آبِ گم (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ)

رضوان

محفلین
مشاعرہ کیسے لُوٹا گیا
لوگ بڑی دیر سے اُ کتائے بیٹھے تھے۔ ساغر جالونوی کے دھماکا خیز اعتراض سے اونگھتے مشاعرے میں جان ہی نہیں، ہیجان آگیا۔ اس وقت کسے ہوش تھا کہ اعتراض کی صحت پر غور کرتا۔ ہمارے ہاں ناچ گانا، حکمرانی اور مشاعرہ اکل کھرے فن ہیں۔ انکا سارا مزہ اور بنیاد ہی solo performance پر ہے۔ اسی لیے سیاست میں نعرے اور جلوس اور مشاعرے میں داد اور ہوٹنگ ہماری ضرورت، روایت اور سیفٹی والوو بن گئے۔ ہمارے ہاں شرکتِ سامعین ( audience participation) کی لے دے کے یہی ایک قابلِ قبول صورت ہے جس پر قدغن نہیں۔
دو ہنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہوچکا تھا۔ کچھ ہنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بُجھ گئے۔ ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈوں کو جھڑجھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہوگیا۔ اب مار پیٹ شروع ہوئی۔ لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی، بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم صاحب کی بھینس رسّی تڑا گئی ہے! یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگڈر پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دی، لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ دیہاتی سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دُھنائی کی۔ لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے -- اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چُرائی جاسکتی تھی چُرا لی گئی ----- پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، ساغر جالونوی کی دُگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا، ایک جازم، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدرِ مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی، خواجہ قمرالدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط* ------ حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی ازار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ہنڈا سر پر اٹھا کے لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا، مگر ہنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بر وقت چیخ سے ناکام بنادیا۔ غرض کہ قطعہ نظر اس کے کہ کار آمد ہے یا نہیں، جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا، اسے اُٹھا کے، اُتار کے، نوچ کے، پھاڑ کے، اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیرِ استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے، وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں۔
باہر سے آئے ہوئے دیہاتیوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ بھی مشاعرے کے اختتامیہ آداب میں داخل ہے، مار پیٹ اور لوٹ کھسوٹ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور بعد کو بہت دن تک ہر آئے گئے سے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے کہ اب دوسرا مشاعرہ کب ہوگا۔
-----------------------------------------------------------------------------------
* چھینی اور چُرائی ہوئی اشیا میں فقط یہی چیز تھی جو دوسرے دن برآمد ہوئی۔ یہی نہیں، اس کی نقول قصبے میں گھر گھر تقسیم ہوئیں۔
 

رضوان

محفلین
کئی پشتوں کی نالائقی کا نچوڑ
یہ شاعر جو بھونچال لایا، بلکہ جس نے سارا مشاعرہ اپنی مونچھوں پر اٹھالیا، بشارت کا خانساماں نکلا* پرانی ٹوپی اور اُترن کی اچکن کا خلعت اسے گزشتہ عید پر ملا تھا۔ راہ چلتوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا کلام سناتا۔ سننے والا داد دیتا تو اسے کھینچ کر لپٹا لیتا۔ داد نہ دیتا تو خود آگے بڑھ کر لپٹ جاتا۔ اپنے کلام کے الہامی ہونے میں اسے کوئی شبہ نہ تھا۔ شبہ اوروں کو بھی نہیں تھا، کیوں کہ محض عقل یا خالی خولی علم کے زور سے کوئی شخص ایسے تمام و کمال خراب شعر نہیں کہہ سکتا تھا۔ دو مصرعوں میں اتنے سارے فنّی نقائص و اسقام کو اتنی آسانی سے سمو دینا تائیدِ غیبی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ فکرِ سخن میں اکثر یہ بھی ہوا کہ ابھی مصرعے پر ٹھیک سے گرہ بھی نہیں لگی تھی کہ ہنڈیا دھواں دینے لگی۔ سالن کے بھٹّے لگ گئے۔ پانچویں جماعت تک تعلیم پائی تھی، جو اس کی ذاتی ضروریات اور سہار سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ اپنی مختصر سی انگریزی لفظیات اور تازہ شعر کو ضبط نہیں کرسکتا تھا۔ اگر آپ اس سے دس منٹ بھی بات کریں تو اسے انگریزی کے جتنے بھی الفاظ آتے تھے وہ سب آپ پر داغ دیتا۔ باہر اپنے تئیں ساغر صاحب کہلواتا، لیکن گھر میں جب خانساماں کے فرائض انجام دے رہا ہوتا تو اپنے نام عبدالقیوم سے پکارا جانا پسند کرتا۔ ساغر کہہ کر بلائیں تو بہت برا مانتا تھا۔ کہتا تھا، نوکری میں ہاتھ بیچا ہے، تخلص نہیں بیچا۔ خانساماں گیری میں بھی تعّلیٰ شاعرانہ سے باز نہ آتا۔ خود کو واجد علی شاہ، تاجدارِاودھ، کا خاندانی رکاب دار بتاتا تھا۔ کہتا تھا کہ فارسی میں لکھی ڈیڑھ سو سالہ پرانی خاندانی بیاض دیکھ دیکھ کر کھانا پکاتا ہوں۔ اسی کے ہاتھ کا بد مزہ سالن درحقیقت کئی پشتوں کی جمع شدہ نالائقی کا نچوڑ ہوتا تھا۔
-----------------------------------------------------------------------
ممکن ہے ہمارے بعض قارئیں کو اس میں غلو کا شائبہ نظر آئے کہ اس کتاب کا ہر تیسرا کردار شاعر ہے یا کم از کم تخلص کا دُم چھلا ضرور لگائے پھرتا ہے۔ اس کی وضاحت اور دفاع میں ہم حضرت رئیس امروہی کا قولِ فیصل نقل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں“ ہمارے معاشرے میں تخلص رکھنا اور تک بندی کرنا لازمہ تصّور کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے تخلص کے خاندانی شخص کو دُم کٹا بھینسا یا بے سینگوں کے بیل تصّور کیا جاتا تھا۔ امارت، فارغ البالی اور اقبال مندی کا دور کبھی کا ختم ہو چکا تھا۔ اب ہمارے بزرگوں کے لیے لطیف معاشرت اور لطافتِ معاشرہ صرف شطرنج بازی اور شعر طرازی میں رہ گئی تھی۔“

