آج کی تازہ بہ تازہ گرم خبریں

ڈالر 164 سے 154 روپے پر واپس آیا ہے اور وہ بھی مارکیٹ میں بغیر ڈالر پھینکے۔
Screenshot-2020-02-10-Pakistan-Rupee-2001-2020-Data-2021-2022-Fo.png

جی بلکل
 

جاسم محمد

محفلین
اس کی کیا وجہ ہے ہمیں کچھ انڈیپنڈنٹ یوٹیوب چینل تو دکھائی دیتی ہیں پر تحریک انصاف کی جانب سے ایک بھرپور کاوش نہیں دکھائی دیتی
یہ پارٹی کا آفیشل یوٹیوب چینل ہے۔
Pakistan Tehreek-e-Insaf

اس پر ابھی کام ہو رہا ہے اس لئے زیادہ ویڈیوز نہیں ڈالی گئی۔
 

زیرک

محفلین
سابقہ حکومت میں وزیر دفاع سے لے کر وزیر اعظم تک کے پاس دوسرے ممالک کے اقامے تھے۔ جب اس وقت کچھ نہیں ہوا تو اب کیسا ڈر و خطرہ؟
کھوتا سرکار کے مرید ہو ناں، اقامہ یعنی ریزیڈنسی اور شہریت کو آپس میں ملا رہے ہو۔ شہریت اور معاملہ ہے اور ورک پرمٹ یا ریزیڈنسی الگ، میں تو ورک پرمٹ یا ریزیڈنسی کے بھی خلاف تھا، لیکن تم جیسے شخصیات کا بت پوجنے والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔
 

زیرک

محفلین
ڈالر 164 سے 154 روپے پر واپس آیا ہے اور وہ بھی مارکیٹ میں بغیر ڈالر پھینکے۔
یہ جب کِٹی میں کچھ نہیں ہوتا تو شرح مبادلہ اوپر ہی رہا کرتی ہے، شکریہ ادا کرو بیرون ملک پاکستانیوں کا جنہوں نے پچھلی دو دھائیوں میں وافر مقدار میں زرمبادلہ بھیجا، امریکا اور برطانیہ سے پاکستانیوں نے بڑی انویسٹمنٹ کی ہے۔سب سے بڑھ کر امپورٹس پر پابندی ہے جس کی وجہ سے بھی ڈالر کا آؤٹ فلو کم ہوا ہے جس سے ریٹ بہتر ہوا ہے گو کہ اس سے ملک میں پروڈکشن میں کمی آئی ہے۔ پھر قرض بھی ملا جب خزانے میں مال آ جائے تو شرحِ مبادلہ بہتر ہوتی ہے، ڈالر اور پاؤنڈز کی قدر میں بھی کمی سے روپے کی قدر بہتر ہوئی ہے، سب سے بڑھ کر آئل کی قیمتوں میں کمی سے بھی بچت ہوئی ہے۔ لیکن تم اسے کسی کا کرشمہ کہو گے جبکہ میں باقی معاملات ذہن میں رکھ کر جائزہ لیا کرتا ہوں۔
 

زیرک

محفلین
اب وہ پرانا امپورٹ کرکے پروڈکشن اور معیشت بڑھانے والا ماڈل ختم ہو چکا ہے۔ اب ایکسپورٹس بڑھا کر معیشت بڑھانے کا ماڈل استعمال ہو گا۔ چیخیں تو نکلیں گی۔
عوام کی ہی نکلتی سن رہا ہوں، خواص پہ کب ہاتھ ڈالو گے؟
 

جاسم محمد

محفلین
عوام کی ہی نکلتی سن رہا ہوں، خواص پہ کب ہاتھ ڈالو گے؟
72 سالوں کا گند دو سال میں صاف نہیں ہوگا۔

مڈل کلاس سے ورکنگ کلاس کی طرف
ظہیر اختر بیدری پير 10 فروری 2020
پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اشرافیائی ملک ہے، اور اشرافیہ نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کب تک اشرافیہ کے غلام سے رہیں گے۔ اشرافیہ آج کل اقتدار سے باہر ہے اور اس ’’ظلم‘‘ کے خلاف اشرافیہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر شور مچا رہی ہے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور ناانصافی ہوئی جس کا ازالہ ضروری ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔‘‘ اشرافیہ سے عوام کیا کٹ گئے ہیں کہ اشرافیہ کی ٹانگیں اور ناک دونوں کٹ گئے ہیں۔

ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ ہر علاقے سے کچھ سپورٹر ہائرکر لیے جاتے تھے اور یہ سپورٹر زبان قومیت اور ذات برادری کے حوالے سے عوام تک رسائی حاصل کر کے اور علاقائی چوہدریوں کو خرید کر انتخابات میں ووٹ حاصل کر لیتے تھے اور بڑے ٹھاٹھ سے حکومت کرتے تھے لیکن برا ہو عمران خان کا کہ اس نے اشرافیہ کے اربوں روپوں کی کرپشن کا بھانڈا اس طرح پھوڑا کہ عوام اشرافیہ سے بدظن ہی نہیں ہوئے بلکہ متنفر بھی ہو گئے۔ ماضی میں اپنے حواریوں کے ذریعے عوام کو گھیر کر بڑے بڑے جلسے جلوس کروا لیتے تھے اور اس بھیڑ بھاڑ کو اپنی طاقت بتاتے تھے اور اسی مصنوعی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض رہتے تھے اب چونکہ عوام اشرافیہ سے بدظن ہی نہیں متنفر بھی ہو گئے ہیں اس لیے عوامی مقبولیت کا یہ فریب ختم ہو گیا ہے اور حکومت کو بلیک میل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

