رضوان
محفلین
مشاعرہ کیسے لُوٹا گیا
لوگ بڑی دیر سے اُ کتائے بیٹھے تھے۔ ساغر جالونوی کے دھماکا خیز اعتراض سے اونگھتے مشاعرے میں جان ہی نہیں، ہیجان آگیا۔ اس وقت کسے ہوش تھا کہ اعتراض کی صحت پر غور کرتا۔ ہمارے ہاں ناچ گانا، حکمرانی اور مشاعرہ اکل کھرے فن ہیں۔ انکا سارا مزہ اور بنیاد ہی solo performance پر ہے۔ اسی لیے سیاست میں نعرے اور جلوس اور مشاعرے میں داد اور ہوٹنگ ہماری ضرورت، روایت اور سیفٹی والوو بن گئے۔ ہمارے ہاں شرکتِ سامعین ( audience participation) کی لے دے کے یہی ایک قابلِ قبول صورت ہے جس پر قدغن نہیں۔
دو ہنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہوچکا تھا۔ کچھ ہنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بُجھ گئے۔ ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈوں کو جھڑجھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہوگیا۔ اب مار پیٹ شروع ہوئی۔ لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی، بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم صاحب کی بھینس رسّی تڑا گئی ہے! یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگڈر پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دی، لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ دیہاتی سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دُھنائی کی۔ لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے -- اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چُرائی جاسکتی تھی چُرا لی گئی ----- پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، ساغر جالونوی کی دُگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا، ایک جازم، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدرِ مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی، خواجہ قمرالدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط* ------ حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی ازار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ہنڈا سر پر اٹھا کے لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا، مگر ہنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بر وقت چیخ سے ناکام بنادیا۔ غرض کہ قطعہ نظر اس کے کہ کار آمد ہے یا نہیں، جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا، اسے اُٹھا کے، اُتار کے، نوچ کے، پھاڑ کے، اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیرِ استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے، وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں۔
باہر سے آئے ہوئے دیہاتیوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ بھی مشاعرے کے اختتامیہ آداب میں داخل ہے، مار پیٹ اور لوٹ کھسوٹ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور بعد کو بہت دن تک ہر آئے گئے سے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے کہ اب دوسرا مشاعرہ کب ہوگا۔
-----------------------------------------------------------------------------------
* چھینی اور چُرائی ہوئی اشیا میں فقط یہی چیز تھی جو دوسرے دن برآمد ہوئی۔ یہی نہیں، اس کی نقول قصبے میں گھر گھر تقسیم ہوئیں۔
لوگ بڑی دیر سے اُ کتائے بیٹھے تھے۔ ساغر جالونوی کے دھماکا خیز اعتراض سے اونگھتے مشاعرے میں جان ہی نہیں، ہیجان آگیا۔ اس وقت کسے ہوش تھا کہ اعتراض کی صحت پر غور کرتا۔ ہمارے ہاں ناچ گانا، حکمرانی اور مشاعرہ اکل کھرے فن ہیں۔ انکا سارا مزہ اور بنیاد ہی solo performance پر ہے۔ اسی لیے سیاست میں نعرے اور جلوس اور مشاعرے میں داد اور ہوٹنگ ہماری ضرورت، روایت اور سیفٹی والوو بن گئے۔ ہمارے ہاں شرکتِ سامعین ( audience participation) کی لے دے کے یہی ایک قابلِ قبول صورت ہے جس پر قدغن نہیں۔
دو ہنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہوچکا تھا۔ کچھ ہنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بُجھ گئے۔ ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈوں کو جھڑجھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہوگیا۔ اب مار پیٹ شروع ہوئی۔ لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی، بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم صاحب کی بھینس رسّی تڑا گئی ہے! یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگڈر پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دی، لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ دیہاتی سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دُھنائی کی۔ لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے -- اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چُرائی جاسکتی تھی چُرا لی گئی ----- پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، ساغر جالونوی کی دُگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا، ایک جازم، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدرِ مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی، خواجہ قمرالدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط* ------ حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی ازار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ہنڈا سر پر اٹھا کے لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا، مگر ہنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بر وقت چیخ سے ناکام بنادیا۔ غرض کہ قطعہ نظر اس کے کہ کار آمد ہے یا نہیں، جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا، اسے اُٹھا کے، اُتار کے، نوچ کے، پھاڑ کے، اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیرِ استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے، وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں۔
باہر سے آئے ہوئے دیہاتیوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ بھی مشاعرے کے اختتامیہ آداب میں داخل ہے، مار پیٹ اور لوٹ کھسوٹ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور بعد کو بہت دن تک ہر آئے گئے سے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے کہ اب دوسرا مشاعرہ کب ہوگا۔
-----------------------------------------------------------------------------------
* چھینی اور چُرائی ہوئی اشیا میں فقط یہی چیز تھی جو دوسرے دن برآمد ہوئی۔ یہی نہیں، اس کی نقول قصبے میں گھر گھر تقسیم ہوئیں۔