۔
 

رضوان

محفلین
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس کا دعویٰ تھا کہ ایک سو ایک قسم کے پلاؤ پکا سکتا ہوں۔ اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ بشارت ہر اتوار کو پلاؤ پکواتے تھے۔ سال بھر میں کم از کم باون مرتبہ تو ضرور پکایا ہوگا۔ ہر دفعہ ایک مختلف طریقے سے خراب کرتا تھا۔ صرف وہ کھانے ٹھیک پکاتا تھا جن کو مزید خراب کرنا معمولی قابلیت رکھنے آدمی کے بس کا کام نہیں۔ یا ایسے کھانے جو پہلے ہی کسی کھانے کی بگڑی ہوئی شکل ہیں۔ مثلاً کھچڑی، آلو کا بھُرتا، لگی ہوئی فیرنی، شب دیگ، کھچڑا، ارہر کی دال، اور متنجن جس میں میٹھے چاولوں کے ساتھ گوشت اور نیبو کی ترشی ڈالی جاتی ہے۔ پھوہڑ عورتوں کی طرح کھانے کی تمام خرابیوں کو مرچ سے اور کلام کی جملہ خامیوں کو ترنم سے دور کردیتا تھا۔ میٹھا بالکل نہیں پکا سکتا تھا، اس لیے کہ اس میں مرچ ڈالنے کا رواج نہیں۔ اکثر چاندنی راتوں میں جغرافیہ ٹیچر کو اسی کے بینجو پر اپنی غزلیں گا کے سناتا، جنھیں سن کر وہ اپنی محبوبہ کو جس کی شادی مراد آباد کے ایک پیتل کے اگالدان بنانے والے سے ہو گئی تھی، یاد کر کے کھرج میں روتا تھا۔ گانے کی جو طرز ساغر نے بغیر کسی کاوش کے ایجاد کی تھی، اس سے گریہ کرنے میں بہت مدد ملتی تھی۔
بشارت نے ایک دن چھیڑا کہ بھئی، تم ایسی مشکل زمینوں میں ایسے اچھے شعر نکالتے ہو۔ پھر خانساماں گیری کاہے کو کرتے ہو؟ کہنے لگا، آپ نے میرے دل کی بات پوچھ لی۔ اچھا کھانا پکانے کے بعد جو روحانی انشراح ہوتا ہے وہ شعر کے بعد نہیں ہوتا۔ کس واسطے کہ کھانا پکانے میں اوزان کا کہیں زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کھانے والا جسے برا کہدے اسے برا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ کھانا پکانے میں محنت بھی زیادہ پڑتی ہے۔اسی لیے تو آج تک کسی شاعر نے باورچی کا پیشہ اختیار نہیں کیا۔
شاعری کو ساغر جالونوی نے کبھی ذریعہ عزّت نہیں سمجھا، جس کی ایک وجہ تو غالباً یہ تھی کہ شاعری کی وجہ سے اکثر اس کی بے عزّتی ہوتی رہتی تھی۔ فنِ طبّاخی میں‌ جتنا دماغ دار تھا، شاعری کے باب میں اتنی ہی کسرِ نفسی سے کام لیتا تھا۔ اکثر بڑے کھلے دل سے اعتراف کرتا کہ غالب اردو میں فارسی شعر مجھ سے بہتر کہہ لیتا تھا۔ میر کو مجھ سے کہیں زیادہ تنخواہ اور داد ملی۔ دیانت داری سے اتنا تسلیم کرنے کے بعد یہ اضافہ ضرور کرتا، حضور! وہ زمانے اور تھے۔ اساتذہ صرف شعر کہتے اور شاگردوں کی غزلیں بناتے تھے، کوئی ان سے چپاتی نہیں بنواتا تھا۔
 

