آج کا منتخب کالم

سندباد

لائبریرین
آج کا منتخب کالم کے عنوان تلے اردو محفل میں ہر روز ایک منتخب کالم یا مضمون پیش کیا جائے گا۔ یہ مضمون یا کالم کسی اردو اخبار یا رسالے سے لیا جائے گا اور ان کے شکریہ کے ساتھ اردو محفل میں پوسٹ کیا جائے گا۔ اس عنوان کے تحت یہاں‌ پر اردو محفل کا کوئی بھی ساتھی منتخب کالم یا مضمون پوسٹ کرسکتا ہے۔
یہ سلسلہ قیصرانی صاحب اور دوست بھائی کی خواہش اور تجویز پر شروع کیا جا رہا ہے۔ اس کالم یا مضمون پر محفل کے ساتھی باقاعدہ تبصرہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا کالم حاضر خدمت ہے۔ دیکھتے ہیں اہل محفل اس میں دل چسپی کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں۔
 

سندباد

لائبریرین
پاکستانیوں کو ’’کمی ‘‘بنا کر رکھنے کی امریکی پالیسی​

مکتوب امریکہ /طیبہ ضیاء

ایران کی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیاہے جس کے مطابق ایران میں داخلے کے خواہشمند امریکیوں کوفنگر پرنٹس دینا لازمی قرار دیاگیا۔ رکن پارلیمنٹ کاظم جلالی نے کہا امریکہ کی امیگریشن والے ہمارے لوگوں کے ساتھ ہتک آ میز سلوک کرتے ہیں، لہٰذا امریکیوں کوبھی ایران میں داخل ہونے کے لئے اسی سلوک سے گزرناہوگا۔
پاکستان ایٹمی طاقت بن چکاہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا وفادار ہے۔ حکمرانوں کے بقول پاکستا کی معیشت بھی مضبوط ہے۔ اس کے باوجود پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ بین الااقوامی ہوائی اڈوں پر ہوم لینڈ سیکورٹی کے ڈرائنگ روم موجود ہیں۔ مسلمان ناموں والے افراد کو اس ڈرائنگ روم میں گھنٹوں بٹھایا جاتا ہے۔ اس مہمان نوازی میں امریکی پاسپورٹ ہولڈر بھی شامل ہوتے ہیں۔
بھارتی باشندے بظاہر پاکستانی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے پاسپورٹوں پرغیر مسلم نام دیکھ کرانہیں ڈرائنگ روم میں لے جانے کی زحمت نہیں دی جاتی۔ مسلمانوں کے ساتھ امریکیوں کی اس عزت افزائی او ر حسن سلوک کے رد عمل میں امریکیوں سے نفرت کا اظہار تو کیا جاتا ہے جبکہ ان کے حکمران جی حضوری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ مسلمان کی کسی امریکی سے جھڑپ ہوجائے تو امریکی بیہودہ گالی دیتے ہوئے کہتا ہے ’’اپنے ملک دفع ہوجاؤ۔‘‘
امریکہ میں کوئی بھی اصل امریکی نہیں۔ یورپ کے غریب اور دھوکہ باز افراد اس ملک پر قابض ہوکر امریکی کہلانے لگے۔ آج ان کی نسلیں مسلمانو ں کو غلیظ گالیاں دیتی ہیں اور انہیں امریکہ سے نکال دیئے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
یہ یورپی قبضہ گروپ پاکستانی قوم کو کبھی ابھرتا ہوانہیں دیکھ سکتا۔ پاکستانیوں کو ’کمی‘ بنا کررکھنے کے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ پاکستاکی دفاعی و اقتصادی تر قی کا تصور بھی امریکہ اور بھارت کے لئے موت ہے۔
پاک چین دوستی سے پاکستان کی ترقی کے بارے میں خدشات امریکہ کے بیانات سے جھلکتے ہیں۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی او ر اقتصادی قوت نے امریکہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ صدر بش نے خاص طور پر چین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ملک میں زیادہ سے زیادہ امریکی اشیاء کی فروخت کے لئے مواقع پیدا کرے۔ ایک امریکی جریدے کے مطابق چین نے حال ہی میں اپنے بحری بیٹرے میں اضافے کے لئے متعدد طیاروں اورمیزائلوں کے سودے کئے ہیں۔ فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیاہے جوبڑھ کر 2.3 ملین ہوگئی ہے۔ چین کی فوج دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ برس چین نے اپنے فوجی بجٹ میں14 فیصد کااضافہ کیا جو بڑھ کر 35.3ملین ڈالر تک پہنچ گیاہے۔
کونڈالیزارائس نے کہا امریکی پالیسی یہ ہے کہ چین عالمی سیاست میں ذمہ دار کرداراداکرے۔ ذمہ دار کردار؟ عراق افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ کاذمہ دار کردار دنیا کے سامنے ہے، جس ملک کی چاہے اینٹ بجادیتاہے ۔ ناجائز قابض ہوجاتاہے۔ بے گناہوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا۔ شہروں کو نظر آتش کردیتا۔ نہایت غیرذمہ دار اور وحشیانہ کردار کاحامل ملک، پاکستان ،ایران،شمالی کوریا وغیرہ کی ایٹمی طاقت سے خو فزدہ ہے۔
امریکہ دنیا کا واحد غیر ذمہ دار غیر مہذب ملک ہے ۔ کسی ملک کو طاقت ور بننے نہیں دینا چاہتا۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے پاک چین دوستی کا خیر مقدم کرنے پر مجبور ہے جبکہ خدشات کااظہار بھی کرتاہے حالاں کہ پاکستان اورچین کے درمیان کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ خود بھارت کے ساتھ نیو کلئیر معاہدہ کرتا ہے۔
