آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ: چند بنیادی حقائق

یہ صاحب تو خود 62 63 پر پورے نہیں اترتے دوسروں کو کیا سبق دے رہے ہیں ۔ یہ پڑھیے




کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔
مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟ “
وہ کبھی اپنی نئی گاڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھتا اور کبھی بچے کو دیکھتا ۔ بالآخر اس نے بچے سے پوچھا “ کہاں ہے تمہا را بھائی ؟ “ بچہ اسے گاڑیوں کے پیچھے لے گیا ۔ ایک نوجوان جو ٹانگوں سے معذور تھا بے بسی سے زمین پر پڑا تھا۔اس نے اور بچے نے ملکر اسے اٹھایا اور ویل چیئر پر بٹھایا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرف دیکھے بغیر ویل چیئر کو دھکیلتا ایک طرف چلا گیا۔
یہ کہانی ایک دوست نے ای میل کے ذریعے بھیجی ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین کو یہ پہلے ہی معلوم ہو لیکن اصل مسئلہ کہانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو اس کہانی سے نکلتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسے سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم سب تیز رفتاری کا شکار ہیں۔نئی گاڑیاں ہیں۔ تازہ جوانیاں ہیں۔ ترقی کرنے کے ہدف ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہشات ہیں۔دولت کمانے کی دھن ہے۔ شہرت پانے کی آرزو ہے۔ بڑے سے بڑا منصب حاصل کرنے کیلئے تگ و دو ہے۔ اولاد کیلئے بہت کچھ چھوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔ زمین ، محلات ،گاڑیاں ، زیورات ، جواہرات اور ساز و سامان اکٹھا کرنے کی فکر ہے۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے ہم بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں۔ خدا کا نہ مخلوقِ خدا کا۔دوسروں کے حقوق کا نہ اپنے فرائض کا۔ یہاں تک کہ کہیں سے ایک زور کی اینٹ آتی ہے ۔ کار کا دروازہ ٹوٹتا ہے ۔ تب ہم رکتے ہیں اور اس ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اینٹ لگنے سے پہلے رُک جائیں ۔ یا کم از کم اپنی رفتار ہی کم کر دیں؟ کیا ہم اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دنیا میں دولت، منصب ، شہرت اور چکا چوند کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ آخر ہم اینٹ ہی کا کیوں انتظار کرتے ہیں ؟
یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت تیز رفتار لوگوں کے پنجے میں بلکہ شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ گٹھڑیاں انکے سروں پر ہیں۔ تھیلے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ گٹھڑیاں ، یہ تھیلے سونے اور جواہرات سے بھرے ہیں۔ یہ لوگ مزید سونے اور مزید جواہرات کیلئے بھاگے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ایک اینٹ زور سے لگنے والی ہے جس کے بعد انہیں ہر حال میں رُکنا پڑےگا۔
لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ عام طور پر ہمارا تائثر یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کا شکار یہ لوگ دنیا دار ہیں ، دنیا پرست ہیں اور دین کے نام لیوا ان میں شامل نہیں ۔ کاش ایسا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ گٹھڑیاں سروں پر اُٹھائے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے ان لوگوں میں سیاست دان ہیں، بیوورو کریٹ ہیں ،جرنیل ہیں، تاجر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی باقاعدہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان لوگوں سے مختلف بلکہ برتر ہونے کا گمان رکھتے ہیں جن کا شمار بقول ان کے سگانِ دنیا میں ہے۔اس المیے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے۔
یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ 1981ءکا سال تھا۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو جنرل ضیا کا فرمان وصول ہوتا ہے : ”میں نے منظوری دےدی ہے کہ ”آئی پی ایس “ کو، جو اس وقت F-6/1
میں واقع ہے ، ایک مناسب عمارت بنانے کیلئے متعلقہ سائز کا پلاٹ دیا جائے۔ یہ وہی سائز چاہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس اعلیٰ کام کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ پہلے سے کر رہا ہے اور سہولیات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پلاٹ اس طرح کی الاٹمنٹوں کی نارمل قیمت کی ادائیگی پر دیا جا ئےگا
