عبدالقیوم چوہدری
محفلین
غالباً 1995 کی بات ہے، میرے دوست شہزادصغیر نے مجھے ایک عظیم خوشخبری سنائی کہ 3.5 ایم بی کی ہارڈ ڈسک مارکیٹ میں آگئی ہے مجھے یاد ہے ہم سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ آج 100 جی بی والی ڈسک بھی چھوٹی لگتی ہے۔ وہ پینٹیم فور جو سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا آج کسی کو یاد ہی نہیں حالانکہ صرف چھ سات سال پہلے ہم میں سے اکثر کے پاس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تھے، آئے دن پاور فیل ہوجاتی تھی، سی ڈی روم خراب ہوجاتا تھا۔ اُن دنوں کمپیوٹر ٹھیک کرنے والے ’انجینئرز‘ کہلاتے تھے،آج کل مکینک کہلاتے ہیں۔ تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو فلاپی ڈسک کے بغیر کام نہیں چلتا تھا، فلاپی اپنی مرضی کی مالک ہوتی تھی، چل گئی تو چل گئی ورنہ میز پر کھٹکاتے رہیں کہ شائد کام بن جائے۔ یہ سب کچھ ہم سب نے اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا۔
موبل آئل سے موبائل تک کے سفر میں ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔
لباس سے کھانے تک ہر چیز بدل گئی لیکن نہیں بدلا تو میتھی والے پراٹھے کاسواد نہیں بدلا۔ شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں تو ڈھونڈتے رہ جائیں۔ گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے۔ شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہوں۔فریج میں ہر چیز پڑی ہے، جس کا جب جی چاہتا ہے نکالتا ہے اور گرم کرکے کھا لیتا ہے۔ البتہ باہر جاکر کھانا ہوتو یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے کے بعد بند ہوجایا کرتے تھے وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنرکھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے۔
پورے دن کے لیے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب ہر گھر میں فریج ہے، فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے۔ فریج آیا تو ’چھِکو‘ بھی گیا۔ اب تندور پر روٹیاں لگوانے کے لیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھیجے جاتے۔ اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے، مارکیٹ میں ایک سے ایک ڈیزائن والا سکول بیگ دستیاب ہے۔
بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ ’یار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں۔چھت پر سونا خواب بن گیا ہے لہذا اب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ ڈبل بیڈ ہیں اور ان پر بچھے موٹے موٹے گدے۔ مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے۔ اب بچے سائیکل سیکھنے کے لیے قینچی نہیں چلاتے کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے۔ جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔ کیازمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا۔ اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ شہر سے باہر کال ملانا ہوتی تھی تو لینڈ لائن فون پر پہلے کال بک کروانا پڑتی تھی اور پھر مستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا ‘ گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کردیتا تھا کہ تین منٹ ہونے والے ہیں۔
سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا توگفٹ کے طور پر ’گھڑیاں‘ ضرور لے کر آتا تھا۔ واک مین بھی ختم ہوگئے، پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی۔ پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر کا ہینڈ پمپ بھی ’بوکی‘ سمیت رخصت ہوا۔ واش بیسن آیا تو’ کھُرے‘ بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی۔ سگریٹ آیا تو حقے کا خاتمہ کر گیا‘ اب شائد ہی کسی گھرمیں کوئی حقہ تازہ ہوتا ہو۔
میں نے ہمیشہ ماں جی کو پرانے کپڑوں اور ٹاکیوں کو اکھٹا کرکے تکیے میں بھرتے دیکھا۔تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ اب نہیں ہوتا، اب مختلف میٹریلز کے بنے بنائے تکیے ملتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیتی تھیں، بازار سے اون کے گولے منگوا کر سارا دن جرسیاں بنتی تھیں، اب نہیں۔۔۔بالکل نہیں، ایک سے ایک جرسی بازار میں موجود ہے،سستی بھی، مہنگی بھی۔
پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا‘ اب اُستاد مانا جاتا ہے۔
پہلے سب مل کر ٹی وی دیکھتے تھے‘ اب اگر گھرمیں ایک ٹی وی بھی ہے تو اُس کے دیکھنے والوں کے اوقات مختلف ہیں۔ دن میں خواتین Repeat ٹیلی کاسٹ میں ڈرامے دیکھ لیتی ہیں‘ شام کو مرد نیوز چینل سے دل بہلا لیتے ہیں۔ معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔ چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔ زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی۔ گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے۔ محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا لیکن کسی کو کوئی انفیکشن نہیں ہوتی تھی۔ یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔
گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکیے سے خط پڑھواتے تھے ۔ ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا، خط لکھ بھی دیتا تھا، پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔ امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے۔
موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے۔
ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔ میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ حلوہ، زردہ چاول اور کھیر۔ آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔ گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔
نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی گلی کے کونے سے آواز آجاتی ’’کڑیو‘ منڈیو‘ شے ونڈی دی لے جاؤ‘۔ اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں ’’میرے بھائی دا حصہ وی دے دیو‘۔ دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں‘ پہلے تو لوگ ’بھانے‘ سے دودھ لینے جاتے تھے۔ گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ وقت ہی وقت تھا۔ گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں، محلے کے بابے حقے پی رہے ہیں اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان ہورہے ہیں۔ جن کے گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔ مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا۔
لیکن۔۔۔
پھر اچانک سب کچھ بدل گیا ۔
ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔ اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا۔ کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔ منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے لیکن پتا نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں
ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے جس میں ڈپریشن‘ سردرد‘ بلڈ پریشر‘ نیند اوروٹامنز کی گولیاں ہر وقت موجود ہوں۔۔۔!!!