سب طرف سے مایوس اشرافیہ نے ایک موثر سازش یہ شروع کی ہے کہ عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کے لیے اپنے حلقہ اثر سے کام لیتے ہوئے ملک بھر میں مصنوعی مہنگائی کا موثر تیر چلایا ہے، ظاہر ہے عام غریب آدمی اس کمر توڑ مہنگائی سے سخت پریشان ہے اور فطری طور پر حکومت سے ناراض ہو رہا ہے۔ عوام کی ناراضگی کو پکا کرنے کے لیے مہنگائی کی ذمے داری حکومت پر ڈال کر عوام کو حکومت سے بدظن کرنے اور ہلہ گلہ کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مہنگائی سمیت جو مسائل سر اٹھا رہے ہیں اس میں حکومت کی نااہلی کا بھی دخل ہے لیکن اصل وجہ ماضی کی دس سالہ حکومتوں کے دوران لیے گئے 24 ہزار ارب قرضوں کا بھی بڑا دخل ہے لیکن ہماری حکومت کی ایک بڑی نااہلی یہ ہے کہ اس کا میڈیا مسلسل انتہائی نکما کمزور اور نااہل ہے وہ ماضی کی حکومتوں کی نا اہلیوں کو عوام کے سامنے موثر طریقے سے پہنچانے میں ناکام رہا ہے جس کا لازمی نتیجہ حکومت کی نا اہلی کی شکل میں عوام کے سامنے آ رہا ہے۔ عوام حکومت سے بدظن اور مایوس ہو رہے ہیں، دوسری وجہ حکومت کے اندر کا خلفشار اور اتحادیوں کی ناراضگی ہے۔

موجودہ پی ٹی آئی حکومت اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہی ہے، اتحادیوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ حکومت انھیں ’’ترقیاتی فنڈ‘‘ نہیں دے رہی ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قابو میں رکھنے کے لیے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے دیے جاتے تھے جو کہ عوام کی ترقی کے بجائے فنڈ حاصل کرنے والوں کی ترقی پر خرچ ہو جاتے تھے۔ یہ سلسلہ ہماری نام نہاد جمہوریت میں جاری رہا ہے۔

ہماری جمہوریت عملاً اشرافیہ کی جاگیر بنی ہوئی ہے۔ صرف چند خاندان ہیں جو مستقل سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں اور ارب پتی بنے ہوئے ہیں ترقیاتی کاموں کے نام پر اربوں کے فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں اس کے علاوہ کرپشن اشرافیہ کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پچھلے 15-16 ماہ سے ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے احتساب کے نام پر جو مذاق کر رہے ہیں اس کا اشرافیہ پر بال برابر اثر نہیں ہوا۔ یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی اتنی بڑی ناکامی ہے کہ اشرافیہ اس ناکامی سے اور زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور زیادہ نڈر ہو کر حکومت کو وارننگ دے رہی ہے کہ وہ حکومت چھوڑ دے۔ ہماری اشرافیہ حکومت گرانے کی بات اس طرح کرتی ہے جیسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ناجائز تعمیرات گرانے کی بات کرتی ہے، یہ صورتحال حکومت کے لیے الارمنگ ہے۔

جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے بتایا گیا ہے لیکن ہماری جمہوریت کا حال یہ ہے کہ اشرافیہ کی حکومت، اشرافیہ کے لیے، اشرافیہ کے ذریعے بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں وزیر اعظم ہمیشہ اشرافیہ کا ہوتا ہے جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں وزیر اعظم کا تعلق نچلے طبقات سے ہوتا ہے۔ آج کل بھارت کا وزیر اعظم ایک ڈھابے پر کام کرنے والا چائے والا ہے۔ نریندر مودی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ نچلے طبقات کے ساتھ گزرا ہے۔ مودی کے وزیر اعظم بننے سے بھارت کی وزارت عظمیٰ کو اعزاز ملا ہے کہ آج ایک نچلے طبقے کا فرد دنیا کے دوسرے بڑے ملک کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے۔ یہ اعزاز وزیر اعظم کو نہیں بلکہ وزارت عظمیٰ کو ملا ہے۔