یہ ” تحقیقاتی" ادارہ [ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز]ایک ایسے پروفیسر صا حب کا ہے جو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے ممتاز رہنما ہیں اور طویل عرصہ سے اسکی نمائندگی سینیٹ میں بھی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پلاٹ سیکٹر ایچ ۔ نائن میں دئیے جاتے تھے۔ یہ پلاٹ لیز پر ہوتے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کےمطابق ناقابل فروخت اور ناقابلِ انتقال ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو بھی پلاٹ ایچ نائن سیکٹر ہی میں دیا جا رہا تھا لیکن جنرل ضیا نے ایک بار پھر مداخلت کی اور دو کنال کا یہ پلاٹ جناح سپر مارکیٹ میں دیا گیا جہاں کوئی اور تعلیمی یا تحقیقاتی ادارہ کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ مارکیٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ پھر یوں ہوا کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ملنے والے اس پلاٹ پر تین منزلہ پلازہ بن گیا جس میں مشہور بین الاقوامی برانڈز کی دکانیں کھُل گئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا ۔ 2009ءمیں ترقیاتی ادارے نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کو اجازت دے دی کہ پلاٹ پر بنے ہوئے عالیشان پلازے کو ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام منتقل کر دیا جائے۔ اور یہ انتقال ہو بھی گیا۔
یعنی ملکی قوانین صرف پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ یا جرنیلوں ہی کیلئے نہیں بدلتے۔ یہاں گٹھری سر پر رکھے اور تھیلا ہاتھ میں پکڑے بھاگنے والوں میں ماشا ءاللہ وہ بھی حسب توفیق شامل ہیں جو اقامت دین کے دعویدار ہیں۔ پہلے تو صدارتی طرفداری سے پلاٹ وہاں الاٹ کرایا گیا جہاں تعلیمی مقاصد کے لیے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمارت کا ایک حصّہ خالص منافع آور استعمال میں رکھ دیا گیا۔ پھر اس پلاٹ کو جو لیز پر ہے اور ناقابلِ فروخت اور ناقابلِ انتقال ہے بیچ دیا گیا۔ اس ” تحقیقاتی “ کار و بار سے کتنے ارب روپے کا منافع ہوا اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو جناح سپر مارکیٹ کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ کہا یہ جائےگا کہ یہ سب کچھ ترقیاتی ادارے کی اجازت سے کیا گیا۔ اب یہ کس کی مجال ہے کہ پوچھے کہ ترقیاتی ادارے نے یہ غیر قانونی اجازت کیوں دی اور کس کے دباو پر دی؟ اگر ترقیاتی ادارہ یہی حرکت کسی اور کیلئے کرتا تو سینیٹ میں قانون شکنی کےخلاف ایک دھواں دھار تقریر کی جاتی اور ترقیاتی ادارے کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا !
معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو اور بھی ہے۔ اس پر بھی غور فرما یئے ۔ جب جنرل ضیا نے ترقیاتی ادارے کو پلاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت یہ ادارہ ایف سکس سیکٹر میں واقع تھا ۔ اب پلاٹ اور پلازہ فروخت کر کے یہ ادارہ اسی سیکٹر یعنی ایف سکس میں دوبارہ واپس چلا گیا ہے ! ! ! ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا ....
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی
تو جناب ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ....
صبح ہو تے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی
اور اس میں سب شامل ہیں۔ کسی ایک پر الزام نہ لگائیے۔ دنیا کے پیچھے صرف وہی نہیں بھاگ رہے جنہیں ہم آپ دنیا دار سمجھتے ہیں !
انہی پروفیسر صاحب کے کچھ کارنامے ذیل میں درج ہیں
In view of his pioneering work and contributions towards the development of Islamic Economics as an academic discipline, he was awarded the First Islamic Development Bank Award for Economics in 1988.
His contributions to the Islamic cause were also recognized in the form of King Faisal International Prize,1990, which is the equivalent of the Nobel Prize in the Muslim World.
In recognition of his services in Islamic Economics & Finance, he was given 5th Annual Prize of American Finance House, LaRiba, US in July 1998.

