي اور لچک نہ ان کي سرشت ميں تھي اور نہ زميں دارانہ ماحول اور معاشرے ميں ان کا شمار خوبيوں ميں ہوتا تھا۔ سختي، خورائي، تمکنت، خشونت اور جلالی مزاج عيب نہیں، بلکہ فيوڈل کردار کي راستي اور مضبوطي کي دليل تصّور کيے جاتے تھے۔ اور زميں دار تو ايک طرف رہے، اس زمانے کے علما تک ان اوصاف پر فخر کرتے تھے:
ہم نہ نکہت ہيں، نہ گل ہيں، جو مہکتے جاويں
آگ کي طرح جدھر جاويں دہکتے جاويں​
قبلہ کے حالات تيزي سے بگڑنے لگے تو ان کے بہي خواہ مياں انعام الہي نے جو اپني خوردي کے باوصف انکے مزاج اور معاملات ميں درخور رکھتے تھے، عرض کيا دکان ختم کر کے ايک بس خريد ليجیے۔ گھر بيٹھے آمدني کا وسيلہ ہے۔ رُوٹ پرمٹ ميرا ذمّہ۔ آج کل اس دھندے ميں بڑي چاندي ہے۔ يک بارگي جلال آگيا۔ فرمايا، چاندي تو طبلہ سارنگي بجانے ميں بھي ہے۔ ايک وضع داري کي ريت بزرگوں سے چلي آرہي ہے، جس کا تقاضا ہے کہ خراب و خوار ہي ہونا ہی مقّدر ميں لکھا ہے تو اپنے آبائي اور آزمودہ طريقے سے ہوں گے۔ بندہ ايسي چاندي پر لات مارتا ہے۔
چرخ اب ہميں جو دے ہے، نہيں ليتے ہم
کونين بھي گو دے ہے، نہيں ليتے ہم
ہم ليتے ہيں جس ڈھب سے، نہيں ديتا وہ
جس ڈھب سے کہ وہ دے ہے، نہيں ليتے ہم​
 

رضوان

محفلین
آخري گالي
کاروبار مندا بلکہ بالکل ٹھنڈا۔ طبعيت زنگ رنگ۔ بے دلي کے عالم ميں دن گزر رہے تھے۔ دکان داري اب ان کي مالي نہيں، نفسياتي ضرورت تھي۔ سمجھ ميں نہيں آتا تھا کہ دکان بند کردي تو گھر ميں پڑے کيا کريں گے۔ پھر ايک دن يہ ہوا کہ ان کا نيا پٹھان ملازم زرين گل خان کئي گھنٹے دير سے آيا۔ ہر چند غصّے کو پينے کي کوشش کرتے، ليکن پراني عادت کہيں جاتي ہے۔ چند ماہ قبل انھوں نے ايک ساٹھ سالہ منشي آدھي تنخواہ پر رکھا تھا جو گيروے رنگ کا ڈھيلا ڈھالہ جبّہ پہنے، ننگے پير زمين پر آلتي پالتي مارے حساب کتاب کرتا تھا۔ کرسي يا کسي بھي اونچي چيز پر بيٹھنا اس کے مسلک ميں منع تھا۔ وارثي سلسلے سے کسي بزرگ سے بيعت تھا۔ فرض شناس، ايمان دار، پابندِصوم صلٰوۃ، زود رنج، کام ميں چوپٹ۔ قبلہ نے طيش ميں آ کر ایک دن اسے حرام خور کہہ ديا۔ سفيد داڑھي کا لحاظ بھي نہ کيا۔ اس نے رسان سے کہا “حضور کے ہاں جوشے وافر ملتي ہے وہ ہي تو فقير کھائے گا۔ سلام عليکم۔“ يہ جا وہ جا دوسرے دن سے منشي جي نے آنا اور قبلہ نے حرام خور کہناچھوڑ ديا۔ ليکن حرام خور کے علاوہ اور بھي تو دل دکھانے والے بہتیر لفظ ہيں۔ زرين گل خان کو سخت سست کہتے کہتے ان کے منھ سےرواني اور سرگراني ميں وہي گالي نکل گئي جو اچھے دنوں ميں ان کا تکيہ کلام ہوا کرتي تھي۔ گالي کي بھیانک گونج درہ آدم خيل کے پہاڑوں تک ٹھنٹھناتي پہنچي جہاں زرين گل بيوہ ماں رہتي تھي۔ وہ چھ سال کا تھا جب ماں نے بيوگي کي چادر اوڑھي تھي۔ بارہ سال کا ہوا تو اس نے وعدہ کيا کہ ماں ميں اور بڑا ہوجاؤں تو کراچي ميں نوکري کرکے تجھے پہلي تنخواہ سے بغير پيوند کي چادر بھيجوں گا۔ اسے آج تک کسي نے يہ گالي نہيں دي تھي۔ جوان خون، غصيلا مزاج۔ پٹھان کي غيرت اور پختو کا سوال تھا۔ زريں گل نے ان کي ترچھي ٹوپي اتار کر پھينک دي اور چاقو تان کر کھڑا ہوگيا۔ کہنے لگا “بڈھے! ميرے سامنے سے ہٹ جا، نہيں تو ابھي تيرا پيٹ پھاڑ کر کليجا کچا چبا جاؤں گا۔ تيرا پليد مُردہ بَلي پہ لٹکا دوں گا۔“ ايک گاہک نے بڑھ کر چاقو چھينا۔ بڈھے نے جھک کے زمين سے اپني مخملي ٹوپي اٹھائي اور جھاڑے بغير سر پر رکھ لي۔
 