رضوان

محفلین
یہ کون حضرتِ آتش کا ہم زبان نکلا
اس مین شک نہیں کہ بعضا بعضا شعر بڑا دَم پُخت نکالتا تھا۔ کچھ شعر تو واوعی ایسے تھے کہ میر و آتش بھی ان پر ناز کرتے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ی انھیں کے تھے! خود کو یکے از تلامیذ الرحمان اور اپنے کلام کو الہامی بتاتا تھا۔ چنانچہ ایک عرصے تک اس کے نیازمند اسی خوش گمانی میں رہے کہ سرقہ نہیں الہام میں توارد ہوجاتا ہے۔ ردولی میں ایک دفعہ اپنی تازہ غزل پڑھ رہا تھا کہ کسی گستاخ نے بھرے مشاعرے میں ٹوک دیا کہ یہ شعر تو ناسخ کا ہے۔ سرقہ ہے، سرقہ! ذرا جو گھبرایا ہو۔ اُلٹا مسکرایا۔ کہنے لگا“ غلط! بالکل غلط! آتش کا ہے!“
پھر اپنی بیاض صدرِمشاعرہ کی ناک کے نیچے بڑھاتے ہوئے بولا “ حضور! ملاحظہ فرمالیجیے۔“ یہ شعر بیاض میں inverted commas (الٹے واوین) میں لکھا ہے۔ اور آگے آتش کا نام بھی دیا ہے“ صدرِ مشاعرہ نے اس کی تصدیق کی اور اعتراض کرنے والا اپنا سا منھ لے کے رہ گیا۔
ساغر اپنے وطنِ مالوف جالون خورد کی نسبت پیار میں ساغرِ خورد کہلاتا تھا۔ مگر وہ خود اپنا رشتہ لکھنؤ کے دبستان سے جوڑتا اور زبان کے معاملے میں دِلّی والوں اور اہلِ پنجاب سے انتہائی تعصب برتتا تھا۔ چنانچہ صرف شعرائے لکھنؤ کے کلام سے سرقہ کرتا تھا۔
 

رضوان

محفلین
ترے کوچے سے ہم نکلے
ہنگامے کے بعد کسی کو مہمان شاعروں کا ہوش نہ رہا۔ جس کے جہاں سینگ سمائے وہیں چلا گیا۔ اور جو خود اس لائق نہ تھا اسے دوسرے سینگوں پر اُٹھا کے لے گئے۔ کچھ رات کی ہڑبونگ کی خفت، کچھ روپیہ نہ ہونے کے سبب بدانتظامی، بشارت اس لائق نہ رہے کہ صبح شاعروں کو منھ دکھا سکیں۔ مولی مجّن کے “علی الحساب“ دیے گئے دس روپے کبھی کے چٹنی ہو چکے تھے۔ بلکہ وہ اپنی گرہ سے بہتر روپے خرچ کر چکے تھے اور اب اتنی استطاعت نہیں رہی تھی کہ شاعروں کو واپسی کے ٹکٹ دلواسکیں۔ منھ پر انگوچھا ڈال کر چھُپتے چھُپاتے دینیات ٹیچر کے خالی گھر گئے۔ ولزلی ان کے دَم کے ساتھ لگا تھا۔ تالا توڑ کر گھر میں داخل ہوئے اور دن بھر منھ چھپائے پڑے رہے۔ سہ پہر کو ولزلی کو زنجیر اُتار کر باہر کردیا کہ بیٹا جا۔ آج خود ہی جہاں جی چاہے فراغت کر آ۔ بپھرے ہوئے شعرائے کانپور کا غول پہلے تو ان کی تلاش میں گھر گھر جھانکتا پھرا۔ آخر تھک ہار کر پا پیادہ اسٹیشن کے لیے روانہ ہوا۔ سو دو سو قدم چلے ہوں گے کہ لوگ ساتھ آتے گئے اور باقاعدہ جلوس بن گیا۔ قصبے کے تمام نیم برہنہ بچّے، ایک مکمل برہنہ پاگل (جسے زمانے کے عام عقیدے کے مطابق لوگ مجذوب سمجھ کر سٹے کا نمبر اور قسمت کا حال پوچھتے تھے) اور میونسپل حدود میں کاٹنے والے تمام کتّے انھیں اسٹیشن چھوڑنے گئے۔ جلوس کے آخر میں ایک سادھو بھبوت رَمائے، بھنگ پیے اور تین کٹ کھنی بطخیں بھی اکڑے ہوئے فوجیوں کی cermonial چال یعنی اپنی ہی چال -------- goose step -------- چلتی شریکِ ہنگامہ تھیں۔ راستے میں گھروں میں آٹا گوندھتی، سانی بناتی، روتے ہوئے بچے کا منھ غزائی غدود سے بند کرتی ہوئی عورتیں اپنا اپنا کام چھوڑ کر، سَنے ہوئے ہاتھوں کے طوطے بنائے جلوس دیکھنے کھڑی ہوگئیں۔ ایک بندر والا بھی اپنے بندر اور بندریا کی رسّی پکڑے یہ تماشا دیکھنے کھڑا ہو گیا۔ بندر اور لڑکے بار بار طرح طرح کے منھ بنا کر ایک دوسرے پر خوخیاتے ہوئے لپکتے تھے۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ کون کس کی نقل اُتار رہا ہے۔
آتے وقت جن نازک مزاجوں نے اس پر ناک بھوں چڑھائی تھی کہ ہمیں بیل گاڑیوں میں لاد کر لایا گیا، انہیں اب جاتے وقت یہ شکایت تھی کہ پیدل کھدیڑے گئے۔ چلتی ٹرین میں چڑھتے چڑھتے حیرت کانپوری ایک قلی سے یہ کہہ گئے کہ اس نابکار،ناہنجار (بشارت) سے یہ کہہ دینا کہ ذرا دھیرج گنج سے باہر نکل۔ تجھ سے کانپور میں نمٹ لیں گے۔ سب شاعروں نے اپنی جیب سےواپسی کے ٹکٹ خریدے، سوائے اس شاعر کے جو اپنے ساتھ پانچ مصرعے اٹھانے والا لایا تھا۔ یہ صاحب اپنے مصرعہ برداروں سمیت آدھے راستے ہی میں بلا ٹکٹ سفر کرنے کے جرم میں اتار لیے گئے۔ پلیٹ فارم پر چند درد مند مسلمانوں نے چندہ کر کے ٹکٹ چیکر کو رشوت دی، تب کہیں ان کو رہائی ملی۔ ٹکٹ چیکر مسلمان تھا، ورنہ کوئی اور ہوتا تو چھئوں کے ہتھکڑی ڈلوا دیتا۔
 

