شمشاد
لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
سردار جی نے مجھے سارا گھر دکھایا۔ بہوؤں نے لپک جھپک بکھری ہوئی چیزیں بڑے قرینے سے غلط جگہ پہ رکھ دی تھیں۔ جو چیزیں عجلت میں رکھی نہ جا سکیں انہیں سمیٹ کر بیڈ پر ڈال دیا اور اوپر صاف چادر ڈال دی۔ چنانچہ گھر میں جہاں جہاں صاف چادر نظر آئی، میں تاڑ گیا کہ نیچے کاٹھ کباڑ دفن ہے۔ صاحب، curiosity بھی بری بلا ہے۔ ایک کمرے میں ، میں نے نظر بچا کر چادر کا کونا سرکایا تو نیچے سے سردار جی کے ماموں کیس کھولے ایک نہایت مختصر کچھنا پہنے برآمد ہوئے۔ ان کی داڑھی اتنی لمبی اور گھنگھور تھی کہ اس تکلف کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔ گھر کا نقشہ کافی بدل گیا ہے۔ گلنار جس محراب دار دریچے کی چق کے پیچھے سے مقیش کا جھلمل دوپٹہ اوڑھے جھانکا کرتی تھی۔ اب اسے تیغا کر دیا ہے۔ دیکھیے، آپ پھر مسکرانے لگے۔ صاحب، کیا کروں پرانے لفظ اور محاورے ابھی تک زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ کیس محراب یا روزن کو اینٹ گارے سے بند کرنے کو تیغا کرنا کہتے تھے۔ صحن اب پختہ کروا لیا ہے۔ چنبیلی کی بیل اور امرود کا پیڑ نظر نہیں آیا۔ یہاں میاں صاحب شام کو دو مشکوں سے چھڑکاؤ کروا کے مونڈھے بچھوا دیا کرتے تھے۔ اپنے لیے خراد پر بنے ہوئے چنیوٹ کے رنگین پایوں والی چارپائی ڈلواتے۔ وطن کی یاد زیادہ ستاتی تو ہمیں مقامی گنڈیریاں کھلاتے۔ ان کا گلا لائل پور کی گنڈیریوں کو یاد کر کے رندہ جاتا۔ چاندنی راتوں میں اکثر ڈرل ماسٹر کی آواز میں “ مرزا صاحباں “ اور جگنی چمٹا بجا کے سناتے۔ خود آبدیدہ ہوتے، ہمیں بھی آبدیدہ کرتے۔ کو کہ ہماری “ آبدیدگی “ کی وجہ کچھ اور ہوتی تھی۔ کچھ دیر بعد خود ہی اپنے بے سرے پن کا احساس ہوتا تو چمٹا بڑی حقارت سے صحن میں پھینک کر فرماتے کہ بادشاہو کانپور کے چمٹے گانے کی سنگت کے لیے نہیں، چلم بھرنے کے لیے سوٹ ایبل ہیں۔ میاں صاحب ایک زمانے میں خاصے رنگین مزاج ہوا کرتے تھے۔ مدتوں سے کانپور میں آباد تھے۔ مگر کبھی پان کھایا، نہ تسلیمات، آدات عرض کہا۔ اور نہ کبھی کوئی شعر پڑھا۔ کوٹھے پر بھی نہیں، جہاں ان تینوں کے بغیر گزر اور گزارا نہیں ہو سکتا تھا۔
سردار جی سے جھوٹ سچ بول کر باہر نکلا تو سارا ناسٹل جیا جسے آپ یادش بخیریا کہتے ہیں، ہرن ہو چکا تھا۔ پرانا مکان دکھانے کے بہانے مجھے انعام اللہ برملائی لے گئے تھے۔ واپسی میں ایک گلی کے نکڑ پر مٹھائی کی دکان کے سامنے رک گئے۔ کہنے لگے، رمیش چند اڈوانی ایڈووکیٹ کے ہاں بھی جھانکتے چلیں۔ جیکب آباد کا رہنے والا ہے۔ ستر کا ہے مگر لگتا نہیں اسی کا لگتا ہے۔ جب سے سنا ہے کہ کراچی سے کوئی صاحب آئے ہیں، ملنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ جیکب آباد اور سکھر کی خیر خیریت معلوم کرنا چاہتا ہے۔ ستار پر تمہیں کافیاں بھی سنائے گا۔ اگر تم نے تعریف کی تو مزید سنائے گا۔ نہ کی، تب بھی مزید سنائے گا کہ “ یہ ان سے بہتر ہیں، شاید آپ کو پسند آئیں۔“ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا رسالو زبانی یاد ہے۔ ہندی سیکھ لی ہے، مگر جوش میں آتا ہے تو عجیب جناتی زبان میں گفتگو کرنے لگتا ہے۔ کھسکا ہوا ہے مگر ہے دلچسپ۔
