آبِ گُم - شہر دو قصہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

سردار جی نے مجھے سارا گھر دکھایا۔ بہوؤں نے لپک جھپک بکھری ہوئی چیزیں بڑے قرینے سے غلط جگہ پہ رکھ دی تھیں۔ جو چیزیں عجلت میں رکھی نہ جا سکیں انہیں سمیٹ کر بیڈ پر ڈال دیا اور اوپر صاف چادر ڈال دی۔ چنانچہ گھر میں جہاں جہاں صاف چادر نظر آئی، میں تاڑ گیا کہ نیچے کاٹھ کباڑ دفن ہے۔ صاحب، curiosity بھی بری بلا ہے۔ ایک کمرے میں ، میں نے نظر بچا کر چادر کا کونا سرکایا تو نیچے سے سردار جی کے ماموں کیس کھولے ایک نہایت مختصر کچھنا پہنے برآمد ہوئے۔ ان کی داڑھی اتنی لمبی اور گھنگھور تھی کہ اس تکلف کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔ گھر کا نقشہ کافی بدل گیا ہے۔ گلنار جس محراب دار دریچے کی چق کے پیچھے سے مقیش کا جھلمل دوپٹہ اوڑھے جھانکا کرتی تھی۔ اب اسے تیغا کر دیا ہے۔ دیکھیے، آپ پھر مسکرانے لگے۔ صاحب، کیا کروں پرانے لفظ اور محاورے ابھی تک زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ کیس محراب یا روزن کو اینٹ گارے سے بند کرنے کو تیغا کرنا کہتے تھے۔ صحن اب پختہ کروا لیا ہے۔ چنبیلی کی بیل اور امرود کا پیڑ نظر نہیں آیا۔ یہاں میاں صاحب شام کو دو مشکوں سے چھڑکاؤ کروا کے مونڈھے بچھوا دیا کرتے تھے۔ اپنے لیے خراد پر بنے ہوئے چنیوٹ کے رنگین پایوں والی چارپائی ڈلواتے۔ وطن کی یاد زیادہ ستاتی تو ہمیں مقامی گنڈیریاں کھلاتے۔ ان کا گلا لائل پور کی گنڈیریوں کو یاد کر کے رندہ جاتا۔ چاندنی راتوں میں اکثر ڈرل ماسٹر کی آواز میں “ مرزا صاحباں “ اور جگنی چمٹا بجا کے سناتے۔ خود آبدیدہ ہوتے، ہمیں بھی آبدیدہ کرتے۔ کو کہ ہماری “ آبدیدگی “ کی وجہ کچھ اور ہوتی تھی۔ کچھ دیر بعد خود ہی اپنے بے سرے پن کا احساس ہوتا تو چمٹا بڑی حقارت سے صحن میں پھینک کر فرماتے کہ بادشاہو کانپور کے چمٹے گانے کی سنگت کے لیے نہیں، چلم بھرنے کے لیے سوٹ ایبل ہیں۔ میاں صاحب ایک زمانے میں خاصے رنگین مزاج ہوا کرتے تھے۔ مدتوں سے کانپور میں آباد تھے۔ مگر کبھی پان کھایا، نہ تسلیمات، آدات عرض کہا۔ اور نہ کبھی کوئی شعر پڑھا۔ کوٹھے پر بھی نہیں، جہاں ان تینوں کے بغیر گزر اور گزارا نہیں ہو سکتا تھا۔

سردار جی سے جھوٹ سچ بول کر باہر نکلا تو سارا ناسٹل جیا جسے آپ یادش بخیریا کہتے ہیں، ہرن ہو چکا تھا۔ پرانا مکان دکھانے کے بہانے مجھے انعام اللہ برملائی لے گئے تھے۔ واپسی میں ایک گلی کے نکڑ پر مٹھائی کی دکان کے سامنے رک گئے۔ کہنے لگے، رمیش چند اڈوانی ایڈووکیٹ کے ہاں بھی جھانکتے چلیں۔ جیکب آباد کا رہنے والا ہے۔ ستر کا ہے مگر لگتا نہیں اسی کا لگتا ہے۔ جب سے سنا ہے کہ کراچی سے کوئی صاحب آئے ہیں، ملنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ جیکب آباد اور سکھر کی خیر خیریت معلوم کرنا چاہتا ہے۔ ستار پر تمہیں کافیاں بھی سنائے گا۔ اگر تم نے تعریف کی تو مزید سنائے گا۔ نہ کی، تب بھی مزید سنائے گا کہ “ یہ ان سے بہتر ہیں، شاید آپ کو پسند آئیں۔“ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا رسالو زبانی یاد ہے۔ ہندی سیکھ لی ہے، مگر جوش میں آتا ہے تو عجیب جناتی زبان میں گفتگو کرنے لگتا ہے۔ کھسکا ہوا ہے مگر ہے دلچسپ۔

تو صاحب، اڈوانی سے بھی گفتگو رہی۔ گفتگو کیا monologue، کہیے۔ “ کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے“ والا مضمون ہے۔ اس نے یہ تصدیق چاہی کہ جیکب آباد اب بھی ویسا ہی حسین ہے یا نہیں جیسا وہ جوانی میں چھوڑ کر آیا تھا؟ یعنی کیا اب بھی چودویں کو پورا چاند ہوتا ہے؟ کیا اب بھی دریائے سندھ کی لہروں میں لش لش پلا مچھلیاں دور سے للچاتی ہیں؟ موسم ویسا ہی حسین ہے؟ (یعنی 115 ڈگری گرمی پڑتی ہے یا اس پر بھی زوال آ گیا ہے؟) اور کیا اب بھی خیر پور سے آنے والی ہوائیں لُو سے پکتی ہوئی کھجوروں کی مہکار سے بوجھل ہوتی ہیں؟ سبی میں سالانہ دربار اور میلا مویشیاں لگتا ہے کہ نہیں؟ میں نے جب اسے بتایا کہ میلا مویشیاں میں اب مشاعرہ بھی ہوتا ہے اور دور دور سے شاعر بلائے جاتے ہیں تو وہ دیر تک میلے کی بے توقیری پر افسوس کرتا رہا اور پوچھنے لگ، کیا اب سندھ میں اچھے مویشی اتنے کم ہو گئے؟ اسے گنگا جمنی میدان ذرا نہیں بھاتا۔ کہنے لگا، “ سائیں، ہم سیدھے، کھردرے، ریگ مال ریگستانی لوگ ہیں۔ اپنے رشتے، پیار اور سمبندھ پر کائی نہیں لگنے دیتے۔ آپ صفا سپاٹ آگرو (سندھی - دو آب) اور دلدلی میدانوں کے رہنے والے، آپ کیا جانیں کہ ریگستان میں گرم ہوا ریت پر کیسی چلبلی لہریں، کیسے کیسے چتر (تصویر، نقش و نگار) بنا بنا کے مٹاتی اور مٹا مٹا کے بناتی ہے۔ سائیں، ہمارا سارا sandscape شہ زور آندھیاں تراشتی ہیں۔ جھولو (سندھی - گرم ہوا، لُو) کے چھکڑ اور جیٹھ کے مینار بگولے سارے ریگستان کو متھ کر رکھ دیتے ہیں۔ آج جو ریگ وادی ہے وہاں سے کل لال آندھی کی دھوم سواری گزری تھی۔ جلتی دوپہر میں بھوبل دھول برساتی ریت پہاڑیاں، پچھلے پہر کی سرداتی مخمل بالو پہ دھیمی دھیمی پون پکھاوج، جوان بلوان بازوؤں کی مچھلیوں سمان ریت کی ابھرتی پھڑکتی لہریں۔ ایک لہر دوسری لہر جیسی نہیں۔ ایک ڈب (سندھی - ٹیلا) دوسرے ٹیلے سے اور ایک رات دوسری رات سے نہیں ملتی۔ برسات کی راتوں میں جب تھوتھے بادل سندھ کے ریگ ساگر کے اوپر سے آنکھ مچولی کھیلتے گزرتے ہیں تو اداس چاندنی ہر آن عجب طلسمات کھیلتی ہے۔ جس کو سارا ریگستان ایک ساں لگتا ہے، اس کی آنکھ نے ابھی دیکھنا ہی نہیں سیکھا۔ سائیں، ہم تمھارے پیروں کی خاک، ہم ریت مہا ساگر کی مچھلی ٹھہرے، آدھی رات کو بھی ریت کہ تہوں میں انگلیاں گڑو کے ٹھیک ٹھیک بتا دیں گے کہ آج پوچھانڈو (سندھی لفظ ہے، اس کا مترادو عربی میں ہو تو ہو) کہا تھا۔ (یعنی ٹیلے کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں صبح سویرے سورج کی پہلی کرن پڑی)، دوپہر کو ہوا کا رُخ کیا تھا اور ٹھیک اس سمے شہر کی گھڑیوں میں کیا بجا ہو گا۔ دھرتی نے ہمیں پھول، پھل اور ہریالی دیتے سمے ہاتھ کھینچ لیا تو ہم نے دھنک کے سارے چنچل رنگوں کی پچکاری اپنی اجرکوں، رِلیوں، اوڑھنیوں، شلوکوں، چولیوں اور آرائشی ٹاہلوں پر چھوڑ دی۔“

وہ اپنی آنسو دھار پچکاری چھوڑ چکا تو میں نے باہر آ کر انعام اللہ برملائی سے کہا “ بھائی میرے بہت ہو چکی۔ یہ کیسا ہندو ہے جو گنگا کنارے کھڑا ریگستان کے سپنے دیکھتا ہے؟“

کہیں دل اور کہیں نگری ہے دل کی
یہ ساری عمر کا بن باس دیکھو​

ایسا ہی ہے تو اسے اونٹ پر بٹھا کر بیکانیر میں کسی ٹیلے یا کانٹوں بھرے کیکر کے ٹھنٹھ پر بٹھا آؤ کہ اوپر چھاؤں نہیں اور نیچے ٹھاؤں نہیں۔ اب کے تم نے مجھے کسی ماضی میں مبتلا آدمی سے ملایا تو قسم خدا کی لوٹا، ڈور، چٹائی، کلیاتِ نظیر اکبر آبادی اور فروٹ سالٹ بغل میں مار بیابان کو نکل جاؤں گا۔ اور کان کھول کر سن لو۔ اب میں کسی ایسے شخص سے ہاتھ ملانے کا بھی روادار نہیں جو میرا ہم عمر ہو۔“ صاحب، مجھے تو اس کہولت اور یہوست سے، یعنی اپنے آپ سے قے آنے لگی۔ آپ کے مرزا صاحب نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا کہ اپنے ہم عمر بڈھوں سے محض ہاتھ ملانے سے آدمی کی زندگی ہر مصافحے کے بعد ایک سال گھٹ جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
مُلا عاصی بھکشو

کانپور میں جی بھر کے گھوما۔ ایک ایک سے ملا۔ ایک زمانہ آنکھوں سے گزر گیا۔ مگر حاصلِ سفر مُلا عاصی عبد المنان سے ملاقات رہی۔ ایسے ہی ہمدمِ دیرینہ سے ملاقات کے بارے میں ذوق نے کہا ہے :

بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے​

عبد المنان کے نانا خطوں میں اپنے دستخط کے سے پہلے عاصی لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے اُچک لیا اور ساتویں کلاس سے اپنا نام عاصی عبد المنان لکھنا شروع کر دیا۔ آٹھویں کلاس میں ہی داڑھی نکل آئی تھی۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ملا عاصی کہلانے لگے۔ اور یہ ایسا چپکا کہ اب صرف اسی نام سے پہچانے اور پکارے جاتے ہیں۔ تختی پر بھی Aasi A. Mannan لکھا ہے۔ طُرفہ تماشا ہیں۔ اکہرا گٹھا ہوا بدن، کھلتا ہوا گندمی رنگ، درمیانہ قد، بوزنہ دست یعنی غیر معمولی لمبوترے ہاتھ، جیسے بندر کے ہوتے ہیں، کوٹ، ہینگر کے سے ڈھلکے ہوئے کندھے، گھنے بال اب سفید ہو گئے ہیں مگر گھنگھرالا پن باقی ہے۔ باہر نکلی ہوئی مچھلی جیسی گول گول آنکھیں، دائیں آنکھ اور دہانے کے دائیں کونے میں بچپن سے tick تھا۔ اب بھی اسی طرح پھڑکتے رہتے ہیں۔ داڑھی نکلنے کے دس سال بعد تک ریزر نہیں لگنے دیا۔ سچ پوچھیے تو داڑھی سے بہت بہتر لگتے تھے۔ لمبی گردن، چھوٹا اور گول مٹول چہرہ، جس روز داڑھی منڈوا کر آئے تو ایسے لگے گویا نیچہ پہ چلم رکھی ہے۔ اس سے پہلے ہر مہینے چاند کی پہلی تاریخ کو نرخرے سے ملحق داڑھی کا تلا منڈوا کر آتے تو کہتے “ کٹٹھی بنوا کے آیا ہوں۔“ ادھر یہی اصطلاح رائج تھی۔ آپ نے بھی تو انٹر میڈیٹ میں باچھ سے باچھ تک مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ اگلی کتاب میں وہ والا فوٹو چھپوا دیں تو واللہ مزہ آ جائے۔ ملا عاصی خود کہتے ہیں کہ “ عاقل و بالغ ہونے کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں پڑھی۔ البتہ کہیں نماز کے وقت پھنس جاتا اور لوگ اصرار کرتے تو نماز پڑھا دیتا تھا۔ داڑھی کا یہ بڑا ہینڈی کیپ تھا۔ آخر تنگ آ کے منڈوا دی۔“ جب سے انھوں نے بدھ ازم کا ڈھونگ رچایا لوگوں نے ملا بھکشو کہنا شروع کر دیا۔ ابھی تک رے (ر) صاف نہیں بول سکتے۔ مگر ان کے منھ سے اچھا لگتا ہے۔ لہجہ مصر کی ڈلی۔ لا اُبالی اور سنکی جیسے جب تھے، اب بھی ہیں۔ بلکہ اپنے مدارج کچھ زیادہ ہی بلند کر لیئے ہیں۔ قریب سے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ زندگی ایسے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر سائے کی طرح ساتھ رہے۔ لطف آ گیا۔ کیا بتاؤں، ایسی دریا محبت، ایسا برکھا پیار۔