رضوان

محفلین
بات اک رات کی
صرف بے “عزّت شدہ“ شعرا ہی نہیں، کانپور کی ساری شاعر برادری بشارت کے خون کی پیاسی تھی۔ ان شاعروں نے ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ چند ایک نثر نگار بھی ان کو کچا چبا جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ کانپور میں ہر جگہ اس مشاعرے کے چرچے تھے۔ دھیرج گنج جانے والے شاعرون نے اپنی ذلّت و خواری کی جو داستانیں بڑھا چڑھا کر بیان کیں وہ اسی سلوک کے مستحق تھے۔ لوگ کُرید کُرید کر تفصیلات سنتے۔ ایک شکایت ہو تو بیان کریں۔ اب کھانے ہی کو لیجیے۔ ہر شاعر کو شکایت تھی کہ رات کا کھانا ہمیں دن دھاڑے چار بجے اسی کاشتکار کے ہاں کھلوایا گیا جس کے ہاں سُلوایا گیا۔ ظاہر ہے کہ ہر کاشتکار نے مختلف قسم کا کھانا کھلایا۔ چنانچہ جتنی اقسام کے کھانے تھےاتنی ہی قسم کے امراضِ معدہ میں شاعروں نے خود کو مبتلا بتلایا۔
حیرت کانپوری نے شکایت کی کہ میں نے غسل کے لیے گرم پانی مانگا تو چودھرائن نے گھونگٹ اٹھا کے مجھے نزدیک ترین کنویں کا راستہ بتا دیا۔ اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اس میں سے گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم پانی نکلتا ہے! چودھری نے میری گود میں اپنا ننگ دھڑنگ فرزند دے کر زبردستی تصدیق چاہی کہ نومولود اپنے باپ پر پڑا ہے۔ میرا کیا جاتا تھا۔ میں نے کہہ دیا، ہاں! اور بڑی شفقت سے بچّے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار کیا، جس سے مشتعل ہوکر اس نے میری اچکن پر پیشاب کردیا۔ اسی اچکن کو پہنے پہنے میں نے مقامی شعرا کو گلے لگایا۔
پھر فرمایا کہ بندہ آبرو ہتھیلی پہ رکھے، ایک بجے مشاعرے سے لوٹا۔ تین بجے تک چارپائی کے اوپر کھٹمل اور نیچے چوہے کلیلیں کرتے رہے۔ تین بجتے ہی گھر میں “ صبح ہوگئی! صبح ہوگئی! “ کا شور مچ گیا۔ اور شکایت تو سب نے کی کہ صبح چار بجے ہی ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھایا اور ایک ایک لوٹا ہاتھ میں پکڑا کے جھڑ بیری کی جھاڑیوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ حیرت کانپوری نے پروٹسٹ کیا تو انھیں نومولود کے پوتڑے کے نیچے سے ایک چادر گھسیٹ کر پکڑا دی گئی کہ ایسا ہی ہے تو یہ اوڑھ لینا شاعروں کا دعویٰ تھا کہ اس دن ہم نے گاؤں کے مرغوں کو کچی نیند اُٹھا کر اذانیں دلوائیں!
