شمشاد
لائبریرین
اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے
میں نے اس کا دل خوش کرنے کے لیے کہا “ چاچا تم تو بالکل ویسے ہی ٹانٹھے رکھے ہو۔ کیا کھاتے ہو؟“ یہ سنتے ہی لاٹھی پھینک، سچ مچ سینہ تان کے، بلکہ پسلیاں تان کے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا :
“ صبح نہار منھ چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ ایک فقیر کا ٹوٹکا ہے۔ کچھ دن ہوئے محلے والے میرے کنے (پاس) وفد بنا کے آئے۔ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ میرے سامنے بات کرنے کا ہیاؤ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کہا برخوردار، کچھ منھ سے پھوٹو۔ عرض اور غرض میں کاہے کی شرم۔ کہنے لگے، چاچا تم لاولد ہو۔ دوسری شادی کر لو۔ ابھی تمہارا تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ جس دوشیجا کر طرف بھی چشمِ آبرو سے اشارہ کر دو گے، کچھ دھاگے میں بندھی چلی آوے گی۔ ہم بقلم خود پیام لے کے جائیں گے۔ میں بولا، پنچایت کا فیصلہ سر آنکھوں پہ، پر یہ جوان جوکھوں کا کام ہے۔ سوچ کے جواب دوں گا۔ کس واسطے کہ میری ایک مستوارت مر چکی ہے۔ یہ بھی مر گئی تو تاب نہیں لا سکوں گا۔ ذرا دل لگی دیکھو۔ ان میں کا ایک چرب زبان لونڈا بولا کہ چاچا، ایسا ہی ہے تو کسی پکی عمر کی سخت جان لگائی (عورت) کے ساتھ دو بول پڑھوا لو۔ بلقیس دو دفعہ رانڈ ہو چکی ہے۔ میں نے کہا ہشت،
صاحب، ملیدے کے استعارے کو اب کون سمجھے گا۔ یوں کہیے کہ شکار مردہ سزاوارِ شہباز نہیں۔ میں نے چھیڑا “ چاچا اب بڑھاپے میں نئی روشنی کے بے کہی بیوی سے نباہ کرنا، اسے قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔“
بولا “ میاں، آپ نے وہ پرانی مثل نہیں سنی کہ ہزار لاٹھی ٹوٹی ہو، پھر بھی گھر بھر کے برتن باسن توڑنے کو بہت ہے۔“
یہ کہہ کر لاٹھی پہ سر ٹیک کے اتنے زور سے ہنسا کہ دمے کا دورہ پڑ گیا۔ دس منٹ تک کھو کھو گھس گھس کرتا رہا۔ مجھے تو ہول آنے لگا کہ سانس آئے گا بھی کہ نہیں۔
اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے
میں نے اس کا دل خوش کرنے کے لیے کہا “ چاچا تم تو بالکل ویسے ہی ٹانٹھے رکھے ہو۔ کیا کھاتے ہو؟“ یہ سنتے ہی لاٹھی پھینک، سچ مچ سینہ تان کے، بلکہ پسلیاں تان کے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا :
“ صبح نہار منھ چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ ایک فقیر کا ٹوٹکا ہے۔ کچھ دن ہوئے محلے والے میرے کنے (پاس) وفد بنا کے آئے۔ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ میرے سامنے بات کرنے کا ہیاؤ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کہا برخوردار، کچھ منھ سے پھوٹو۔ عرض اور غرض میں کاہے کی شرم۔ کہنے لگے، چاچا تم لاولد ہو۔ دوسری شادی کر لو۔ ابھی تمہارا تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ جس دوشیجا کر طرف بھی چشمِ آبرو سے اشارہ کر دو گے، کچھ دھاگے میں بندھی چلی آوے گی۔ ہم بقلم خود پیام لے کے جائیں گے۔ میں بولا، پنچایت کا فیصلہ سر آنکھوں پہ، پر یہ جوان جوکھوں کا کام ہے۔ سوچ کے جواب دوں گا۔ کس واسطے کہ میری ایک مستوارت مر چکی ہے۔ یہ بھی مر گئی تو تاب نہیں لا سکوں گا۔ ذرا دل لگی دیکھو۔ ان میں کا ایک چرب زبان لونڈا بولا کہ چاچا، ایسا ہی ہے تو کسی پکی عمر کی سخت جان لگائی (عورت) کے ساتھ دو بول پڑھوا لو۔ بلقیس دو دفعہ رانڈ ہو چکی ہے۔ میں نے کہا ہشت،
“کیا خوب گھر کے پیروں کو تیل کا ملیدہ“
صاحب، ملیدے کے استعارے کو اب کون سمجھے گا۔ یوں کہیے کہ شکار مردہ سزاوارِ شہباز نہیں۔ میں نے چھیڑا “ چاچا اب بڑھاپے میں نئی روشنی کے بے کہی بیوی سے نباہ کرنا، اسے قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔“
بولا “ میاں، آپ نے وہ پرانی مثل نہیں سنی کہ ہزار لاٹھی ٹوٹی ہو، پھر بھی گھر بھر کے برتن باسن توڑنے کو بہت ہے۔“
یہ کہہ کر لاٹھی پہ سر ٹیک کے اتنے زور سے ہنسا کہ دمے کا دورہ پڑ گیا۔ دس منٹ تک کھو کھو گھس گھس کرتا رہا۔ مجھے تو ہول آنے لگا کہ سانس آئے گا بھی کہ نہیں۔