یقین جانیے، سن 47ء میں جیسا چھوڑ کے آئے تھے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ پچھتر سے کچھ اوپر ہی ہوں گے۔ لگتے نہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا راز ہے؟ بولے کبھی آئینہ نہیں دیکھتا۔ ورزش نہیں کرتا۔ کل کے بارے میں نہیں سوچتا۔ آخری دعوے میں انھوں نے قدرے کسرِ نفسی سے کام لیا۔ اس لیے کہ کل تو بعد کی بات ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ تو آج کے بارے میں بھی نہیں سوچتے۔ جس وضع سے زندگی شروع کی، اسی طرح گزار لے گئے۔ بڑی گرمجوشی سے ملے۔ سینے سے کیا لگایا، یکلخت twenties میں پہنچا دیا۔ ایسا لگا گویا اپنے ہی جوان ہمزاد سے ملاقات ہو گئی۔ ویسے مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہے کہ بعض لوگ اس طرح سینے سے لگاتے ہیں کہ اس کے بعد آپ وہ نہیں رہتے جو اس سے پہلے تھے۔ لیکن آپ نے جس چپڑقنات “ بزرگ “ کی مثال دی اس سے مجھے قطعی اتفاق نہیں۔ دل نہیں ٹھکتا۔ آپ آج بھی ملا عاصی کو ہر ایک کا کام اور ہر طرح کا کام کرنے کے لیے تیار پائیں گے۔ سوائے اپنے کام کے۔ شہر میں ہر افسر سے ان کی یاد اللہ ہے۔ کسی کو آدھی رات کو بھی سفارش کی ضرورت ہو تو وہ ساتھ ہو لیتے ہیں۔ کوئی بیمار بے آسرا ہو تو دوا دارو، ہاتھ پیر کی خدمت کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ہومیو پیتھی میں بھی ورک رکھتے ہیں۔ ہومیو پیتھک دواؤں میں تاثیر ہو یا نہ ہو، ان کے ہاتھ میں شفا ضرور ہے۔ مریض گھیرے رہتے ہیں۔ مشورے اور دوا کا کچھ نہیں لیتے۔

جوانی میں بھی ایسے ہی تھے۔ الہ دین کے جن کی طرح ہر خدمت کے لیے حاضر۔ بلا کے منتظم۔ سن 41ء کا واقعہ ہے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ میاں تجمل حسین کو دُور کی سوجھی۔ کس لیے کہ ان کے والد کلکتے گئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، یار مجرا دیکھے مدتیں ہوئیں۔ آخری مجرا جمال صاحب کے بیٹے کی شادی پر دیکھا تھا۔ سات مہینے ہونے کو آئے۔ دس بارہ جنے مل کے چندہ کر لیں گے۔ بس تم بلی کی گردن میں بلکہ پاؤں میں گھنگرو باندھ کے لوا لاؤ تو واللہ عیش آ جائیں۔

بولے، یار، کمال کر دیا پہلے کیوں نہ کہا؟ بس ایک جاجم کا بندوبست تم کر ہو، باقی سب میرے ذمہ داری۔ پر ایک بات ہے، چندے میں ہمیشہ خورد برد اور آپس میں لڑائی جھگڑے کا احتمال رہتا ہے۔ خیر، نیک کام میں تو لڑائی جھگڑا بالکل روا ہے، اور رائج بھی۔ پر کارِ بد میں مکمل اعتماد اور اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یارو یہ تو بتاؤ، چندے کی رنڈی کس کس کو کورنش بجا لائے گی؟

سنیچر کو دیکھا کہ عشاء کے بعد ملا عاصی سچ مچ اپنی “ ذمہ داری “ کو اکے میں بٹھائے لیے چلے آ رہے ہیں۔ خود اکے کے پر (تختے کا باہر نکلا ہوا کنارہ) پہ ٹکے ہوئے تھے۔ پاندان، طبلے، سارنگی، چوراسی (گھنگھرو) اور ضعیف طبلچی کو اپنے ہاتھوں سے اتارا۔ میرے کان میں کہنے لگے کہ داڑھی کی وجہ سے طوائف کو میرے ساتھ آنے میں تامل تھا۔ روپیہ تو خیر ہم سب نے چندہ کر کے فراہم کیا، مگر باقی ماندہ سارا انتظام انھی کا تھا۔ اس میں شہر سے باہر اس سرکاری بنگلے کا انتخاب و حصول بھی شامل تھا جہاں یہ محفل برپا ہونی تھی۔ ڈپٹی کلکٹر سے ان کی یاری تھی۔ دستر خوان پر کھانا انھوں نے اپنے ہاتھ سے چُنا۔ کانپور کے خاص سرخ و سفید رس گلوں کے کلھڑ خود خرید کر لائے۔ زردے میں ملا کر کھانے کے لیے بالائی بطور خاص لکھنؤ سے منگوائی۔ ان کا کہنا تھا کہ گلوریاں بھی وہیں کی ایک طرحدار تمبولن کے ہاتھ کی ہیں۔ کرارے پان کی گلوری اس ترکیب سے بناتی ہے کہ کسی کے کھینچ کر ماریں تو بلبلا اٹھے۔ گلوری ٹکڑے ٹکڑے بھلے ہی ہو جائے، لیکن مجال ہے کہ کھل جائے۔ دستر خوان بچھانے سے ذرا پہلے اپنی نگرانی میں تنوری روٹی پر گڑ اور اور نمک کا چھینٹا دلوایا۔ کانپور میں اسے چھینٹے کی روٹی کہتے تھے۔ دو تازہ قلعی کی ہوئی سلفچیوں میں نیم کے پتے ڈال کر کونے میں رکھوا دیں۔ غرض کہ مجرے اور دعوت کا سارا انتظام کیا۔ سب دسترخوان پر بیٹھ گئے تو کسی نے پوچھا، ملا کہاں ہے؟ ڈھنڈیا پڑی۔ کہیں پتا نہ تھا۔ محفل تو ہوئی، مگر بے لطفی رہی۔ دوسرے دن ان سے پوچھا گیا تو تنک کر بولے، آپ نے مدعو کب کیا تھا؟ میرے سپرد تو بس انتظام کیا گیا تھا، سو میں نے کر دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
کیا چھپکلی دودھ پلاتی ہے؟

مزاج کا بس ہمیشہ سے یہی رنگ رہا ہے۔ جو ٹیڑھ اور سنگ جب تھی وہ اب بھی ہے۔ کچھ بڑھ ہی گئی ہے۔ ایک قصہ ہو تو سناؤں۔ طالبِ علمی کا زمانہ تھا۔ وہ کوئی مافوق الفطرت کوڑھ مغز نہیں تھے۔ میرا مطلب ہے، اوسط درجے کے بالکل نارمل نالائق تھے۔ امتحان میں تین مہینے باقی رہ گئے تھے۔ دسمبر کا مہینہ، کڑکڑاتے جاڑے۔ انھوں نے کرسمس کے دن سے پڑھائی کی تیاریاں شروع کیں۔ وہ اس طرح کہ آنکھوں اور دماغ کو طراوت پہنچانے کے لیے سر منڈوا کے تیل سے سینچائی کی جو ایک میل دور سے پہچانا جاتا تھا کہ اصلی سرسوں کا ہے۔ پہلی ہی رات نزلہ ان کے عضوِ ضعیف یعنی سر پر گرا تو دوسرے دن چہکتے ہرے رنگ کا روئی کا ٹوپا سلوایا جسے پہن کر پان کھاتے تو بالکل طوطا لگتے تھے۔ جمعرات کو علی الصبح سفید بکری کی کلیجی اور سری خرید کر لائے۔ سری پکوا کر شام کو فقیروں کو کھلائی۔ اس زمانے میں بے پردگی کے اندیشے سے محلے میں کسی مرد کو چھت پر چڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے باوجود چھت پر کھڑے ہو کر دیر تی “ چیل، چیل، چیل “ پکارا کیے۔ پھر ہوا میں اچھال اچھال کے چیلوں کو کلیجی کی بوٹیاں اور خود کو پردہ نشین گھروں کے مردوں کی گالیاں کھلوائیں۔ دوپہر کو بان کی چارپائی باہر نکالی اور اونٹتے پانی سے ان کٹھملوں کو جنھیں برسوں سے اپنا خون پلا پلا کے بڑا کیا تھا، آخری غسل دیا۔ پھر چارپائی گھر کے باہر دھوپ میں الٹی کر کے مرحومین و نیم مرحومین پر ڈھیروں گرم مٹی ڈالی۔ مچھر دانی کے بانس پر جھاڑو باندھ کے بھڑ کے چھتے اور جالے اتارے۔ رات کو مختلف اوقات میں چھت پر ٹارچ سے روشنی ڈال ڈال کر چھپکلیوں کی تعداد اور عاداتِ شبینہ و شنیعہ کا جائزہ لیا۔ ان میں تین چھپکلیاں غالباً چھپکلے تھے۔ “ غالباً “ کی قید اس لیے لگانی پڑی کہ بقول مرزا، پرندوں، چھپکلیوں، مچھلیوں، punks اور اردو الفاظ میں نر مادہ کی تمیز کرنا انسان کے بس کا کام نہیں۔ پرندے، پنک، مچھلیاں اور چھپکلیاں تو پھر بھی بشری تقاضوں (مرزا حیوانوں کی اس نوع کی حرکتوں اور کرتوتوں کے لیے بھی بشری تقاضوں ہی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں) سے مغلوب ہو کر اپنی اپنی مخالف جنس کو پہچان کر عمل و حمل پیرا ہوتے ہیں۔ لیکن اردو الفاظ کے کیس میں تو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔ ان کی جنس بندی اور تذکیر و تانیث کی شناخت و ادراک صرف قدما و فصحا کا حصہ ہے۔ استاد جلیل نے کسی زمانے میں ایک محققانہ رسالہ تذکیر و تانیث پر لکھا تھا جس میں سات ہزار الفاظ کے طبی معائنے کے بعد ہر ایک کے متعلق دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ مذکر ہے یا مؤنث۔ ساتھ ہی ان الفاظ کی بھی نشان دہی کر دی جن کم مشکوک جنس کے بارے میں اہل لکھنؤ اور دلی والے ایک دوسرے کا سر پھاڑنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔

دو تین رنگین مزاج چھپکلے جن کے ذکر سے یہ بات نکلی، ٹراتے بہت تھے۔ رات بھر ڈبل ڈیکر بنے چھت پر چُھٹے پھرتے تھے، جس سے پڑھائی اور ذہنی سکون میں کھنڈت واقع ہونے کا اندیشہ تھا۔ ان سب بدذاتوں کو اپنے کیفر کردار کو پہنچانے کے لیے وہ ایک دوست سے “ ڈائنا “ ایئر گن مانگ کر لائے، مگر چلائی نہیں۔ کیونکہ بقول ان کے، لبلبی پر انگلی رکھتے ہی خیال آ گیا کہ ان میں تو کئیوں کے دودھ پیتے بچے ہیں۔

میں نے ٹوکا کہ یار، چھپکلی اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتی۔ بولے تو پھر جو کچھ پلاتی ہے وہ سمجھ لو۔ چھت کی جھاڑ پونچھ کے بعد دیوار کی باری آئی۔ لکھنے کی میز کے اوپر ٹنگی ہوئی مادھوری، کجن اور سلوچنا ایکٹرسوں کی تصویریں ہٹائی تو نہیں، مگر اُلٹی کر دیں۔ خود کو راہ راست پر رکھنے اور خدا کا خوف دلانے کی غرض ان کے بیچوں بیچ اپنے والد گرامی کا، جو بڑے جلالی اور ہتھ چُھٹ بزرگ تھے، فوٹو ٹانگ دیا۔ ڈریکولا کی طرح آئینے بھی کپڑے سے ڈھک دیے تاکہ چہرے پر امتحان کی وحشت دیکھ کر دہشت زدہ نہ ہو جائیں۔ ان کے دوست ہری پرکاش پانڈے نے امتحان کے زمانے میں نیک چلن رہنے اور برہمچریہ کا بڑی سختی سے پالن کرنے کی تاکید کی جو سراسر غیر ضروری تھی۔ اس لیے کہ ان کی اور ہماری نسل کے لیے بدچلنی پرابلم نہیں، دلی آرزو تھی۔ خود کو ٹھنڈا اور شانت رکھنے کا اس نے یہ گُر بتایا کہ من میں کوئی ایسی ویسی کامنا (خواہش) آ جائے تو فوراً اپنے انگوٹھے میں پن چبھو لیا کرو۔ اور جب تک خواہش پوری طرح نکل نہ جائے، پن بدستور چبھوئے رہو۔ مگر ہوا یہ کہ ان کے منھ سے بارہا چیخ نکل گئی، لیکن خواہش نہیں نکلی۔ پہلے ہی دن یہ نوبت آ گئی کہ دونوں pin cushions یعنی دونوں انگوٹھوں میں پن چبھونے کی جگہ نہ رہی۔ پاؤں کے انگوٹھے استعمال کرنے پڑے۔ دوسرے دن جب وہ جوتے پہننے کے قابل نہ رہے تو پن چبھونے کے بجائے صرف مسکرا دیتے اور کپڑا ہٹا کر آئینہ دیکھ لیتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
ربر گوید کہ من شاہِ جہانم

