سلیم لفافی ن لیگ کا سیاسی ورکر ہے، پتا نہیں صحافت میں کیا کر رہا ہے۔۔۔
04 جنوری ، 2020
سلیم صافی
’نوازشریف کو کہا تھا حکمرانی چاہتے ہیں تو مشرف کو جانے دیں‘
فائل فوٹو
2013کے انتخابات کے چند روز بعد میاں نواز شریف نے رائےونڈ میں اپنے گھر پر لنچ کے لئے مدعو کیا، وہ افغانستان اور طالبان جیسے ایشوز پر گپ شپ کرنا چاہ رہے تھے۔
نیشنل سیکورٹی کے معاملات ڈسکس ہورہے تھے تو دورانِ گفتگو گزارش کی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو چھیڑنے سے گریز کریں، دلیل میں نے یہ دی کہ چونکہ بارہ تیرہ سال فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات خراب رہے اِس لئے اُنہیں اِس خلیج کو پُر کرنے پر توجہ دینا چاہئے جبکہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی اِس خلیج کو دوبارہ وسیع کر سکتی ہے۔
اُنہوں نے بحث کی تو عرض کیا کہ جب تک وہ (میاں نواز شریف) اٹک جیل میں رہے تب تک پرویز مشرف حکمرانی کو انجوائے نہیں کر سکے تھے لیکن اُن کو جدہ بھیجنے کے بعد ہی اُنہوں نے سکون سے حکمرانی پر توجہ دی اور اِس کو انجوائے کرنے لگے۔
اس لئے اگر وہ (میاں صاحب) سکون سے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کو جانے دیا جائے، بہر حال اقتدار پر فائز لوگ کب ہم جیسے طالب علموں کی سنتے ہیں۔
چنانچہ چند نام نہاد انقلابیوں اور خوشامدیوں کے ایما پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کر لیا گیا، اِس اقدام کے خلاف اس وقت میرے کالم ریکارڈ پر ہیں، اسی طرح میرا یہ بھی موقف تھا کہ اگر مقدمہ قائم کرنا ہے تو پھر صرف پرویز مشرف کیوں اور وہ جج اور سیاستدان کیوں نہیں جو سہولت کار بنے؟
بہر حال مقدمہ قائم ہو گیا، کچھ عرصہ بعد میاں نواز شریف نے محترم بھائی میجر (ر) محمد عامر اوراس طالب علم کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر مشاورت کے لئے بلایا تھا، فواد حسن فواد بھی اس گفتگو کے گواہ ہیں، اُس دن اتفاقاً جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔
دورانِ ملاقات وزیراعظم سے عرض کیا کہ اُنہوں نے یہ پرویز مشرف والا تنازع کیوں مول لیا، وہ حق میں جبکہ میجر عامر اور یہ طالب علم مخالفت میں دلائل دیتے رہے۔ ایک موقع پر میاں نواز شریف نے طنز کرتے ہوئے میجر عامر سے کہا کہ میجر صاحب! فوجی آپ ہیں لیکن آپ سے زیادہ سلیم کو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہمدردی ہے۔
میں نے جواباً عرض کیا کہ وزیراعظم صاحب! میں جنرل مشرف کی نہیں بلکہ ملک اور نظام کی ہمدردی میں آپ سے یہ گزارش کررہا ہوں، آپ اس کے بجائے ڈیلیوری پر توجہ دیں۔ نہ آپ طیب اردوان ہیں اور نہ آپ کی پارٹی ان کی پارٹی جیسی ہے۔
بہر حال میاں صاحب اپنے خوشامدی ٹولے کے ورغلانے پر طیب اردوان بننے کی کوشش کرنے لگے، چنانچہ ردِعمل میں عمران خان اور طاہر القادری کو میدان میں اُتار کر اُن کی حکومت کے خلاف دھرنے دلوائے گئے، نتیجتاً جو ہاتھ میاں صاحب گریبان میں لے کر گئے تھے، وہی ہاتھ قدموں میں لے گئے لیکن ان کی معافی قبول نہ ہوئی اور دوسرے فریق کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس شخص کا ذہن صاف نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ اِس کے بعد ایک سلسلہ شروع ہوگیا، میڈیا کو اُن کے خلاف لگا دیا گیا، اُنہیں مودی کا یار باور کرایا گیا، لاک ڈاؤن سے ان کو مزید کمزور کردیا گیا جبکہ پانامہ کو اُن کے خلاف اِس طرح استعمال کیا گیا کہ اُن کو وزارتِ عظمیٰ سے بھی محروم ہونا پڑا۔
اِس دوران پھر شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ان کو سمجھاتے رہے کہ سزا کے بعد ہمیں اپنی حیثیت کو دیکھ کر معاملات سدھار دینا چاہئیں لیکن اب اُن پر ایک طرف تو انتقام کا جذبہ غالب آگیا تھا اور دوسری طرف وہی خوشامدی اُن کو باور کراتے رہے کہ بس اُن کے جی ٹی روڈ پر نکلنے کی دیر ہے اور پاکستان راتوں رات ترکی بن جائے گا۔