[edit]​
 
یہ صاحب تو خود 62 63 پر پورے نہیں اترتے دوسروں کو کیا سبق دے رہے ہیں ۔ یہ پڑھیے




کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔
مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟ “
وہ کبھی اپنی نئی گاڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھتا اور کبھی بچے کو دیکھتا ۔ بالآخر اس نے بچے سے پوچھا “ کہاں ہے تمہا را بھائی ؟ “ بچہ اسے گاڑیوں کے پیچھے لے گیا ۔ ایک نوجوان جو ٹانگوں سے معذور تھا بے بسی سے زمین پر پڑا تھا۔اس نے اور بچے نے ملکر اسے اٹھایا اور ویل چیئر پر بٹھایا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرف دیکھے بغیر ویل چیئر کو دھکیلتا ایک طرف چلا گیا۔
یہ کہانی ایک دوست نے ای میل کے ذریعے بھیجی ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین کو یہ پہلے ہی معلوم ہو لیکن اصل مسئلہ کہانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو اس کہانی سے نکلتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسے سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم سب تیز رفتاری کا شکار ہیں۔نئی گاڑیاں ہیں۔ تازہ جوانیاں ہیں۔ ترقی کرنے کے ہدف ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہشات ہیں۔دولت کمانے کی دھن ہے۔ شہرت پانے کی آرزو ہے۔ بڑے سے بڑا منصب حاصل کرنے کیلئے تگ و دو ہے۔ اولاد کیلئے بہت کچھ چھوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔ زمین ، محلات ،گاڑیاں ، زیورات ، جواہرات اور ساز و سامان اکٹھا کرنے کی فکر ہے۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے ہم بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں۔ خدا کا نہ مخلوقِ خدا کا۔دوسروں کے حقوق کا نہ اپنے فرائض کا۔ یہاں تک کہ کہیں سے ایک زور کی اینٹ آتی ہے ۔ کار کا دروازہ ٹوٹتا ہے ۔ تب ہم رکتے ہیں اور اس ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اینٹ لگنے سے پہلے رُک جائیں ۔ یا کم از کم اپنی رفتار ہی کم کر دیں؟ کیا ہم اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دنیا میں دولت، منصب ، شہرت اور چکا چوند کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ آخر ہم اینٹ ہی کا کیوں انتظار کرتے ہیں ؟
یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت تیز رفتار لوگوں کے پنجے میں بلکہ شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ گٹھڑیاں انکے سروں پر ہیں۔ تھیلے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ گٹھڑیاں ، یہ تھیلے سونے اور جواہرات سے بھرے ہیں۔ یہ لوگ مزید سونے اور مزید جواہرات کیلئے بھاگے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ایک اینٹ زور سے لگنے والی ہے جس کے بعد انہیں ہر حال میں رُکنا پڑےگا۔
لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ عام طور پر ہمارا تائثر یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کا شکار یہ لوگ دنیا دار ہیں ، دنیا پرست ہیں اور دین کے نام لیوا ان میں شامل نہیں ۔ کاش ایسا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ گٹھڑیاں سروں پر اُٹھائے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے ان لوگوں میں سیاست دان ہیں، بیوورو کریٹ ہیں ،جرنیل ہیں، تاجر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی باقاعدہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان لوگوں سے مختلف بلکہ برتر ہونے کا گمان رکھتے ہیں جن کا شمار بقول ان کے سگانِ دنیا میں ہے۔اس المیے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے۔
یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ 1981ءکا سال تھا۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو جنرل ضیا کا فرمان وصول ہوتا ہے : ”میں نے منظوری دےدی ہے کہ ”آئی پی ایس “ کو، جو اس وقت F-6/1
میں واقع ہے ، ایک مناسب عمارت بنانے کیلئے متعلقہ سائز کا پلاٹ دیا جائے۔ یہ وہی سائز چاہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس اعلیٰ کام کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ پہلے سے کر رہا ہے اور سہولیات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پلاٹ اس طرح کی الاٹمنٹوں کی نارمل قیمت کی ادائیگی پر دیا جا ئےگا