بری عادتوں سے تائب ہو گئے۔ مطلب یہ کہ رات گئے تک غیر حاظر دوستوں کی غیبت، تاش، شطرنج، بائیسکوپ اور بری صحبت یعنی اپنے ہی جیسے دوستوں کی صحبت سے میعادی توبہ کی۔ یعنی کرسمس کے دن سے یومِ امتحان تک۔ اور دل میں both days inclusive کہہ کر مسکرا دیے۔ مثنوی “ زہر عشق “ جو یکے از کتب ممنوعہ تھی اور دس بارہ بدنام مثنویوں کے سراپا سے اقتباسات جن کا شمار اس زمانے میں porn میں ہوتا تھا، مقفل الماری سے نکالے۔ یہ سب ان کے ہاتھ کے قلمی نسخے تھے جو املا کی غلطیوں کے باوجود بلکہ، بسبب دونا مزہ دیتے تھے کہ ان میں کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔ ان مخطوطات کو مع تاش کے دو پیک کے، جن میں سے ایک بالکل نیا تھا، نذرِ آتش کرنے صحن میں لے گئے۔ لالٹین سے تیل نکال کر ابھی پرانا پیک جلایا ہی تھا کہ بزرگوں کی ایک نصیحت یاد آ گئی کہ کوئی بھی کام ہو، جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ جلدی کا کام شیطان کا۔ لہذٰا کارِ شیطان پر لعنت بھیجی اور نیا پیک اور “ سراپے “ واپس لے آئے۔ پھر دو پنسلیں اور چھ ربر خریدے کہ ان کے ہاں ہر دو اشیا کے استعمال کا یہی تناسب تھا۔ آپ بھی تو پنسل سے لکھتے ہیں تا کہ مسودہ فیئر کرنے کی کھکھیڑ سے بچ جائیں۔ مگر دشمنوں کا خیال ہے، لکھتے کم، مٹاتے زیادہ ہیں۔ آپ نے پنسل کی لت بچارے مختار مسعود کو بھی لگا دی۔ اب وہ بھی آپ کی طرح ربر سے لکھتے ہیں۔ مگر آپ کہتے ہیں کہ نابوکوف بھی پنسل سے لکھتا تھا۔ افسوس کہ لفظ “ میٹنا “ اب متروک ہو گیا ہے۔ پھر ملا عاصی “ رف ورک “ کے لیے ردی والے کے یہاں سے ریلوے کی بڑی رسیدوں اور بلٹیوں کی پانچ سیر کاپیاں ایک آنے میں خرید لائے۔ اس زمانے میں کفایت شعار لڑکے ان کی پشت پر “ رف ورک “ کرتے تھے۔ آدھ سیر سونف بھی لائے اور اس کے کنکر محلے کی ایک دوشیزہ سے بنوا کر ایک شیشی میں اس طرح محفوظ کر لیے جیسے بعض شیخی خورے مریض آپریشن کے بعد گردے اور پتے کی پتھریاں سجا کر رکھتے ہیں۔ مگر دوشیزہ کا علاحدہ قصہ ہے۔ کبھی اور سہی۔ پھر سونف میں ایک پاؤ دھنیے کے بیج ملا کر دونوں کو مرتبان میں بھر دیا۔ ہری پرکاش پانڈے نے کہا تھا کہ دھنیے کی عرق کے دو قطرے مست سانڈ کے حلق یا بھڑکتے جوالا مکھی پہ ڈال دو تو سہیں بلبلے کی طرح بیٹھ جائے گا۔ سونف سے آنکھوں کی جوت بڑھتی اور دماغ کو تراوٹ پہنچتی ہے۔ چنانچہ ایک پھنکی نیند کے جھونکے سے پہلے اور ایک بعد میں مار لیتے تھے۔

جب مطالعے کے لیے مناسب ماحول بن گیا تو باخبر لڑکوں سے معلومات حاصل کر کے کورس کی کتابوں کہ فہرست بنائی۔ کچھ نئی، مگر بیشتر سیکنڈ ہینڈ خریدیں۔ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو کم قیمت کی بنا پر نہیں بلکہ فقط اس لیے ترجیح دی کہ بعض نایاب ایڈیشن ایسے مل گئے جن میں فیل ہونے والوں کی دو تین تجربہ کار نسلوں نے یکے بعد دیگرے اہم حصوں پر نشان لگائے تھے۔ بعض نشان تو مثل لائٹ ہاؤس کے تھے جو ان خطرناک چٹانوں کی نشان دہی کرتے تھے جہاں علم کی تلاش میں نکلے ہوئے غافل طلبہ کی اداس نسلوں کا بیڑہ غرق ہوا تھا۔ ایک نادر نسخہ ایسا بھی ہاتھ لگا جس میں صرف غیر اہم حصے “ انڈر لائن “ کیے گئے تھے تا کہ انہیں چھوڑ چھوڑ کر پڑھا جائے۔ انہیں یقین تھا کہ کورس کی کتابوں کی فراہمی سے وہ ممتحن کے خلاف آدھی فتح تو حاصل کر ہی چکے ہیں۔ اسکے بعد وہ ہری پرکاش پانڈے کے گھر گئے جو گورنمنٹ کالج میں ہمیشہ فرسٹ آتا تھا۔ منت سماجت کر کے اس کی تمام کتابیں دو دن کے لیے مستعار لیں اور اِکے میں ڈھو کر گھر لائے۔ پھر چھٹی کلاس کے ایک غریب لڑکے کو ایک آنے یومیہ کی دہاڑی پر اس کام پر تعینات کیا کہ ہری پرکاش پانڈے کی کتابوں میں جو حصے “ انڈر لائن “ کیے ہوئے ہیں، انھی کے مطابق میری تمام کتابیں سبز پنسل سے انڈر لائن کر دو۔ پھر ایک ایک آنے میں ربر کی دو مہریں Important اور Most Important کی کھڑے کھڑے بنوائیں اور اپنی کتابوں کا سیٹ پانڈے کو دے آئے کہ جن جن حصوں کو تم امتحان کے لحاظ سے ہمارے توجہ کے لائق سمجھتے ہو، ان پر حسبِ اہمیت یہ مہریں لگاتے چلے جانا۔ پلیز۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
کتابوں کی قسمیں اور نکٹے دشمن

سب نشان لگ گئے تو انھوں نے غیر ضروری اور فالتو علم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی غرض سے ایک اور ہنگامی تکنیک ایجاد کی جسے وہ selective study کہتے تھے۔ اردو مترادف تو مجھے معلوم نہیں۔ تفصیل اس کی یہ کہ جو سوال پچھلے سال آ چکے تھے، ان کے متعلقہ ابواب پورے کے پورے قینچی سے کاٹ کے پھینک دیے کہ ان کی موجودگی سے توجہ distract ہوتی اور دل پر ضخامت سے خواہ مخواہ دہشت بیٹھتی تھی۔ یہی نہیں ان کی وہ بین السطور جڑیں جو دوسرے ابواب میں کینسر کی secondaries کی طرح پھیلی ہوئی جہاں تہاں نظر آئیں، کاٹ کر پھینک دیں۔ پھر وہ باب نکال پھینکے جن کے بارے میں ان کے مشیروں اور بہی خواہوں نے کہا کہ ان میں سے کوئی سوال آ ہی نہیں سکتا۔ تھوڑا بہت اپنے کشف سے بھی کام لیا۔ آخر میں جی کڑا کر کے وہ ادق حصے نکا پھینکے جنہیں وہ دو دفعہ پڑھتے تب بھی کچھ پلے نہ پڑتا۔ اس عملِ جراحی سے کتابیں چھٹ چھٹا کر ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئیں۔ ان میں سے تین کو شیرازہ تو ایسا بکھرا کہ ان کی باقیات کو کلپ سے دوسری کتابوں کے نیفے میں اُڑسنا پڑا۔ ایک کتاب کا صرف سرورق باقی رہ گیا۔ اس میں چند غیر ضروری صفحے محض شگون اور ممتحن کی دلجوئی کے لیے رکھ لیے۔ ان کا پروگرام تھا کہ زندگی اور بینائی نے اگر امتحان تک وفا کی تو ان منتخب اوراق کے چیدہ چیدہ حصوں پر ایک اچٹتی سے نظر ڈال لیں گے۔ آخر ہر کتاب ایک ہی انداز سے تو نہیں پڑھی جا سکتی۔ پھر ذہانتِ خداداد اور علم لدنی بھی تو کوئی چیز ہے۔ رہا فیل ہونے کا خدشہ، سو وہ تو ہر صورت میں رہے گا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ بہرحال محنت کر کے اپنے زورِ بازو سے باعزت طریقے سے فیل ہونا نقل کر کے پاس ہونے سے بدرجہا بہتر ہے۔ کسی نے ان ہی کتابوں کے بارے میں بیکن کو مشہور مقولہ سنایا جو ان کے دل کو بہت بھایا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بیکن کا یہ انشائیہ ان کے کورس میں شامل تھا اور اسے انہوں نے فضول سمجھتے ہوئے کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ وہ “ کوٹےشن“ آپ کو تو یاد ہو گا، کچھ اس طرح ہے کہ بعض کتابیں صرف چکھی جانی چاہیں، کچھ کو نگل جانا چاہیے، کچھ اس لائق ہوتی ہیں کہ آہستہ آہستہ چبا چبا کے ہضم کی جائیں، اور کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں کسی عوضی سے پڑھوا کر خلاصہ بنوا لینا چاہیے۔ ملا عاصی نے اس قول فیصل میں اتنی اصلاح اپنی طرف سے کی کہ اگر سب نہیں تو بیشتر کتابیں اس لائق ہوتی ہیں کہ سونگھ کر ایسوں کے لیے چھوڑ دی جائیں جو ناک نہیں رکھتے۔ صاحب، ناک پر آپ نے اس دن بیچ لگژری ہوٹل والے فنکشن میں کمال نظم “ کوٹ “ کی۔ مگر حاضرین میں مجھ جیسے دو چار ہی ہوں گے جو یہ سمجھ پائے کہ آپ کا ہدف و مخاطب کون ہے۔ ایسے حملے سے دشمن کا تو کچھ نہیں بگڑتا، اپنا جی خوش ہو جاتا ہے۔ یاد ہیں کچھ لائنز ؟

[align=left:788e6ce4df]They haven't got no noses
The fallen sons of Eve.
(The song of Qoodle-G.k. Chesterton)[/align:788e6ce4df]
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
تاریخ کا کلیجہ

تاریخ کے مسئلے کو بھی انھوں نے پانی کر دیا۔ وہ اس طرح کہ ہری پرکاش پانڈے کو ہدایت کی کہ ممتحن کے نقط نظر سے جتنے سنہ اہم ہوں، ان سب کی فہرست بنا کر مجھے دے دو تا کہ ایک ہی ہلے میں ان سے نمٹ لوں۔ لیکن بیس سے زیادہ نہ ہوں۔ اب تک وہ صرف پانچ چھ سنہ سے غریبامئو کام چلا رہے تھے۔ ماسٹر فاخر حسین نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تواریخ جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے، مجموعہ سنین کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے جواب میں جتنے زیادہ سن لکھو گے، اتنے ہی زیادہ نمبر ملیں گے۔ سن کی جمع سنین انہیں پہلی مرتبہ اسی مقولے سے معلوم ہوئی۔ لیکن جب ماسٹر فاخر حسین نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں بڑے آدمیوں کا سنِ وفات ان کے سنِ پیدائش سے زیادہ اہم ہوتا ہے تو ملا عاصی کا ماتھا ٹھنکا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ پیدا ہونے، وفات پانے اور گدی پر بیٹھنے کے لیے انھوں نے متولد، متوفی، متمکن اور سریر آرائے سلطنت ہونے کی اصطلاحیں ماسٹر فاخر حسین ہی سے سیکھیں۔ ماسٹر صاحب نے یہ ٹِپ بھی دیا کہ ممتحن اپنا تاثر صرف تمہارے پہلے جواب کے پہلے پیراگراف سے قائم کر لیتا ہے۔ ان پندہائے سُود مند کے بعد دسویں جماعت کا جو ششماہی امتحان ہوا، اس میں مُلا عاصی نے پہلے ہی سوال میں کاپی پہ تاریخ کا کلیجہ نکال کے رکھ دیا۔ مطلب یہ کہ پہلے صفحے کے پہلے پیراگراف کے کوزے میں وہ سارے سنہ بند کر دیئے جو وہ اپنی ہتھلی اور “سوان انک“ کے ڈبے کے پیندے پر لکھ کر لے گئے تھے۔ ان سنوں یا سنین کا اصل سوال سے کوئی تعلق نہیں‌ تھا۔ بلکہ آپس میں بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سب کو ایک لڑی میں اس طرح پرو دینا کہ ماسٹر فاخر حسین پر اپنی نصیحت کے نتائج ہویدا ہو جائیں، صرف انہی کا کام تھا۔

سوال لارڈ ڈلہوزی کی پالیسی پر آیا تھا۔ ان کو جواب مجھے حرف بحرف تو یاد نہیں، لیکن اس کا پہلا پیراگراف جس میں انہوں نے بلا امتیاز مذہب و ملت سب بادشاہوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک کر موت کے گھاٹ اتارا، کچھ اس طرح تھا :

“ اشوک اعظم ( متوفی 232 ق م) کے بعد سب سے بڑی سلطنت اورنگ زیب عالمگیر ( متوفی 1680ء) کی تھی۔ جو 1658ء میں اپنے والد کا تختہ اُلٹ کر سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس اثنا میں پانی پت میں گھمسان کی جنگ ہوئی، مگر طوائف الملوکی کا دور دورہ ختم نہ ہوا۔ حالانکہ اورنگ زیب نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھائیوں کا سلوک کیا، یعنی یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اتارا۔ اگر وہ یہ نہ کرتا تو بھائی اس کے ساتھ یہی کچھ کرتے۔ دراصل اکبر اعظم (متولد 1542ء، متوفی 1605ء) کی چوکس آنکھ بند ہوتے ہی انتزاعِ سلطنت کا آثار شروع ہو گئے جو متعدد شاہی اموات کے بعد 1757ء میں پلاسی کے جنگ اور 1799ء میں سرنگا پٹم کی جنگ پر منتج ہوئے۔ ادھر یورپ میں نپولین ( متوفی 1821ء) کا طوطی رک رک کر بولنے لگا تھا۔ (یہاں انہیں اچانک دو سنہ اور یاد آ گئے، چنانچہ انہیں بھی وفیات کی آگ میں جھونک دیا) یہ نہیں کہ فیروز تغلق (متوفی 1388ء) اور بلبن (متوفی 1287ء) بھی سلطنت کو استحکام نہ بخش سکے۔ یہاں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 1757ء سے 1857ء تک ایک سو سال کی مدت بنتی ہے۔۔۔۔“

