ایک عرصۂ دراز گزر چکا اس دور کو جب استاد کا حکم ہی عزت ہوا کرتا تھا شاگرد بھی در حقیقت شاگرد ہی ہوتے تھے جن میں مہارت حاصل کرنے جذبہ تو ہوتا تھا مگر سیکھنے سکھانے پڑھنے پڑھانے کے بعد اس منزل تک پہنچنا پسند کرتے تھے، شاگرد کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو جائے استاد سے چھوٹا ہی رہتا تھا، ریاست میں سیاست تھی نہ دماغوں میں غلاظت تھی۔ جو کچھ تھا تو وہ طبیعت اور لہجے کی نفاست تھی جس سے دلوں پر قابو پایا جاتا تھا، نہ کوئی بادشاہ علماء سے کچھ پوچھ لینے کو بے عزتی محسوس کرتا تھا نہ کوئی نواب کسی استاد شاعر سے اپنی شاعری پر اصلاح لینے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ ایسی اور اس جیسی سیکڑوں باتیں تاریخ نے تاریخ دانوں کے ہاتھوں رقم کروائی ہیں۔
مگر ”دور “ تو دور ہے جو دوڑ تا ہے اور یک لخت ہی پلٹ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ رفتہ رفتہ جو جو وقت چلتا ہوا ترقی ہوتی گئی، وسائل بڑھتے چلے گئے، فرصتیں گھٹتی چلی گئیں ۔ قربتیں فرقتوں میں بدل گئیں، عزت و عظمت کے وہ رنگ نہ رہے، فن کی وہ حیثیت نہ رہی، اور ”ہیرے کی قدر جوہری ہی جانے“،” گدھا کیا جانے زعفران کا مزہ“ اور ”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔۔۔ الخ“ جیسی مثالیں بچوں پر صرف اپنا دبدبہ اور رعب ڈالنے کی حد تک ہی رہ گئیں۔

محمد یعقوب آسی
محمد اسامہ سَرسَری
الف عین
 

دوست

محفلین
محسن وقار علی کی فرمائش پر اپنے بلاگ کی تازہ لیکن پرانی تحریر کا ربط شئیر کر رہا ہوں۔
خلافت چاہئے جی
تحریر جس موڈ میں لکھی گئی تھی اقتباس دینے سے اس کا مطلب کچھ اور نکل سکتا ہے اس لیے صرف ربط دے رہا ہوں۔
 

دوست

محفلین
قوم افراد سے مل کر بنتی ہے۔ قوم دیوار ہے تو افراد اس کی اینٹیں۔ لیکن یہ اینٹیں اکیلی ہی دیوار نہیں بناتیں۔ صرف اینٹیں کھڑی کرو تو دیوار ایک حد کے بعد کھڑی رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اینٹوں کو جوڑنے کے لیے سیمنٹ درکار ہوتا ہے۔ اور قوم نامی دیوار کو مضبوط کرنے والے سیمنٹ کا نام مشترکہ اقدار ہیں، مشترکہ سوچ اور ایک ہونے کا احساس۔ افراد میں اگر یہ احساس مفقود ہو جائے، ماند پڑنے لگے تو اس کے نتیجے میں قوم نامی دیوار اینٹوں کی گھوڑی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ راج مستریوں کی اصطلاح میں گھوڑی اینٹوں کا ایک ایسا مجموعہ ہوتی ہے جو سراسر عارضی مقصد کے لیے ایک جگہ اوپر نیچے لگا دی جاتی ہیں بغیر کسی سیمنٹ یا جڑنے والے مادے کے، اکثر گارے کے بھی بغیر۔ افراد میں اقدار مشترک نہ رہیں تو وہ قوم کے اندر اینٹوں کی گھوڑیاں بن جاتے ہیں۔ ایک یہاں لگی ہے دوسری وہاں لگی ہے، اور ان گھوڑیوں کا کوئی مقصد مشترک نہیں ہوتا۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا بن جاتا ہے، لیکن یہ ایجنڈے عارضی، نا پائیدار اور عدم استحکام پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ افراد کے یہ گروہ نہ صرف قوم کو کمزور کرتے ہیں بلکہ خود کو بھی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اسی لیے افراد میں قدرِ مشترک کا احساس پایا جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
سماجی شناخت اور فکری قحط سالی
 
