حسن داور سراج
محفلین
بیوی بار بار ماں پر الزام لگائے جا رہی تھی ......
.
اور
شوہر بار بار اسکو اپنی حد میں
رہنے کی کہہ رہا تھا
لیکن بیوی چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی
.
بیوی زور زور سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ
"اس نے انگوٹی ٹیبل پر ہی رکھی تھی
اور تمهارےور میرے علاوہ اس کمریں میں کوئی نہیں آیا
انگوٹی ہو نا ہو ماں جی نے ہی اٹھائی ہے.
بات جب شوہر کی برداشت سے باہر ہو گئی تو
اس نے بیوی کے گال پر ایک زور دار طمانچہ دےمارا اب
تین ماہ پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی.
بیوی سے طمانچہ برداشت نہیں ہوا وہ گھر چھوڑ کر جانے لگی
اور جاتے جاتے شوہر سے ایک سوال پوچھا
کہ تجھ اپنی ماں پر اتنا یقین کیوں ہے .. ؟؟
تب شوہر نے جو جواب دیا
اس جواب کو سن کر
دروازے کے پیچھے کھڑی ماں نے سنا تو
اس کا دل بھر آیا
شوہر نے بیوی کو بتایا کہ
"جب وہ چھوٹا تھا تب اس کے والد گزر گئے
.
ماں محلے کے گھروں میں جھاڑو پوچھا لگا کر جو کما پاتی تھی
اس سے ایک وقت کا کھانا آتا تھا
ماں ایک پلیٹ میں مجھے کھانا دیتی تھی
اور
خالی ٹوکری ڈھك کر رکھ دیتی تھی
اور
کہتی تھی
میری روٹیاں اس ٹوکری میں ہے بیٹا تو کھا لے
میں نے بھی ہمیشہ آدھی روٹی کھا کر کہہ دیتا تھا
کہ ماں میرا پیٹ بھر گیا ہے مجھے اور نہیں کھانا ہے
ماں نے مجھے میری جھوٹی آدھی روٹی کھا کر مجھے پالا پوسا اور بڑا کیا ہے
آج میں نے دو روٹی کمانے کے قابل ہو ہوں
لیکن یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ ماں نے عمر کے اس پڑاؤ پر اپنی خواہشات کو مارا ہے،
وہ ماں آج عمر کے اس پڑاؤ پر کسی انگوٹی کی بھوکی ہو گی
.یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا
آپ تو تین ماہ سے میرے ساتھ ہو
میں نے تو ماں کی تپسیا کو گزشتہ پچیس سالوں سے دیکھا ہے ..
.یہ سن کر ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھے
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بیٹا اس کی آدھی روٹی کا قرض چکا رہا ہے یا وہ بیٹے
کی آدھی روٹی کا قرض ...
۔
.
اور
شوہر بار بار اسکو اپنی حد میں
رہنے کی کہہ رہا تھا
لیکن بیوی چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی
.
بیوی زور زور سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ
"اس نے انگوٹی ٹیبل پر ہی رکھی تھی
اور تمهارےور میرے علاوہ اس کمریں میں کوئی نہیں آیا
انگوٹی ہو نا ہو ماں جی نے ہی اٹھائی ہے.
بات جب شوہر کی برداشت سے باہر ہو گئی تو
اس نے بیوی کے گال پر ایک زور دار طمانچہ دےمارا اب
تین ماہ پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی.
بیوی سے طمانچہ برداشت نہیں ہوا وہ گھر چھوڑ کر جانے لگی
اور جاتے جاتے شوہر سے ایک سوال پوچھا
کہ تجھ اپنی ماں پر اتنا یقین کیوں ہے .. ؟؟
تب شوہر نے جو جواب دیا
اس جواب کو سن کر
دروازے کے پیچھے کھڑی ماں نے سنا تو
اس کا دل بھر آیا
شوہر نے بیوی کو بتایا کہ
"جب وہ چھوٹا تھا تب اس کے والد گزر گئے
.
ماں محلے کے گھروں میں جھاڑو پوچھا لگا کر جو کما پاتی تھی
اس سے ایک وقت کا کھانا آتا تھا
ماں ایک پلیٹ میں مجھے کھانا دیتی تھی
اور
خالی ٹوکری ڈھك کر رکھ دیتی تھی
اور
کہتی تھی
میری روٹیاں اس ٹوکری میں ہے بیٹا تو کھا لے
میں نے بھی ہمیشہ آدھی روٹی کھا کر کہہ دیتا تھا
کہ ماں میرا پیٹ بھر گیا ہے مجھے اور نہیں کھانا ہے
ماں نے مجھے میری جھوٹی آدھی روٹی کھا کر مجھے پالا پوسا اور بڑا کیا ہے
آج میں نے دو روٹی کمانے کے قابل ہو ہوں
لیکن یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ ماں نے عمر کے اس پڑاؤ پر اپنی خواہشات کو مارا ہے،
وہ ماں آج عمر کے اس پڑاؤ پر کسی انگوٹی کی بھوکی ہو گی
.یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا
آپ تو تین ماہ سے میرے ساتھ ہو
میں نے تو ماں کی تپسیا کو گزشتہ پچیس سالوں سے دیکھا ہے ..
.یہ سن کر ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھے
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بیٹا اس کی آدھی روٹی کا قرض چکا رہا ہے یا وہ بیٹے
کی آدھی روٹی کا قرض ...
۔