سنہ کو بطور آلہ تسخیر ممتحن استعمال کرنے اور تاریخ کے صحیح تعین سے متعلق ماسٹر فاخر حسین کی نصیحت انھوں نے گرہ میں باندھ لی۔ انہیں اپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں تھی۔ چنانچہ اس کے خانے میں وہ بڑی دیانت داری سے “ نامعلوم“ لکھ دیا کرتے تھے۔ لیکن جس دن سے ماسٹر فاخر حسین نے کچوکا دیا کہ برخوردار ہمارے ہاں نامعلوم و نا تحقیق تو صرف ولدیت ہوا کرتی ہے۔ وہ اپنی قیاس تاریخِ ولادت 1908ء کے بعد A.D لکھنے لگے تا کہ تسامح نہ ہو۔ کوئی کوڑھ مغز التباساً B.C نہ سمجھ بیٹھے۔ اپنی فاش غلطی میں بھی عالمانہ شان پیدا کرنے کے لیے غلطی کو تسامح اور التباس کہنا ہم دونوں نے ماسٹر فاخر حسین ہی سے سیکھا۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے ان کی یادداشت خراب ہو چلی تھی۔ کوئی بات یا جواب ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہ آئے تو “اس وقت استحضار نہیں ہے“ اس طرح کہتے کہ ہم خود اپنی نالائقی پر شرمندہ ہوتے کہ کیسے غلط وقت پر سوال کر بیٹھے۔ صاحب، اگلے وقتوں کے استادوں کی شان ہی کچھ اور تھی۔

امتحانی چالاکیوں سے متعلق ماسٹر فاخر حسین کا بتایا ہوا ایک نکتہ یاد آیا۔ فرماتے تھے کہ جہاں مشکل لفظ استعمال کر سکتے ہو وہاں آسان لفظ نہ لکھو۔ (1) تم طالبِ علم ہو۔ سادگی و سلاست صرف عالموں کو زیب دیتی ہے اور انہی کے یہاں مفقود ہے۔ اسی ضمن میں یہ بھی فرماتے کہ جس عربی یا فارسی لفظ کی جمع تمہیں معلوم ہو اس کو صیغہ واحد میں استعمال نہ کرو۔ چنانچہ مین نے اپنے دشمنوں کو ملاعین و طواغیت کہنا انہی سے سیکھا۔ صیغہ واحد - ملعون اور طاغوت - میں وہ بات کہاں۔

--------------------------------------------------------------------------------------------
(1) 1989ء میں ایک دلچسپ اُلٹی لغت Reverse Dictionary شائع ہوئی تھی جس میں ہر آسان لفظ کے مشکل، اوق اور نامانوس مترادفات دیے گئے ہیں۔ یہ ڈکشنری ان طبقوں میں جن کا کام بات کر کھول کر عام فہم انداز میں بیان کرنا ہے، بے حد مقبول ہو رہی ہے۔ ہماری مراد پروفیسروں، نقادوں، پادریوں، حکومت کے ترجمانوں اور بزنس ایگزیکٹیوز سے ہے۔ ماسٹر فاخر حسین کی روح پُر فتوح پچاس سال بعد اپنی نصیحت پر عمل درآمد دیکھ کر کس قدر مسرور و مفتحر محسوس کر رہی ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
مُلا عبد المنان اور نپولین

اسی طرح ان کے ایک خیر خواہ نے کسی زمانے میں ٹپ دیا تھا کہ اگر تین Essays اور تین تاریخی جنگیں رٹ لو تو انگریزی اور تاریخ میں فیل ہونا ناممکن ہے۔ بشرطیکہ ممتحن جوہر شناس اور نالائق نہ ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ ہر ایک کے مشورے پر حرف بحرف عمل کر بیٹھتے تھے۔ چنانچہ ہر دفعہ ایک مختلف طریقے سے فیل ہوتے اور ممتحن کی نالائقی پر رہ رہ کر افسوس کرتے۔ واٹرلو کی فیصلہ کُن جنگ جس میں ان کے ہیرو نپولین کو شکستِ فاش ہوئی، ان تین جنگوں میں جو انہوں نے نقشہ میدانِ جنگ سمیت رٹ لی تھی، ان کی “ فیورٹ “ تھی۔ دوستوں کو اپنے فیل ہونے کی اطلاع بھی اسی یادگار تاریخی حوالے سے دیتے تھے۔ جس میں طالبعلمانہ ندامت کی بجائے جرنیلی تکبر پایا جاتا تھا :

"I have met my Waterloo"

بعد میں اپنی زندگی کی دیگر ناکامیوں کا اعلان بھی انہی تاریخی الفاظ میں کرنے لگے۔ مگر صاحب، نپولین کی اور ان کی شکست میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ نپولین تو ایک ہی شکست میں ڈھیر ہو گیا تھا، جب کہ ان کے اعلانِ ہزیمت میں دوبارہ شکست کھانے کا آہنی عزم پایا جاتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
تالا نہیں کھلتا

جب ممتحن کو زیرِ دام لانے کے تمام ہتھکنڈے اور “ شارٹ کٹ “ مکمل ہو گئے تو امتحان میں کل چار ہفتے باقی رہ گئے تھے۔ شارٹ کٹ دراصل اس راستے کو کہتے ہیں جو ذہین مگر کاہل لوگ کم سے کم فاصلے کو زیادہ سے زیادہ وقت میں طے کرنے کے لیے دریافت کر لیتے ہیں۔ صاحب، فاصلے کو گز سے نہیں وقت سے ناپنا چاہیے۔ خیر، اب ملا عاصی سچ مچ پڑھائی میں جٹ گئے۔ صبح سات بجے آٹھ پوریوں، پاؤ بھر کڑھائی سے اترتی جلیبیوں اور رات بھر تاروں کی چھاؤں میں بھیگے دس باداموں کی ٹھنڈائی کا ناشتہ کرنے کے بعد وہ خود کو کمرے میں بند کر کے باہر سے تالا ڈلوا دیتے تا کہ اگر چاہیں بھی تو باہر نہ نکل سکیں۔ عشاء کے وقت تالا کھلتا تھا۔ دو ڈھائی ہفتے یہی معمول رہا۔ مگر امتحان میں نہیں بیٹھے۔ کہنے لگے، دماغ کا تالا نہیں کھلتا۔

اور صاحب تالا کھلتا بھی کیسے۔ امتحان سے چند روز قبل کہ معمول بنا لیا کہ شام پڑتے ہی سائیکل لے کے نکل جاتے اور پو پھٹے لوٹئے۔ پرچے آؤٹ کرنے کی مہم میں لگے ہوئے تھے۔ جن جن پروفیسروں کے بارے میں انہیں ذرا بھی بدگمانی ہوئی کہ انہوں نے پرچہ بنایا ہوگا، ان کے چپراسیوں، خانساماؤں، مہتروں، حتی کہ ان کے شیر خوار بچوں کو آیاؤں سمیت cultivate کر رہے تھے (1)۔ اور جیسے ہی کہیں سے کوئی ہنٹ ملتا یا گیس پیپر ہاتھ لگتا، اسے راتوں رات گھر گھر تقسیم کرتے۔ وہ مستحقین تک، یعنی شہر کے تمام نالائق طالبِ علموں تک پہنچ جاتا تو کسی دوسرے پرچے کو آؤٹ کرنے کی مہم پر سائیکل اور منھ اٹھائے نکل جاتے۔ ایک رات دیکھا کہ ایک پرنٹنگ پریس کے باہر جو کاغذ کی کترنیں، پروف کی ردی اور کوڑا کرکٹ پڑا تھا، اسے اپنے معتقدین خاص سے دو بوریوں میں بھروا کر خوردبینی معائنے کے لیے گھر لے آئے۔ انہیں کسی نے انتہائی رازداری سے ہنٹ دیا تھا کہ ایک پرچہ اسی پریس میں چھپا ہے۔ ان کے جاسوس شہر کے مختلف حصوں میں کام کر رہے تھے۔ ان کے بقول آگرے، میرٹھ، بریلی اور راجپوتانہ اور سنٹرل انڈیا کے شہروں میں جن کا آگرہ یونیورسٹی سے الحاق تھا، ان کے خفیہ ایجنٹوں نے جاسوسی کا جال بچھا رکھا تھا جس سے کسی بھی ممتحن کا باعزت طریقے سے بچ نکلنا ناممکن تھا۔ یہ سب وہ تھے جو کئی سال سے مختلف مضامین میں فیل ہو رہے تھے۔ ہر جاسوس اسی مضمون کے پرچے کی مخبری میں اسپیشلائز کیئے ہوئے تھا، جس میں وہ گزشہ سال لڑھکا تھا۔ leakage اور خفیہ اطلاعات کے سوتے خشک ہونے لگے تو انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اپنے ذاتی کشف و الہام سے اس کمی کو پورا کیا۔ پہلا پرچہ سیٹ کرنے والے ممتحن کے گھر کے باہر تھڑے پر گردن اور پیر لٹکائے دو گھنٹے تک پرچے کی بُو لیتے رہے۔ تین سوال اسی عالم میں القا ہوئے۔ گھر آ کر ان میں مزید تین کا اضافہ اس طرح کیا کہ دس سوالوں کی کاغذ کی گولیاں بنائیں اور اسی دوشیزہ کے، جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں، پانچ سالہ بھائی سے کہا کہ کوئی سی تین اُٹھا لو۔ پیر کی صبح پہلا پرچہ تھا۔ اتوار کی رات کو صبح چار بجے تک دس سوالوں پر مشتمل اپنا آؤٹ کیا ہوا پرچہ ہر اس طالب علم کے گھر پہنچایا جو گزشہ برسوں میں متواتر فیل ہوتا رہا تھا، یا جس میں انہیں آئندہ فیل ہونے کی ذرا بھی صلاحیت نظر آئی۔ اس کارِ خیر سے صبح ساڑھے تین بجے فارغ ہوئے۔ گھر آ کر ٹھنڈے پانی سے غسل کیا۔ باہر نکل کے صبح کے تارے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیر تلک دیکھا کیے۔ ایک ہندو پڑوسی سے جو کنویں کی منڈیر پر لٹیا سے اشنان کر رہا تھا اور ہر لٹیا کے بعد جتنی زیادہ سردی لگتی اتنے ہی زور سے “ ہری اوم، ہری اوم “ پکار رہا تھا، باہر سے تالا لگانے کو کہا، پھر اندر آ کے سو گئے۔ کس واسطے کہ دماغ کا تالا نہیں کھلا تھا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) وہ اپنے استاد اور مرشد ماسٹر فاخر حسین کے پند سود مند پر عمل کر رہے تھے۔ موصوف اکثر سعدی کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم تیتر، چکور، کبوتر اور چڑیوں کو مستقل مزاجی سے دانہ ڈالتے رہو گے تو ایک دن ہما بھی تمہارے جال میں پھنس جائے گا۔

خورش دہ بہ دراج و کبک و حمام
کہ یک روزت افتند ہمائے بدام​

مصیبت یہ تھی کہ ماسٹر فاخر حسین نے دانہ ڈالنا تو سکھایا، پکڑنا نہ سکھایا۔ ماسٹر فاخر حسین خود بھی ساری عمر دانہ ہی ڈالتے بلکہ اپنا سارا کھیت چڑیوں کا چگاتے رہے۔ ہما کے چکر میں کسی چڑیا کی دُم تک نہ پکڑ پائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
ملا عاصی کے کشف و کرامات

جتنی محنت اور ریاضت انہوں نے رفاہِ عام کی خاطر پرچے آؤٹ کرنے میں کی، اس کی ایک فیصد بھی اپنی پڑھائی میں کر لیتے تو فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو جاتے۔ بہرحال افسوس اس کا نہیں کہ انہوں نے ایسے لغو کام وقت کیوں ضائع کیا۔ رونا اس بات کا ہے کہ امتحان کے پہلے پرچے میں آٹھ میں سے پانچ سوال ایسے تھے جو ان کے آؤٹ‌ کیئے ہوئے الہامی پرچے میں موجود تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ممتحن نے ان کا پرچہ سامنے رکھ کر پرچہ سیٹ کیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ممتحن کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔ ملا عاصی نے تو یہاں تک کہا کہ اس پروفیسر کے وہ تھڑا ہی تڑوا دیا جس پر بیٹھے بیٹھے انہیں کشف ہوا تھا۔ ایک عرصے تک وہ جگہ مرجعِ گمرہانِ خاص رہی۔ واللہ اعلم۔

اب کیا تھا، سارے شہر میں ان کی دھوم مچ گئی۔ دوسرے دن ان کے گھر کے سامنے امتحان میں بیٹھنے والے طلبہ کے ٹھٹ لگ گئے۔ اس کے بعد امتحان میں چار دن کا ناغہ تھا۔ ان ایام میں نزدیک و دور کے کالجوں کے طلبہ نے - کوئی لاری میں، کوئی ٹرین سے، کائی پاپیادہ - جوق درجوق آ کر ان کے گھر کے سامنے پڑاؤ ڈال دیا۔ میلا سا لگ گیا۔ یو پی لے نالائق لڑکوں کا ایسا عظیم الشان اجتماع چشمِ فلک نے نہ کبھی اس سے پہلے، نہ اس کے بعد دیکھا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ پولیس نے کیس اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ مجمعے میں سی آئی ڈی کے آدمی والدوں کا بھیس بنائے پھر رہے ہیں۔ ملا عاصی کا بیان تھا کہ دو برقع پوش لڑکیاں بھی آئی تھیں۔ ان میں سے لمبی والی لڑکی کے بارے میں شکیل احمد نے جو کلاس میں سب سے چھوٹا اور خوبرو لڑکا تھا یہ شہادت دی کہ اس نے میرے کولہے میں چٹکی لی اور اس کی نقاب کے پیچھے مجھے تاؤ دی ہوئی مونچھ نظر آئی۔ واللہ اعلم ۔ حالانکہ ملا عاصی اب خود امتحان میں نہیں بیٹھ رہے تھے، لیکن اوروں کی خاطر دن رات ایک کر دیے۔ کہتے تھے اگر خود امتحان میں بیٹھ جاؤں تو سارا کشف باطل ہو جائے گا۔ طالب علموں میں یہ افواہ آگ کی طرح پھیل گئی کہ جب سے حجابات اٹھے ہیں، ملا عاصی دنیا سے کنارہ کش ہو کر صوفی ہو گئے ہیں اور پے در پے کرامات ظہور میں آ رہی ہیں۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس افواہ کی تردید نہیں کر سکتا۔ وہ کمرے میں تالا ڈلوا کر دن بھر چھٹی حِس کی مدد سے پرچہ بناتے۔ رات کو ٹھیک بارہ بجے اور پھر ڈھائی بجے اپنے ماموں سجاد احمد مرحوم، وکیل، کا بوسیدہ سیاہ گاؤن پہنے حجرہ عالیہ سے برآمد ہوتے اور پرچہ آؤٹ کرتے۔ تین دن تک یہی نقشہ رہا۔ تصؤف وصوف کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مجھے تو ان کے چہرے پر تپسیا کرنے والے سادھوؤں کی سی گمبیھر شانتی نظر آئی۔ آنکھیں ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں کھولتے تھے۔ گوشت، لہسن اور جھوٹ چھوڑ دیا۔ صبح تڑکے ایسے ٹھنڈے یخ پانی سے اشنان کرتے کہ بے اختیار چیخ کو روکنے کے لیے پورا زور لگانا پڑتا۔ عفتِ نگاہ کا یہ عالم کہ عورت تو کُجا، مرغی یا بکری بھی سامنے آ جائے تو برہمچاریوں کی طرح شرما کر نظریں نیچی کر لیتے۔ مخالف جنس سے اس قدر احتیاط اور پرہیز کہ اردو کے بعض ایسے الفاظ کو بھی مذکر بولنے لگے جو اندھے کو بھی نظر آتے ہیں کہ مؤنث ہیں۔ غرض کہ پرچے آؤٹ‌ کرنے کے لیے اپنی تمام روحانی طاقتیں اور تصرفات داؤ پر لگا دیئے۔