رضوان

محفلین
کون کيسے ٹوٹتا ہے

دس پندرہ منٹ بعد وہ دکان ميں تالا ڈال کر گھر چلے آئےاور بيوي سے کہہ ديا، اب ہم دکان نہيں جائيں گے۔ کچھ دير بعد محلّے کي مسجد سے عشاء کي اذان کي آواز بلند ہوئي۔ اور وہ دوسرے ہي اللہ اکبر پر وضو کرکے کوئي چاليس سال بعد نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو بيوي دھک سے رہ گئيں کہ خير تو ہے۔ وہ خود بھی دھک سے رہ گئے۔ اس ليے کہ انھيں دو سورتوں کے علاوہ کچھ بھی ياد نہيں رہا تھا۔ وتر بھي ادھورے چھوڑ کر سلام پھير ليا کہ يہ تک ياد نہيں آرہا تھا کہ دعائے قنوت کے ابتدائي الفاظ کيا ہيں۔
وہ سوچ بھي نہيں سکتے تھے کہ آدمي اندر سے ٹوٹ بھي سکتا ہے۔ اور يوں ٹوٹتا ہے! اور جب ٹوٹتا ہے تو اپنوں بيگانوں سے، حد يہ کہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے بھي صلح کرليتا ہے۔ يعني اپنے آپ سے۔ اسي منزل پر بصيرتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دانش و بينش کے باب کھلتے ہيں:
چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتے ہيں ديواروں کے بيچ​
ايسے بھي محتاط لوگ ہيں جو پيکار و فشارِ زيست سے بچنے کي خاطر خود کو بے عملي کے حصارِ عافيت ميں قيد رکھتے ہيں۔ يہ بھاري و قميتي پردوں کي طرح لٹکے لٹکے ہي لير لير ہوجاتے ہيں۔ کچھ گم صم گمبھير لوگ اس ديوار کي مانند تڑختے ہيں جس کي مہيں سے دراڑ جو عمدہ پينٹ يا کسي آرائشي تصوير سے با آساني چھپ جاتی ہے، اس بات کي غمّازي کرتي ہے کہ نيو اندر ہي اندر کسي صدمے سے زمين ميں دھنس رہي ہے۔ بعض لوگ چيني کے برتن کي طرح ٹوٹتے ہيں، کہ مسالے سے آساني سے جڑ تو جاتے ہيں مگر وہ بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد ميں۔ اس کے برعکس کچھ ڈھيٹ اور چپکو لوگ ايسے اٹوٹ مادّے کے بنے ہوتے ہيں کہ چيونگ گم کي طرح کتنا ہي چباؤ ٹوٹنے کا نام نہيں ليتے۔
کھينچنے سے کھنچتے ہيں، چھوڑے سے جاتے ہيں سکڑ
آپ انھيں حقارت سے تھوک ديں تو جوتے سے اس بري طرح چپکتے ہيں کہ چھٹائے سے نہيں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خيال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہي بھلے تھے کہ پپول تو ليتے تھے۔ يہ چيونگ گم لوگ خود آدمي نہيں، پر آدم شناس ہيں۔ يہ کامياب و کامران کامگار لوگ ہیں۔ يہ وہ ہيں جنھوں نے انسانوں کو ديکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پايا تو خود بھي کھوٹے ہوگئے۔ وقت کي اٹھتي موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سر پہ رکھا اورساعت گزران نے اپنے تختِ رواں پہ بٹھايا۔
اور کچھ ايسے بھي ہيں کہ کار کے ونڈ اسکرين کي مانند ہوتے ہيں۔ ثابت و سالم ہيں تو سينہ عارف کي طرح شفاف کہ دو عالم کا نظارہ کرلو۔ اور يکا يک ٹوٹے تو ايسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا، نہ دَر کے نہ تڑخے۔ يکبارگي ايسے ريزہ ريزہ ہوئے کہ ناعارف رہا، نہ دو عالم کي جلوہ گري، نہ آئينے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گيا۔ نہ حذررہا نہ خطر رہا، جورہي سو بےخبري رہي۔
اور ايک انا ہے کہ يوں ٹوٹتي ہے جيسے جابر سلطانوں کا اقبال يا حضرت سليمان کا عصا جس کي ٹيک لگائے وہ کھڑے تھے کہ روح قفس عنصري سے پرواز کرگئي۔ ليکن ان کا قالب بے جان ايک مدت تک اسي طرح استادہ رہا اور کسي کو شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رحلت فرما چکے ہيں۔ وہ اسي طرح بے روح کھڑے رہے اور ان کے اقبال اوررعب و دبدبے سے کاروبارِ سلطنت حسبِ معمولِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا کو دھيرے دھيرے گھن اندر سے کھاتا رہا، يہاں تک کہ ايکدن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گيا اور حضرت سليمان کا جسدِ خاکي فرشِ زمين پر آرہا۔ اس وقت ان کي امّت اور رعيّت پر کھلا کہ وہ دنيا سے پردہ فرماچکے ہيں۔
سو وہ ديمک زدہ عصائے پندار و جلال جس کے بَل قبلہ نے بےغِل وغش زندگي گزاري آج شام ٹوٹ گيا اور زيست کرنے کا وہ طنطنہ اور ہمہمہ سرنِگوں ہوا۔
 

