نور وجدان
لائبریرین
وہ ملنے آخری دفعہ آیا تھا ۔ میں جانتی تھی کہ پت جھڑ کے بعد بہار کے پُھول کھلکھلانے ہیں ۔ اس کی محبت کے زرد پتے ساحل کی ریتلی مٹی پر جا بجا بکھرے ہوئے تھے ۔ میں نرم گُداز پاؤں ان پتوں پر رکھتی رہی اور 'چر چر ' کی آواز سے انجانا سکون پاتی رہی ۔ آم کے گھنے درخت تلے کھڑی باد کے جُھونکوں کو محسوس کرنے لگی ۔ وُہ بُہت دور کھڑا حسرت بھری نگاہوں سے تکتا رہا ۔ اس کی آواز کی گُونج سُنائی دینے لگی ۔
'' چاندنی نے چار سُو قبضہ جما لیا ہے ۔ ذات سے باہر بھی تم ہو اور اندر تمھارے عشق کی مدھم مدھم سُلگتی آگ نے پریشان کردیا ہے ۔ تم مسکراتی بُہت حسین لگتی ہو ! ''
پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد میرے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا :
''میں نے تمھیں خوامخواہ دکھ دیا تھا۔ ا! کاش ! میں تمھیں آبشاروں کے پار سر سبز وادیوں کی حسین راتوں کی سیر کراتا ۔ تمھارے گیتوں کو اپنا سنگیت جانتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تمھارے ساتھ کو رب کا تُحفہ جانا تھا، تمھاری آرزو میں اپنی زندگی کی صُبح سے تمھارا انتظار کیا تھا مگر خواہشات کی اسیری نے تمھاری آرزو کو دھندلا دیا یا میں نے خود کو بھلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے چہر پر کا تل اس حُسن کی دلیل ہے جو تمھاری محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں چھپا ہے ۔''
وہ جانے کیا کیا کہتا رہا اور میں اس کی سسکتی آرزؤں کے سلگتے سُحاب کی بارش سے دل و جگر میں اطمینان محسوس کرنی لگی اور میرے ہاتھ درخت کی بھوری کُھردری لکڑی پر پھرنے لگے اور اپنے دامن سے جانے والی خوشیوں کا حساب مانگنے لگے ۔
'' تم خاموش کیوں ہو؟ '' اس کی خوف سے بھرپور گونج پوری وادی میں گُونجنے لگی۔۔۔ ''میں نے اس کی بے قراری میں تڑپ کی شام کو رات میں بدلنے کے لیے آخری دفعہ جواب کے لیے لب کھولے:
'' محبت کاروبار نہیں ہوتی ۔ میری خاموش محبت کو انکار جان کے اپنی انا کو نیچے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! یہ جانتے ہوئے بھی اظہار کو لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔محبت میں مادیت نہیں ہوتی ۔''
میں نے ایک لمحے کے توقف کیا اور اس کو جانچنا چاہا ۔ بیچ حائل صدیوں کا فاصلہ میری نگاہوں کو اس سے اوجھل نہ کرسکا۔ اس کی شکستگی ۔۔۔! اس کی آزردگی ۔۔۔۔، کپکپاتے ہونٹ ، بکھرے بال ۔۔۔غمناک آنکھیں ۔۔۔! اب مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی ۔ اس نے کُچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔ اپنی دھیمی مدھر آواز کی نغمگی فضاء میں بکھیرتے کہنے لگی :
'
''یہ جو محبت ہے نا ! تخلیق جتنا دکھ دے کے جنم لیتی ہے ۔اس درد کی شدت سے شمع گھُل کے وجود کھو دیتی ہے مگر محبت کا دُھواں فضاء میں شامل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!!!میں نے دُھواں فضاء میں جانے دیا ہے ۔۔۔۔!!! اب دل میں کچھ نہیں باقی ۔۔!!! راکھ بھی نہیں جو تمھارے ہونے کی دلیل ہو!!! ''