پاکستان میں 72 سال سے اشرافیہ کا جو ناٹک جاری ہے اسے اب ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس سے ہے وہ بھی نیم دروں نیم بروں ہے ہماری وزارت عظمیٰ میں یہ تبدیلی کہ 72 سال بعد مڈل کلاس کا ایک شخص وزیر اعظم بنا ہے، ایک اچھی اور مثبت علامت ہے لیکن اب دوبارہ عوام کے سروں پر اشرافیہ کا وزیر اعظم مسلط نہیں ہونا چاہیے بلکہ اب ملک کا وزیر اعظم ورکنگ کلاس یعنی مزدوروں کسانوں اور غریب طبقات سے ہونا چاہیے کیونکہ انھیں طبقات کی اکثریت ہے اور اکثریت کا نمایندہ ہی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
 

زیرک

محفلین
"بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کا جنازہ نکال دیا": شاہ محمود قریشی
"اور تبدیلی سرکار نے یہ کارنامہ پاکستان میں انجام دیا ہے"۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپنے لیڈر سے پوچھو کہ پرویز مشرف کے گھر میں لنگر خانہ کب کھول رہا ہے؟
اشرافیہ اسحاق ڈار کے گھر میں کھولا گیا لنگر خانہ لوہار ہائی کورٹ سے بند کروا کر ، اس پر بھنگڑے ڈال کر، حکومت کو گالیاں دے کر، فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے اشرافیہ پرویز مشرف کے گھر میں لنگر خانہ کب کھول رہے ہیں۔ :)
اگر وہاں کھول بھی دیا گیا تو یہی کچھ ہی ہونا ہے جو اسحاق ڈار کے گھر کے ساتھ ہوا ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
صرف لنک لگایا کرو، وہی کافی ہوتا ہے پوری اخبار کاپی کر کے لگانے کا کوئی فائدہ؟۔
جو گند تم لوگ ڈال رہے ہو اس کی سزا فی الحال عوام اور بعد میں ملک نے بھگتنا ہے
بے فکر رہیں۔ اس حکومت کا ڈالا ہوا گند پچھلی حکومت کی طرح ملک کو دیوالیہ کرکے نہیں جائے گا۔
 

زیرک

محفلین
اشرافیہ اسحاق ڈار کے گھر میں کھولا گیا لنگر خانہ لوہار ہائی کورٹ سے بند کروا کر ، اس پر بھنگڑے ڈال کر، حکومت کو گالیاں دے کر، فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے اشرافیہ پرویز مشرف کے گھر میں لنگر خانہ کب کھول رہے ہیں۔ :)
اگر وہاں کھول بھی دیا گیا تو یہی کچھ ہی ہونا ہے جو اسحاق ڈار کے گھر کے ساتھ ہوا ہے ۔
یہی سمجھانے کے لیے پوسٹ کیا تھا، کہ ہر کھڈ میں انگلی نہیں کرتے۔
ویسے لیڈر شپ سے لے کر عام کارکنوں تک کو خواہ مخواہ بزتی کروانے کا شوق ہے یا عادت ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
"بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کا جنازہ نکال دیا": شاہ محمود قریشی
"اور تبدیلی سرکار نے یہ کارنامہ پاکستان میں انجام دیا ہے"۔
معیشت کا جنازہ:
Pakistan's banking system forecasted to be 'stable' for 12-18 months: Moody's
Moody’s upgrades Pakistan’s outlook to stable
Fitch affirms Pakistan's credit profile as B- with stable outlook
 

جاسم محمد

محفلین
یہی سمجھانے کے لیے پوسٹ کیا تھا، کہ ہر کھڈ میں انگلی نہیں کرتے۔
ویسے لیڈر شپ سے لے کر عام کارکنوں تک کو خواہ مخواہ بزتی کروانے کا شوق ہے یا عادت ہے؟
یہی سمجھانے کیلئے اسحاق ڈار کا گھر لنگر خانہ میں تبدیل کیا تھا کہ جب حکومت اشرافیہ پر ہاتھ ڈالتی ہے تو ان کی حامی عدالتیں "انصاف" کا انبار لگا دیتی ہیں۔
اسی لئے 72 سالوں سے اشرافیہ آئین، قانون اور حکومت رٹ سے بالا تر زندگی گزار رہا ہے۔
 

زیرک

محفلین
بنکنگ سسٹم کو ٪12.25شرح سود بچا رہی ہے ورنہ وہ تو فارغ ہو گئے تھے، بنکوں کو بچانا بھی ایک آخری حربہ تھا کیونکہ جب باہر سے قرضہ نہ ملے تو انہی سے لینا ہے ناں۔ پڑوسی دوست تو اب ہاتھ اٹھا بیٹھے۔
 

زیرک

محفلین
یہی سمجھانے کیلئے اسحاق ڈار کا گھر لنگر خانہ میں تبدیل کیا تھا کہ جب حکومت اشرافیہ پر ہاتھ ڈالتی ہے تو ان کی حامی عدالتیں "انصاف" کا انبار لگا دیتی ہیں۔
اسی لئے 72 سالوں سے اشرافیہ آئین، قانون اور حکومت رٹ سے بالا تر زندگی گزار رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں لیکن تم لوگوں نے قانون نہیں پڑھا کہ جب ایک معاملہ عدالت میں ہو تو اسے نہیں چھیڑتے، اب چھیڑ بیٹھے ہو تو بھگتو۔
 
Top