آدمی (نظم از سید ضمیر جعفری)

عاطف بٹ

محفلین
یہ نظم ہمارے میٹرک کے نصاب میں بھی شامل تھی اور اُس وقت نظم بالکل سمجھ نہیں آتی تھی تو پڑھ کے ہنسنا شروع کر دیتے تھے کہ کتنی مزاحیہ نظم ہےن لیکن اگر آج پڑھو تو ایسا لگتا ہے کہ ایک ایک لفظ معاشرے کے معاشرے کے نام نہاد کردار کی مکمل نفی ہے۔بہت خوب شراکت عاطف بھائی۔
سلامت رہیے

زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی
واقعی بلال صحیح کہا بلال۔ نصاب میں شامل نظمیں بطور طالبعلم کم ہی سمجھ میں آتی ہیں مگر شعور کی ایک خاص سطح کو پہنچنے کے بعد جب ہم انہی نظموں کو پڑھتے ہیں تو پھر ان میں پیش کی گئی حقیقتیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔
بہت شکریہ نظم کو پسند کرنے کے لئے
 

مغزل

محفلین
عاطف بھائی رسید حاضر ہے بجلی عنقا ہونے کو ہے فرصت سے حاضر ہوتا ہوں انسلاک کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی بھاوج نے بھی دعا سلام کہا ہے آپ کو۔۔:)
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بھائی رسید حاضر ہے بجلی عنقا ہونے کو ہے فرصت سے حاضر ہوتا ہوں انسلاک کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی بھاوج نے بھی دعا سلام کہا ہے آپ کو۔۔:)
محمود بھائی، بہت شکریہ۔
بھابی کو میری طرف سے بھی سلام اور آپ دونوں سے گلہ ہے کہ آپ محفل میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں آج کل۔
 

مغزل

محفلین
محمود بھائی، بہت شکریہ۔
بھابی کو میری طرف سے بھی سلام اور آپ دونوں سے گلہ ہے کہ آپ محفل میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں آج کل۔
جی بھیا جی سلام دعائیں اور گلہ اسی وقت شاملِ سماعت کا شرف حاصل ہوچکا تھا مگرمراسلہ جھونکنے میں بجلی دغا دے گئی تھی۔
معاملہ صرف اور صرف عدم فراغ کا ہے جبھی تو میں نے لکھا کہ میں غائبین میں سے ہوں ۔۔۔:) رہی سہی کسر بجلی پوری کردیتی ہے۔
پھر بال بچوں سے فرصت ملے تو محفل میں آؤں نا۔ آپ کی بھابھی صاحبہ نے مصروفیت کے دو چار پہاڑ جمع کررکھے ہیں ، بچوں کے پیپرز
خاندانی تقاریب ، مہمانوں کی یلغار، پھر طبیعت ۔۔ انشا اللہ پوری کوشش ہوگی کہ حاضری دیتے رہیں ۔ مگر مجبوری پر تو معافی ملے گی ناں ؟:blushing::cry2:
 

مغزل

محفلین
تھا کبھی علم آدمی، دل آدمی، پیار آدمی
آج کل زر آدمی، قصر آدمی، کار آدمی
کلبلاتی بستیاں، مشکل سے دو چار آدمی​
کتنا کم یاب آدمی ہے، کتنا بسیار آدمی​
پتلی گردن، پتلے ابرو، پتلے لب، پتلی کمر
جتنا بیمار آدمی، اتنا طرحدار آدمی
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی​
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی​
عمر بھر صحرا نوردی کی مگر شادی نہ کی
قیس دیوانہ بھی تھا کتنا سمجھدار آدمی
دانش و حکمت کی ساری روشنی کے باوجود​
کم ہی ملتا ہے زمانے میں کم آزار آدمی​
دل رہینِ صومعہ و دستار رہنِ مےکدہ
تھا ضمیرِ جعفری بھی اک مزیدار آدمی
پہلے کشتی ڈوب جاتی تھی نظر کے سامنے​
اب گرے گا بحرِ اوقیانوس کے پار آدمی​
کیا کہنے ہیں سبحان اللہ ، کیا ہی عمدہ پیرایہ ہے کہ وجود و عدم اور لاموجود کی تثلیث میں شفتگی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے آدمی کی
بے بضاعتی اور عدم تکمیلیت پر بحث کی گئی ۔ ملفوف معاشرے (ریپر سوسائٹی) کی بھر پور تشریح ہے ، ضمیر صاحب کی نظم اپنی مثال آپ
ہے مگر مجھے کہہ لینے دیجے کہ جوش ملیح آبادی کی آدمی نامہ متذکرہ نظم کی باقی ماندہ جہتوں پر کی خوش سلیقگی سے بات کرتی ہے کہ وہاں
ضمیر صاحب کی نظم محض انشائیہ ابتدائیہ معلوم ہوتی ہے۔ فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست کی مصداق ضمیر صاحب کہ نظم پر حرفِ چند تحسین۔
اس خوب اشتراکیہ پر خاکسار کی جانب سے ہدیہ تبریک پیش ہے عاطف بھائی گر قبول افتد
 

عاطف بٹ

محفلین
جی بھیا جی سلام دعائیں اور گلہ اسی وقت شاملِ سماعت کا شرف حاصل ہوچکا تھا مگرمراسلہ جھونکنے میں بجلی دغا دے گئی تھی۔
معاملہ صرف اور صرف عدم فراغ کا ہے جبھی تو میں نے لکھا کہ میں غائبین میں سے ہوں ۔۔۔ :) رہی سہی کسر بجلی پوری کردیتی ہے۔
پھر بال بچوں سے فرصت ملے تو محفل میں آؤں نا۔ آپ کی بھابھی صاحبہ نے مصروفیت کے دو چار پہاڑ جمع کررکھے ہیں ، بچوں کے پیپرز
خاندانی تقاریب ، مہمانوں کی یلغار، پھر طبیعت ۔۔ انشا اللہ پوری کوشش ہوگی کہ حاضری دیتے رہیں ۔ مگر مجبوری پر تو معافی ملے گی ناں ؟:blushing::cry2:
آپ کو تو سات خون معاف ہیں! :)
 