۔۔۔
از گل نوخیز اختر
موبل آئل سے موبائل تک کے سفر میں ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔
لباس سے کھانے تک ہر چیز بدل گئی لیکن نہیں بدلا تو میتھی والے پراٹھے کاسواد نہیں بدلا۔ شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں تو ڈھونڈتے رہ جائیں۔ گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے۔ شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہوں۔فریج میں ہر چیز پڑی ہے، جس کا جب جی چاہتا ہے نکالتا ہے اور گرم کرکے کھا لیتا ہے۔ البتہ باہر جاکر کھانا ہوتو یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے کے بعد بند ہوجایا کرتے تھے وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنرکھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے۔
پورے دن کے لیے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب ہر گھر میں فریج ہے، فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے۔ فریج آیا تو ’چھِکو‘ بھی گیا۔ اب تندور پر روٹیاں لگوانے کے لیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھیجے جاتے۔ اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے، مارکیٹ میں ایک سے ایک ڈیزائن والا سکول بیگ دستیاب ہے۔
بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ ’یار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں۔چھت پر سونا خواب بن گیا ہے لہذا اب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ ڈبل بیڈ ہیں اور ان پر بچھے موٹے موٹے گدے۔ مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے۔ اب بچے سائیکل سیکھنے کے لیے قینچی نہیں چلاتے کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے۔ جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔ کیازمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا۔ اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ شہر سے باہر کال ملانا ہوتی تھی تو لینڈ لائن فون پر پہلے کال بک کروانا پڑتی تھی اور پھر مستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا ‘ گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کردیتا تھا کہ تین منٹ ہونے والے ہیں۔
سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا توگفٹ کے طور پر ’گھڑیاں‘ ضرور لے کر آتا تھا۔ واک مین بھی ختم ہوگئے، پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی۔ پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر کا ہینڈ پمپ بھی ’بوکی‘ سمیت رخصت ہوا۔ واش بیسن آیا تو’ کھُرے‘ بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی۔ سگریٹ آیا تو حقے کا خاتمہ کر گیا‘ اب شائد ہی کسی گھرمیں کوئی حقہ تازہ ہوتا ہو۔
میں نے ہمیشہ ماں جی کو پرانے کپڑوں اور ٹاکیوں کو اکھٹا کرکے تکیے میں بھرتے دیکھا۔تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ اب نہیں ہوتا، اب مختلف میٹریلز کے بنے بنائے تکیے ملتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیتی تھیں، بازار سے اون کے گولے منگوا کر سارا دن جرسیاں بنتی تھیں، اب نہیں۔۔۔بالکل نہیں، ایک سے ایک جرسی بازار میں موجود ہے،سستی بھی، مہنگی بھی۔
پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا‘ اب اُستاد مانا جاتا ہے۔
پہلے سب مل کر ٹی وی دیکھتے تھے‘ اب اگر گھرمیں ایک ٹی وی بھی ہے تو اُس کے دیکھنے والوں کے اوقات مختلف ہیں۔ دن میں خواتین Repeat ٹیلی کاسٹ میں ڈرامے دیکھ لیتی ہیں‘ شام کو مرد نیوز چینل سے دل بہلا لیتے ہیں۔ معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔ چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔ زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی۔ گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے۔ محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا لیکن کسی کو کوئی انفیکشن نہیں ہوتی تھی۔ یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔
گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکیے سے خط پڑھواتے تھے ۔ ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا، خط لکھ بھی دیتا تھا، پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔ امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے۔
موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے۔
ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔ میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ حلوہ، زردہ چاول اور کھیر۔ آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔ گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔
نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی گلی کے کونے سے آواز آجاتی ’’کڑیو‘ منڈیو‘ شے ونڈی دی لے جاؤ‘۔ اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں ’’میرے بھائی دا حصہ وی دے دیو‘۔ دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں‘ پہلے تو لوگ ’بھانے‘ سے دودھ لینے جاتے تھے۔ گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ وقت ہی وقت تھا۔ گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں، محلے کے بابے حقے پی رہے ہیں اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان ہورہے ہیں۔ جن کے گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔ مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا۔
لیکن۔۔۔
پھر اچانک سب کچھ بدل گیا ۔
ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔ اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا۔ کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔ منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے لیکن پتا نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں
ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے جس میں ڈپریشن‘ سردرد‘ بلڈ پریشر‘ نیند اوروٹامنز کی گولیاں ہر وقت موجود ہوں۔۔۔!!!
۔۔۔
از گل نوخیز اختر