ایک خوشامدی نے اُنہیں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی تھما دیا جبکہ مریم نواز صاحبہ نام نہاد انقلابی خوشامدیوں کے ورغلانے میں اپنے والد سے بھی زیادہ انقلابی بن گئیں۔ نتیجتاً مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں مزید ٹھکانے لگا دیا گیا اور اس انتقام میں ہی عمران خان وزیراعظم بن گئے۔
میاں صاحب اور مریم صاحبہ کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں بلکہ انہیں کلثوم نواز صاحبہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل جانے کے لئے پاکستان آنے کا ناقابلِ تلافی صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔
درمیان میں چند ماہ کے لئے چپ کا روزہ رکھ کر میاں صاحب اور مریم صاحبہ نے شہباز شریف کے کہنے پر دوبارہ سیاسی شریف بننے کی مشق کی لیکن کچھ عرصہ بعد دوبارہ انقلابی بننے لگے ۔ چنانچہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ اور خواجہ سعد رفیق جیسے اُن کے مخلص ساتھیوں کی آزمائشیں مزید بڑھ گئیں اور قید و بند کا سلسلہ شہباز شریف اور اُن کے بچوں تک بھی دراز ہوا۔
اِس دوران فریق ثانی کو بھی ضرورت پڑ گئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو بھی احساس ہو گیا کہ انقلابیت کا یہ بھاری پتھر وہ زیادہ دیر نہیں اٹھا سکتے۔ چنانچہ گزشتہ سال کے اواخر میں شہباز شریف اور فریق ثانی کے معاملات طے پائے۔ اب کی بار جو کچھ ہو رہا تھا اُس میں میاں نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ بھی پوری طرح شریک تھے جبکہ خواجہ آصف جیسے انقلابی نہ صرف آن بورڈ تھے بلکہ خود معاملات کو یہاں تک لانے میں اُنہوں نے پوری کوششیں بھی کیں۔
اِسی اسکیم کے تحت شہباز شریف لندن میں ہیں جبکہ مریم نواز غائب اور خاموش ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف عدالت کے فیصلے پر خاموشی اور اب آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حمایت دراصل اس مفاہمت کی کڑیاں ہیں جو ملک کے وسیع ترمفاد میں شریف فیملی کے ساتھ ہو چکی ہے۔
چھوٹے اور بڑے شریف ہلکے پھلکے اختلاف کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کرنے میں رسوائی ضرور تاہم فائدہ بہت ہے جبکہ اس سے چمٹے رہنے میں آزمائش ہی آزمائش ہے۔
ظاہری طور پر دونوں کی سوچ اور اپروچ کا اختلاف نظر آتا ہے لیکن میاں شہباز شریف نواز شریف کو نہیں چھوڑ سکتے جبکہ شہباز شریف جو کچھ کررہے ہیں اُس میں اُنہیں میاں نواز شریف کی تائید حاصل ہے۔ حقیقی اختلاف اگر کوئی ہے تو وہ شہباز شریف اور نواز شریف کی اولاد میں سیاسی جانشینی کے معاملے پر ہے باقی ملک کے وسیع تر مفاد میں مسلم لیگ (ن) نے مفاہمت اور تابعداری کی جو پالیسی اپنالی ہے اس پر میاں شہباز شریف، میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے مابین وسیع تر مفاہمت پائی جاتی ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ جب یہی پیازکھانے تھے تو پھر سو جوتے کھانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اسی طرح شریف فیملی کے وسیع ترمفاد میں لئے گئے اِس یوٹرن سے پہلے کیا ضروری نہیں تھا کہ مریم نواز شریف، اپنے انقلابی اتالیقوں کو ساتھ لے کر پہلے چوہدری نثار علی خان کے گھر جاکر اُن سے معافی مانگتیں اور پھر معذرت کے لئے شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ، حنیف عباسی اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ کے پاس چلی جاتیں۔
شاید اسے کہتے ہیں بڑے بےآبرو ہوکر بیانیے کو ہم بدلے۔