کچھ نے شکایت کی کہ ہمیں“ ٹھوس ناشتہ “ نہیں دیا گیا۔ نہار منھ فٹ بھر لمبے گلاس میں نمکین چھاچھ پلا کر رخصت کردیا۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ ان کی کھاٹ کے پائے سے بندھی ہوئی ایک بکری ساری رات مینگنی کرتی رہی۔ منھ اندھیرے اسی کا دودھ دوہ کر انہیں پیش کردیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سلوک تو کوئی بکرا بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ خروش شاہجہاں پوری نے کہا کہ ان کے سرھانے رات کے ڈھائی بجے سے چکّی چلنی شروع ہوئی۔ چکّی پیسنے والی دونوں لڑکیاں ہنس ہنس کے جو گیت گا رہی تھیں وہ دیور بھاوج اور نندوئی اور سلہج کی چھیڑ چھاڑ سے متعلق تھا، جس سے ان کی نیند اور نیت میں خلل واقع ہوا۔ اعجاز امروہی نے کہا کہ بھانت بھانت کے پرندوں نے صبح چاربجے سے ہی شور مچانا شروع کردیا۔ ایسے میں کوئی شریف آدمی سو ہی نہیں سکتا۔
مجذوب متھراوی کو شکایت تھی کہ انھیں کچے صحن میں جامن کے پیڑ تلے مچھروں کی چھاؤں میں سُلادیا۔ پُروا کے ہر فرحت بخش جھونکے کے ساتھ رات بھر ان کے سر پر جامنیں ٹپکتیں رہیں۔ صبح اٹھ کر انھوں نے شکایت کی تو صاحبِ خانہ کے میٹرک فیل لونڈے نے کہا، غلط! جامنیں نہیں۔ پھلیندے تھے۔ میں نے خود لکھنؤ والوں کو پھلیندے کہتے سنا ہے۔ مجذوب متھراوی کے بیان کے مطابق ان کی چارپائی کے پاس کھونٹے سے بندھی ہوئی بھینس رات بھر ڈکراتی رہی۔ گجر دَم ایک بچّہ دیا جو سیدھا ان کی چھاتی پر آن کر گرتا اگر وہ کمالِ چابکدستی سے بیچ میں ہی کیچ نہ لے لیتے۔ شیدا جارچوی نے اپنی بے عزّتی میں بھی یکتائی اور فخرو مباہات کا پہلو نکال لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیسی بمثال بے عزّتی ان کی ہوئی ایسی تو ایشیا بھر میں کبھی کسی شاعر کی نہیں ہوئی۔ رعنا سیتا پوری ثم کاکوروی نے شگوفہ چھوڑا کہ جس گھر میں مجھے سُلایا گیا، بلکہ یوں کہیے کہ رات بھر جگا یا گیا، اس میں ایک ضدی بچّہ ساری رات شیرِ مادر کے لیے اور اس کا باپ موخر الذکر کے لیے مچلتا رہا۔ اخگر کانپوری جانشین مائل دہلوی بولے ان کا کاشتکار میزبان ہر آدھے گھنٹے بعد اُٹھ اُٹھ کر ان سے یہ پوچھتا رہا کہ “ جنابِ عالی ، کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ نیند تو ٹھیک آرہی ہے نا؟“
غرض کہ جتنے منھ ان سے دُگنی تگنی شکائیتیں۔ ہر شاعر اس طرح شکایت کر رہا تھا گویا اس کے ساتھ کسی منظّم سازش کے تحت ذاتی ظلم ہوا ہے۔ حالانکہ ہوا ہوایا کچھ نہیں۔ ہوا صرف یہ کہ ان شہری تلامیذالرحمٰن نے دیہات کی زندگی کو پہلی مرتبہ --------- اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے -------- ذرا قریب سے دیکھ لیا اور بِلبِلا اُٹھے۔ ان پر پہلی مرتبہ یہ کھُلا کہ شہر سے صرف چند میل کی اوٹ میں انسان کیوں کر جیتے ہیں۔ اور اب ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ یہی کچھ ہے تو کاہے کو جیتے ہیں۔
 

