فاتح
لائبریرین
آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی
مریم سی وہ لعبت بھی تو بازار کی نکلی *
دیکھو کبھی مقتل کبھی گلزار لگے ہے
تصویر عجب کوچۂ دلدار کی نکلی
آنکھوں کی تسلی نہیں ہوتی تو نہ ہووے
ہم خوش ہیں کوئی شکل تو دیدار کی نکلی
کیوں یار کے انکار سے افسردہ ہے اے دل
نادان! کوئی راہ تو اقرار کی نکلی
وہ گر یہ کناں اور دلاسا میں اسے دوں
کیا طرفہ طبیعت مرے غم خوار کی نکلی
وا رہنے دے یارب درِ توبہ کہ ابھی تو
حسرت ہی کہاں تیرے گنہگار کی نکلی
کل ہجر کی شب، روزِ قیامت کی طرح تھی
دن نکلا نہ جاں ہی ترے بیمار کی نکلی
احمد فراز
مریم سی وہ لعبت بھی تو بازار کی نکلی *
دیکھو کبھی مقتل کبھی گلزار لگے ہے
تصویر عجب کوچۂ دلدار کی نکلی
آنکھوں کی تسلی نہیں ہوتی تو نہ ہووے
ہم خوش ہیں کوئی شکل تو دیدار کی نکلی
کیوں یار کے انکار سے افسردہ ہے اے دل
نادان! کوئی راہ تو اقرار کی نکلی
وہ گر یہ کناں اور دلاسا میں اسے دوں
کیا طرفہ طبیعت مرے غم خوار کی نکلی
وا رہنے دے یارب درِ توبہ کہ ابھی تو
حسرت ہی کہاں تیرے گنہگار کی نکلی
کل ہجر کی شب، روزِ قیامت کی طرح تھی
دن نکلا نہ جاں ہی ترے بیمار کی نکلی
احمد فراز
* بعض مشاعروں میں فراز نے یہ مصرع یوں بھی پڑھا ہے:
مریم سی وہ صورت بھی تو بازار کی نکلی