آج کی حدیث مبارک

سیما علی

لائبریرین
قیامت کےدن وہ آدمی میرے زیادہ قریب ہوگا جومجھ پرکثرت سےدرود پڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔
(ترمذی،
ابواب الوتر،
جلد1،
صفحہ295،
حدیث468،
راوی:عبداللہ بن مسعود
 

سیما علی

لائبریرین
سجدے میں پڑهی جانے والی مسنون دعا
‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ، دِقَّهُ وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ
‏مسلم 350
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أوْلَی النَّاسِ بِي يَومَ القَيَامَةَ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً.

(ترمذی، الجامع الصّحيح، أبواب الوتر، باب ماجاء في فضل الصّلاة علی النّبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 : 495، رقم : 484)
’’قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو اس دنیا میں کثرت سے مجھ پر درود بھیجتا ہے۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہتا ہے اسی کی طرح کہو ۔۔۔۔
صحیح مسلم 848
 

سیما علی

لائبریرین
پیارےآقا علیہ السلام*
‏جب خوش ہوتےتو حیاء کیوجہ سےآنکھیں گویا بند فرما لیتے آپ اکثر جب تبسم فرماتے
‏تو آپ کےدندان مبارک اولےکی طرح سفید چمکدار ظاہر ہوتےتھے

‏(شمائل ترمذی:213)
 

سیما علی

لائبریرین
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .

بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب النسلان فی المشی، ۳ : ۱۲۳۳، رقم : ۳۱۹۰

’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔
’’اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘

 

سیما علی

لائبریرین
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے ( جو اللہ نے آپ کو دیا ہے ) بخاری 4964
 

سیما علی

لائبریرین
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
‏”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!
‏تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اور منکر (برائی) سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے۔ پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمھاری دعا قبول نہ کی جائے“۔ (جامع ترمذی، ۲۱۶۹)
 

سیما علی

لائبریرین
قالَ ﷺ:
‏جب تم میں سے کوئی فرد لوگوں کی امامت کرائے تو وہ نماز میں تخفیف (اختصار) کرے، کیونکہ نمازیوں میں بچے، بوڑھے، کمزور، اور بیمار بھی ہوتے ہیں.. اور جب اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے (لمبی کرلے).
‏مسلم 1046، 1047
‏(بخاری 703؛ ترمذی 236؛ ابوداؤد 794؛ نسائی 824؛ مشکوٰۃ 1131)
 

سیما علی

لائبریرین
درس حدیث
(نماز کا انتظار، بھی نماز کی طرح عبادت ہے)
قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ انتَظَرْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَتَّى كَانَ شَطْرُ اللَّيْلِ يَبْلُغُهُ، فَجَاءَ فَصَلَّى لَنَا ثُمَّ خَطَبَنَا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا ثُمَّ رَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ.
سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ حتیٰ کہ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز (عشاء) پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے تو گویا نماز ہی میں رہے۔
(بخاری حدیث 600)
 
298653571_1740031363016458_3744039794277419134_n.jpg
 

سیما علی

لائبریرین

روزہ گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہے​

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 3

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

اس حدیث مبارکہ میں روزہ رکھنے اور رمضان المبارک میں قیام کرنے کے ساتھ ایمان اور احتساب کی شرط لگا دی‘ یعنی اس حالت میں رمضان المبارک کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کرے کہ حضور سے ثابت شدہ سب چیزوں کی تصدیق کرے اور فرضیت ِ صوم کا اعتقاد بھی رکھے تو اس کو ایمان کا روزہ کہا جائے گا۔

احتساب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلبِ ثواب کے لئے یا اس کے اخلاص کی وجہ سے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں صبر کا مظاہرہ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا۔

جو آدمی ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو اس کے تمام صغائر معاف کردیے جاتے ہیں۔ اور کبائر کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے یا کبائر کا بوجھ ہلکا بھی ہوسکتا ہے۔
 
آج کی حدیث :

