عاطف بٹ
محفلین
بہت شکریہ سربہت خوب
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی
بہت شکریہ سربہت خوب
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی
واقعی بلال صحیح کہا بلال۔ نصاب میں شامل نظمیں بطور طالبعلم کم ہی سمجھ میں آتی ہیں مگر شعور کی ایک خاص سطح کو پہنچنے کے بعد جب ہم انہی نظموں کو پڑھتے ہیں تو پھر ان میں پیش کی گئی حقیقتیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔یہ نظم ہمارے میٹرک کے نصاب میں بھی شامل تھی اور اُس وقت نظم بالکل سمجھ نہیں آتی تھی تو پڑھ کے ہنسنا شروع کر دیتے تھے کہ کتنی مزاحیہ نظم ہےن لیکن اگر آج پڑھو تو ایسا لگتا ہے کہ ایک ایک لفظ معاشرے کے معاشرے کے نام نہاد کردار کی مکمل نفی ہے۔بہت خوب شراکت عاطف بھائی۔
سلامت رہیے
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی
بہت شکریہ احمدواہ واہ واہ
لاجواب کلام ہے۔
بہت شکریہ عاطف بھائی۔۔۔ ۔۔!
محمود بھائی، بہت شکریہ۔عاطف بھائی رسید حاضر ہے بجلی عنقا ہونے کو ہے فرصت سے حاضر ہوتا ہوں انسلاک کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی بھاوج نے بھی دعا سلام کہا ہے آپ کو۔۔
بہت شکریہ وارث بھائیلاجواب۔
شکریہ عاطف صاحب ارسال فرمانے کیلیے
بہت شکریہ جناببہت اچھی نظم
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
جی بھیا جی سلام دعائیں اور گلہ اسی وقت شاملِ سماعت کا شرف حاصل ہوچکا تھا مگرمراسلہ جھونکنے میں بجلی دغا دے گئی تھی۔محمود بھائی، بہت شکریہ۔
بھابی کو میری طرف سے بھی سلام اور آپ دونوں سے گلہ ہے کہ آپ محفل میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں آج کل۔
کیا کہنے ہیں سبحان اللہ ، کیا ہی عمدہ پیرایہ ہے کہ وجود و عدم اور لاموجود کی تثلیث میں شفتگی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے آدمی کیتھا کبھی علم آدمی، دل آدمی، پیار آدمیآج کل زر آدمی، قصر آدمی، کار آدمیکلبلاتی بستیاں، مشکل سے دو چار آدمیکتنا کم یاب آدمی ہے، کتنا بسیار آدمیپتلی گردن، پتلے ابرو، پتلے لب، پتلی کمرجتنا بیمار آدمی، اتنا طرحدار آدمیزندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئیکتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمیعمر بھر صحرا نوردی کی مگر شادی نہ کیقیس دیوانہ بھی تھا کتنا سمجھدار آدمیدانش و حکمت کی ساری روشنی کے باوجودکم ہی ملتا ہے زمانے میں کم آزار آدمیدل رہینِ صومعہ و دستار رہنِ مےکدہتھا ضمیرِ جعفری بھی اک مزیدار آدمیپہلے کشتی ڈوب جاتی تھی نظر کے سامنےاب گرے گا بحرِ اوقیانوس کے پار آدمی
آپ کو تو سات خون معاف ہیں!جی بھیا جی سلام دعائیں اور گلہ اسی وقت شاملِ سماعت کا شرف حاصل ہوچکا تھا مگرمراسلہ جھونکنے میں بجلی دغا دے گئی تھی۔
معاملہ صرف اور صرف عدم فراغ کا ہے جبھی تو میں نے لکھا کہ میں غائبین میں سے ہوں ۔۔۔ رہی سہی کسر بجلی پوری کردیتی ہے۔
پھر بال بچوں سے فرصت ملے تو محفل میں آؤں نا۔ آپ کی بھابھی صاحبہ نے مصروفیت کے دو چار پہاڑ جمع کررکھے ہیں ، بچوں کے پیپرز
خاندانی تقاریب ، مہمانوں کی یلغار، پھر طبیعت ۔۔ انشا اللہ پوری کوشش ہوگی کہ حاضری دیتے رہیں ۔ مگر مجبوری پر تو معافی ملے گی ناں ؟
بہت شکریہ محمود بھائی۔کیا کہنے ہیں سبحان اللہ ، کیا ہی عمدہ پیرایہ ہے کہ وجود و عدم اور لاموجود کی تثلیث میں شفتگی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے آدمی کی
بے بضاعتی اور عدم تکمیلیت پر بحث کی گئی ۔ ملفوف معاشرے (ریپر سوسائٹی) کی بھر پور تشریح ہے ، ضمیر صاحب کی نظم اپنی مثال آپ
ہے مگر مجھے کہہ لینے دیجے کہ جوش ملیح آبادی کی آدمی نامہ متذکرہ نظم کی باقی ماندہ جہتوں پر کی خوش سلیقگی سے بات کرتی ہے کہ وہاں
ضمیر صاحب کی نظم محض انشائیہ ابتدائیہ معلوم ہوتی ہے۔ فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست کی مصداق ضمیر صاحب کہ نظم پر حرفِ چند تحسین۔
اس خوب اشتراکیہ پر خاکسار کی جانب سے ہدیہ تبریک پیش ہے عاطف بھائی گر قبول افتد