کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام اور احباب محفل سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
کوششوں سے نئے امکان نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں
کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
سلجھے ریشم کے سِرے، پھر سے نکل سکتے ہیں
میرے ضد ہے، وہ منانے مجھے، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں
سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں
شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں
وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
اب بھی، بچپن کے حسیں رنگ، نکل سکتے ہیں
غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں
وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟
ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
تند طوفانوں کے سینے بھی دہل سکتے ہیں !
**********--------------**********
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام اور احباب محفل سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
کوششوں سے نئے امکان نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں
کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
سلجھے ریشم کے سِرے، پھر سے نکل سکتے ہیں
میرے ضد ہے، وہ منانے مجھے، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں
سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں
شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں
وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
اب بھی، بچپن کے حسیں رنگ، نکل سکتے ہیں
غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں
وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟
ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
تند طوفانوں کے سینے بھی دہل سکتے ہیں !
**********--------------**********