ہور کرو بوٹو بوٹوبوٹو بوٹو کر بھیا
کہنے کو عمران خان حکومت کا چیف ایکزیکٹو یعنی وزیراعظم ہے لیکن شاید آپ کو یاد ہو گا کہ چند دن پہلے شاید وڈی سرکار کو ان کے کچھ الفاظ اچھے نہ لگے تو ان کی کی لائیو تقریر کا منہ بند کر دیا گیا تھا۔ کل کاشف عباسی کے پروگرام میں فیصل واؤڈا نے بوٹ پالش کمپنی کا نیا نعرہ نعرہ بوٹو بوٹو چلایا تو نہ تو اے آر وائی نے نیٹ ورک کا منہ بند کیا نہ بندے کا، نہ ہی پیمرا نے اس کا نوٹس لیا اور نہ بوٹاں والی سرکار نے، اسے کہتے ہیں اصل حکمران کون ہے، جسے سمجھ نہ آئے وہ ٹھنڈے پانی سے استنجہ کر لے۔
شوباز شریف کے بعد شوباز خان کے نوٹس پہ نوٹس اور ایکشن زیروجب عمران خان نے محسوس کیا کہ وہ صحافی اور اینکرز جو تحریک انصاف کے گن گانے سے نہ تھکتے تھے، آہستہ آہستہ اب ان کو بھی پاکستان میں مہنگائی نظر آنا شروع ہو گئی ہے تو کسی نے ٹی وی آن کر دیا اور بار بار چینل بدلنے لگا، کوئی کہہ رہا ہوتا "پاکستان میں مہنگائی بے قابوہو گئی ہے"۔ کوئی یہ کہہ رہا ہوتا "ملک میں مہنگائی تمام ریکارڈ توڑتی نظر آ رہی ہے"، کوئی یہ راگ الاپ رہا ہوتا "تحریک انصاف حکومت کے 16 ماہ میں کھانے پینے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے"۔ ایسی میں کسی مشیر نے کان میں چپکے سے کہا ہو گا "خان صاحب اس کا نوٹس لے لیں ایسا نہ ہو بڑے صاحب نوٹس لے لیں"۔ پھر عمران خان نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا تمام وزارتوں کو ہدایات جاری کر دیں کہ "عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی نشاندہی کی جائے"۔ لو جی شوباز شریف کے بعد شوباز خان کے نوٹس شروع، ابھی تک پچھلے نوٹسز پہ پڑی دھول نہیں ہٹائی گئی اور نہ عوام کو بتایا گیا کہ ان نوٹسز پر کیا عمل کیا، او بھائی عمل کر نوٹس مت لے، ایک بار کیبنٹ ہال اور پی ایم آفس سے نکل کر عوام میں آؤ، مارکیٹوں میں گھومو تو پتا چلے کہ اصل حقائق کیا ہیں، لیکن مشیرانِ حکومت اور سیکورٹی ادارے کہاں ایسا کرنے دیں گے۔ کہیں گے "خان صاحب جان کا خطرہ ہے" اور خان اندر وڑ جائے گا، حکومتیں ایسے زیادہ دیر نہیں چلا کرتیں۔ خلاصۂ خبر یہ ہے کہ نوٹس پہ نوٹس لیے جا رہے ہیں اور ایکشن زیرو اوور زیرو ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
کونسا پہلی بار ہوا ہے؟مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی
میرے دیس میں فاقے لائی
قرضوں اور خساروں پر کئی سال معیشت چلانے کا بالآخر یہی انجام ہوتا ہے۔عوام کو کام کاج ملتا نہیں، انکے گھروں میں بھوک نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دئیے ہیں۔ جگت ماسی جنتے میرے کمرے میں آ پہنچی، پوچھا پتر کیا لکھ رہے ہو، بتایا تو کہنے لگیں "یہ ٭٭٭٭ پانچ سال وزیراعظم رہا تو پورا پاکستان سائیکل پر بھی سفر کرنے کے قابل رہ گیا تو کچھ بانٹنا، ہر طرف بیروزگاری عام ہو گی، مہنگائی سے بھوک کا دور دورہ ہو گا اور لوگ روٹی کھانے کی بجائے سونگھ کر گزارا کیا کریں گے"۔
مشی دی بوٹو سرکار میں اتنی اوپر گئی تھی، لگتا ہے اب کے وہاں سے بھی اوپر جائے گی۔کونسا پہلی بار ہوا ہے؟
جی درست فرمایا، مہنگائی کرنے میں حکومت کا ہاتھ نہیں، امن و امان کے بگاڑ میں حکومت کا ہاتھ نہیں، بیروزگاری بڑھنے میں حکومت کا ہاتھ نہیں، خود کشیوں میں حکومت کاہاتھ نہیں، تم لوگ ابھی سے کہنا شروع ہو گئے ہو کہ حکومت کرنے میں بھی حکومت کا ہاتھ نہیں ہے، کر کوئی اور رہا ہے اور الزام تم پر آ رہا ہے۔ جب کھیلنا نہیں آتا تو روتے کیوں ہے۔قرضوں اور خساروں پر کئی سال معیشت چلانے کا بالآخر یہی انجام ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف سے پہلے بھی 21 بار معاہدے ہو چکے ہیں۔ البتہ اس کے بدلے معاشی ریفارمز پہلی بار شروع کئے گئے ہیں۔ چیخیں تو نکلیں گی۔اندھے بن کے آئی ایم ایف سے معائدے کرو