پہلے پرچے کو چھوڑ کر، باقی ماندہ پرچوں میں ان کا بتایا ہوا ایک بھی سوال نہیں آیا۔ وہ منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ ان کے حق میں بس یہی کہا جا سکتا تھا کہ انھوں نے بڑے خلوصِ نیت سے خلقِ خدا کو خوار کیا تھا۔ اس سال کانپور اور اس کے اردگرد پچاس ساٹھ میل کے حلقے میں جتنے بھی لڑکے فیل ہوئے، ان سب کا یہی موقف تھا کہ مُلا عاصی کے آؤٹ کیے ہوئے پرچوں کی وجہ سے لڑھکے ہیں۔ حد یہ کہ عادی فیل ہونے والے لڑکے جو ہر سال قسمت اور ممتحن کو گالیا دیا کرتے تھے، وہ بھی ملا عاصی کا جان کے لاگو ہو گئے۔ نوبت گالی گلوچ پر آنے لگی تو وہ چپکے سے اپنی ننہال امروہہ سٹک گئے۔ ایک لڑکے کے ماموں نے تو ملا عاصی کے ماموں کو سرِ بازار زدکوب بھی کیا۔ ایک ڈیڑھ مہینہ تک ان کے خاندان کا کوئی بزرگ گھر سے باہر نہی نکل سکا۔

تو جناب یہ تھے ہمارے ملا عاصی عبدالمنان۔ چند مخصوص eccentricities (سنک - مضحک عادات و اطوار) سے قطع نظر، جوانی ان کی بھی ویسی ہی گزری جیسی اس زمانے میں عام طالبعلموں کی گزرتی تھی۔ آپ نے اس دن مرزا عبدالودود بیگ کا ایک چراندا سا مقولہ سنایا تھا۔ کس کس بلا سے عبارت تھی جوانی اس زمانے میں؟

“سال بھر عیش، امتحان سے پہلے چلہ، مہاسے، مشاعروں میں ہوٹنگ، آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے، رینالڈ اور مولوی عبدالحلیم شرر کے اسلامی ناول، سونے سے پہلے آدھ سیر اونٹتا دودھ، بلا ناغہ ڈنٹر بیٹھک اور استمنا بالید، جمعے کے جمعے غسل، شب گپ، ریلوے اسٹیشن پر لیڈیز کمپارٹمنٹ کے سامنے solo goose-step، انگریز کے خلاف نعرے اور اسی کی نوکری کی تمنا۔“

ملا عاصی نے ساری زندگی تجرد میں گزار دی۔ سہرا بندھا نہ شہنائی بجی۔ نہ چھوہارے بٹے۔ خود ہی چھوہارا ہو گئے۔ میں نے بہت کریدا۔ پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے تھے۔ گھڑے گھڑائے بقراطی جملے لڑھکانے لگے جو ان اپنے نہیں معلوم ہوتے تھے۔ “ بس تمام عمر ایسی افراتفریح رہی کہ تزویج اور متاہلانہ آسودگی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملی۔ (جی ہاں، شادی کے لیے ملا عاصی اب یہی لذیذ اصتلاحیں استعمال کرتے ہیں۔ آدھی لذت تو فقط ان کے تلفظ میں ہی مل جاتی ہے)۔ مجھے تو عورتوں کے بغیر زندگی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ ان کی حق تلفی ہوئی ہو تو مجھے علم نہیں۔ اللہ معاف کرئے۔“ وغیرہ وغیرہ۔ اب بھی اسی کمرے میں رہتے ہیں جس میں انکی ولادت ہوئی تھی۔ میرا تو سوچ سوچ کے ہین دم گھٹنے لگا کہ کوئی شخص اپنی ساری زندگی ستر پچھتر برس ایک ہی محلے، ایک ہی مکان اور ایک ہی کمرے میں کیسے گزار سکتا ہے۔ کراچی میں تو اتنے سال آدمی قبر میں بھی نہیں رہ سکتا۔ جہاں گورکنوں نے دیکھا کہ اب کے شبِ برات اور عید بقر عید پر بھی کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آیا، وہیں ہڈیاں اور پنجر نکال کے پھینک دیئے اور تازہ مردے کے لیے جگہ نکال لی۔ جب صور پھونکا جائے گا تو ایک ایک قبر سے ایک سو ایک مردے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ایک سو ایکواں مردہ متعلقہ گورکن ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مردِ کہن کا چارہ

صاحب، ویسے تو دنیا میں ایک سے ایک crackpot (سنکی) پڑا ہے، لیکن ملا عاصی کا “ تُو چیزے دیگری “ والا معاملہ ہے۔ ان کے ایک واقف کار کا بیان ہے آخری واٹرلو کے بعد کھسک گئے ہیں۔ فرقہ ملامتیہ سے تعلق ہے۔ نماز اس طرح پڑھتے ہیں جیسے بعض مسلمان شراب پیتے ہیں۔ یعنی چوری چھپے۔ یہ وہی فرقہ ہے جس سے حضرت مادھو لال حسین کا تعلق بتایا جاتا ہے۔ ایک صاحب بولے کہ “ مرتد ہوئے مدت ہوئی “ اس پر دوسرے صاحب بولے کہ “ مسلمان تھے کب جو مرتد ہوتے؟“ حیدر مہدی نے بتایا کہ ایک دن میں نے پوچھا “ ملا یہ کیا سچ ہے کہ تم بدھسٹ ہو گئے ہو؟“ کہنے لگے “ جب میں نے پچاسویں سال میں قدم رکھا تو خیال آیا زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ کیوں نہ اپنے عقاید کی اصلاح کر لوں۔ سانگ باقی بہت ہیں، شب کم ہے۔“ ایک دن بہت اچھے موڈ میں تھے۔ میں نے گھیرا۔ پوچھا کہ “ مولانا بدھ ازم میں تمہیں اس کے علاوہ اور کون سے خوبی نظر آئی کہ مہاتما بدھ اپنی بیوی یشودھرا کو سوتا چھوڑ کر راتوں رات سٹک گئے؟“ مسکرائے۔ کہنے لگے “ میری یشودھرا تو میں خود ہوں۔ وہ بھاگ بھری تو اب اگلے جنم میں جائے گی۔“

ایک محرم راز نے تو یہاں تک کہا کہ مُلا عاصی نے وصیت کر رکھی ہے کہ میری لاش تبت لے جائی جائے۔ حالانکہ بچارے تبت والوں نے ان کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ پروفیسر بلگرامی جو ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب پڑھاتے ہیں اس اتہام کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مُلا عاصی نے وصیت لکھی ہے کہ ان کی غیر مغسول لاش کو سپردِ آتش کر دیا جائے۔ اور وہ تھہ “ لیڈی چیڑ لیز لوور “ کے مصنف ڈی ایچ لارنس کی طرح۔ اس کی بیوہ کو ڈر تھا کہ لارنس کی خاک کے چھوٹے سے “ ارن “ (صراحی نما ظرف) کو اس کے عقیدت مند اور فین چرا کر لے جائیں گے۔ لہذا اس نے شوہر کی راکھ کو سیمنٹ میں ملوا کر بہت بھاری سل بنوا لی تھی جسے لوگ چوم کر چھوڑ دیتے تھے۔ غرض کہ جتنے منہ اتنے بہتان۔ لیکن اتنا تو میں نے بھی دیکھا کہ کونے میں انکی والدہ کی نماز کی چوکی پر جانماز الٹی بچھی تھی۔ یعنی محراب کیا رخ قبلے کی بجائے پورب کی طرف تھا۔ سنا ہے اس پر آسن مار کے دھیان اور تپسیا کرتے ہیں۔ ایک تُونبی بھی پڑی دیکھی جس کے بارے میں ایک دوست نے کہا کہ انھوں نے کبھی سنجیدگی سے کوئی ہول ٹائم (کل وقتی) پیشہ اختیار کیا تو اسی تُونبی میں گھر گھر بھیک مانگیں گے۔ میز پر زین بدھ ازم پر پانچ چھ کتابیں پڑی تھیں۔ میں نے یوں ہی ورق گردانی کی۔ اللہ جانے انہیں کس سے انڈر لائن کرایا ہے۔ کمرے میں صرف ایک ڈیکوریشن پیس ہے۔ یہ ایک انسانی کھوپڑی ہے، جس کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ گوتم بدھ کی ہے - نروان سے پیشتر کی۔

سلیقے سے طے کی ہوئی ایک گیروا چادر پر گز بھر لمبا چمٹا رکھا تھا۔ مجھے تو بجانے والا اپنے عالم لوہار وال چمٹا لگا۔ اس پر کسی دل جلے نے پھبتی کسی کہ مُلا عاصی جب کوہ طور پر اپنی سٹک (1) کی چلم کے لیے آگ لینے جائیں گے تو اسی چمٹے سے ٹین کمانڈ مینٹس (احکام عشر) پکڑے پکڑے پیر پٹختے لوٹیں گے۔ پاس ہی لکڑی کی سادھوؤں والی کھڑاویں پڑی تھیں۔ وہی جن کے پنجے پر شطرنج کا اونٹ بنا ہوتا ہے۔ نماز کی چوکی پر ایک مٹی کا پیالہ، اِکتارہ، باسی تُلسی اور بدھ کی مورتی رکھی تھی۔ مختصر یہ کہ کمرے میں بدھ ازم کے (( DIY (Do it yourself) آلات گرد میں اٹے جابجا پڑے تھے۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے ان کا مقصد محض نمائش ہے۔ گویا دوسروں کا منہ چڑانے کے لیے اپنی ناک کاٹ لی۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) سٹک : لغت میں سٹک کے معانی چھوٹا پیچوان یا چھریرے بدن کی عورت کے ہیں، اور پیچوان کا معنی : ایک قسم کا حقہ جس کی نے لچک دار اور بہت لمبی ہوتی ہے۔ دونوں معنوں کو ملا کر پڑھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگلے وقتوں کے بزرگ، عورت میں بھی حقے کے اوصاف کے متلاشی رہتے تھے۔ اور بعد تقابل و تلاشِ بیسار حقے اور تصوف ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ کہ یہی ہے اُمتوں کے مردِ کہن کا چارہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
آگ تکفیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ انہوں نے یہ سارا آدمبر اور ڈھونگ صرف مسلمانوں کو چڑانے کے لیے رچا رکھا ہے۔ لیکن یہ درست معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ، اپ جانتے ہیں، مسلمانوں نے کسی کے ہندو، عیسائی یا بدھ مت کا پیرو ہونے پر کبھی تعرض نہیں کیا۔ البتہ اپنی فقہ اور فرقے سے باہر ہر دوسرے مسلم فرقے کا سر پھاڑنے اور کفر کا فتوی لگانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
کُھل جا سم سم

آپ ذرا گیس کیجیئے وہ کیا کرتے ہیں۔ میں آپ کو دو منٹ دیتا ہوں۔ (آدھے منٹ بعد ہی) جناب وہ ٹیوشن کرتے ہیں۔ غیریب لڑکوں کو میٹرک کی تیاری کرواتے ہیں۔ رات کو بارہ ایک بجے لوٹتے ہیں۔ پانچ چھ میل پیدل چل کر جانا تو کوئی بات ہی نہیں۔ کہتے ہیں “ سواری سے نفس موٹا ہوتا ہے، سوائے گدھے کی سواری کے۔ اسی لیے بنی اسرائیل کے پیغمبروں نے گدھے کی سواری کی ہے۔“ مگر سنا ہے پڑھانے کا پیسا ایک نہیں لیتے۔ کہتے ہیں “ مشرق کی ہزاروں سال پرانی ریت ہے کہ پانی، نصیحت اور تعلیم کا پیسا نہیں لیا جاتا۔ پیسہ لے لو تہ یہ انگ نہیں لگتے (انگ لگنا : غذا کا جزوِ بدن ہونا)۔ اور انجام کار پیسہ بھی نہیں پچتا۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ معاوضہ دے کر حاصل کیئے ہوئے علم سے کوئی روحانی تبدیلی آئی ہو۔ سچی تبدیلی صرف کسی کی نظر سے آتی ہے۔ اور نظر کا کوئی مول نہیں۔“ اللہ جانے گزر بسر کیسے ہوتی ہے۔ دستِ غیب تو ہو نہیں سکتا۔ اس لیے کہ بدھسٹ خدا اور اس کی رزاقی کے قائل نہیں۔ بھیک کو ترجیح دیتے ہیں۔ فلسفے کا ایک پورا قلعہ کھڑا کر لیا ہے ملا عاصی نے۔ ہم جیسوں کے پلے تو خاک نہیں پڑتا۔ اب اسے جنوں کہیے، جھک کہیے، بس ہے تو ہے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ پڑھائی کے نام سے بھاگنے والا لڑکا، پڑھانے میں اپنا نروان تلاش کرئے گا۔ یاد نہیں، آپ کا قول ہے یا میرا، کہ اپنے ہاں جو لڑکے پڑھائی میں پھسڈی ہوتے ہیں وہ فوج میں چلے جاتے ہیں۔ اور جو فوج کے لیے medically unfit ہوتے ہیں وہ کالجوں میں‌ پروفیسر بن جاتے ہیں۔ صاحب، قدرت جس سے جو چاہے کام لے۔ آپ بھی تو ایک زمانے میں لیکچرر بننے کی تمنا رکھتے تھے۔ خدا نے آپ پر بڑا کرم کیا کہ دلی مراد پوری نہ ہونے دی۔ ویسے آپ کو معلوم ہی ہے، میں نے بھی کئی برس ٹیچری کی ہے، دل کی بات پوچھیئے تو حاصلِ زندگی بس وہی زمانہ تھا۔ یاد آتا ہے :