تو صاحب، اڈوانی سے بھی گفتگو رہی۔ گفتگو کیا monologue، کہیے۔ “ کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے“ والا مضمون ہے۔ اس نے یہ تصدیق چاہی کہ جیکب آباد اب بھی ویسا ہی حسین ہے یا نہیں جیسا وہ جوانی میں چھوڑ کر آیا تھا؟ یعنی کیا اب بھی چودویں کو پورا چاند ہوتا ہے؟ کیا اب بھی دریائے سندھ کی لہروں میں لش لش پلا مچھلیاں دور سے للچاتی ہیں؟ موسم ویسا ہی حسین ہے؟ (یعنی 115 ڈگری گرمی پڑتی ہے یا اس پر بھی زوال آ گیا ہے؟) اور کیا اب بھی خیر پور سے آنے والی ہوائیں لُو سے پکتی ہوئی کھجوروں کی مہکار سے بوجھل ہوتی ہیں؟ سبی میں سالانہ دربار اور میلا مویشیاں لگتا ہے کہ نہیں؟ میں نے جب اسے بتایا کہ میلا مویشیاں میں اب مشاعرہ بھی ہوتا ہے اور دور دور سے شاعر بلائے جاتے ہیں تو وہ دیر تک میلے کی بے توقیری پر افسوس کرتا رہا اور پوچھنے لگ، کیا اب سندھ میں اچھے مویشی اتنے کم ہو گئے؟ اسے گنگا جمنی میدان ذرا نہیں بھاتا۔ کہنے لگا، “ سائیں، ہم سیدھے، کھردرے، ریگ مال ریگستانی لوگ ہیں۔ اپنے رشتے، پیار اور سمبندھ پر کائی نہیں لگنے دیتے۔ آپ صفا سپاٹ آگرو (سندھی - دو آب) اور دلدلی میدانوں کے رہنے والے، آپ کیا جانیں کہ ریگستان میں گرم ہوا ریت پر کیسی چلبلی لہریں، کیسے کیسے چتر (تصویر، نقش و نگار) بنا بنا کے مٹاتی اور مٹا مٹا کے بناتی ہے۔ سائیں، ہمارا سارا sandscape شہ زور آندھیاں تراشتی ہیں۔ جھولو (سندھی - گرم ہوا، لُو) کے چھکڑ اور جیٹھ کے مینار بگولے سارے ریگستان کو متھ کر رکھ دیتے ہیں۔ آج جو ریگ وادی ہے وہاں سے کل لال آندھی کی دھوم سواری گزری تھی۔ جلتی دوپہر میں بھوبل دھول برساتی ریت پہاڑیاں، پچھلے پہر کی سرداتی مخمل بالو پہ دھیمی دھیمی پون پکھاوج، جوان بلوان بازوؤں کی مچھلیوں سمان ریت کی ابھرتی پھڑکتی لہریں۔ ایک لہر دوسری لہر جیسی نہیں۔ ایک ڈب (سندھی - ٹیلا) دوسرے ٹیلے سے اور ایک رات دوسری رات سے نہیں ملتی۔ برسات کی راتوں میں جب تھوتھے بادل سندھ کے ریگ ساگر کے اوپر سے آنکھ مچولی کھیلتے گزرتے ہیں تو اداس چاندنی ہر آن عجب طلسمات کھیلتی ہے۔ جس کو سارا ریگستان ایک ساں لگتا ہے، اس کی آنکھ نے ابھی دیکھنا ہی نہیں سیکھا۔ سائیں، ہم تمھارے پیروں کی خاک، ہم ریت مہا ساگر کی مچھلی ٹھہرے، آدھی رات کو بھی ریت کہ تہوں میں انگلیاں گڑو کے ٹھیک ٹھیک بتا دیں گے کہ آج پوچھانڈو (سندھی لفظ ہے، اس کا مترادو عربی میں ہو تو ہو) کہا تھا۔ (یعنی ٹیلے کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں صبح سویرے سورج کی پہلی کرن پڑی)، دوپہر کو ہوا کا رُخ کیا تھا اور ٹھیک اس سمے شہر کی گھڑیوں میں کیا بجا ہو گا۔ دھرتی نے ہمیں پھول، پھل اور ہریالی دیتے سمے ہاتھ کھینچ لیا تو ہم نے دھنک کے سارے چنچل رنگوں کی پچکاری اپنی اجرکوں، رِلیوں، اوڑھنیوں، شلوکوں، چولیوں اور آرائشی ٹاہلوں پر چھوڑ دی۔“
وہ اپنی آنسو دھار پچکاری چھوڑ چکا تو میں نے باہر آ کر انعام اللہ برملائی سے کہا “ بھائی میرے بہت ہو چکی۔ یہ کیسا ہندو ہے جو گنگا کنارے کھڑا ریگستان کے سپنے دیکھتا ہے؟“
کہیں دل اور کہیں نگری ہے دل کی
یہ ساری عمر کا بن باس دیکھو
یہ ساری عمر کا بن باس دیکھو
ایسا ہی ہے تو اسے اونٹ پر بٹھا کر بیکانیر میں کسی ٹیلے یا کانٹوں بھرے کیکر کے ٹھنٹھ پر بٹھا آؤ کہ اوپر چھاؤں نہیں اور نیچے ٹھاؤں نہیں۔ اب کے تم نے مجھے کسی ماضی میں مبتلا آدمی سے ملایا تو قسم خدا کی لوٹا، ڈور، چٹائی، کلیاتِ نظیر اکبر آبادی اور فروٹ سالٹ بغل میں مار بیابان کو نکل جاؤں گا۔ اور کان کھول کر سن لو۔ اب میں کسی ایسے شخص سے ہاتھ ملانے کا بھی روادار نہیں جو میرا ہم عمر ہو۔“ صاحب، مجھے تو اس کہولت اور یہوست سے، یعنی اپنے آپ سے قے آنے لگی۔ آپ کے مرزا صاحب نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا کہ اپنے ہم عمر بڈھوں سے محض ہاتھ ملانے سے آدمی کی زندگی ہر مصافحے کے بعد ایک سال گھٹ جاتی ہے۔