چند دن اور انتظار کرو، پھر دیکھو کون چیختا ہے، فی الحال تو صرف غریب چیخ رہا ہے اور تم جیسے ٭٭٭٭ اس کا مزا لے رہے ہیں۔آئی ایم ایف سے پہلے بھی 21 بار معاہدے ہو چکے ہیں۔ البتہ اس کے بدلے معاشی ریفارمز پہلی بار شروع کئے گئے ہیں۔ چیخیں تو نکلیں گی۔
چار سال ڈالر سستا رکھ کر قوم کو جو مصنوعی خوشحالی دی گئی تھی اس کی قیمت ڈالر اپنی اصل قیمت پر واپس لا کر اتاری جا رہی ہے۔ چیخیں تو بنتی ہیں۔واہ اوئے بڑبولے خان غریب کو اچھی اچھی امیدیں دلا کر اسے بھاری ٹیکسز، ظالمانہ بلز، بیروزگاری، مہنگائی، بدامنی، چوری ڈاکے ہی دئیے ہیں،عمران خان نے تو غریب کو گہری دلدل میں دھکیل کر رکھ دیا ہے۔ اب تو پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی دھائیاں دینے پر آ گئے ہیں اور آپ کو آپ ہی کے کہے ہوئے وعدے وعید یاد دلانا شروع ہو گئے ہیں جبکہ انہیں اورہمیں معلوم ہے اس سے کسی کو حاصل کچھ نہیں ہونا، سوائے طفل تسلیوں کے۔
مؤرخ لکھے گا کہ "عمران خان چاہتا تو سکون سے برطانیہ میں رہ کر خوشخال زندگی گزار سکتا تھا لیکن نوازشریف کی جانب سے اس کی شادی کو تباہ کرنے کا بدلہ اس نے عام پاکستانی کی زندگی مہنگائی اور بیروزگاری سے برباد کر کے لیا اور ملکی معیشت اوپر والی منزل سے اٹھا کر دھڑام سے نیچے پھینکا"۔ اسے کہتے ہیں دل جلے کا کھڑاک
ایک اور پوٹیا روتے ہوئے
پچھلی حکومت کی طرح ڈالر مصنوعی طور پر سستا کر کے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر اس کے بدلہ میں اگلی حکومت میں اسی طرح عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ساری چیخوں کی کسر اسی حکومت میں نکل جانے دیں۔ ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔چند دن اور انتظار کرو، پھر دیکھو کون چیختا ہے، فی الحال تو صرف غریب چیخ رہا ہے اور تم جیسے ٭٭٭٭ اس کا مزا لے رہے ہیں۔
٭٭٭٭کیا آئی ایم سے ووٹ لیا تھا، کہ صرف اسے خوش کرنا ہے؟چار سال ڈالر سستا رکھ کر قوم کو جو مصنوعی خوشحالی دی گئی تھی اس کی قیمت ڈالر اپنی اصل قیمت پر واپس لا کر اتاری جا رہی ہے۔ چیخیں تو بنتی ہیں۔
بے غیرتو بنا دیکھے معائدہ کر کے، اپنی معیشت ان کے بندوں کے ہاتھ دے کر خوش ہوتے ہو، لعنت ہے تم اور تمہارے لیڈر پر۔پچھلی حکومت کی طرح ڈالر مصنوعی طور پر سستا کر کے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر اس کے بدلہ میں اگلی حکومت میں اسی طرح عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ساری چیخوں کی کسر اسی حکومت میں نکل جانے دیں۔ ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔
عوام کا قصور یہ ہے کہ یہ صرف مہنگائی، تنگدستی، بےروزگاری ہونے پر چیختی ہے۔ جب کئی سال ڈالر مصنوعی سستا رکھا گیا۔ سرکاری خزانہ سے اربوں ڈالر اس چکر میں اڑائے گئے ۔ اس وقت کیوں یہ سوال نہ کیا کہ ہمیں ریلیف دینے کیلئے قومی خزانہ کا کباڑہ کیوں کر رہے ہو؟ اگر اس وقت عوام چیختی تو آج اس طرح اچانک مہنگائی، بےروزگاری ہونے پر سب کی چیخیں نہ نکلتی۔عوام کو کیا قصور؟
جو قرض دیتے ہیں عملا معیشت بھی وہی چلاتے ہیں۔ پچھلی حکومت بین الاقوامی ادارروں سے مہنگے قرضے لے کر معاشی پالیسیاں اپنی مرضی کی چلاتی تھی۔ جس سے عوام کو عارضی خوشحالی تومل جاتی تھی لیکن ساتھ ہی قومی خزانہ کا بھی بیڑہ غرق ہو جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔بے غیرتو بنا دیکھے معائدہ کر کے، اپنی معیشت ان کے بندوں کے ہاتھ دے کر خوش ہوتے ہو، لعنت ہے تم اور تمہارے لیڈر پر۔