واں سے نکل کے پھر نہ فراغت ہوئی نصیب
آسودگی کی جان تیری انجمن میں تھی​

لیکن ایک بات ہے، سبھی کہتے ہیں کہ پڑھاتے بہت اچھا ہیں۔ اچھا معلم ہونے کے لیے عالم ہونے کی شرط نہیں۔ کچھ عرصے گورنمنٹ سکول میں بھی پڑھایا۔ لیکن جب محکمہ تعلیمات نے یہ پخ نکالی کہ تین سال کے اندر بی ٹی پاس کرو، ورنہ تنزلی کر دی جائے گی، تو یہ کہہ کہ استغفٰی دے دیا کہ “ میں بے صبر آدمی ہوں۔ تین سال اس واقعے کے انتظار میں نہیں گزار سکتا۔ میں نے ہمیشہ بی ٹی پاس ٹیچروں سے پڑھا اور ہمیشہ فیل ہوا۔“ اس کے بعد کہیں نوکری نہیں‌کی۔ البتہ نابیناؤں کے سکول میں مفت پڑھانے جاتے ہیں۔ لہجے میں مٹھاس، ملائمت اور دھیرج بلا کا ہے۔ ہمیشہ سے تھا۔ الفاظ سے بات سمجھ میں آتی ہے۔ لہجے سے دل میں اتر جاتی ہے۔ جادو الفاظ میں نہیں، لہجے میں ہوتا ہے۔ الف لیلوی خزانوں کا دروازہ ہر ایرے غیرے کے “ کھل جا سم سم “ کہنے سے نہیں کھلتا۔ وہ الہ دین کا لہجہ مانگتا ہے۔ دلوں کے قفل کی کلید بھی لفظ نہیں، لہجے میں ہوتی ہے۔ اپنی بات دہرانی پڑے یا دوسرا الجھنے لگے تو ان کا لہجہ اور بھی ریشم ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے فالودہ گلے سے اتر رہا ہے۔ ہر اچھے استاد کے اندر ایک بچہ بیٹھا ہوتا ہے جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور سر ہلا ہلا کر بتاتا جاتا ہے کہ بات سمجھ میں آئی کہ نہیں۔ اچھے استاد کا پڑھانا بس اس بچے سے ایک مکالمہ ہے جو عمر بھر چلتا رہتا ہے۔ انہوں نے اس بچے کو بچہ ہی رہنے دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ کمرہ بات کرتا تھا

وہ کمرہ بات کرتا تھا
حجرہ جہاں نما

ملا عاصی سے اسی کمرے میں گھمسان ملاقاتیں رہیں جہاں پینتیس برس پہلے انہیں خدا حافظ کہہ کر پاکستان آیا تھا۔ اس زمانے میں سبھی پاکستان کھنچے چلے آ رہے تھے۔ زمین جائداد، پھرے بتولے گھر، لگے لگائے روزگار اور اپنے یاروں پیاروں کو چھوڑ کر۔ اسی کمرے میں مجھے گلے لگا کے رخصت کرتے ہوئے کہنے لگے “ جاؤ، سدھارو، میری جان، تمھیں کوہِ ندا کے سپرد کیا۔“ آج بھی انہیں اتنا ہی تعجب ہوتا ہے کہ بھلا کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس کانپور کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ کمرے میں وہی پنکھا، اسی ڈگمگ ڈگمگ کڑے میں لٹکا، اسی طرح چرغ چوں کرتا رہتا ہے۔ مجھے تو جب بات کرنی ہوتی تو پنکھا آف کر دیتا تھا۔ پنکھا چلتے ہی آندھی آ جاتی ہے اور کتابوں، دیواروں اور دری پر جمی ہوئی گرد کمرے میں اُڑنے لگتی ہے۔ جس سے مچھروں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ وہ پنکھا گرمی سے نہیں مچھروں سے بچنے کے لیے چلاتے ہیں۔ مگر کم، بہت ہی کم، اس لیے نہیں کہ بجلی کی بچت ہوتی ہے، بلکہ چلانے سے پیکھا گھستا ہے۔ اس کی لائف کم ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ چالیس پینتالیس برس کو تو ہو گا۔ ان حسابوں سو تک گھسیٹ لے جائیں گے۔ بعض سادھوؤں اور جوگیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر انسان کے مقدر میں بھگوان نے گنتی کے سانس لکھے ہیں۔ چنانچہ بیشتر وقت سانس روکے بیٹھے رہتے ہیں تا کہ زندگی، بقدرِ حبسِ دم، لمبی ہو جائے۔ طوعاً و کرعاً گنڈے دار سانس فقط اس لیے لے لیتے ہیں کہ اسے روک سکیں۔ بس پنکھے کی عمر بھی اسی طرح دراز کی جا رہی ہے۔

کمرے کا نقشہ وہی ہے جو سن 47ء میں تھا۔ البتہ دیواروں پر چیکٹ چڑھ گیا ہے۔ صرف وہ حصے صاف نظر آئے جس کا پلاسٹر حال میں جھڑا ہے۔ بائیں دیوار پر پلنگ سے دو فٹ اوپر، جہاں پینتالیس سال پہلے میں نے پنسل سے پکنک کا حساب لکھا تھا، اس کی اوپر کی چار لائنیں ابھی تک جوں کی توں ہیں۔ صاحب، روپے میں 192 پائی ہوتی تھیں اور ایک پائی آج کل کے روپے کے برابر تھی۔ حیرت اس پر ہوئی کہ دیوار پر بھی حساب کرنے سے پہلے میں نے 786 لکھا تھا۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، اس زمانے میں مسلمان لڑکے حساب میں فیل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتے تھے۔ حساب کتاب، بنج بیوپار اور ہر وہ کام جس میں منافے کا ذرا بھی امکان ہو، بنیوں، بقالوں اور یہودیوں کا کسب تصور کیا جاتا تھا۔ مگر مجھے چکرورتی ارتھمیٹک ازبر تھی۔ پونا، سوایا اور ڈھائی کا پہاڑا مجھے اب تک یاد ہے۔ ان کا فائدہ وائدہ تو سمجھ خاک نہیں آیا۔ دراصل یہ لڑکوں کا پتا مارنے بلکہ خود انہیں پتے سمیت مارنے کا ایک بہانہ تھا۔ مسلمان پر یاد آیا کہ یہ جو پنج وقتہ ٹکریں مارنے کا گٹا آپ دیکھ رہے ہیں، یہ الحمدللہ پچیس چھبیس برس کی عمر میں ہی پڑ چکا تھا۔ میاں تجمل کی صحبت اور نیاز فتح پوری کی تحریریں بھی نماز نہ چھڑوا سکیں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا، دو تہائی بال اسی عمر میں سفید ہو گئے تھے۔ خیر تو یہ کہہ رہا تھا کہ شیشم کی میز کے اوپر والی دیوار پر میٹرک کی فیئر ویل (الوداعی) پارٹیوں کے گروپ فوٹو لگے ہیں۔ متواتر پانچ سالوں کے۔ خدا خدا کر کے پانچویں سال ان کا بیڑا اس وقت پار لگا۔ جب ان کا ایک کلاس فیلو بی اے کر کے انہیں انگریزی پڑھانے لگا۔ پانچوں میں وہ ہیڈ ماسٹر کے پیچھے کرسی کی پشت مضبوطی سے پکڑے کھڑے ہیں۔ مشہور تھا کہ وہ اس وجہ سے پاس نہیں ہونا چاہتے کہ پاس ہو گئے تو مانیٹری ختم ہو جائے گی۔ کالج میں مانیٹر کا کیا کام۔ ایک فوٹو سیپیا رنگ کا ہے۔ میں تو اس میں اپنا حلیہ دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ یا اللہ - ایسے ہوتے تھے ہم نوجوانی میں، کیسے اداس ہوتے تھے لڑکے اس دن۔ تادمِ مرگ دوستی نبھانے، دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے اور ایک دوسرے کو تمام عمر ہر تیسرے دن خط لکھنے کے کیسے کیسے عہد و پیمان ہوتے تھے۔ میز پر ابھی تک وہی سبز بانات منڈھی ہوئی ہے۔ روشنائی کے دھبوں سے 10/9 نیلی ہو گئی ہے۔ بے اختیار جی چاہا کہ بقیہ 10/1 پر بھی دوات انڈیل دوں تاکہ یہ برص کسی طرح ختم تو ہو۔ چپراسیوں کی وردیاں بھی اسی بانات سے بنتی تھیں۔ سردی کڑاکے کی پڑنے لگتی تو کبھی کبھی سکول کا چپڑاسی بشیر ڈانٹ کے ہمیں گھر واپس بھیج دیتا کہ میاں، کوٹ لنگوٹ سے کام نہیں چلے گا۔ کمری، مرزئی (روئی کی واسکٹ) ڈاٹ کے آؤ۔ مگر خود گھر سے ایک پتلی سی مرزئی پہن کر آتا جو اتنی پرانی ہو گئی تھی کہ لوزاتی “ پیٹرن “ کے ڈوروں کے ہر خانے میں روئی کا علیحدہ گومڑہ بن گیا تھا۔ لیکن یونی فارم کی اچکن گھر پہن کر نہیں جاتا تھا۔ میں نے اس پر کبھی کوئی سلوٹ یا داغ نہیں دیکھا۔ چھٹی کا گھنٹہ اس طرح بجاتا کہ گھڑیال کھلکھلا اٹھتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بڑے کاز، چھوٹے آدمی

بڑے کاز، چھوٹے آدمی

مچھلی بازار کی مسجد شہید ہونے پر مولانا شبلی کی “ ہم کشتگانِ معرکہ کانپور ہیں “ معرکتہ آلارا نظم ابھی تک اسی کیل پر معلق ہے جو ٹھونکنے میں دہری ہو گئی تھی۔ صاحب، جس شخص نے کیل ٹھونکتے وقت ہتھوڑا کیل کی بجائے اپنے انگوٹھے پر کبھی بھی نہیں مارا، مجھے تو اس کی ولدیت میں شبہ ہے۔ ایسے چوکس چالاک آدمی سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ اس مسجد کے بارے میں خواجہ حسن نظامی نے لکھا تھا کہ “ یہ وہ مسجد ہے جس کے سامنے ہمارے بزرگوں کی لاشیں تڑپ تڑپ کر گریں اور ان کی سفید داڑھیاں خون سے لال ہو گئیں۔“

نظم کے فریم کا شیشہ بیچ میں سے ایسا تڑخا ہے کہ مکڑی کا جالا سا بن گیا ہے۔ میں نے کوئی پچاس برس بعد یہ پوری نظم اور “ بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو “ والی نظم پڑھی۔ کیا عرض کروں۔ دل پہ وہ اثر نہ ہوا۔ اس زمانے اور دورِ ماقبل کے بعض کاز مثلاً ریشمی رومال والی تحریک، خلافت، جنگِ بلقان (لطف مرنے کا اگر چاہے تو چل، بلقان چل)، تعلیمِ نسواں اور سائنسی تعلیم کی شدید مخالفت جس میں اکبر الہ آبادی پیش پیش تھے، شاردا ایکٹ ( صغر سنی کی شادی پر پابندی کا قانون) کے خلاف مسلمانوں کا، بشمول مولانا محمد علی جوہر ایجی ٹیشن - یہ اور بہت سے ایسے کاز جن کی خاطر کبھی جان کی بازی لگا دینے کو جی چاہتا تھا، اب کچھ عجیب سے لگتے ہیں۔ خلافت موومنٹ ہی کو لیجیئے۔ اس کی حمایت تو گاندھی جی نے بھی کی۔ اس سے زیادہ جوشیلی، ملک گیر، منظم، الٹی اور لاحاصل تحریک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر وہ لوگ بڑے تھے۔ آج کل کاز تو بہت معقول اور بڑے ہیں، پر آدمی بہت چھوٹے ہو گئے ۔ نشور ہی نے سودا کا شعر سنایا جو دو سو سال گزرنے کے بعد بھی بالکل آج کا شعر معلوم ہوتا ہے :

اثر سے ہیں تہی نالے، تصرف سے ہیں دم خالی
نیستاں ہو گئے شیروں سے یارب یک قلم خالی​

وہ بھی عجیب جذباتی دور تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بدری نرائن نے ایک دفعہ محمود غزنوی کو لٹیرا ملڑ (ملا) کہہ دیا تو جواب میں عبدالمقیت خاں نے شیوا جی کو Mountain Rat کہا۔ اس پر بات بڑھی اور بدری نرائن نے نام لے لے کے مغل بادشاہوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اورنگ زیب کی بیٹی شہزادی زیب النسا مخفی پر تو بہت ہی گندہ بہتان لگایا۔ جواباً عبدالمقیت خاں نے پرتھوی راج چوہان، مہارانا پرتاب اور مرزا راجا سوائی مان سنگھ کو تُوم کے رکھ دیا۔ لیکن جب مہاراجا رنجیت سنگھ پر ہاتھ ڈالا تو بدری نرائن تلملا اٹھا حالانکہ وہ سکھ نہیں تھا۔ گوڑ برہمن تھا۔ دونوں وہیں گتھم گتھا ہو گئے۔ مقیت خاں کا انگوٹھا اور بدری نرائن کی ناک کا بانسا ٹوٹ گیا۔ دونوں ایک ہی لونڈے پر عاشق تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چڑیا کی دسراہٹ