"اللہ کے بندے میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو سب سے زیادہ مفید ہیں۔" (صحیح بخاری)
یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔ ہم اپنے علم، اپنے وقت، یا اپنے وسائل سے دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرنا ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے، اور یہ ہمیں اللہ کے قریب لاتا ہے۔

ایک اور اچھی حدیث یہ ہے:

"اللہ کے بندے میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اچھی اخلاقی کردار رکھتے ہیں۔" (صحیح بخاری)
یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں اچھی اخلاقی کردار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں سچ بولنا چاہیے، ایماندار ہونا چاہیے، اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ اچھی اخلاقی کردار رکھنا ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے، اور یہ ہمیں اللہ کے قریب لاتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَای َ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638 آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا ﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ مذکورہ بالا حدیث قدسی ہے۔جس میں اللہ تعالی فرمارہےہیں کہ روزہ دارکواس کا اجر وہ خود عنایت (انااجزی بہ) فرمائےگا،اورکس قدرعطاء فرمائےگاوہ یہاں مخفی رکھا گیا ہے۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ روزہ جیسی عبادت کےعلاوہ بندئہ مومن کی ساری ہی عبادتیں اعمال صالح جوبھی اخلاص نیت سےسرانجام دیتاہے، اللہ کےلیےہوتی ہے، جس کااجرمندرجہ بالاحدیث سےثابت شدہ ہے کہ دس گناسےلےکرسات سوگناسےزیادہ اجرکامستحق وہ قرارپاتاہے، لیکن روزےکو مستثنی رکھاگیاہے، ایساکیوں ہے؟ علماء اکرام اس کےتعلق سےفرماتےہیں، کہ بندہ مومن،کی جتنی بھی عبادات ہوتی ہے، چاہےوہ نماز، زکوۃ، حج یہ تمام عبادات جگ ظاہرہے، ایک بندہ جب نمازاداکرتاہے،نمازکی ادئیگی کےلیےمسجدجاتاہے،کئی افراد اس کی نماز کےعینی شاہدہوتےہیں، کہ فلاں صاحب بہت نمازی پرہیز گارمعلوم ہوتے ہیں، اسی طرح زکوۃ کی ادائیگی کامعاملہ ہے۔زکوۃ دینےوالےکی زکوۃ کاعینی شاہد اس کی زکوۃ وصول کرنےوالاہوتاہے، اسی طرح حج ایک اجتماعی عبادت ہے،جس کےمناسک ایک ساتھ اجتماعی طورپراداکیےجاتےہیں، تمام گفتگوکاحاصل یہ ہےکہ ان تمام عبادات جومذکورہ بالا ہے۔ان میں کہیں نہ کہیں ریاکاری کاعنصرشامل ہوجانےکےامکانات ہے۔تاہم روزہ ایسی مخفی عبادت ہےجس کاعلم صرف صاحب روزہ اوراس کےرب کوہوتاہے۔روزہ وہ واحدعبادت ہے،جس میں ریاکےامکانات نہیں ہوتے،روزہ دار ہرقسم کی خواہش نفسانی سےرک جاتاہے،انواع واقسام کی نعمتیں جوعام حالت میں حلال ہوتی ہے، باوجود بھوک پیاس کےاپنےنفس کی لگام کوتھامےرکھتاہے۔دراصل یہ وہی کیفیت اورصفت ہےجوروزےکےذریعے بندہ مومن میں پیداہوتی ہے، بندہ مومن تاحیات کفر،شرک معصیت کی گندگی اورحرام کےارتکاب سےاپنےنفس کوپاک رکھتاہے۔ روزہ روزےدارکی قلب اور روح کوبالیدگی، اورحیات تازہ بخشتاہے۔پھر اللہ سبحان تعالی کاالذکر(قرآن) سینوں میں پیوست ہونےلگتاہے، اس کےاحکام کی بجاآوری سہل ہوجاتی ہے۔اوراس کاتعلق اللہ سےگہراہوجاتا ہے۔وہ اپنےرب کوشہہ رگ سےقریب محسوس کرتاہے۔ الصوم(روزہ) صوم کےلغوی معنی ہے، رک جانا۔۔صائم بھی بحالت روزہ حلال چیزوں سےرک جاتا،اورحرام امورسےاجتناب کرتا ہے بحالت دیگرکچھ ایسےامورہیںجوانسان کی روز مرہ کی عادت بن چکی ہوتی ہے۔