اُسی بشر کو شہِ مشرقین کہتے ہیں
دلاوروں کے دل و جاں کا چین کہتے ہیں
جو سر کٹا کے جھکا دے سرِ غرورِ یزید
اُسے سناں کی لغت میں حسین کہتے ہیں (محسن نقوی شہید)
بڑھتی ہے برہمی سی ذرا نورِ عین میں
ملتا ہے اضطراب یونہی دل کے چین میں
سیلاب دیکھتا ہوں تو آتا ہے یہ خیال
پانی بھٹک رہا ہے تلاشِ حسین میں (محسن نقوی شہید)
وہ ابنِ مظاہر ہو کہ حُر، جَون کہ مسلم
یہ کہہ کے بچھڑتا تھا ہر اک "دارِ فنا "سے
"جنت میں بھی مشکل سے مری آنکھ کھُلے گی
سویا ہوں میں شبیر کے دامن کی ہَوا سے" (محسن نقوی شہید)
شبیر! اگر دل میں ترا نقشِ قد م ہے
کچھ خوف ہے محشر کا نہ اعمال کا غم ہے
یہ راز کھلا "حُر"کے مقدر سے جہاں میں
جنت تو ترے اک تبسم سے بھی کم ہے (محسن نقوی شہید)
فطرت یہ کہہ رہی ہے کہ کونین کا نصیب
تحریر ہے حسین کی زخمی جبین پر!
دیکھو، عروجِ خاکِ رہِ کربلا کہ آج!
جنّت یہ چاہتی ہے "میں ہوتی زمین پر" (محسن نقوی شہید)
نہ پوچھ کیسے کوئی شاہِ مشرقین بنا
بشر کا ناز، نبوت کو نور عین بنا
علی کا خون، لعابِ رسول، شیر ِبتول
ملے ہیں جب یہ عناصر تو پھر حسین بنا (محسن نقوی شہید)
باطل کی سازشوں کے کُچلتے رہیں گے ہم
جب تک رہے گا ہاتھ میں پرچم حسین کا
قصرِ یزیدیت کی دراڑو ں سے پوچھ لو
تاریخِ انقلاب ہے ماتم حسین کا (علامہ ذیشان حیدر جوادی)
خالق نے کچھ اس طرح اُتارے ہیں محمد
ہر دور میں ہر شخص کو پیارے ہیں محمد
اکثر درِ زہرا پہ یہ جبریل نے سوچا
پیغام کسے دوں کہ یہ سارے ہیں محمد (محسن نقوی شہید)