چڑیا کی دسراہٹ

دیواروں پر وہی طغرے، وہی سبق آموز وصلیاں اور چارپائی بھی وہی جس کے سرہانے والے پائے پر عبدالمقیت خاں نے چاقو سے اس لونڈے کا نام کھودا تھا۔ اور اسی سے انگلی میں شگاف لگا کر خون حروف میں بھرا تھا۔ آپ بھی دل میں کہتے ہوں گے کہ عجیب آدمی ہے۔ اس کی کہانی سے خدا خدا کر کے طوائف رخصت ہوئی تو لونڈا درانہ چلا آتا ہے۔ صاحب کیا کروں۔ ان گنہ گار آنکھوں نے جو کچھ دیکھا وہی تو بیان کروں گا۔ آپ میر کی کلیات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری پڑھیے، مصحفی کے دیوان دیکھیے۔ آپ کو جابجا اس کر طرف علانیہ اشارے ملیں گے۔ صاحب، عورت کے بارے میں بات کرنے کا ہیاؤ تو کوئی بی اے میں آ کے پڑتا تھا۔ اب اس لونڈے کا نام کیا بتاؤں۔ کانگرس کے ٹکٹ پر منسٹر ہو گیا تھا۔ کرپشن میں نکالا گیا۔ ایک ڈپٹی سیکریٹری کی بیوی سے شادی کر لی تھی۔ ڈسمس ہونے کے تین مہینے بعد ایک سکھ بزنس مین کے ساتھ بھاگ گئی۔ اس زمانے کی جنسی محرومی اور گھور گھٹن کا آپ بالکل اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اس لیے کہ آپ اس وقت تک بالغ نہیں ہوئے تھے۔ مجاز نے جھوٹ نہیں کہا تھا :

موت بھی اس لیے گوارا ہے
موت آتا نہیں ہے، آتی ہے

صاحب، یقین جانیئے، عالم یہ تھا اس زمانے میں کہ عورت کا ایکس رے بھی دکھا دیا جاتا تو لڑکے اسی پر دل و جان سے عاشق ہو جاتے۔

روشندان میں اب شیشے کی جگہ گتا لگا ہوا ہے۔ اس کے سوراخ میں ایک چڑیا بڑے مزے سے آ جا رہی تھی۔ نیچے جھری میں گھونسلا بنا رکھا ہے۔ اس کے بچے چوں چوں کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن ملا عاصی کہنے لگے کہ بچے جب بڑے ہو کر گھونسلا چھوڑ دیں گے تو ہمارا گھر سنسان ہو جائے گا۔ دھول سے دری کی لائنیں مٹ گئی ہیں۔ میاں تجمل حسین کے سگریٹ سے چالیس پینتالیس برس پہلے سوراخ ہو گیا تھا۔ وہ اب بڑھ کے اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ اس میں سے تربوز نکل جائے۔ سوراخ کے حاشیے پر دری کے پھونسڑوں کی جھالر سی بن گئی ہے۔ اس کے وسط میں وہی ریلوے ویٹنگ روم اور ڈاک بنگلوں والا کتھئی رنگ کا سیمنٹ کا فرش کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ میاں تجمل حسین کی عمر اس وقت کچھ نہیں تو تیس برس تو ہو گی۔ تین بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ مگر بڑے حاجی صاحب (ان کے والد) کا ایسا رعب تھا کہ سگرٹ کی طلب ہوتی تو کسی دوست کے ہاں جا کر پی آتے تھے۔ حاجی صاحب سگرٹ پینے کا شمار آوارگی میں کرتے تھے۔ خود حقہ پیتے تھے۔ بائیسکوپ کا شمار بدمعاشی میں کرتے۔ چنانچہ میاں تجمل کو تنہا سنیما دیکھنے نہیں جانے دیتے تھے۔ خود ساتھ جاتے تھے۔

دیکھیے، میرے “ چنانچہ “ پر آپ پھر مسکرا رہے ہیں۔ صاحب لکھنؤ اور کانپور والے اگرچہ اور چنانچہ کثرت سے بولتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں لٰہذا بہت گاڑھا لگتا ہے۔ ارے صاحب، میں نے تو اس زمانے میں عام آدمیوں کو لٰہذا، ہر چند، از بسکہ اور درآنحالیکہ تک کثرت سے بولتے سنا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چھپکلی کی کٹی ہوئی دُم

چھپکلی کی کٹی ہوئی دُم

چھت نہایت بوسیدہ، شہتیر دیمک زدہ، پنکھے کا کڑہ گھستے گھستے چوڑی برابر رہ گیا ہے۔ میں نجومی تو ہوں نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان تینوں میں سے پہلے کون گرے گا۔ ملاقاتی کو عین پنکھے کے نیچے بٹھاتے ہیں۔ اس غریب کی نگاہ سارے وقت پنکھے پر ہی جمی رہتی ہے۔ ایئر گن سے میں نے چھت پر جہاں چھپکلی ماری تھی، وہاں چھرے کا نشان جوں کا توں موجود ہے۔ اور ہاں، چھپکلی پر یاد آیا، آپ کے اس دوست کو جس کا خط ہاسٹل کے لڑکوں نے چُرا کر پڑھ لیا تھا۔ اس کی بیوی نے کیا لکھا تھا؟ ہندی میں تھا شاید -

“ جگت نرائن سری واستو نام تھا، نئی نئی شادی ہوئی تھی، لکھا تھا رام کسم، تمھارے بنا راتوں کو ایسے تڑپتی ہوں جیسے چھپکلی کی کٹی ہوئی دُم۔“

واہ، اس تشبیہ کے آگے تو “ ماہی بے آب “ پانی بھرتی ہے۔ مگر آپ اسے ناسٹل جیا زدہ لوگوں کے لیے سمبل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یہ زیادتی ہے۔ یہ تو میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ملا عاصی کا ذریعہ معاش کچھ نہیں ہے۔ نہ کبھی تھا۔ مگر کبھی خالی بھی نہیں رہے۔ بےروزگار ہمیشہ رہے۔ لیکن بیکار کبھی نہیں۔ غالباً سن 51-50ء کی بات ہے۔ ان کی والدہ حصولِ ملازمت اور بدھ ازم سے چھٹکارے کی منت دوسری دفعہ مانگنے اجمیر شریف گئیں۔ وہاں کسی نے کہا کہ اماں تم حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دو۔ وہاں خود خواجہ اجمیری نے چلہ کھینچا تھا۔ سو وہ چھ مہینے بعد منت مانگنے لاہور چلی گئیں۔ مزار پر چڑھانے کے لیے جو کامدار ریشمی چادر وہ ساتھ لے گئی تھیں۔ اس میں نہ جانے کیسے سرِ شام آگ لگ گئی۔ لوگوں نے کہا جلالی وظیفہ الٹا پڑ گیا ہے۔ درِ اجابت وا نہ ہو تو نذر قبول نہیں ہوتی۔ وہ رات انہوں نے روتے گزاری۔ صبح فجر ادا کرتے ہوئے سجدے کی حالت میں وہ مجیب الدعوات سے جا ملیں۔ دمے اور قلب کا مزمن عارضہ تھا۔ لاہور ہی میں میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہوئیں۔

والدہ کے انتقال کے بعد ان کے گھر میں چولہا نہیں جلا۔ انہوں نے مکان کا بقیہ حصہ کرائے پر اُٹھا دیا۔ کرایہ دار نے پندرہ سال سے وہ بھی دینا بند کر دیا۔ سنا ہے اب اُلٹا انکو کمرے سے بے دخل کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے والا ہے۔ عمر کبھی بہتر، کبھی پچھتر سال بتاتے ہیں۔ اور سال کے بعد وضاحتاً “ شمسی “ کا اضافہ کرتے ہیں تا کہ تسامح نہ ہو۔ شمسی پر یاد آیا کہ چھٹی جماعت میں میں نے بھر کلاس میں قمری سال کو قُمری سال اور لٹریچر کو لڑی چر، پڑھا تو ماسٹر فاخر حسین نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور اس دن کے بعد سے مجھے بشارت لڑی چر کہنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چپراسی کا سُنہری دورِ ماتحتی

چپراسی کا سُنہری دورِ ماتحتی

بشیر چپراسی سے بھی ملنے گیا۔ بالکل بوڑھا پھونس ہو گیا ہے۔ مگر کمر بندوق کی نال کی طرح سیدھی۔ ذرا جوش میں آ جائے تو آواز وہی کڑکا۔ کہنے لگا میاں بے غیرت ہوں۔ اب تو اس لیے زندہ ہوں کہ اپنے چھوٹوں کو، اپنی گود کے کھلائے ہوؤں کو کندھا دوں۔ ہمارا بھی ایک زمانہ تھا۔ اب تو پسینہ اور خواب آنے بھی بند ہو گئے۔ چحٹے چھماہے کبھی خواب میں خود کو گھنٹا بجاتے دیکھ لیتا ہوں تو طبیعت دن بھر چونچال رہتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے ابھی ہاتھ پیر چلتے ہیں۔ ماسٹر سمیع الحق مجھ سے عمر میں پورے بارہ برس چھوٹے ہیں۔ تس پر یہ حال کہ حافظہ بالکل خراب۔ ہاظمہ اس سے زیادہ خراب۔ لوٹا ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور یہ یاد نہیں کہ بیت الخلا جا رہے ہیں یا ہو کر آ رہے ہیں۔ اگر آ رہے ہیں تو پیٹ میں گڑگڑاہٹ کیوں ہو رہی ہے؟ اور جا رہے ہیں تو لوٹا خالی کیوں ہے؟ مجھے ہر لڑکے کا حلیہ اور حرکتیں یاد ہیں۔ میاں، آپ کا شمار صورت داروں میں ہوتا تھا۔ حالانکہ سر منڈواتے تھے۔ ملا عاصی عورتوں کی طرح بیچ کی مانگ نکالتا تھا۔ آپ کا دوست عاصم گلے میں چاندی کا تعویذ پہنتا تھا۔ جس دن اسکا میٹرک کا پہلا پرچہ تھا۔ اسی دن اس کے والد کا انتقال ہوا۔ جب تک وہ پرچہ کرتا رہا، میں کونے میں کھڑا الحمد اور آیۃ الکرسی پڑھتا رہا۔ دو دفعہ آدھا آدھا گلاس دودھ پلایا اور جس سال کوئٹہ میں بھونچال آیا اسی سال آپ کے دوست غضنفر نے انجن کے سامنے آ کر خودکشی کی تھی۔ آپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ پر میرے تو سینکڑوں بیٹے ہیں۔ کون بھڑوا کہتا ہے کہ بشیر لاولد ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شرافت سے گالی دینے والے

پھر کہنے لگا، یہ بھی مولا کا کرم ہے کہ صحیح وقت پر ریٹائر ہو گیا، نہیں تو کیسی خواری ہوتی۔ اللہ کا شکر ہے چاق و چوبند ہوں۔ بڑھاپے میں بیماری عذاب ہے۔ پر ضرورت سے زیادہ تندرستی اس سے بھی بڑا عذاب ہے۔ فالتو تندرستی کو آدمی کائے پہ خرچ کرے؟ میاں، ہٹا کٹا بڈھا گھر کا نہ کھاٹ کا، اسے تو گھاٹ کی ہیرا پھیری میں ہی مزہ آوے ہے۔ چنانچہ پچھلے سال ٹلکتا ہوا اسکول جا نکلا۔ دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ چپراسی صاحبان بغیر چپراس، بغیر اچکن، بغیر ٹوپی پگڑی کے کدکڑے مارتے پھر رہے تھے۔ میاں، میں تو آج تک بیت الخلا بھی بغیر ٹوپی کے نہیں گیا۔ اور نہ کبھی بغیر لنگوٹ کے نہایا۔ ایک دن حمید الدین چپراسی نے اپنی اچکن رفوگر کو رفو کرنے کے لیے دی اور فقط کرتا پہنے ڈیوٹی سرانجام دینے لگا تو ہیڈ ماسٹر صاحب بولے کہ آج تم بچوں کے سامنے کائے کو شمشیر برہنہ پھر رئے ہو؟ ہمارے وختوں میں چپراسی کا بڑا رعب ہوا کرتا تھا۔ ہیڈ ماس صاب سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے۔ میاں، آپ تو شاہد ہیں، مجھے آج تک کسی ٹیچر نے بشیر یا تم کہہ کر نہیں پکارا۔ اور میں نے کسی برخوردار کو تم نہیں کہا۔ ایک بدزبان ہیڈ کانس ٹیبل نے مجھے ایک دفعہ بھرے بازار میں “ ابے پرے ہٹ “ کہہ دیا۔ میں اس ٹیم اپنی سرکاری یونی فارم میں ملبوس تھا۔ میں نے اسے دونوں کان پکڑ کے ہوا میں ادھر اٹھا لیا۔ ڈھائی من کی راس تھی۔ میں نے زندگی میں بڑے سے بڑے تیس مار خان کا گھڑیال بجا دیا۔ آج کل کے چپراسی تو شکل صورت سے چڑی مار لگیں ہیں۔ ہمارے زمانے کا رکھ رکھاؤ، ادب آداب کچھ اور تھے۔ شرفاؤں کی زبان پر تُو اور تیری نہیں آتا تھا۔ گالی بھی دیتے تھے تو آپ اور آپ کی کہتے تھے۔ میاں، آپ کے دادا بڑے جلالی آدمی تھے۔ پر بڑی شرافت سے گالی دیتے تھے۔ حسبِ مراتب - بھوندو، بھٹیارا، بھڑ بھونجا، بھانڈ - کوئی بہت ہی بے غیرت ہوا تو بھاڑو بھڑوا کہہ دیا۔ ایک دن اردو ٹیچر کہنے لگا کہ وہ بڑے بھاری عالم ہیں۔ گالی نہیں بکتے۔ بھ کی گردان کرتے ہیں۔ میاں، میں جاہل آدمی ٹھہرا۔ گردان کا مطلب اس دن سمجھ میں آیا۔ کمال استاد تھے۔ ان کی بات دل میں ایسے اترتی تھی جیسے باؤلی میں سیڑھیاں۔ کس واسطے کہ وہ مجھ جیسے جاہلوں کی عزت کرنا جانتے تھے۔ میاں آج کل کے بد دماغ عالم اپنے تئیں عقلِ کُل سمجھنے لگے ہیں۔ نیا نیا علم انہیں اس طریوں چبھے ہے جیسے نیا جوتا۔ پر سارا سمندر ڈکوس کے اور ساری سیپیاں نگل کے ایک بھی موتی نہیں اُگل سکتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آخری گھنٹا