آزادی سے پہلے 1600 سال تک حکمرانی کرتے رہنے کے باوجود انگریزوں کی غلامی میں 200سال تک جکڑ جانے میں بھی ہمارے یہی عوامل کار فرما تھے۔یہ الگ بات ہے کہ مورخین اور تجزیہ کار اسے مغلوں کی نا اہلی ،معیشت کی تباہ حالی یا پھر اورنگ زیب کی کٹر پالیسی جیسی وجوہات سے تعبیر کرتے ہیں۔معاملہ چاہے جو بھی ہو اس پر ہمیں فی الحال بحث نہیں کرنی ، لیکن اگر اس کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو کہیں نہ کہیں ہمارے یہ رویّے ضرور سامنے آتے ہیں، جس سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ بہر حال غلطی ہماری رہی تھی۔ اس غلطی کے احساس کے بعد گرچہ ملک کو آزاد کرانے کے جتن کئے گئے اور ہمیں اس میں کامیابی بھی ملی، لیکن ہماری حالت ،اور ہماری فکر میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بلکہ ہماری اسی نا اہلی کے سبب دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور ملک کا بٹوارہ ہو گیا،ہم اقلیت میں آ گئے۔ اور بھی قومیں اقلیت میں آئیں لیکن انھوں نے سیاست ،معیشت ہر اعتبار سے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور ہم ساٹھ سال میں اور بھی بد سے بد تر ہوتے گئے۔ہم نے کبھی اپنے حالات میں سدھار لانے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات کا تجزیہ کرنا گوارہ ہی نہیں کِیا کہ اب تک ہم نے کیا پایا ،کیا کھویا اور پھر آگے کیا کرنا ہے۔ غصہ کرنا ہے، بے صبری کا مظاہرہ کرنا ہے، محض ایک دوسرے پر الزام لگانا ہے، اپنے ہی نظریات کو صحیح سمجھنا ہے خواہ وہ غلط ہی کیوں نا نہ ہوں ،چند کھوٹے سکوں کی خاطر ہماری ہی بیخ کنی کرنے والی پارٹیوں کا آلہ کار بنے رہنا ہے یا پھر یہ سب چھوڑ کر واقعی مسائل پر غور کرنا ہے۔
2014 مرکزی انتخابات :کیا کریں اور کدھر جائیں مسلمان؟
 

فخرنوید

محفلین
مجھے اپنوں نے مروایا تم سے تو نمٹ ہی لیتا
کسی قصبے میں ایک شخص اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔وہ وہاں کے سماجی ومعاشی حالات کی وجہ سے تنگ دست و فاقی کشی کا شکار ہو گیا۔اسے نا کوئی روزگار ملتا اور نہ ہی خاندان والوں کی طرف سے اسے اپنا یا جاتا۔ آخر وہ دل شکن ہو کر قصبے کو چھوڑ کر جنگل کی طرف چلا گیا اور جیسے تیسے زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے لگا اور اپنے اللہ سے آہ و گریہ زاری کرنے لگا۔ اسی طرح دن رات گزرتے رہے۔
ایک دن وہ بندہ جنگل میں آہ و گریہ زاری کر رہا تھا کہ اس کے سامنے انسانی روپ میں ملک الموت حاضر ہو گئے اور اس بندے سے پوچھا تم اس بیابان جنگل میں کیا کر رہے ہو تمہیں اپنی جان عزیز نہیں ہے تم کیوں یہاں مرنا چاہتے ہو۔ جس پر وہ بندہ بولا قصبے میں بھی تنگ دستی و فاقی کشی سے جان جانی تھی تو یہاں بھی چلی جائے میں تو پہلے ہی جینا نہیں چاہتا اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔ اس کی یہ بات سن کر ملک الموت نے اس بندے سے سارا ماجرا بیان کرنے کو کہا۔ بندے نے اپنے ساتھ بیتے تمام حالات کی کہانی ملک الموت کے گوش گزار کر دی جسےسن کر ملک الموت کو بھی بہت تکلیف ہوئی آخر کار ملک الموت نے اس بندے کو راضی کرنے لگا کہ وہ زندگی کی طرف واپس لوٹ جائے اور قصبے میں واپس رہائش اختیار کر لے۔
لیکن وہ بندہ مُصر تھا کہ وہ قصبے میں واپس کیوں چلا جائے اور وہاں تو پہلے ہی معاشی حالات بہت خراب ہیں اور وہ بھی انہی مشکلات میں واپس نہیں جانا چاہتا جس پر ملک الموت نے اسے کہا کہ میں تمہارا ساتھ دوں گا اورتمہیں اچھا روزگار مل جائے گا۔
مزید تفصیل:مجھے اپنوں نے مروایا تم سے تو نمٹ ہی لیتا
 
نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے کہ کتنے مسلم بچوں نے 90فیصد تک نمبر حاصل کئے ہیں تو اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں لیکن حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔90 فیصد تو دور کی بات معدودے چند بچے ہی 75 فیصد کے امتیازی نشان تک پہنچ پائے ہیں۔اور اگر اردو میڈیم اسکولوں پر نظر ڈالیں یہ نتائج اور بھی ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں۔اور چند طلبا و طالبات ہی پہلے ڈویژن یعنی 60 فیصد کے ہندسے کو پار کر پاتے ہیں۔کئی اردو میڈیم اسکولوں کے پرنسپل نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے جس میں انھوں نے بر ملا یہ کہا کہ اس سال دیگر سالوں کے مقابلہ مقدار( کوانٹٹی) تو بہتر ہے لیکن معیار(کوالٹی) نہیں۔اس لئے اس جانب توجہ دینی ہوگی اور جائزہ لینا ہوگا کہ کمی کہاں رہ گئی ہے۔امتحان میں صرف پاس ہو جانے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ جب یہ مسلم بچے کالج یا یونیورسٹی جائیں گے تو وہاں داخلہ کے لئے محض مسلمان بچوں کی میرٹ ہی جاری نہیں کی جائے گی بلکہ سبھی طلبا کا مقابلہ ایک ساتھ ہوگا۔حق تعلیم قانون کے نفاذ نے بچوں کو پاس ہونے کی فکر سے آزاد کر دیا ہے اور اب ہمیں اپنے نتائج کو بلند کرنے کی فکر کرنی ہی ہوگی ۔
http://alamullah.blogspot.in/
 

فخرنوید

محفلین
وی ایل سی پلئیر کی مدد سے نیٹ ورک پر لائیو سٹریم چلانا
وی ایل سی پلئیر ایک میڈیا پلئیر ہے جو کہ عصر حاضر کے دیگر میڈیا پلئیر کی نسبت بہت بہتر اور مشہور ہے۔ اس کا استعمال انتہائی آسان اور صارف دوست ہے۔ وی ایل سی پلئیر میں ویڈیوز اور آڈیوز کو سٹریم کرنے کے لئے بہت ہی آسان اور شاندار فیچر شامل ہے جس کی [ بقیہ پڑھیں]
 
قومی زبان

آجکل ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے. وقت, مکان, فاصلہ, سرحدیں و غیرہ کوئی رکاوٹ نہیں ہیں. آپ جہاں بھی ہوں, بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہو کر دنیا کے ہر کونے تک آسانی سے اپنی بات, اپنا پیغام اور اپنی فکر پہنچا سکتے ہیں۔۔۔۔۔
 
تین صفات دنیا بھر کی تشدد سے پاک تحریکوں کی کام یابی اور ناکامی کے درمیان فرق قائم کرسکتی ہیں: اتحاد، منصوبہ بندی، اور تشدد سے پاک نظم و ضبط۔

ہارڈی میری مین کی تحریر ’’عوامی مزاحمت کے تین حقائق: اتحاد، منصوبہ بندی اور نظم و ضبط‘‘ کا اردو ترجمہ جس میں مصنف نے تشدد سے پاک تحریکات کا مختصر جائزہ، ان کے کردار، فوائد اور دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
 
Top