آج کی حدیث مبارک

سیما علی

لائبریرین
wtwRu8n_d.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ فِي صِفَةِ الْمَارِقَةِ)


حکم : حسن صحیح (الألباني)

2188. حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ وَصَفَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ إِنَّمَا هُمْ الْخَوَارِجُ الْحَرُورِيَّةُ وَغَيْرُهُمْ مِنْ الْخَوَارِجِ

جامع ترمذی:

كتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں

Tamheed.png
(باب: خوارج کی پہچان)


مترجم: ٢. فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی ومجلس علمی(دار الدعوۃ، نئی دہلی)


2188. عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:' آخری زمانہ ۱؎ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نو عمراورسطحی عقل والے ہوں گے ، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیرآرپارنکل جاتا ہے '۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- دوسری حدیث میں نبی اکرمﷺ سے مروی ہے جس میں آپ نے انہیں لوگوں کی طرح اوصاف بیان کیا کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے ، مگران کے گلے کے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیرنکل جاتا ہے ، ان سے مقام حروراء کی طرف منسوب خوارج اوردوسرے خوارج مرادہیں،۳- اس باب میں علی ، ابوسعیداور ابوذر‬ ؓ س‬ے بھی احادیث آئی ہیں۔

https://mohaddis.com/View/Tarimdhi/T2/2188
 

سیما علی

لائبریرین
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ".

ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابوعامر عقدی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

صحيح بخاري
 

سیما علی

لائبریرین
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، قَالَ: " كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ يَعْدُهُ وَلَمْ يُقَصِّرْ دُونَهُ ".
ابو جعفر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتے تو نہ اس میں کچھ بڑھاتے، اور نہ ہی کچھ گھٹاتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۷۴۴۲، ومصباح الزجاجة: ۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۸۲)، سنن الدارمی/المقدمة ۳۱ (۳۲۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی وہ حدیث کی روایت میں حد درجہ محتاط تھے، الفاظ کی پوری پابندی کرتے تھے، اور ہوبہو اسی طرح روایت کرتے جس طرح سنتے۔
 

سیما علی

لائبریرین
رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا”جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور(رشتے داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے‘‘ (بخاری شریف)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم) کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم) مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجئے کہ اگر میں اس پر عمل پیرا ہوں تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز پابندی سے پڑھو اور فرض کی گئی زکوة ادا کرو اور رمضاں کے روزے رکھو، دیہاتی نے یہ سن کر کہا قسم ہے اس اللہ کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں کبھی اس میں کمی بیشی نہیں کروں گا پھر جب وہ پشت پھیر کر چلا گیا تو رسول اللہ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم) نے فرمایا جس آدمی کو جنتی آدمی دیکھنے سے خوشی ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔

[ صحیح مسلم، جلد:1 ، کتاب الایمان، حدیث:106 ]
 
‏جو جانتے ہوئے ظالم کی مدد کو چلا جائے وہ اسلام سے خارج ہوگیا (مشکوٰۃ شریف باب ظلم ص/۴۳۶)
جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ اللہ کے احکامات کو ناماننا اور صحیح راستے سے ہٹ جانے والا ظالم کہلاتا ہے اور خود سخت سزا پاتا ہے لیکن جو ایسےظالم کی مدد کرتا ہے وہ بھی داٸرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے
مذکورہ حدیث کی رو سےاقربا پروری کرنا ، ناجاٸز سفارش کرنا یا سفارش مان کر میرٹ نظرانداز کر دینا ، رشوت لے کر ناجاٸز کام بھی کر دینا وغیرہ سب ظالم کی مدد کرنے کے مصداق ہے اور داٸرہ اسلام سے خارج ہو جانا ہے
 
ایک صحابی حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کی پٹائی کر رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود ! جتنی قدرت تم اس پر رکھتے ہو، اس سے کہیں زیادہ قدرت والا تمہارے اوپر بھی موجود ہے۔ تم نے اپنے آپ کو مالک سمجھ کے مارا ہے، تو تمہارا بھی کوئی مالک ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جناب نبی کریمؐ تھے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اللہ کی خاطر اسے کو آزاد کر دیا۔ فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی۔ (مسلم، رقم ۳۱۳۵، ۳۱۳۶)
 
رسول ﷺ نے فرمایا جیسے تمہارے اعمال ہوں گے اسی طرح کے تم پر حکمران مقرر کیے جائیں گے۔
(مشکوۃ کتاب الامارۃ)
 
Top