امریکہ کے نائب وزیر خارجہ نکولس بر نزنے ایک کانفرنس کے دوران انڈیا کو یقین دلایا کہ بھارت ایک منفرد ملک ہے جس کے ساتھ منفرد معاہدہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ایسا منفرد معاہدہ ممکن نہیں۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کے لئے دو غلا پن سے کام لیتے ہوئے بیان دیتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے۔عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جتنا اہم پارٹنر کوئی نہیں ہے۔ جنوبی ایشیاء کے خطے میں امریکہ کے دو عظیم دوست بھارت او ر پاکستان ہیں۔ امریکہ پاکستان کودہشت گردی کے خلاف جنگ کی خدمات کے عوض کبھی کبھی کچھ نہ کچھ بخشتا رہتا ہے۔
ایک دوست نے پاک امریکہ دوستی پر طنز کرتے ہوئے لطیفہ سنایا کہ ایک امریکی جوڑا لاہور گیا۔ لاہور کاشاہی قلعہ دیکھ کر بیوی نے حیرت سے اپنے گورے سے پو چھا کہ پاکستان نے ’’امریکی ایڈز‘‘ کے وجود سے پہلے اتنا عالی شان قلعہ کیسے تعمیر کرلیا تھا۔
چند ماہ پہلے ایک امریکی اخبار میں کارٹون شائع ہوا جس میں پاکستان کوامریکہ کے وفادار کتے کی صورت میں پیش کیاگیاتھا۔ پاکستانیوں میں روائتی اور لمحاتی غم وغصہ کااظہار کیا گیا۔ پاکستانی عوام اس کارٹون کی گہرائی جانے بغیر ناراض ہوگئے۔ کتا ایک وفادار جانور ہے جواسے ہڈی ڈالے اسی کے سامنے دُم ہلانے لگتا ہے ۔ مالک کے گھر کی حفاظت کرتا ہے ۔ شکار منہ میں دبوچے مالک کے قدموں میں لا پھینکتا ہے ۔ پاکستانی حکمران اپنے مالک (امریکہ) کے دشمنوں (دہشت گردوں) کوآقا کے حوالے کرتے رہتے ہیں اور آقا خوش ہوکر پیٹھ پر تھپکی دیتا رہتاہے ۔
چین پاکستان کا مخلص دوست ہے ۔ بھارت دشمن جبکہ امریکہ عیار دوست ہے ۔ دشمن کی نسبت عیار دوست زیادہ خطرناک ہوتاہے ۔ پاکستان کواستعمال کرتاہے جبکہ دفاعی واقتصادی معاملات بھارت کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک کو بھارت اور چین کی معاشی ترقی سے خطرہ لاحق ہے۔ عالمی بنک کے سربراہ نے کہا کہ یہ دونوں ممالک جنہیں ترقی پذیر ممالک سمجھا جاتاہے، ترقی یافتہ ممالک ان دونوں ممالک کی ترقی کے اثرات کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔ بھارت کا پاک چین دوستی سے حسد اور خطرہ کی عکاسی ان کامیڈیا کرتاہے ۔
ایک بھارتی اخبار لکھتاہے کہ حیرت ہے چین بھارت کوچھوڑ کر امریکہ نواز پاکستان سے تعلقات بڑھارہاہے۔ چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی اہم طاقت سمجھاجاتاہے۔ بھارت کے ساتھ چین کی حکومت تجارتی رشتے کوقائم کرنا چاہتی ہے مگر ہندوستان کوناپسند بھی کرتی ہے جبکہ پاکستان کو چین نے نہ صرف میزائل دئیے ہیں بلکہ ایٹمی ٹیکنالوجی بھی دی ہے۔ بھارت پاکستان کو امریکہ نواز کہتا ہے جبکہ امریکہ پاکستان کوایک دہشت گرد ملک سمجھتاہے۔
دنیا میں پاکستان کی اپنی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اس ملک کے لوگوں کی کوئی عزت ہے۔ حکمرانوں نے اقتدار کی ہوس کی خاطر ملک کے وقار کو داؤ پر لگا دیاہے۔ چین کی ترقی چینی قوم کی حکومت اوروہاں کے لوگوں کی محنت اور ان کے ملک کیساتھ خلوص کی وجہ سے ہے۔ پاکستانی عوام وفادار اور مخلص قیادت سے محروم ہیں وگرنہ پاکستانی محنتی اور ذہین قوم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں۔ دنیاکا کوئی ملک ایسانہیں جہاں پاکستانیوں نے اپنانام نہ بنایا ہو مگر انکے ضمیر فروش حکمرانوں نے انہیں کسی ملک میں عزت سے جینے نہیں دیا۔
(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
واقعی سندبادبھائی، اس میں سوچنے سمجھنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں لیکن بات تویہ ہے کہ میں پڑھتے ہیں سنتے ہیں اوربھول جاتے ہیں بات ہے ان کو یادرکھنے کی ان کو یادکریں گے اوراپنے ضمیرکوزندہ رکھیں گے تو ہم ترقی کی جانب پیشقدمی کریں گے لیکن ہمارا حکمران طبقہ توبس امریکہ کے آگے بھیگی بلی ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے ملک کو ایسے حکمرانوں سے نجات دے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے(آمین ثم آمین)
لیکن ان حکمران کو نامزدبھی ہم ہی کرتے ہیں اور یہ کام بھی عوام کے خلاف کرتے ہیں عوام کچھ کہتے ہیں یہ کچھ کرتے ہیں اور بس اپنی حکومت کو بچاتے ہیں۔

اللہ تعالی میرےملک پاکستان کی عوام کو وہ سوچ دے کہ وہ اپنا برا بھلا سوچ سکیں(آمین ثم آمین)