رضوان

محفلین
سکتے نکلوا لو!
کچھ دن بعد یہ سننے میں آیا کہ جن طرحی غزل پڑھنے والوں کی بے عزّتی تھی انہوں نے تہّیہ کیا ہے کہ آئندہ جب تک کسی استاد کے دیوان میں خود اپنی آنکھ سے مصرع نہ دیکھ لیں، ہرگز ہرگز اس زمین میں شعر نہیں نکالیں گے۔ ان میں سے دو شاعروں نے ساغر جالونوی سے اصلاح لینی اور غزلیں بنوانیں شروع کردیں۔ ادھر استاد اخگر کانپوری جانشین مائل دہلوی کی دکان خوب چمکی۔ ان کے سامنے اب روزانہ درجنوں نئے شاگرد زانوے تلمذ تہ کرنے لگے کہ انھوں نے اصلاح کی ایک مخصوص صنف میں اسپیشلائز کرلیا تھا۔ وہ صرف سکتے نکالتے تھے اور اسطرح نکالتے تھے جیسے پہلوان لات مار کر کمر کی چُک نکال دیتے ہیں۔ یا جس طرح بارش میں بھیگنے سے بان کی اکڑی ہوئی چارپائی پر محلّے بھر کے لونڈوں کو کدوا کر اس کی کان نکالی جاتی ہے۔ اِس طرح کان تو نکل جاتی ہے، لیکن لونڈوں کو پرائی چارپائی پر کودنے کا چسکا پڑ جاتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
مائی ڈیر مولوی مجّن!
دن تو جوں توں کاٹا، لیکن شام پڑتے ہی بشارت ایک قریبی گاؤں سٹک گئے۔ وہاں اپنے ایک واقف کار کے ہاں ( جس چند ماہ بیشتر ایک یتیم تلاش کرنے میں مدد دی تھی) انڈر گراؤنڈ چلے گئے۔ ابھی جوتوں کے تسمے بھی نہیں کھولے تھے کہ اپنے ہر جاننے والے کو مختلف ذرائع سے اپنے انتہائی خفیہ زیرِ زمین محلِ وقوع سے آگاہ کرنے کا انتظام کیا۔ انھوں نے دھیرج گنج میں سوا سال رو رو کے گزارا تھا۔ دیہات میں وقت بھی بیل گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے۔ انھیں اپنی قوتِ برداشت پر تعجب ہونے لگا۔ رزق کی سب راہیں مسدود نظر آئیں تو نا گوارا رفتہ رفتہ گوارا ہو جاتا ہے۔ شمالی ہندوستان کا کوئی اسکول ایسا نہیں بچا جس کا نام انھیں معلوم ہو اور جہاں انھوں نے درخواست نہ دی ہو۔ آسام کے ایک مسلم اسکول میں انھیں جمناسٹک ماسٹر تک کی ملازمت نہ ملی۔ چار پانچ جگہ اپنے خرچ پر جا کر انٹرویو میں بھی ناکام ہوچکے تھے۔ ہر ناکامی کے بعد انھیں معاشرے میں ایک نئی خرابی نظر آنے لگی جسے صرف خونیں انقلاب سے دور کیا جاسکتا تھا، لیکن جب کچھ دن بعد ایک دوست کے توّسط سے سندیلہ کے ہائی اسکول میں تقرر کا خط ملا تو دل نے بے اختیار کہا کہ میاں!
ایسا کہاں خرابِ جہاں خراب ہے
دس بارہ مرتبہ خط پڑھنے اور ہر بار نئی مسّرت کشید کرنے کے بعد انھوں نے چار لائن والے کاغز پر خطِ شکست میں استعفٰی لکھ کر مولوی مجّن کو بھجوادیا۔ ایک ہی جھٹکے میں بیڑی اتار پھینکی۔ اسے رقم کرتے ہوئے وہ آزادی کے ایک بھَک سے اُڑا دینے والے نشے سے سرشار ہوگئے۔ چنانچہ “ عرض “ کی ر کی دُم رعونت سے بل کھا کر ض کی آنکھ میں گھس گئی اور “ استعفٰی “ کی ی نے ہیکڑی سے پیر پسار دیے۔ بی اے کا نتیجہ نکلنے کے بعد وہ انگریزی میں اپنے دستخط کی جلیبی سی بنانے لگے تھی۔ آج بفضلِ مولا سے وہ جلیبی، امرتی بن گئی مولی مجّن کو خط کا مضمون پڑھنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کہ سوادِ خط کے ہر شوشے سے سر کشی، ہر مرکز سے تکبّر اور ایک ایک دائرے سے استعفٰی ٹپک رہا تھا۔ بشارت نے لفافے کو حقارت میں لعابِ دہن ملا کر اس طرح بند کیا گویا مولوی مجّن کے منھ پر تھوک رہے ہوں۔ دستخط کرنے کے بعد سرکاری ہولڈر کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اپنے آقائے ولی نعمت مولوی سید محمد مظفّر کو حضور فیض گنجور یا مکرمی معظمی لکھنے کے بجائے جب انھوں نے اردو خط میں مائی ڈیر مولوی مجّن لکھا تو وہ کانٹا جو سواسال میں ان کے تلوے کو چھیدتا ہوا تالو تک پہنچ چکا تھا، یکلخت نکل گیا۔ اور اب انھیں اس پر تعجب ہورہا تھا کہ ایسے پھٹیچر آدمی سے وہ سوا سال تک اس طرح اپنی اوقات خراب کرواتے رہے انھیں ہو کیا گیا تھا؟ خود مولوی مجّن کو بھی غالباً اس کا احساس تھا ۔ اسلیے کہ جب بشارت انھیں خدا کے حوالے کرنے گئے،مطلب یہ کہ خداحافظ کہنے گئے تو موصوف نے ہاتھ تو ملایا، آنکھیں نہ ملا سکے، جب کہ بشارت کا ی حال تھا کہ “ آداب عرض “ بھی اس طرح کہا کہ لہجے میں ہزار گالیوں کا غبار بھرا تھا۔
بشارت نے بہت سوچا۔ نازو کو تحفے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی تو نہ تھا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو وقتِ رخصت اپنی سونے کی انگوٹھی اُتار کر اسے دے دی۔ اس نے کہا، اللہ میں اس کا کیا کروں گی؟ پھر وہ اپنی کوٹھری میں گئی اور چند منٹ بعد واپس آئی۔ اس نے انگوٹھی میں اپنی گھنگرالے بالوں کی ایک لٹ باندھ کر انھیں لو ٹا دی۔ وہ دبی دبی سسکیوں سے رو رہی تھی۔
 