شام کے سرمئی بادل رات کے اندھیرے میں بدلنے لگے ۔دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں میرے وجود کو سردی کا احساس دِلانے لگی ۔ میں نے اپنے پاؤں سلگتی آگ کے پاس رکھے اور اُس سے مخاطب ہوئی : بُجھی چنگاریوں کا سیاہ رنگ ہاتھ کو سیاہ تر کردیتا ہے ۔میرا دامن سپید روشنیوں سے بھرپور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے تمھاری سُنو ! ''
یکایک اس کی دلخراش چیخوں سے وادیاں گونجنے لگیں ، اس کا خوبصورت چہرہ ہیئت بدلنے لگا ، مجھے یوں لگا کہ اس نے آگ کے سمندر میں قدم رکھ دیا ہے ۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں کیونکہ میں اس سے دور بیٹھی اس کی آواز کی گونج کو محسوس کر رہی تھی ۔ تصور میں اس کا چہرہ آگ سے سُلگتا پایا جس طرح کاغذ کے خط جلتے محسوس ہوتے ہیں ۔ اس کی شبیہ سُلگ رہی تھی اور میں نے اس کی چیخوں سے پریشان ہوکے آنکھ کھول دی ۔ اس کی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی ۔ میں نے آواز کے تعاقب میں سفر شروع کیا ۔ میں ایک اندھیرے غار میں داخل ہوئی ۔ اس غار میں سرانڈ سے سانس کو دُشواری محسوس ہونے لگی اور ہاتھ غیر ارادی طور پر ناک پر رکھنے پڑے۔ یکا یک دم توڑتے انسان کی درد ناک کراہوں نے مجھے متوجہ کرلیا ۔ اُس کی آخری سانسوں میں التجا تھی مگر میں انجان بنی اس کو تاکتی رہی کہ انسان مرتے وقت کتنا مکروہ لگتا ہے ۔ میں اس کی ان وادیوں سے ہجرت پر خوشی محسوس کر رہی تھی ۔
سنو ۔۔۔۔۔۔!
''مجھے معاف کردو ۔۔۔! میں اس دنیا سے گناہوں کا کفارہ اد کیے بنا نہیں جانا چاہتا ۔ میری حالت ء زار پر رحم کرو ''
مجھے بیزاری سی محسوس ہونے لگی اور میں اس کی سسکتی چیخوں کو اندھیروں کے حوالے کرکے طمانیت محسوس کرنے لگی ۔ آدم و حوا کا تعلق عزت سے ہوتا محبت پاتا ہےمگر محبتوں نے ڈیرا جما کے تقدیس کو پائمال کر دیا ہے ۔
'' چاندنی نے چار سُو قبضہ جما لیا ہے ۔ ذات سے باہر بھی تم ہو اور اندر تمھارے عشق کی مدھم مدھم سُلگتی آگ نے پریشان کردیا ہے ۔ تم مسکراتی بُہت حسین لگتی ہو ! ''
پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد میرے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا :
''میں نے تمھیں خوامخواہ دکھ دیا تھا۔ ا! کاش ! میں تمھیں آبشاروں کے پار سر سبز وادیوں کی حسین راتوں کی سیر کراتا ۔ تمھارے گیتوں کو اپنا سنگیت جانتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تمھارے ساتھ کو رب کا تُحفہ جانا تھا، تمھاری آرزو میں اپنی زندگی کی صُبح سے تمھارا انتظار کیا تھا مگر خواہشات کی اسیری نے تمھاری آرزو کو دھندلا دیا یا میں نے خود کو بھلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے چہر پر کا تل اس حُسن کی دلیل ہے جو تمھاری محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں چھپا ہے ۔''
وہ جانے کیا کیا کہتا رہا اور میں اس کی سسکتی آرزؤں کے سلگتے سُحاب کی بارش سے دل و جگر میں اطمینان محسوس کرنی لگی اور میرے ہاتھ درخت کی بھوری کُھردری لکڑی پر پھرنے لگے اور اپنے دامن سے جانے والی خوشیوں کا حساب مانگنے لگے ۔