والسلام
جاویداقبال
 

زیک

مسافر
ان تھریڈز کا عنوان “آج کا منتخب کالم“ کی بجائے آج کا کالم: کالم کا عنوان رکھیں تو بہتر ہو گا کہ تھریڈ کے عنوان سے پتہ چل جائے گا کہ کس موضوع پر گفتگو ہو گی۔
 

زیک

مسافر
اس کے باوجود پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ بین الااقوامی ہوائی اڈوں پر ہوم لینڈ سیکورٹی کے ڈرائنگ روم موجود ہیں۔ مسلمان ناموں والے افراد کو اس ڈرائنگ روم میں گھنٹوں بٹھایا جاتا ہے۔ اس مہمان نوازی میں امریکی پاسپورٹ ہولڈر بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بے‌بنیاد الزام ہے۔ امریکی شہری immigration room میں نہیں جاتے۔ دوسرے جاتے ہیں مگر اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی یا مسلمان نام ہونا ضروری نہیں۔ دوسرے لوگ بھی وہاں دیکھے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب سند باد بھائی۔ بہت ساری باتیں سچی ہیں۔ لیکن جو باتیں سچی نہیں، وہ میں کچھ گوش گزار کردوں۔ میری باتوں سے یہ مت سمجھئے گا کہ میں‌ آپ کی بات کو نہیں‌مان رہا، بلکہ میں تو صرف کالم نگار سے اختلاف کر رہا ہوں

کچھ ماہ قبل میرے فِننش دوستوں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ وہ عیسائی ہیں، پیدائشی اور یہاں فن لینڈ کے رہائشی ہیں۔ امریکی ائیرپورٹس پر جیسا سلوک ہم پاکستانیوں‌ کے ساتھ پڑھتے ہیں، ویسا ہی سلوک ان لوگوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن انہوں نے اسے امریکہ کا حق گردانا اور اپنی بے عزتی تصور نہیں‌ کی

پاکستانی شہریت اور مسلمان نام کی جہاں تک بات ہے تو آپ ہی دیکھ لیں۔ ہمارے مسلمان بھائی کیا کیا نہیں‌کر رہے۔ امریکی یا دوسرے ممالک دہشت گردی کرتے ہوئے اسے عیسائیت یا مذہب کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہم امریکہ کے خلاف ہوتے ہیں نہ کی عیسائیت کے۔ لیکن جب ہمارے بھائی اپنے انفرادی فعل کو جو ان کی محدود عقل کے مطابق ہوتا ہے، اسے عین اسلام اور مسلمان ہونے کے حوالے سے ظاہر کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جوابی کاروائی کا نشانہ مسلمان بنیں گے نا
 

مہوش علی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
بہت خوب سند باد بھائی۔ بہت ساری باتیں سچی ہیں۔ لیکن جو باتیں سچی نہیں، وہ میں کچھ گوش گزار کردوں۔ میری باتوں سے یہ مت سمجھئے گا کہ میں‌ آپ کی بات کو نہیں‌مان رہا، بلکہ میں تو صرف کالم نگار سے اختلاف کر رہا ہوں

کچھ ماہ قبل میرے فِننش دوستوں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ وہ عیسائی ہیں، پیدائشی اور یہاں فن لینڈ کے رہائشی ہیں۔ امریکی ائیرپورٹس پر جیسا سلوک ہم پاکستانیوں‌ کے ساتھ پڑھتے ہیں، ویسا ہی سلوک ان لوگوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن انہوں نے اسے امریکہ کا حق گردانا اور اپنی بے عزتی تصور نہیں‌ کی

پاکستانی شہریت اور مسلمان نام کی جہاں تک بات ہے تو آپ ہی دیکھ لیں۔ ہمارے مسلمان بھائی کیا کیا نہیں‌کر رہے۔ امریکی یا دوسرے ممالک دہشت گردی کرتے ہوئے اسے عیسائیت یا مذہب کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہم امریکہ کے خلاف ہوتے ہیں نہ کی عیسائیت کے۔ لیکن جب ہمارے بھائی اپنے انفرادی فعل کو جو ان کی محدود عقل کے مطابق ہوتا ہے، اسے عین اسلام اور مسلمان ہونے کے حوالے سے ظاہر کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جوابی کاروائی کا نشانہ مسلمان بنیں گے نا

بہت درست فرمایا بھائی جی۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اخبارات میں کالم لکھنے والے لوگ بھی انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔ بلکہ بہت تنگ نظر ہیں۔ اور یہ ہماری قوم کا المیہ ہے۔

تنگ نظری سے میری مراد یہ ہے کہ ان کالم لکھنے والے دانشوروں کو دوسروں کی آنکھ کا تنکا نظر آ جاتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

مثال کے طور پر میں یہ واقعہ درج کرنا چاہتی ہوں کہ جن ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ہوا تو ہمارے ایک پاکستانی جاننے والے کے ریمارکس تھے: "ارے انہوں نے یہ دھماکہ کرنے میں دیر کر دی۔۔۔۔ انہیں چاہیئے تھا کہ بہت پہلے امریکہ میں یہ دھماکے کر چکے ہوتے۔"

میں اُس وقت سکول میں تھی اور چیزوں کا یہ رخ بالکل نیا تھا۔ بہت مشکل سے میں نے اُن کے یہ ریمارکس ہضم کیے۔

ان پاکستانی صاحب کا مزید تعارف یہ ہے کہ یہ صاحب پچھلے کئی سالوں سے اس یورپی ملک کی حکومت سے "شوشل" کھا رہے ہیں (یعنی کام کاج کچھ نہیں کرتے، بلکہ حکومت سے سے پیسہ لیکر کر بےروزگاری الاؤنس کھائے جا رہے ہیں)۔ یہی صاحب، یہاں کی پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا ہیں۔

