فاتح
لائبریرین
آخری بار مِلو، ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں، کوئی اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے، زخمِ تمنا نہ کھِلے
سانس ہموار رہے، شمع کی لَو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انھیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امّید تو آنکھیں چھِن جائیں
اُس ملاقات کا اِس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جُنوں کا، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا، نہ شکایات کا وقت
لُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئی نوحہ کہیے؟
آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اُسے کون سا رشتہ کہیے؟
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و رُخسار، مِلو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار، مِلو
پھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، نہ انکار، مِلو
راکھ ہو جائیں، کوئی اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے، زخمِ تمنا نہ کھِلے
سانس ہموار رہے، شمع کی لَو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انھیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امّید تو آنکھیں چھِن جائیں
اُس ملاقات کا اِس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جُنوں کا، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا، نہ شکایات کا وقت
لُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئی نوحہ کہیے؟
آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اُسے کون سا رشتہ کہیے؟
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و رُخسار، مِلو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار، مِلو
پھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، نہ انکار، مِلو
کلام: مصطفیٰ زیدی
آواز: فاتح الدین بشیر