'' تم خاموش کیوں ہو؟ '' اس کی خوف سے بھرپور گونج پوری وادی میں گُونجنے لگی۔۔۔ ''میں نے اس کی بے قراری میں تڑپ کی شام کو رات میں بدلنے کے لیے آخری دفعہ جواب کے لیے لب کھولے:
'' محبت کاروبار نہیں ہوتی ۔ میری خاموش محبت کو انکار جان کے اپنی انا کو نیچے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! یہ جانتے ہوئے بھی اظہار کو لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔محبت میں مادیت نہیں ہوتی ۔''
میں نے ایک لمحے کے توقف کیا اور اس کو جانچنا چاہا ۔ بیچ حائل صدیوں کا فاصلہ میری نگاہوں کو اس سے اوجھل نہ کرسکا۔ اس کی شکستگی ۔۔۔! اس کی آزردگی ۔۔۔۔، کپکپاتے ہونٹ ، بکھرے بال ۔۔۔غمناک آنکھیں ۔۔۔! اب مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی ۔ اس نے کُچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔ اپنی دھیمی مدھر آواز کی نغمگی فضاء میں بکھیرتے کہنے لگی :
'
''یہ جو محبت ہے نا ! تخلیق جتنا دکھ دے کے جنم لیتی ہے ۔اس درد کی شدت سے شمع گھُل کے وجود کھو دیتی ہے مگر محبت کا دُھواں فضاء میں شامل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!!!میں نے دُھواں فضاء میں جانے دیا ہے ۔۔۔۔!!! اب دل میں کچھ نہیں باقی ۔۔!!! راکھ بھی نہیں جو تمھارے ہونے کی دلیل ہو!!! ''
شام کے سرمئی بادل رات کے اندھیرے میں بدلنے لگے ۔دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں میرے وجود کو سردی کا احساس دِلانے لگی ۔ میں نے اپنے پاؤں سلگتی آگ کے پاس رکھے اور اُس سے مخاطب ہوئی : بُجھی چنگاریوں کا سیاہ رنگ ہاتھ کو سیاہ تر کردیتا ہے ۔میرا دامن سپید روشنیوں سے بھرپور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے تمھاری سُنو ! ''
یکایک اس کی دلخراش چیخوں سے وادیاں گونجنے لگیں ، اس کا خوبصورت چہرہ ہیئت بدلنے لگا ، مجھے یوں لگا کہ اس نے آگ کے سمندر میں قدم رکھ دیا ہے ۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں کیونکہ میں اس سے دور بیٹھی اس کی آواز کی گونج کو محسوس کر رہی تھی ۔ تصور میں اس کا چہرہ آگ سے سُلگتا پایا جس طرح کاغذ کے خط جلتے محسوس ہوتے ہیں ۔ اس کی شبیہ سُلگ رہی تھی اور میں نے اس کی چیخوں سے پریشان ہوکے آنکھ کھول دی ۔ اس کی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی ۔ میں نے آواز کے تعاقب میں سفر شروع کیا ۔ میں ایک اندھیرے غار میں داخل ہوئی ۔ اس غار میں سرانڈ سے سانس کو دُشواری محسوس ہونے لگی اور ہاتھ غیر ارادی طور پر ناک پر رکھنے پڑے۔ یکا یک دم توڑتے انسان کی درد ناک کراہوں نے مجھے متوجہ کرلیا ۔ اُس کی آخری سانسوں میں التجا تھی مگر میں انجان بنی اس کو تاکتی رہی کہ انسان مرتے وقت کتنا مکروہ لگتا ہے ۔ میں اس کی ان وادیوں سے ہجرت پر خوشی محسوس کر رہی تھی ۔
سنو ۔۔۔۔۔۔!
''مجھے معاف کردو ۔۔۔! میں اس دنیا سے گناہوں کا کفارہ اد کیے بنا نہیں جانا چاہتا ۔ میری حالت ء زار پر رحم کرو ''
مجھے بیزاری سی محسوس ہونے لگی اور میں اس کی سسکتی چیخوں کو اندھیروں کے حوالے کرکے طمانیت محسوس کرنے لگی ۔ آدم و حوا کا تعلق عزت سے ہوتا محبت پاتا ہےمگر محبتوں نے ڈیرا جما کے تقدیس کو پائمال کر دیا ہے ۔