یہ ” تحقیقاتی" ادارہ [ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز]ایک ایسے پروفیسر صا حب کا ہے جو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے ممتاز رہنما ہیں اور طویل عرصہ سے اسکی نمائندگی سینیٹ میں بھی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پلاٹ سیکٹر ایچ ۔ نائن میں دئیے جاتے تھے۔ یہ پلاٹ لیز پر ہوتے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کےمطابق ناقابل فروخت اور ناقابلِ انتقال ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو بھی پلاٹ ایچ نائن سیکٹر ہی میں دیا جا رہا تھا لیکن جنرل ضیا نے ایک بار پھر مداخلت کی اور دو کنال کا یہ پلاٹ جناح سپر مارکیٹ میں دیا گیا جہاں کوئی اور تعلیمی یا تحقیقاتی ادارہ کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ مارکیٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ پھر یوں ہوا کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ملنے والے اس پلاٹ پر تین منزلہ پلازہ بن گیا جس میں مشہور بین الاقوامی برانڈز کی دکانیں کھُل گئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا ۔ 2009ءمیں ترقیاتی ادارے نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کو اجازت دے دی کہ پلاٹ پر بنے ہوئے عالیشان پلازے کو ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام منتقل کر دیا جائے۔ اور یہ انتقال ہو بھی گیا۔
یعنی ملکی قوانین صرف پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ یا جرنیلوں ہی کیلئے نہیں بدلتے۔ یہاں گٹھری سر پر رکھے اور تھیلا ہاتھ میں پکڑے بھاگنے والوں میں ماشا ءاللہ وہ بھی حسب توفیق شامل ہیں جو اقامت دین کے دعویدار ہیں۔ پہلے تو صدارتی طرفداری سے پلاٹ وہاں الاٹ کرایا گیا جہاں تعلیمی مقاصد کے لیے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمارت کا ایک حصّہ خالص منافع آور استعمال میں رکھ دیا گیا۔ پھر اس پلاٹ کو جو لیز پر ہے اور ناقابلِ فروخت اور ناقابلِ انتقال ہے بیچ دیا گیا۔ اس ” تحقیقاتی “ کار و بار سے کتنے ارب روپے کا منافع ہوا اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو جناح سپر مارکیٹ کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ کہا یہ جائےگا کہ یہ سب کچھ ترقیاتی ادارے کی اجازت سے کیا گیا۔ اب یہ کس کی مجال ہے کہ پوچھے کہ ترقیاتی ادارے نے یہ غیر قانونی اجازت کیوں دی اور کس کے دباو پر دی؟ اگر ترقیاتی ادارہ یہی حرکت کسی اور کیلئے کرتا تو سینیٹ میں قانون شکنی کےخلاف ایک دھواں دھار تقریر کی جاتی اور ترقیاتی ادارے کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا !
معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو اور بھی ہے۔ اس پر بھی غور فرما یئے ۔ جب جنرل ضیا نے ترقیاتی ادارے کو پلاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت یہ ادارہ ایف سکس سیکٹر میں واقع تھا ۔ اب پلاٹ اور پلازہ فروخت کر کے یہ ادارہ اسی سیکٹر یعنی ایف سکس میں دوبارہ واپس چلا گیا ہے ! ! ! ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا ....
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی
تو جناب ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ....
صبح ہو تے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی
اور اس میں سب شامل ہیں۔ کسی ایک پر الزام نہ لگائیے۔ دنیا کے پیچھے صرف وہی نہیں بھاگ رہے جنہیں ہم آپ دنیا دار سمجھتے ہیں !
انہی پروفیسر صاحب کے کچھ کارنامے ذیل میں درج ہیں
In view of his pioneering work and contributions towards the development of Islamic Economics as an academic discipline, he was awarded the First Islamic Development Bank Award for Economics in 1988.
His contributions to the Islamic cause were also recognized in the form of King Faisal International Prize,1990, which is the equivalent of the Nobel Prize in the Muslim World.
In recognition of his services in Islamic Economics & Finance, he was given 5th Annual Prize of American Finance House, LaRiba, US in July 1998.