رضوان

محفلین
تم تو اتنے بھی نہیں جتنا ہے قد تلوار کا!
سندیلہ ہائی اسکول میں تو سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن میٹرک میں تین چار پرابلم لڑکے عمر میں ان سے بھی تین چار برس بڑے نکلے۔ یہ لڑکے جو ہر کلاس میں دو دو تین تین سال دَم لیتے میٹرک تک پہنچے تھے، اپنی عمر سے اتنے محجوب نہیں تھے جتنے خود بشارت۔ جیسے ہی وہ گولا جو اس کلاس میں قدم رکھتے ہی ان کے حلق میں پھنس جاتا تھا، تحلیل ہوا اور اسکول میں ان کے پیر جمے، انھوں نے اپنے ایک دوست سے جو لکھنؤ سے تازہ تازہ ایل ایل بی کر کے آیا تھا، مولوی مظفّر کو ایک قانونی نوٹس بھجوایا کہ میرے موکل کی دس مہینے کی چڑھی ہوئی تنخواہ بزریعہ منی آرڈر ارسال کردیجیے، ورنہ آپ کے خلاف قانونی کار وائی کی جائے گی جس سے اسکول کی جملہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کا طشت ازبام ہونا نا گزیر ہو جائے گا۔
اس کے جواب میں دو ہفتے بعد مولوی مظفّر کی جانب سے ان کے وکیل کا رجسٹرڈ نوٹس آیا کہ مشاعرے کے سلسلے میں جو “رقومات“ آپ کو وقتاً فوقتاً علی الحساب دست گرداں دی گئیں، ان کا حساب دیے بغیر آپ فرار ہو گئے۔ آپ اس واجب الادا رقم میں سے اپنے واجبات وضع کر کے، بقیہ رقم فوراً بذریعہ منی آرڈر میرے موکل کو بھیج دیجیے۔ مشاعرے کے اخراجات کا گوشوارہ مع اصل رسیدات بواپسی ڈاک ارسال کریں۔ شاعروں کو جو معاوضہ، بہتّا اور سفر خرچ دیا گیا اس کی رسیدات منسلک کریں۔ بصورت دیگر وجہ ظاہر کریں کہ کیوں نہ آپ کے خلاف عدالتِ مجاز میں چارہ جوئی کی جائے۔ ہرجہ و خرچہ اپ کے ذمے ہوگا۔ نیز شاعروں کے استقبال کے دوران آپ نے یتیم خانے کے بینڈ سے اپنی ایک غزل بجوائی جس کے ایک سے زائد اشعار فحش تھے۔ مزید بر آں، وزن سے گرے ہوئے مصرعے دینے سے اسکول کی تعلیمی شہرت اور اہلیانِ دھیرج گنج کی املاکِ منقولہ کو جو نقصان پہنچا اس کا ہر جانہ قرار واقعی وصول کرنے کا حق مجلسِ منتظمہ محفوظ رکھتی ہے۔ نوٹس میں دھمکی بھی دی گئی تھی کہ اگر رقم واپس نہ کی گئی تو بدرجہ مجبوری خیانتِ مجرمانہ کے کیس کی پوری تفصیلات سے سندیلہ اسکول کے منتظمین اور گورنمنٹ کے محکمہ تعلیمات کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
نوٹس سے تین دن پہلے مولی مجّن نے ایک ٹیچر کی زبانی بشارت کو کہلا بھیجا کہ برخودار! تم ابھی بچے ہو۔ گرو گھنٹال سے کاہے کو الجھتے ہو۔ ابھی تو نامِ خدا تمہارے گولیاں اور گلی ڈنڈا کھیلنے اور ہماری گود میں ‌بیٹھ کر عیدی مانگنے کے دن ہیں۔ اگر ٹکر لی تو پرخچے اڑا دوں گا۔
 

رضوان

محفلین
سگِ مردم گزیدہ
بشارت کی رہی سہی مدافعت کا لڑکھڑاتا قلعہ ڈھانے کے لیے مولی مجّن نے نوٹس کے آخری پیرا گراف میں ایک ٹائم بم رکھوادیا۔ لکھا تھا کہ جہاں آپ نے محکمہ تعلیمات کو اپنے خط کی نقل ارسال کی، وہاں اس کے علم میں یہ بات بھی لانی چاہیے تھی کہ آپ نے اپنے کتّے کا نام سرکارِ بریطانیہ کے گورنر جنرل کی تذلیل کے لیے لارڈ ولزلی رکھا۔ آپ کو بارہا وارننگ دی گئی مگر آپ حکومت کے خلاف ایک لینڈی کتّے کے ذریعے نفرت اور بغاوت کے جزبات کو ہوا دینے پر مُصر رہے جس کی شہادت قصبے کا بچّہ بچّہ دینے کو تیار ہے۔ نیز بغاوت اور انگریز دشمنی کے جنون میں آپ اپنے تئیں فخریہ اور اعلانیہ ٹیپو کہلواتے تھے!
بشارت سکتے میں آگئے۔ یا اللہ! اب کیا ہوگا؟
وہ دیر تک اداس اور فکر مند بیٹھے رہے۔ وِلزلی ان کے پیروں پر اپنا سر رکھے آنکھیں موندے پڑا تھا۔ وقفے وقفے سے آنکھ کھول کر انھیں دیکھ لیتا تھا۔ ان کا جی ذرا ہلکا ہوا تو وہ دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ پیار سے زیادہ احساسِ تشکر کے ساتھ۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں پتھر کی چوٹ کا نشان نہ ہو۔
 