اسکے بعد بھی، جب بھی یورپ یا امریکہ یا کہیں اور بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے، تو ان لوگوں کی مکمل ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہوتی ہیں (جو انکے نزدیک مسلمان ہونے کی وجہ سے ہیرو ہیں، اور وہ بے گناہ جو مارے گئے ہیں، وہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے مستحقِ موت تھے)۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ دھشتگردی صرف غیر مسلموں کے مقابل آ کر ختم نہیں ہو گی، بلکہ آگے بڑھ کر وقت آئے گا جب مسلم مسلم کے خلاف دھشت گردی کر رہا ہو گا۔ اگرچہ کہ ہمارے اخباری کالم لکھنے والے دانشور اس وقت بدہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں جب انہیں عراق میں معصوم جانوں پر ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں لکھنا ہوتا ہے (میرا مطلب ہے کہ وہ کبھی ان بم دھماکوں کے متعلق نہیں لکھتے کہ جہاں ایک مسلم دوسرے مسلم کو نشانہ بنا رہا ہے)۔

امریکی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت بہت اچھی چیز ہے، مگر اس سے بھی اچھی چیز ہو گی جب ہم اپنے اندر پائی جانے والی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے لگیں گے۔
 

سندباد

لائبریرین
زکریا نے کہا:
ان تھریڈز کا عنوان “آج کا منتخب کالم“ کی بجائے آج کا کالم: کالم کا عنوان رکھیں تو بہتر ہو گا کہ تھریڈ کے عنوان سے پتہ چل جائے گا کہ کس موضوع پر گفتگو ہو گی۔
زکریا بھائی آپ کی تجویز اچھی ہے لیکن اس صورت میں جب بھی نیا کالم پوسٹ کیا جائے گا اس کے لئے نیا دھاگہ کھولنا پڑے گا۔
 

سندباد

لائبریرین
زکریا نے کہا:
اس کے باوجود پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ بین الااقوامی ہوائی اڈوں پر ہوم لینڈ سیکورٹی کے ڈرائنگ روم موجود ہیں۔ مسلمان ناموں والے افراد کو اس ڈرائنگ روم میں گھنٹوں بٹھایا جاتا ہے۔ اس مہمان نوازی میں امریکی پاسپورٹ ہولڈر بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بے‌بنیاد الزام ہے۔ امریکی شہری immigration room میں نہیں جاتے۔ دوسرے جاتے ہیں مگر اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی یا مسلمان نام ہونا ضروری نہیں۔ دوسرے لوگ بھی وہاں دیکھے ہیں۔
ہوسکتا ہے آپ کی رائے ٹھیک ہو لیکن پریس میں اکثر پڑھنے میں آتا رہتا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو ‌‌ جہاز سے اتار کر ان سے تفتیش کی گئی اور تفتیش کے نتیجے میں وہ بے گناہ نکلے۔ کبھی یہ پڑھنے میں نہیں آیا کہ کسی غیر مسلم کو محض شک کی بناء پر بھی کسی فلائٹ سے اتارا گیا ہو۔ اس کو آپ کیا کہیں گے؟
 

سندباد

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
بہت خوب سند باد بھائی۔ بہت ساری باتیں سچی ہیں۔ لیکن جو باتیں سچی نہیں، وہ میں کچھ گوش گزار کردوں۔ میری باتوں سے یہ مت سمجھئے گا کہ میں‌ آپ کی بات کو نہیں‌مان رہا، بلکہ میں تو صرف کالم نگار سے اختلاف کر رہا ہوں

کچھ ماہ قبل میرے فِننش دوستوں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ وہ عیسائی ہیں، پیدائشی اور یہاں فن لینڈ کے رہائشی ہیں۔ امریکی ائیرپورٹس پر جیسا سلوک ہم پاکستانیوں‌ کے ساتھ پڑھتے ہیں، ویسا ہی سلوک ان لوگوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن انہوں نے اسے امریکہ کا حق گردانا اور اپنی بے عزتی تصور نہیں‌ کی

پاکستانی شہریت اور مسلمان نام کی جہاں تک بات ہے تو آپ ہی دیکھ لیں۔ ہمارے مسلمان بھائی کیا کیا نہیں‌کر رہے۔ امریکی یا دوسرے ممالک دہشت گردی کرتے ہوئے اسے عیسائیت یا مذہب کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہم امریکہ کے خلاف ہوتے ہیں نہ کی عیسائیت کے۔ لیکن جب ہمارے بھائی اپنے انفرادی فعل کو جو ان کی محدود عقل کے مطابق ہوتا ہے، اسے عین اسلام اور مسلمان ہونے کے حوالے سے ظاہر کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جوابی کاروائی کا نشانہ مسلمان بنیں گے نا