عاطف بٹ

محفلین
کیا کہنے ہیں سبحان اللہ ، کیا ہی عمدہ پیرایہ ہے کہ وجود و عدم اور لاموجود کی تثلیث میں شفتگی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے آدمی کی
بے بضاعتی اور عدم تکمیلیت پر بحث کی گئی ۔ ملفوف معاشرے (ریپر سوسائٹی) کی بھر پور تشریح ہے ، ضمیر صاحب کی نظم اپنی مثال آپ
ہے مگر مجھے کہہ لینے دیجے کہ جوش ملیح آبادی کی آدمی نامہ متذکرہ نظم کی باقی ماندہ جہتوں پر کی خوش سلیقگی سے بات کرتی ہے کہ وہاں
ضمیر صاحب کی نظم محض انشائیہ ابتدائیہ معلوم ہوتی ہے۔ فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست کی مصداق ضمیر صاحب کہ نظم پر حرفِ چند تحسین۔
اس خوب اشتراکیہ پر خاکسار کی جانب سے ہدیہ تبریک پیش ہے عاطف بھائی گر قبول افتد
بہت شکریہ محمود بھائی۔
 
جب بھی دھاگہ کا عنوان نظر آتا ہے، مجھے اس نظم کا گمان ہوتا ہے، جو کہ کبھی اسکول میں پڑہی تھی۔



آدمی نامہ
نظیرؔ اکبر آبادی

دنیا میں بادشا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ابدال و قُطب و غوث و وَلی آدمی ہو
مُنکِر بھی آدمی ہوئے اور کُفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے ، کشف و کرامات کے کئیے
حتیٰ کے اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شدّاد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا بر ملا
یہ بات ہے سمجھنے کی، آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی


یاں آدمی ہی نار ہے، اور آدمی ہی نور
یاں آدمی ہی پاس ہے، اور آدمی ہی دور
کُل آدمی کا حُسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطان بھی آدمی ہے، جو کرتا ہے مکر و زُور
اور ہادی رہنما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی، امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی، قرآن اور نماز، یاں
اور آدمی ہی اُن کی چُراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی پہ جان کو مارے ہے آدمی
اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اُتارے ہے آدمی
چِلّا کے آدمی کو پُکارے ہے آدمی
اور سُن کے دوڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ناچے ہے آدمی ہی، بجا تالیوں کو یار
اور آدمی ہی ڈالے ہے اپنی ازار اُتار
ننگا کھڑا ، اُچھلتا ہے، ہو کر ذلیل و خوار
سب آدمی ہی ہنستے ہیں ، دیکھ اُس کو بار بار
اور وہ جو مسخرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
چلتا ہے آدمی ہی، مسافر ہو، لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے، پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے ، اور آدمی ہی جال
سچّا بھی آدمی ہی، نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹھ کا بھرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی شادی ہے، اور آدمی بیاہ
قاضی وکیل آدمی، اور آدمی گواہ
تاشے بجاتے آدمی چلتے ہیں، خوامخواہ
دوڑے ہیں آدمی ہی مشعالیں جلا کے واہ
اور بیاہنے چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی نقیب ہو، بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں، اور آدمی سوار
حُقہ ، صُراحی، جوتیاں، دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی، ہیں آدمی کہار
اور اُس پہ جو چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

بیٹھے ہیں آدمی ہی، دکانیں لگا لگا
کہتا ہے کوئی لو، کوئی کہتا ہے، لا رے لا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں، سر رکھ کے خوانچہ
کس کس طرح سے بیچیں ہیں، چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
طبلے ، منجیرے، دائرے، سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بجا
اُن کو بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
وہ آدمی ہی ناچیں ہیں، اور دیکھو یہ مزا
جو ناچ دیکھتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی، لعل و جواہر ہے، بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہی ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے ، اور اُلٹا ہے جُوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹُکڑا سا چاند کا
بد شکل و بد نُما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک آدمی ہیں جن کی، یہ کُچھ زرق برق ہیں
روپے کے اُن کے پائوں ہیں، سونے کے فرق ہں
جھمکے تمام غرب سے لے ، تا بہ شرق ہیں
کمخواب، تاش، شال، دوشالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک ایسے ہیں کہ، جن کے بِچھے ہیں نئے پلنگ
پھولوں کی سیج اُن پہ جَھمکتی ہے تازہ رنگ
سوتے ہیں لپٹے چھاتی سے ، معشوق ، شوخ و شنگ
سو سو طرح سے عیش کے کرتے ہیں رنگ ڈھنگ
اور خاک میں پڑا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
حیراں ہُوں یارو، دیکھو تو، کیسا یہ سوانگ ہے
یاں آدمی ہی چور ہے، اور آپ ہی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی، اور کہیں مانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثلِ رانگ ہے
فولاد سے گھڑا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

مرنے میں آدمی ہی ، کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دُھلا اُٹھاتےہیں، کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں، روتے ہیں زار و زار
سب آدمی ہی کرتے ہیں، مردے کا کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اشراف اور کمینے سے، لے شاہ تا وزیر
ہیں آدمی ہی صاحبِ عزّت بھی، اور حقیر
یاں آدمی مرید ہیں، اور آدمی ہی ہیر
اچّھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ​
اور سب میں جو بُرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی​
بشکریہ : گوگل جادوگرنی​
 
Top