آخری گھنٹا

یہ کہہ کر بشیر چاچا دیر تک پوپلے منھ سے ہنستا رہا۔ اب تو مسوڑھے بھی گھس چلے مگر آنکھ میں بھی تک وہی twinkle - پھر ٹوٹے مونڈھے پر اکڑ کے بیٹھ گیا۔ شیخی نے، تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، گردن، ہاتھ اور آواز کا رعشہ دور کر دیا۔ کہنے لگا، میاں یقین جانو، گھنٹا سن کے مجھے تو ہول آنے لگا۔ اب ہر گھسیارا، ڈوم دھاڑی گھنٹا بجانے لگا ہے۔ اب تو ستیاناسی ایسے گھنٹا بجاویں ہیں جیسے دارو پی کے ہولی کا ڈھول پیٹ رہے ہوں۔ ایسے میں بچے کیا خاک پڑھیں گے۔ پانچواں گھنٹا تو جیسے تیسے میں نے سُنا۔ پھر فوراً سے پیشتر بھاگ لیا۔ کس واسطے کہ چھٹا گھنٹہ سننا میری برداش سے باہر تھا۔ بوڑھا خون ایک دفعہ کھول جائے تو پھر بڑی مشکل سے جا کے ٹھنڈا ہووے ہے۔ مجھے پندرہ سال کی ملازمت اور جوتیاں سیدھی کرنے کے بعد گھنٹا بجانے کے اختیارات ملے تھے۔ اس زمانے میں گھنٹا بجانے والا چپراسی عزت دار اور صاحبِ اختیار ہوتا تھا۔ ایک دن ہیڈ ماس صاب کے گھر سے خبر آئی کہ گھر والی کے ہاں بال بچہ تقریباً ہوا چاہتا ہے۔ بدحواسی میں وہ سالانہ امتحان کے پرچے میز پر کھلے چھوڑ گئے۔ اس رات میں گھر نہیں گیا۔ رات بھر پرچوں پہ سرکاری یونی فارم پہنے سانپ بنا بیٹھا رہا۔ اسی طرح ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جغرافیہ کے ماسٹر کو مجھ سے اور مجھ کو اس سے بلاوجہ کد ہو گئی۔ میاں، تجربے کی بات بتاتا ہوں۔ بے سبب دشمنی اور بدصورت عورت سے عشق حقیقت میں دشمنی اور عشق کی سب سے نخالص اور سب سے زیادہ خطرناک قسم ہے۔ کس واسطے کہ یہ شروع ہی وہاں سے ہوویں ہیں جہاں عقل ختم ہو جاوے ہے۔ مطلب یہ کہ میری مت تو بغضِ للہی میں ماری گئی۔ پر اس کی عقل کا چراغ ایک بدصورت عورت نے گل کیا جو میری ہم محلہ تھی۔ محبت اندھی ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں۔ بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہووے ہے۔ یہ کہہ کے بشیر چاچا پیٹ پکڑ کے پوپلے منھ سے ہنسا۔ آنکھوں سے بھی ہنسا۔ پھر کہنے لگا کہ میاں، ہماری جوانی میں کالی کلوٹی عورت کو کالی نہیں کہتے تھے۔ سانولی کہتے تھے۔ کالی سے تو افیم اور شکتی کی دیوی مراد ہوتی تھی۔ تو میں کہنے یہ چلا تھا کہ جب جغرافیہ ٹیچر نویں دسویں کا کلاس لیتا تو میں گھنٹا دس منٹ دیر سے بجانے لگا۔ وہ تیسرے ہی دن چیں بول گیا۔ دوسرے ٹیچر بھی تراہ تراہ کرنے لگے۔ مجھے اسٹاف روم میں کرسی پہ بٹھال کے بولے کہ “ بشیر میاں، اب غصہ تھوک بھی دو۔ گھن کے ساتھ ہمیں کائے کو پیستے ہو؟“

میں نے ہمیشہ اپنی مرضی اور اٹکل سے گھنٹہ بجایا۔ بندہ کبھی گھڑی کا غلام نہیں رہا۔ میرے اندر کی ٹک ٹک نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ اپنی مرضی کا مختار تھا۔ مجال ہے کوئی میرے کام میں ٹانگ اڑائے۔ اپنے کانپور کے مولانا حسرت موہانی کی سناؤنی آئی تو، قسم خدا کی، کسی سے پوچھے پاچھے بغیر میں نے چھٹی کا گھنٹا بجا کے سارا اسکول بند کروا دیا۔ غلام رسول دفتری ایک بزدل تھا۔ بولا کہ بشیرا، تیری خیر نہیں۔ ڈائرکٹر آف ایجوکیشن تجھ سے جواب طلب کرے گا۔ میں بولا فدوی کا جواب یہ ہو گا کہ حضور پرنور دام اقبالہ، خاطر جمع رکھیں۔ جب آپ فوت ہوں گے تب بھی بلا اجازت چھٹی کا گھنٹا بجا کے اسکول بند کر دوں گا۔ پر جب ولبھ بھائی پٹیل کے مرنے کی خبر آئی تو ہیڈ ماس صاب نے کہا بشیر، چھٹی کا گھنٹہ بجا دو۔ میں نے دو دفعہ سنی ان سنی کر دی۔ تیسری دفعہ انہوں نے تاکید کی تو ادھر کو منھ پھیر کے لنجے لنجے ہاتھ سے بجا دیا۔ کسی نے سنا کسی نے نہیں سنا۔ سن سینتالیس، گویا آزادی کے بعد تو فقط احاطے کی دیوار کا سایہ دیکھ کے گھنٹا بجانے لگا تھا۔ پاس پڑوس والے گھنٹے سے اپنی گھڑیاں ملاتے تھے۔ ریٹائر ہوئے اب تو پندرہ برس ہونے کو آئے پر اب بھی پہلے اور آخری گھنٹے کے وقت سیدھے ہاتھ میں چُل سی اٹھتی ہے۔ بے طرح پھڑکنے لگتا ہے۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ ملازمت کا آخری دن انسان پہ کتنا بھاری ہوئے ہے۔ میرا آخری دن تھا۔ اور میں آخری گھنٹہ بجانے جا رہا تھا کہ راستے میں ایکا ایکی جی بھر آیا۔ وہیں بیٹھ گیا۔ مجید چپراسی کو موگری تھماتے ہوئے بولا “ بیٹا، مجھ میں اس کی تاب نہیں۔ اپنا چارج یہیں سنبھال لے۔ کوچ نکارا تو ہی بجا۔“ پھر ہیڈ ماس صاحب سے ملنے گیا تو وہ بولے کہ بشیر میاں، ٹیچر حضرات تمہیں تحفے میں ایک اچھی سی گھڑی دینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، جناب عالی، میں گھڑی لے کے کیا کروں گا؟ مجھے کون سے ٹائم کیپری کرنی ہے۔ جب گھنٹا ہی گھڑی دیکھے بغیر بجاتا رہا تو اب آخری وخت میں کون سا کام ہے جو گھڑی دیکھ کے کروں گا۔ البتہ کچھ دینا ہی ہے تو یہ چپراس دے دیجیئے۔ چالیس سال پہنی ہے۔ کہنا پڑے گا کہ ہیڈ ماس صاب کا دل بڑا تھا۔ تیوری پہ بل ڈالے بغیر بولے “ لے جاؤ “ وہ سامنے کھونٹی پر ٹنگی ہے۔ تین چار مہینے میں ایک دفعہ اس کے پیتل کو نیبو سے جھما جھم چمکا لیتا ہوں۔ اب ہاتھوں میں پہلی سی طاقت نہیں رہی۔ چپراس کے بغیر کندھا بالکل خالی خالی الار سا لگے ہے۔ کبھی کبھی پالش کے بعد گلے میںڈال لیتا ہوں تو آپی آپ میر کُب (پیٹھ کی کجی) نکل جاتا ہے۔ گھڑی بھر کے لیے پہلے کی طریوں چلت پھرت آ جاتی ہے۔ میاں 1955ء کا واقعہ ہے۔ زبردستی سکول بند کروانے کی غرض سے سینکٹروں ہڑتالی غنڈوں نے دھاوا بول دیا۔ ہاتھا پائی، مارا ماری پہ اُتارو تھے۔ معصوم بچے ہراساں، ٹیچر حریان۔ ہیڈ ماس صاب پریشاں۔ مجھ سے نہ دیکھا گیا۔ میں نے للکارا کہ کسی مائی کے لال کی طاقت نہیں کہ میرے گھنٹا بجائے بغیر سکول بند کرا دے۔ منحوسو، میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، نہیں تو ابھی تم سب کا گھڑیال بجا دوں گا۔ ہیڈ ماس صاب نے پولیس کو فون کیا۔ تھانے دار نے کہا آپ کی آواز صاف سنائی نہیں دے رہی۔ میں نے غصے میں آ کر ریسیور ایک گز ڈوری سمیت جڑ سے آکھاڑ لیا۔ پھر میں ایک ہاتھ میں کاغذ کاٹنے کا شمشیر برہنہ چاقو اور دوسرے میں ریسیور لٹھ کی طریوں ہوا میں دائیں بائیں، شائیں شائیں گھماتا، فل سرکاری یونی فارم ڈالے، ہنکارتا ڈکارتا آگے بڑھا تو جنابِ والا، کائی سی چھٹ گئی۔ سروں پر قضا کھیل رئی تھی۔ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا، جو نہیں گرا اس کو میں نے جا لیا۔

اس وقت بشیر چاچا کی آنکھ میں وہی twinkle تھی جو ساری عمر شریر بچوں کی سنگت میں رہنے سے پیدا ہو گئی ہے۔ بچوں ہی کی طرح جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پائینتی بیٹھنے والا آدمی

پائینتی بیٹھنے والا آدمی

اس نے گھنٹا بجانے کے فن کی بعض ایسی نزاکتوں پر توجہ دلائی جن کی طرف کبھی ذہن نہیں گیا تھا۔ مثلاً یہی کہ پہلے گھنٹے میں وہ موگری کو کھینچ کر گھڑیال کے عین قلب میں مارتا تھا۔ ایک قطعیت اور تحکمانہ اختصار کے ساتھ۔ کھیل کے گھنٹے کا اعلان تیز سرگم میں کنارے کی چھن چھن چھن سے کرتا۔ پیر کے گھنٹوں کا گمبھیر ٹھناکا سنیچر کی ٹھٹھے مارتی ٹھن ٹھن سے بالکل مختلف ہوتا تھا۔ کہنے لگا “ میاں، نئی پیڑی (نسل) کے پی انوں (Peons) کو صبح اور سہ پہر کے مزاج کا فرق معلوم نہیں۔“ اس نے کھل کر دعوی تو نہیںکیا مگر اس کی باتیں سن کر مجھے سچ مچ محسوس ہونے لگا کہ وہ صبح دعا کا گھنٹا اپنے حسابوں بھیرویں میں ہی بجاتا ہو گا۔

جتنی دیر میں وہاں بیٹھا رہا وہ ہر پھر کے اپنے فرائض کے بارے میں ہی باتیں کرتا رہا۔ وہ چپراسی نہ ہوتا، کچھ اور ہوتا تب بھی اپنا کام صرف جاں فشانی ہی سے نہیں، اتنے ہی خشوع و خضوع سے کرتا۔ جب آدمی اپنے کام پر فخر کرنا چھوڑ دے تو وہ بہت جلد بے حس اور نکما ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے کام کو بھی سچ مچ ذلیل اور گھٹیا بنا دیتا ہے۔ بشیر چاچا کہنے لگا کہ میر فارغ خطی ( وہ ریٹائرمنٹ کو اسی خانہ خراب نام سے یاد کرتا ہے) سے ایک ماہ پیشتر ہیڈ ماس صاب نے سفارش کی کہ نمک خوار قدیم ہے۔ اس کی تنخواہ بطورِ خاص بڑھا دی جائے۔ اس پر محکمے سے اُلٹا حکم آیا کہ اس کی پنشن کر دی جائے۔ یہ تو وہی کہاوت ہوئی کہ میاں ناک کاٹنے کو پھریں، بیوی کہے نتح گھڑا دو۔ فارغ خطی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ایک چپڑ قنات انسپکٹر نے میرے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ چپراسی بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ کمر جھک گئی ہے۔ اور لنگڑانے بھی لگا ہے۔ میاں، خدا کی شان دیکھو کہ چھ مہینے بعد اسی کبڑے اور لولے لنگڑے نے اسے کندھا دے کر آخری منزل تک پہنچایا۔ رہے نام اللہ کا۔

پھر کہنے لگا “ ہمارے زمانے میں پلنگ چرپائی پہ ہی چوپال جمتی تھی۔ بزرگوں کی نصیحت تھی کہ چرپائی پہ کبھی سرہانے کی طرف مت بیٹھو۔ ہمیشہ پائینتی بیٹھا کرو تاکہ کوئی تم سے بڑا آ جائے تو جگہ نہ چھوڑنی پڑے۔ سو ساری زندگی پائینتی بیٹھے گزار دی۔ میاں، اب تو نیا کنارے آن لگی۔ غریب پیدا ہوا، غریب ہی مروں گا۔ پر مولا کا کرم ہے۔ کسی کا دبیل نہیں۔ میں نے اپنی چپراس کو ہمیشہ زیور سمجھا اور یونی فارم کو خلعت جان کے پہنا۔“ اس نے یہ بھی کہا کہ ہر سال لڑکوں کی ایک نئی کھیپ آئی۔ پر ایک لڑکا ایسا نہیں جسے اس نے تنبیہ و نصیحت نہ کی ہو۔ نیز اس نے اپنے سنہری دورِ ماتحتی میں نو ہیڈ ماسٹروں اور تیرہ انسپکٹروں کو بھگتا دیا۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑن چھو ہو گئے۔ فقیر نے بڑے بڑوں کا گھڑیال بجا دیا۔ یہ کہتے ہوئے اس کی ہلتی ہوئی گردن اکڑ گئی اور اس نے سینہ تان لیا۔ اپنی کھانسی روکتے ہوئے بولا “ ہیڈ ماس صاب نے کئی دفعہ کہا کہ میں تم کو پروموٹ کر کے سب چپراسیوں، بہشتی، مہتروں اور اسکول کے خوانچے والوں - سب کے اوپر افسر بنانا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض داش کی کہ اکبری سروری اسی کی ذات کو زیبا ہے۔ میں نے زندگی میں بڑے بڑے افسر ٹانگ کے نیچے سے نکال دیے۔ افسری تکبر کا تاج ہے۔ آپ کا غلام اسے جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔“ کہانیاں گھڑتے گھڑتے اب بشیر چاچا انہیں سچ بھی سمجھنے لگا ہے۔ بڑھاپے میں مشیخت پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top