سب سے پہلے تو میں‌یہ وضاحت کردوں کہ ضروری نہیں‌کہ زیر نظر کالم کے تمام مدرجات کے ساتھ میرا اتفاق ہو۔ یہ تو میں نے معلومات اور ایک مخصوص موقف کو دوسرے دوستوں تک پہنچانے کی غرض سے پوسٹ کیا تھا۔ تاکہ محفل کے ساتھی اس پر تبصرہ بھی کریں۔
ظاہر ہے ایک کالم نگار بھی رائی کا پہاڑ بنا سکتا ہے اور غیر ضروری مبالغہ سے حقائق کو مسخ کرسکتا ہے۔
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہم مسلمانوں میں بعض باتیں‌ ناپسندیدہ ہیں لیکن آج کل مغرب اور امریکہ مسلمانوں پر جو بھی الزام لگاتے ہیں اس میں وہ مذہب کو غیر ضروری طور پر گھسیٹتے ہیں۔ مقصد ان کا اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بین الاقوامی الیکٹرونکس اور پرنٹ میڈیا پر غیر مسلم قوتوں کا قبضہ ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حالات اور واقعات کو اپنا رنگ دیتے رہتے ہیں۔ اس کی مثال میں یوں دوں‌گا کہ برطانیہ میں بعض اوقات مسلمان گھرانوں‌ پراس شک کی بناء پر چھاپے مارے جاتے ہیں کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور جب پولیس چھاپے مارتے ہیں تو اگلے روز اخبارات میں ان کو بہت نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ جب پولیس تفتیش کرتی ہے اور گرفتار ہوجانے والے مسلمان بے گناہ نکلتے ہیں تو ان کی بے گناہی کا تذکرہ مغربی پریس میں‌ نہیں ہوتا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر زیادتی ضرور کی جاتی ہے۔
آپ نے کبھی اخبارات میں یہ نہیں پڑھا ہوگا کہ انڈیا یا کسی اور ملک کے غیرقانونی امیگرنٹس کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا گیا بلکہ ہمیشہ پریس میں ہم یہ پڑھتے آئے ہیں کہ اتنے پاکستانیوں کو امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کے جرم میں‌گرفتار کرکے جہاز میں پابہ جولاں ڈی پورٹ کیا گیا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں صرف پاکستانی ہی غیر قانونی طور پر مقیم نہیں‌بلکہ انڈیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے غیر قانونی امیگرنٹس مقیم ہیں لیکن قانون کی گرفت میں‌ صرف مسلمان یا پاکستانی ہی آتے ہیں۔ بہرحال امریکی ائیر پورٹس پر جو سلوک پاکستانیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ہوسکتا ہے وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ بھی ہوتا ہو لیکن یہاں‌ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں اور خصوصا پاکستانیوں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ قانون بنایا گیا ھی مسلمانوں کے خلاف ہے۔
 

زیک

مسافر
سندباد نے کہا:
زکریا نے کہا:
ان تھریڈز کا عنوان “آج کا منتخب کالم“ کی بجائے آج کا کالم: کالم کا عنوان رکھیں تو بہتر ہو گا کہ تھریڈ کے عنوان سے پتہ چل جائے گا کہ کس موضوع پر گفتگو ہو گی۔
زکریا بھائی آپ کی تجویز اچھی ہے لیکن اس صورت میں جب بھی نیا کالم پوسٹ کیا جائے گا اس کے لئے نیا دھاگہ کھولنا پڑے گا۔

علیحدہ تھریڈز کی تجویز تو میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔
 

زیک

مسافر
سندباد نے کہا:
زکریا نے کہا:
اس کے باوجود پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ بین الااقوامی ہوائی اڈوں پر ہوم لینڈ سیکورٹی کے ڈرائنگ روم موجود ہیں۔ مسلمان ناموں والے افراد کو اس ڈرائنگ روم میں گھنٹوں بٹھایا جاتا ہے۔ اس مہمان نوازی میں امریکی پاسپورٹ ہولڈر بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بے‌بنیاد الزام ہے۔ امریکی شہری immigration room میں نہیں جاتے۔ دوسرے جاتے ہیں مگر اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی یا مسلمان نام ہونا ضروری نہیں۔ دوسرے لوگ بھی وہاں دیکھے ہیں۔
ہوسکتا ہے آپ کی رائے ٹھیک ہو لیکن پریس میں اکثر پڑھنے میں آتا رہتا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو ‌‌ جہاز سے اتار کر ان سے تفتیش کی گئی اور تفتیش کے نتیجے میں وہ بے گناہ نکلے۔ کبھی یہ پڑھنے میں نہیں آیا کہ کسی غیر مسلم کو محض شک کی بناء پر بھی کسی فلائٹ سے اتارا گیا ہو۔ اس کو آپ کیا کہیں گے؟

پہلے بات immigration room کی ہو رہی تھی اب جہاز سے اتارنے کی۔

جہاں تک جہاز سے اتارنے کا تعلق ہے اس میں بھی کئی کیس مسلمانوں کے ہیں اور کئی دوسروں کے۔ ایک آدھ کیس کسی ہندو یا سکھ کا بھی مجھےیاد پڑتا ہے۔ ایک یہودی کو بھی جہاز سے اتارا جا چکا ہے۔ اور بھی کئی ایسے کیس ہیں۔ اگر مجھے ان خبروں کے ربط ملے تو پوسٹ کروں گا۔
 

سندباد

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
قیصرانی نے کہا:
بہت خوب سند باد بھائی۔ بہت ساری باتیں سچی ہیں۔ لیکن جو باتیں سچی نہیں، وہ میں کچھ گوش گزار کردوں۔ میری باتوں سے یہ مت سمجھئے گا کہ میں‌ آپ کی بات کو نہیں‌مان رہا، بلکہ میں تو صرف کالم نگار سے اختلاف کر رہا ہوں

کچھ ماہ قبل میرے فِننش دوستوں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ وہ عیسائی ہیں، پیدائشی اور یہاں فن لینڈ کے رہائشی ہیں۔ امریکی ائیرپورٹس پر جیسا سلوک ہم پاکستانیوں‌ کے ساتھ پڑھتے ہیں، ویسا ہی سلوک ان لوگوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن انہوں نے اسے امریکہ کا حق گردانا اور اپنی بے عزتی تصور نہیں‌ کی

پاکستانی شہریت اور مسلمان نام کی جہاں تک بات ہے تو آپ ہی دیکھ لیں۔ ہمارے مسلمان بھائی کیا کیا نہیں‌کر رہے۔ امریکی یا دوسرے ممالک دہشت گردی کرتے ہوئے اسے عیسائیت یا مذہب کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ہم امریکہ کے خلاف ہوتے ہیں نہ کی عیسائیت کے۔ لیکن جب ہمارے بھائی اپنے انفرادی فعل کو جو ان کی محدود عقل کے مطابق ہوتا ہے، اسے عین اسلام اور مسلمان ہونے کے حوالے سے ظاہر کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جوابی کاروائی کا نشانہ مسلمان بنیں گے نا