رضوان

محفلین
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ “ یہ بے ننگ و نام ہے!“
مولی مجّن نے اس نوٹس کی کاپی اطلاعاً ان تمام شعرا کو بھیجی جنھوں نے اس یادگار مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ تین چار کو چھوڑ کر سب کے سب شاعر بشارت کے پیچھے پڑ گئے کہ لاؤ ہمارے حصّے کی رقم۔ ایک خستہ حال شاعر تو کوسنوں پر اُتر آیا۔ کہنے لگا جو دوسرے شاعر بھائیوں کے گلے پہ چھری پھیر کے معاوضہ ہڑپ کر جائے، اللہ کرے اس کی قبر میں کیڑے اور شعر میں سکتے پڑیں۔ اب وہ کس کس کو سمجھانے جاتے کہ مشاعرے کی مد میں انھیں کل دس روپے دیے گئے تھے۔ ایک دل جلے نے تو حد کر دی۔ اسی زمین میں ان کی ہجو لکھ کر ان کے سابق خانساماں ساغر جالونوی کے پاس بغرضِ اصلاح بھیجی، جو اس نمک حلال نے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ ہم تاجدارِ اودھ جانِ عالم شاہ پیا کے خاندانی رکاب دار ہیں۔ ہمارا اصول ہے ایک دفعہ جس کا نمک کھالیا، اس کے خلاف کبھی ہماری زبان اور قلم سے ایک لفظ نہیں نکل سکتا، خواہ وہ کتنا بڑا غبن کیوں نہ کر لے۔
تپش ڈبائیوی نے اُڑا دیا کہ بشارت کے والد نے اسی پیسے سے نیا ہارمونیم خریدا ہے، جس کی آواز دوسرے محلّے تک سنائی دیتی ہے۔ اسی ساز کے پردے میں غبن بول رہا ہے! بشارت کے استاد حضرت جوہر الہ آبادی نے کھل کر خیانتِ مجرمانہ کا الزام تو نہیں لگایا، لیکن انھیں ایک گھنٹے تک ایمان داری کے فضائل پر لیکچر دیتے رہے۔
 

رضوان

محفلین
نصیحت میں فضیحت!
سچ پوچھیے تو انھیں ایمان داری کا پہلا سبق، لغوی اور معنوی دونوں اعتبار سے، جوہر الہ آبادی نے ہی پڑھایا تھا۔ ہمارا اشارہ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی نظم “ ایمان دار لڑکا“ کی طرف ہے۔ یہ نظم دراصل ایک ایمان دار لڑکے کا قصیدہ ہے جو ہمیں بھی پڑھایا گیا تھا۔ اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک دن اس لڑکے نے پڑوسی کے خالی گھر میں تازہ تازہ بیر ڈلیا میں رکھے دیکھے۔ کھانے کو بے تحاشا جی چاہا لیکن بڑوں کی نصیحت اور ایمان داری کا جزبہ بیر چُرا کر کھانے کی خواہش پر غالب آیا۔ بہادر لڑکے نے بیروں کو چھوا تک نہیں۔ نظم کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے:
واہ وا شاباش لڑکے واہ وا!
تو جواں مَردوں سے بازی لے گیا!​
ہائے! کیسے اچھے زمانے اور کیسے بھلے اور بھولے لوگ تھے کہ چوری بدنیتی کی مثال دینے کے لیے بیروں کی ڈلیا سے زیادہ قیمتی اور لذیذ شے کا تصّور بھی نہیں کرسکتے تھے! کھٹ مٹھے بیروں سے زیادہ بڑی اور بُری Temptation ہماری دُکھیاری نسل کے لڑکوں کو اس زمانے میں دستیاب بھی نہ تھی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ہمیں یوں ہی خیال آیا کہ اگر اب ہمیں نئی پود کے لڑکوں کو نیک چلنی کی تلقین کرنی ہو تو چوری اور بدنیتی کی کونسی مثال دیں گے جس سے بات ان کے دل میں اُتر جائے۔ معاً ایک ماڈرن مثال ذہن میں آئی جس پر ہم یہ داستان ختم کرتے ہیں:
مثال: ایمان دار لڑکے نے ایک الماری میں بلو فلم اور Cannabis کے سگریٹ رکھے دیکھے۔ وہ انہیں اچھی طرح پہنچانتا تھا۔ اس لیے کہ کئی مرتبہ گریمر اسکول میں اپنی کلاس کے لڑکوں کے بستوں میں دیکھ چکا تھا۔ ان کی لذّت کا اسے بخوبی اندازہ تھا۔ مگر وہ اس وقت نشہ نصیحتِ پدری سے سرشار تھا۔ سونگھ کر چھوڑ دیے۔
وضاحت: درحقیقت اس کی تین وجہیں تھیں۔ اوّل، اس کے ڈیڈی کی نصیحت تھی کہ کبھی چوری نہ کرنا۔ دوم، ڈیڈی نے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ بیٹا فسق و فضور کے قریب نہ جانا۔نظر ہمیشہ نیچی رکھنا۔ سب سے باؤلا نشہ آنکھ کا نشہ ہوتا ہے۔ اور سب سے گندہ گناہ آنکھ کا گناہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ واحد گناہ ہے جس میں بزدلی اور نامَردی بھی شامل ہوتی ہے۔ کبھی کوئی برا خیال دل میں آ بھی جائے تو فوراً اپنے پیرومرشد کا اور اگر تم بے پیرے ہو تو خاندان کے کسی بزرگ کی صورت کا تصّور باندھ لینا؛ چنانچہ ایمان دار لڑکے کی چشمِ تصّور کے سامنے اس وقت اپنے ڈیڈی کی شبیہ تھی۔
اور تیسری وجہ یہ کہ مزکورہ بالا دونوں ممنوعہ اشیا اس کے ڈیڈی کی الماری میں رکھی تھیں!
واہ وا شاباش لڑکے واہ وا!
تو بزرگوں سے بھی بازی لے گیا!​
۔
 
Top