پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی، تب بھی اس کے پاس کوئی معاشی وژن نہیں تھا۔ جس حکومت کو یہ علم نہیں تھا کہ اسے پہلے 3 سال کے دوران 38 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے۔ جس حکومت نے دعوے کیے ہوں کہ اس کے پاس 100 بہترین بندوں کی ٹیم ہے،جو کہتی رہی ہو کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا غداری ہو گی اوروہ پہلے 6 ماہ میں ہی ہاتھ اٹھا کر اتنی سخت شرائط پر قرضے لے لے جس کی پہلی شرط کے طور پر روپے کی قدر اتنی گرا دی جائے کہ اگر وہ پہلے 3 سال جیسے تیسے کر کے 38 ارب ڈالر ادا بھی کر دے تو جس طرح بیٹھے بٹھائے روپے کی قدر گرانے سے آگے کنواں پیچھے کھائی والی پوزیشن میں آ گئی ہے اس سے ممکن نہیں لگتا کہ یہ 5 سال بھی اس مشکل سے نکل سکے۔ ملکی معیشت کو سہارہ دینے کے لیے مہنگائی بھی کی گئی، ٹیکس بھی بڑھے مگر روپے کی قدر سے جو گڑھا کھد گیا تھا وہ پاٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ اب تو لانے والے بھی مشکل میں ہیں، کیسا محکمۂ زراعت ہے کو اس نے جس جس شخصیت پر بھی سیاسی جؤا کھیلا ان میں سے ذہنی اعتبار سے کوئی گدھا نکلا کوئی خچر اور کوئی اونٹ۔ ایک ہی حل ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جا کر نئے سرے سے بات چیت کر کے معاشی حالات میں بہتری لانے کےلیے سکٹ تر شرائط کو نرم کروایا جائے وگرنہ دیر ہو جائے گی۔