بہت درست فرمایا بھائی جی۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اخبارات میں کالم لکھنے والے لوگ بھی انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔ بلکہ بہت تنگ نظر ہیں۔ اور یہ ہماری قوم کا المیہ ہے۔

تنگ نظری سے میری مراد یہ ہے کہ ان کالم لکھنے والے دانشوروں کو دوسروں کی آنکھ کا تنکا نظر آ جاتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

مثال کے طور پر میں یہ واقعہ درج کرنا چاہتی ہوں کہ جن ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ہوا تو ہمارے ایک پاکستانی جاننے والے کے ریمارکس تھے: "ارے انہوں نے یہ دھماکہ کرنے میں دیر کر دی۔۔۔۔ انہیں چاہیئے تھا کہ بہت پہلے امریکہ میں یہ دھماکے کر چکے ہوتے۔"

میں اُس وقت سکول میں تھی اور چیزوں کا یہ رخ بالکل نیا تھا۔ بہت مشکل سے میں نے اُن کے یہ ریمارکس ہضم کیے۔

ان پاکستانی صاحب کا مزید تعارف یہ ہے کہ یہ صاحب پچھلے کئی سالوں سے اس یورپی ملک کی حکومت سے "شوشل" کھا رہے ہیں (یعنی کام کاج کچھ نہیں کرتے، بلکہ حکومت سے سے پیسہ لیکر کر بےروزگاری الاؤنس کھائے جا رہے ہیں)۔ یہی صاحب، یہاں کی پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا ہیں۔

اسکے بعد بھی، جب بھی یورپ یا امریکہ یا کہیں اور بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے، تو ان لوگوں کی مکمل ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہوتی ہیں (جو انکے نزدیک مسلمان ہونے کی وجہ سے ہیرو ہیں، اور وہ بے گناہ جو مارے گئے ہیں، وہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے مستحقِ موت تھے)۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ دھشتگردی صرف غیر مسلموں کے مقابل آ کر ختم نہیں ہو گی، بلکہ آگے بڑھ کر وقت آئے گا جب مسلم مسلم کے خلاف دھشت گردی کر رہا ہو گا۔ اگرچہ کہ ہمارے اخباری کالم لکھنے والے دانشور اس وقت بدہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں جب انہیں عراق میں معصوم جانوں پر ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں لکھنا ہوتا ہے (میرا مطلب ہے کہ وہ کبھی ان بم دھماکوں کے متعلق نہیں لکھتے کہ جہاں ایک مسلم دوسرے مسلم کو نشانہ بنا رہا ہے)۔

امریکی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت بہت اچھی چیز ہے، مگر اس سے بھی اچھی چیز ہو گی جب ہم اپنے اندر پائی جانے والی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے لگیں گے۔

مہوش بہن میں‌ آپ کے بے لاگ خیالات کی قدر کرتا ہوں۔ آپ کی بات درست ہے۔ ہم مسلمان دو عملی کے شکار ہیں اور یورپ خصوصاً برطانیہ میں‌ رہتے ہوئے ان کے جاب سیکر الاؤنس بھی کھائیں گے اور ان کے خلاف باتیں بھی کریں گے۔ یہ منافقت ہے لیکن اس کے مقابلے میں‌ یورپ کو بھی مسلمان فوبیا ہوگیا ہے۔ وہ بھی صرف مسلمانوں کے خلاف نت نئی قانون سازی کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا جو طرز عمل آج کل دکھائی دے رہا ہے، وہ دراصل رد عمل ہے۔ جب امریکا اور یورپ سوویت یونین کے ساتھ برسر پیکار تھے تو افغانستان میں لڑنے والے مجاہد تھے۔ جب امریکا اور یورپ کا مقصد حل ہوگیا تو یہی مجاہدین دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔ جب امریکا، یورپ اور پاکستان نے ان لوگوں کو لڑنے کی تربیت دی، انہیں بے تحاشا اسلحہ اور پیسہ دیا تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ سوویت یونین کی جنگ کے خاتمہ کے بعد آرام سے بیٹھیں گے۔ امریکا اور پاکستان نے یہ غلطی کی کہ ان لوگوں کو بے شمار مختلف گروپوں کی شکل میں طاقت ور بنادیا اور جب انہوں نے جنگ کے خاتمہ کا اعلان کیا تو انہیں یوں ہی بے لگام چھوڑ دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان لوگوں سے بات چیت کی جاتی اور افغانستان میں ایک حقیقی جمہوری حکومت قائم کی جاتی اور جہادی گروپوں کو کمزور اور ختم کرانے کے لئے کوئی مربوط لائحہ عمل طے کرلیا جاتا۔ لیکن امریکہ نے ایسا نہیں‌کیا جس کا نتیجہ آج پورا جنوبی ایشیاء خاص طور پر اور پوری دنیا عمومی طور پر بھگت رہی ہے۔
امریکہ کو طالبان بھی قابل قبول تھے لیکن وہ سوویت یونین کی نو آزاد ریاستوں سے افغانستان کے راستے تیل پائپ لائن کے ذریعے تیل کا سستا حصول چاہتا تھا اور اس سلسلے میں امریکا کا طالبان کے ساتھ اگریمنٹ بھی قریبا ہو چکا تھا(اس وقت طالبان کا ایک وفد واشنگٹن بھی گیا تھا) لیکن اسامہ کی مداخلت پر طالبان نے امریکا کے ساتھ ایگریمنٹ ختم کرکے ایک دوسرے یورپی ملک کے ساتھ اپنی شرائط پر معاہدہ کرنا چاہا تھا۔ (اس یورپی ملک کا نام میں اب بھول گیا ہوں) یہیں سے امریکا اور طالبان میں مخالفت پیدا ہوگئی تھی۔
آپ بھی سوچتی ہوں گی کہ میں کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا لیکن جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ بعض مسلمانوں کی ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور جب امریکا کے ٹون ٹاؤر پر حملہ کیا گیا تو آپ کے ایک جاننے والے پاکستانی کے ریمارکس تھے کہ یہ حملہ پہلے ہونا چاہئے تھا۔ در اصل ان تمام چیزوں کی وجوہات تلاش کرنی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اس قسم کے خیالات اور جذبات پیدا ہو رہے ہیں؟
آپ کو معلوم ہوگا کہ امریکا اور برطانیہ نے جن الزامات کے تحت عراق پر حملہ کیا تھا، وہ جھوٹے تھے۔ آپ کو فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار کا بھی پتہ ہوگا کہ وہاں جو زیادتیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہوتی ہیں، امریکا اور مغرب اس پر مہر بہ لب ہیں۔
صدام حسین جب امریکا اور یورپ کا مقصد پورا (یعنی ایران کے ساتھ جنگ) کر رہا تھا، تو اس کے تمام گناہ معاف تھے اور جب وہاں بھی ان کا مقصد حل ہوگیا تو آج وہ صدام کو پھانسی کی سزا دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ صدام حسین کی بے وقوفی کی وجہ سے آج امریکا کی افواج مشرق وسطیٰ میں موجود ہیں۔ اور امریکہ کو ایسے بے وقوف کی جب ضرورت تھی تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن جب اس کا مقصد پورا ہوگیا اور صدام کی مزید بے وقوفی (اس نے اپنی بین الاقوامی تجارت ڈالر کی بجائے یورو میں شروع کی تھی اور دوسرے ممالک بھی یورو میں اپنی تجارت کا سوچ رہے تھے) سے جب امریکا نے خطرہ محسوس کیا تو اس پر ایک بے بنیاد الزام لگا کر اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔

اتنا تفصیلی طور پر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان آج کل جو کر رہے ہیں یہ عالمی سطح پر امریکہ کی یک طرفہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کا رد عمل ہے۔

آپ کی یہ بات مجھے بے حد اچھی لگی کہ امریکا کے خلاف مزاحمت اچھی چیز ہے مگر اس سے بھی اچھی چیز ہو گی جب ہم اپنے اندر پائی جانے والی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے لگیں گے۔
 

سندباد

لائبریرین
زکریا نے کہا:
سندباد نے کہا:
زکریا نے کہا:
اس کے باوجود پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ بین الااقوامی ہوائی اڈوں پر ہوم لینڈ سیکورٹی کے ڈرائنگ روم موجود ہیں۔ مسلمان ناموں والے افراد کو اس ڈرائنگ روم میں گھنٹوں بٹھایا جاتا ہے۔ اس مہمان نوازی میں امریکی پاسپورٹ ہولڈر بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بے‌بنیاد الزام ہے۔ امریکی شہری immigration room میں نہیں جاتے۔ دوسرے جاتے ہیں مگر اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی یا مسلمان نام ہونا ضروری نہیں۔ دوسرے لوگ بھی وہاں دیکھے ہیں۔
ہوسکتا ہے آپ کی رائے ٹھیک ہو لیکن پریس میں اکثر پڑھنے میں آتا رہتا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو ‌‌ جہاز سے اتار کر ان سے تفتیش کی گئی اور تفتیش کے نتیجے میں وہ بے گناہ نکلے۔ کبھی یہ پڑھنے میں نہیں آیا کہ کسی غیر مسلم کو محض شک کی بناء پر بھی کسی فلائٹ سے اتارا گیا ہو۔ اس کو آپ کیا کہیں گے؟
پہلے بات immigration room کی ہو رہی تھی اب جہاز سے اتارنے کی۔

جہاں تک جہاز سے اتارنے کا تعلق ہے اس میں بھی کئی کیس مسلمانوں کے ہیں اور کئی دوسروں کے۔ ایک آدھ کیس کسی ہندو یا سکھ کا بھی مجھےیاد پڑتا ہے۔ ایک یہودی کو بھی جہاز سے اتارا جا چکا ہے۔ اور بھی کئی ایسے کیس ہیں۔ اگر مجھے ان خبروں کے ربط ملے تو پوسٹ کروں گا۔

زکریا بھائی ! آپ نے اخبارات میں یہ بھی پڑھا ہوگا کہ امریکہ میں سکھوں کو مسلمان سمجھ کر ان پر حملے کئے گئے۔ امیگریشن روم اور جہاز سے اتارنے کے عمل میں ایک ہی جذبہ کارفرما ہے اور وہ ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کا۔ دونوں میں مطابقت ہے اس لئے یہ بات لکھی میں نے۔ بہر حال ہر شخص کی اپنی سوچ اور رائے ہوتی ہے اور میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔
 

زیک

مسافر
سندباد نے کہا:
آج کل مغرب اور امریکہ مسلمانوں پر جو بھی الزام لگاتے ہیں اس میں وہ مذہب کو غیر ضروری طور پر گھسیٹتے ہیں۔ مقصد ان کا اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔

یہ کچھ حد تک ہوتا ہے مگر اس کے قصوروار صرف وہ نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں کہ ہم بھی ہر معاملے میں مذہب کو غیرضروری طور پر گھسیٹتے ہیں۔

برطانیہ میں بعض اوقات مسلمان گھرانوں‌ پراس شک کی بناء پر چھاپے مارے جاتے ہیں کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور جب پولیس چھاپے مارتے ہیں تو اگلے روز اخبارات میں ان کو بہت نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ جب پولیس تفتیش کرتی ہے اور گرفتار ہوجانے والے مسلمان بے گناہ نکلتے ہیں تو ان کی بے گناہی کا تذکرہ مغربی پریس میں‌ نہیں ہوتا۔