جیسے جھوٹ، غیبت،چغلی، دل آزاری، لعن طعن یہ ایسےخصائل خبیثہ ہیںجوکہیں نہ کہیں ہماری عادت یایوں کہہ لیجیے، ہمارا مشغلہ بن گیا ہے،جس کاارتکاب ہر آئےدن غیرمحسوس طریقےسےیا، جانےانجانےمیں عادتاًسرزدہوتےرہتےہیں، بعض اوقات حالات، موقع ومحل ایسےہوتےکہ ہم ان گناہوں کاارتکاب جانے انجانےمیں کرگزرتے ہیں، مثلا، اگرکوئی فریق ہمارےبارےمیں کوئی ناحق بات کہےجوغیراخلاقی ہوتوہم جواباً ویسی ہی کاروائی کرنااپناحق سمجھتےہیں، بعض اوقات انتقاماحدود سےتجاوزکرنےمیں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔لیکن ایک روزےدارایسانہیں کرتا، وہ ہرحال میں صبرکا مظاہرہ کرتاہے۔روزہ ان سارےگناہوں سےبچنےمیں اس کےلیے ڈھال ثابت ہوتا۔اوراپنےآپ کوفسق وفجورسےبازرکھتاہے۔جھوٹی باتوں اورجھوٹ کےکاموں سے اپنے، ذات کوالگ رکھتاہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: “اگرکوئی شخص جھوٹ بولنااوراس پرعمل کرنا(روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تواللہ تعالی کواس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے” (بخاری) ایک اور حدیث قدسی سےرہنمائی ملتی ہے، “ابن آدم کاہرعمل اس کےاپنےلیےہے۔روزہ بالخصوص میرےلیےہے۔اس کی جزاء امیں دوں گااورروزہ ڈھال ہے۔جب تم میں سےکسی شخص کاروزہ ہو، تونہ وہ فحش کلامی کرے، اگرکوئی شخص اسےگالی دےیااس سےجھگڑاکرےتووہ کہہ دےکہ میں روزہ دارہوں” (بخاری) *روزےکامقصدتقوی کاحصول* “اے لوگوں جوایمان لائےہوتم پر روزے فرض کیےگئےہیں‌۔جیساکہ تم سےپہلوں پرفرض کیےگئےتھے۔تاکہ تم تقوی کی روش اختیارکرو”. (البقرہ183) روزے کامقصد دراصل تقوی کاحصول ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب إذا تصدق علی غني وهو لا يعلم، 2 / 516، الرقم: 1355، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ثواب أجر المتصدق وإن وقعت الصدقة في أهلها، 2 / 709، الرقم: 1022، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب إذا أعطاها غنيا وهو لا يشعر، 5 / 55، الرقم: 2523.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا کہ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ صدقہ کرنے کی غرض سے (رات کو) مال لے کر نکلا اور اس نے ایک چور کو دے دیا۔ صبح لوگ باتیں کرنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو وہ عرض گزار ہوا کہ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا اور بدکار عورت کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگوں نے چرچا کیا کہ آج رات بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا تو ایک مالدار کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، (افسوس کہ) چور، زانیہ اور غنی پر صدقہ کر بیٹھا! پھر اُسے لایا گیا تو اس سے کہا گیا: تم نے چور کو جو صدقہ دیا تو شاید وہ چوری کرنے سے رک جائے اور بدکار عورت، شاید وہ بدکاری سے باز آ جائے اور مالدار شاید عبرت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو مال دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے : ’’ میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ، جب رسول اللہﷺ یہ ارشاد فرما رہے تھے: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سائے کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا جائزہ بھر ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ کسی نے پوچھا: ’’ یارسول اللہ ﷺ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے؟ ‘‘ آپؐ نے فرمایا: ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔‘‘ اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ ( الادب المفرد)
 
Top