جب تک ٹیکسز کا بوجھ ساری اکائیوں پر نہیں ڈالا جاتا، تب تک ریونیوز اوپر نہیں جا سکتے۔
پاکستان عظیم انتہاؤں کا ملک ہے۔ یہاں مرغی سے سونے کا انڈہ حاصل کرنے کے چکر میں مرغی کا ہی گلا دبا دیا جاتا ہے۔
جب اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا وقت تھا تو ان کی ساری املاک پکڑ کر نیشنلائز کر دی گئی تھی۔ اور اب جب کہ اشرافیہ جو مافیا بن چکا ہے کی املاک نیشلائز کرنے کا وقت ہے تو ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔
معیشت پر بات سنبھل کر کریں
05/02/2020 حبیب اکرم
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم پاکستان کے پلاننگ کمیشن میں کام کیا کرتے تھے۔ دنیا کی جانی مانی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ تھے اور معاشیات سے انہیں ایسا شغف تھا جو کہیں خال خال ہی ملا کرتا ہے۔ اپنی اعلیٰ تعلیم اور کام سے محبت کی وجہ سے وہ بہت تیزی سے ترقی پاتے ہوئے تیس برس کے ہونے سے پہلے ہی چیف اکانومسٹ کے درجے تک جا پہنچے تھے۔ پاکستان ساٹھ کی دہائی میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایسا ملک تھا جو ابھی آزاد معیشت سے ہم آہنگ نہ ہوا تھا‘ اس لیے یہاں کاروبار اور حکومت کے درمیان ایسا پراسرار تعلق تھا (اور کسی درجے میں آج بھی ہے) کہ جو شخص جتنا حکومت کے قریب رہتا اتنی ہی تیزی سے امیر ہوتا جاتا۔
ڈاکٹر محبوب الحق جدید معاشیات سے خوب واقف تھے بلکہ اس وقت چیف اکانومسٹ ہونے کے ناتے جو کچھ ہو رہا تھا کسی نہ کسی درجے میں اس کے حصہ دار بھی تھے۔ ایک ابھرتے ہوئے ملک کے چیف اکانومسٹ سے توقع ہوتی ہے کہ وہ منہ کھولنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لے گا، اور ڈاکٹر محبوب الحق کو جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کچھ کہا کرتے تھے۔ انیس سو اڑسٹھ میں معاشیات پر ایک سیمینار میں انہیں مدعو کیا گیا‘ جہاں پاکستانی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا، ”پاکستان کی معیشت پر صرف بائیس گھرانے قبضہ کیے ہوئے ہیں، بیاسی فیصد بینکنگ اور چھیاسٹھ فیصد صنعتیں ان کی ملکیت ہیں۔ یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ جیسے چاہیں معیشت کو اپنے حساب سے توڑ مروڑ لیتے ہیں‘‘۔
ان کا یہ بیان اگلے روز کے اخبارات میں چھپا تو ذوالفقار علی بھٹو‘ جو اس وقت تک جنرل ایوب خان کی مخالفت میں سرگرم ہوچکے تھے، یہ بیان لے اڑے۔ انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے ساتھ بائیس خاندانوں کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا کہ مغربی پاکستان میں نہ صرف الیکشن جیت گئے بلکہ جب وزیراعظم بنے تو وہ بڑے سرمایہ کاروں کے خلاف اتنی نفرت پیدا کرچکے تھے کہ انہیں تمام بڑے کارخانے اور بینک سرکاری تحویل میں لینا پڑے۔
یہ ایسا اقدام تھا جس نے پاکستان کو تباہی، پسماندگی اور غربت میں ایسا دھکیلا کہ آج تک ابھر نہیں پا رہا۔