رضوان

محفلین
ميں پاپن ايسي جلي کوئلہ بھئي نہ راکھ

انھيں اس رات نيند نہيں آئي۔ فجر کي اذان ہورہي تھي کہ کہ ٹمبر مارکيٹ کا ايک چوکيدار ہانپتا کانپتا آيا اور خبر دي کہ “صاحب جي! آپ کي دکان اور گودام ميں آگ لگ گئي ہے۔ آگ بجھانے کے انجن تين بجے ہي آگئے تھے۔ سارا مال کوئلہ ہوگيا۔ صاحب جي! آگ کوئي آپ ہي آپ تھوڑي لگتي ہے۔“ وہ جس وقت دکان پہنچےتو سرکاري اصطلاح ميں آگ پر قابو پايا جاچکا تھا، فائر بريگيڈ کي مستعدی اور کارکردگي کے علاوہ اس کو بھي بڑا دخل تھا کہ اب جلنے کے ليئے کچھ رہا نہیں تھا۔ شعلوں کي لپلپاتي دو شاخہ زبانيں کالي ہوچليں تھيں۔ البتہ چيڑ کے تختے ابھي تک دھڑ دھڑ جل رہے تھے۔ اور فضا دور دور تک ان کي تيز خوشبو کے آتشيں آبشار ميں نہائي ہوئي تھي۔ مال جتنا تھا سب جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ صرف کونے ميں ان کا چھوٹا سا دفتر بچا تھا۔ عرصہ ہوا، کانپور ميں جب لالہ رميش چندر نے ان سے کہا تھا حالات ٹھيک نہيں ہيں، گودام کي انشورنس پاليسي لے لو، تو انھوں نے ململ کے کرتے کي چني ہوئي آستين الٹ کر اپنے بازو کي پھڑکتي ہوئي مچھلياں دکھاتے ہوئے کہا تھا “يہ رہي ياروں کي انشورنس پاليسي!“ پھر اپنے ڈنڑ پھلا کر لالہ رميش چندر سے کہا “ذرا چھوکر ديکھو۔“ لالہ جي نے اچنبھے سے کہا “لوہا ہے! لوہا!“ بولے “نہيں۔ فولاد کہو۔“
دکان کے سامنے خلقت کے ٹھٹ لگے تھے۔ ان کو لوگوں نے اس طرح راستہ ديا جيسے جنازے کو ديتے ہيں۔ ان کا چہرہ جذبات سےعاري تھا۔ نہ لبِ بے سوال پر کوئي لرزش۔ انھوں نے اپنے دفتر کا تالا کھولا۔ انکم ٹيکس کے حسابات اور گوشوارے بغل ميں مارے اور گودام کے مغربي حصّے ميں جہاں چيڑ سے ابھي شعلے اور خوشبوؤں کي لپٹيں اٹھ رہي تھيں، تيز تيز قدموں سے گئے۔ پہلے انکم ٹيکس کے کھاتے اور ان کے بعد چابيوں کا گچھا نذِرآتش کيا۔ پھر آہستہ آہستہ، دائيں بائيں نظر اٹھائے بغير، دوبارہ اپنے دفتر ميں داخل ہوئے۔ حويلي کا فوٹو ديوار سے اتارا۔ رومال سے پونچھ کر بغل ميں دبايا اور دکان جلتي چھوڑ کر چلے آئے۔
بيوي نے پوچھا “اب کيا ہوئے گا ؟“
انھوں نے سرجھکا ليا۔
اکثر خيال آتا ہے، اگر فرشتے انھيں جنت کي طرف لے گئے جہاں موتيا دھوپ ہوگي اور کاسنی بادل، تو وہ بابِ بہشت پر کچھ سوچ کر ٹھٹک جائيں گے۔ رضوان جلد اندر داخل ہونے کا اشارہ کرے گا تو سينہ تانے اس کے قريب جا کر کچھ دکھاتے ہوئے کہيں گے:

“يہ چھوڑ کر آئے ہيں۔“
 
Top