یہ مسلمانوں کے معاملات تک محدود نہیں۔ کسی بھی جرم، مجرم یا ملزم کے متعلق خبر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

مگر exceptions بھی ہوتی ہیں۔ برینڈن میفیلڈ ایک امریکی مسلمان ہے۔ سپین میں ٹرین کے دھماکوں کے بعد اسے گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ پکڑے رکھا۔ پھر پتہ چلا کہ ایف‌بی‌آئی کی غلطی تھی۔ اسے چھوڑ دیا گیا۔ اس نے مقدمہ کر دیا جو حال ہی میں امریکی حکومت نے اسے 20 لاکھ ڈالر اور معافی کے عوض سیٹل کیا ہے۔

آپ نے کبھی اخبارات میں یہ نہیں پڑھا ہوگا کہ انڈیا یا کسی اور ملک کے غیرقانونی امیگرنٹس کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا گیا بلکہ ہمیشہ پریس میں ہم یہ پڑھتے آئے ہیں کہ اتنے پاکستانیوں کو امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کے جرم میں‌گرفتار کرکے جہاز میں پابہ جولاں ڈی پورٹ کیا گیا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں صرف پاکستانی ہی غیر قانونی طور پر مقیم نہیں‌بلکہ انڈیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے غیر قانونی امیگرنٹس مقیم ہیں لیکن قانون کی گرفت میں‌ صرف مسلمان یا پاکستانی ہی آتے ہیں۔

پھر غلط۔ لگتا ہے کہ آپ پاکستانی اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں پاکستانیوں ہی کے متعلق خبریں ہوں گی۔ ورنہ بہت سے ملکوں کے لوگ ڈیپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ شاید اپنی تعداد کے حساب سے پاکستانی (بلکہ وہ سارے ممالک جنہیں کچھ عرصہ سپیشل رجسٹریشن کرانا پڑتی تھی) زیادہ ڈیپورٹ ہوئے ہیں مگر صرف وہی نہیں ہوئے۔
 

سندباد

لائبریرین
زکریا نے کہا:
سندباد نے کہا:
آج کل مغرب اور امریکہ مسلمانوں پر جو بھی الزام لگاتے ہیں اس میں وہ مذہب کو غیر ضروری طور پر گھسیٹتے ہیں۔ مقصد ان کا اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔

یہ کچھ حد تک ہوتا ہے مگر اس کے قصوروار صرف وہ نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں کہ ہم بھی ہر معاملے میں مذہب کو غیرضروری طور پر گھسیٹتے ہیں۔

برطانیہ میں بعض اوقات مسلمان گھرانوں‌ پراس شک کی بناء پر چھاپے مارے جاتے ہیں کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور جب پولیس چھاپے مارتے ہیں تو اگلے روز اخبارات میں ان کو بہت نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ جب پولیس تفتیش کرتی ہے اور گرفتار ہوجانے والے مسلمان بے گناہ نکلتے ہیں تو ان کی بے گناہی کا تذکرہ مغربی پریس میں‌ نہیں ہوتا۔

یہ مسلمانوں کے معاملات تک محدود نہیں۔ کسی بھی جرم، مجرم یا ملزم کے متعلق خبر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

مگر exceptions بھی ہوتی ہیں۔ برینڈن میفیلڈ ایک امریکی مسلمان ہے۔ سپین میں ٹرین کے دھماکوں کے بعد اسے گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ پکڑے رکھا۔ پھر پتہ چلا کہ ایف‌بی‌آئی کی غلطی تھی۔ اسے چھوڑ دیا گیا۔ اس نے مقدمہ کر دیا جو حال ہی میں امریکی حکومت نے اسے 20 لاکھ ڈالر اور معافی کے عوض سیٹل کیا ہے۔

آپ نے کبھی اخبارات میں یہ نہیں پڑھا ہوگا کہ انڈیا یا کسی اور ملک کے غیرقانونی امیگرنٹس کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا گیا بلکہ ہمیشہ پریس میں ہم یہ پڑھتے آئے ہیں کہ اتنے پاکستانیوں کو امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کے جرم میں‌گرفتار کرکے جہاز میں پابہ جولاں ڈی پورٹ کیا گیا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں صرف پاکستانی ہی غیر قانونی طور پر مقیم نہیں‌بلکہ انڈیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے غیر قانونی امیگرنٹس مقیم ہیں لیکن قانون کی گرفت میں‌ صرف مسلمان یا پاکستانی ہی آتے ہیں۔

پھر غلط۔ لگتا ہے کہ آپ پاکستانی اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں پاکستانیوں ہی کے متعلق خبریں ہوں گی۔ ورنہ بہت سے ملکوں کے لوگ ڈیپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ شاید اپنی تعداد کے حساب سے پاکستانی (بلکہ وہ سارے ممالک جنہیں کچھ عرصہ سپیشل رجسٹریشن کرانا پڑتی تھی) زیادہ ڈیپورٹ ہوئے ہیں مگر صرف وہی نہیں ہوئے۔
ڈی پورٹ کے بارے میں آپ کی بات زیادہ صحیح ہے۔
لیکن پاکسانیوں کے ساتھ ڈی پورٹ کے وقت َخصوصی سلوکَ کیا جاتا ہے۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
بہت سیرحاصل بحث ہوئی ہے واقعی علم میں بہت اضافہ ہواہے بھائی زکریا اورسندباداورسسٹرمہوش بہت خوب اچھا سلسلہ ہے۔

والسلام
جاویداقبال
 
Top