[edit]​
 

سعود الحسن

محفلین
انہی پروفیسر صاحب کے کچھ کارنامے ذیل میں درج ہیں
In view of his pioneering work and contributions towards the development of Islamic Economics as an academic discipline, he was awarded the First Islamic Development Bank Award for Economics in 1988.
His contributions to the Islamic cause were also recognized in the form of King Faisal International Prize,1990, which is the equivalent of the Nobel Prize in the Muslim World.
In recognition of his services in Islamic Economics & Finance, he was given 5th Annual Prize of American Finance House, LaRiba, US in July 1998.


[edit]


آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ اگر کسی کو کوئی ایوارڈ ملا ہو تو اس پر کرپشن حلال ہو جاتی ہے؟؟؟؟؟؟
 

نایاب

لائبریرین
باسٹھ تریسٹھ بارے مباحث پڑھ پڑھ بیزاریت ہونے لگی تو اچانک یہ کہانی سامنے آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سوچتے ہیں ہم سب مل کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں ہم بھی تو ایسی کسی کہانی کاکردار تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




گائے کی کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو؟ (موسیٰ نے) کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں۔
انہوں نے کہا اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ گائے کس طرح کی ہو، (موسیٰ نے) کہا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو بوڑھی ہو اور نہ بچا۔ بلکہ ان کے درمیان (یعنی جوان) ہو سو جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ویسا کرو
انہوں نے کہا اپنے پروردگار سے درخواست کیجیے کہ ہم کو یہ بھی بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو، موسیٰ نے کہا پروردگار فرماتا ہے کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہو کہ دیکھنے والوں (کے دل) کو خوش کر دیتا ہو،
انہوں نے کہا (اب کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتادے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو کیونکہ بہت سی گائیں ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتی ہیں ، پھر خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی
موسیٰ نے کہا خدا فرماتا ہے کہ وہ گائے کام میں لگی ہوا نہ ہو، نہ تو زمین جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو، کہنے لگے اب تم نے سب باتیں درست بتا دیں، غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس گائے کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے تھے نہیں۔(البقرہ ۲: ۷۳-۶۷)
تفصیل و وضاحت
گائے کو ذبح کرنے کے حکم پر بنی اسرائیل کی کٹ حجتیاں:۔ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص مارا گیا جسے اس کے بھتیجوں نے جنگل میں موقعہ پا کر قتل کیا اور رات کے اندھیرے میں کسی دوسرے شخص کے مکان کے سامنے پھینک دیا۔ اس کے قاتل کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ اس قوم کو حکم دو کہ وہ ایک گائے ذبح کریں۔ گائے ذبح کرنے کا حکم کیوں دیا گیا تھا اس پر دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ۔ روایتی نقطہ نظر یہ ہے کہ ذبح شدہ گائے کے گوشت کا ٹکڑا مارنے سے مردہ لاش جی اٹھتی اور اور بول کر قاتل کا پتہ بتا دیتی۔دوسرا نقطہ نظر کے مطابق بنی اسرائل میں قسامہ کا طریقہ رائج تھا۔جس میں جب قاتل کا سراغ نہ ملتا تو اس مقام پر مشتبہ اور متعلقہ لوگوں کو جمع کیا جاتا اور کسی جانور کو ذبح کرکے یہ تمام لوگ اس کے خون سے ہاتھ دھوتے اور قسم کھاتے کہ انہوں نے یہ قتل نہیں کیا ہے یا وہ قاتل کو نہیں جانتے۔
گائے کو ذبح کرنے کا حکم دراصل بنی اسرائیل کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف تھا۔ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم اور گائے بیل سے محبت اور اسے دیوتا سمجھنے کا عقیدہ ابھی تک ان میں موجود تھا۔ لہذا ایک تکلیف تو انہیں یہ ہوئی کہ جس چیز کو قابل پرستش سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ دوسرے انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ اس طرح گائے ذبح کرنے سے قاتل کا سراغ کس طرح مل سکتا ہے۔ لہذا موسیٰ علیہ السلام سے یوں کہہ دیا کہ ہم سے دل لگی کرتا ہے۔” موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں تو تمہیں اللہ کا حکم بتا رہا ہوں، دل لگی نہیں کر رہا۔ کیونکہ ایسی دل لگی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔”
اگر بنی اسرائیل ایک فرمانبردار قوم ہوتے اور کوئی سی گائے بھی ذبح کر دیتے تو حکم کی تعمیل ہو جاتی، مگر کٹ حجتی اور ٹال مٹول، حتیٰ کہ نافرمانی ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اچھا ہمیں اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتاؤ وہ گائے کیسی ہونی چاہیے؟” اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا۔ ”وہ گائے جوان ہونی چاہیے، بوڑھی یا کم عمر نہ ہو۔ پھر دوسری مرتبہ یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر ہمیں بتاؤ کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟” اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ ”وہ گہرے زرد رنگ کی ہونی چاہیے، جو دیکھنے والے کے دل کو خوش کر دے۔” اب بھی حکم بجا لانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی تو تیسری مرتبہ یہ سوال کر دیا کہ ایسی صفات کی گائیں تو ہمارے ہاں بہت سی ہیں ہمیں پوچھ کر بتایا جائے کہ ”اس کی مزید صفات کیا ہوں؟” تاکہ ہمیں کسی متعین گائے کا علم ہو جائے جس کی قربانی اللہ تعالیٰ کو منظور ہے۔” اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ ”وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے ابھی تک کھیتی باڑی کا کام لینا شروع ہی نہ کیا گیا ہو یعنی نہ وہ ہل کے آگے جوتی گئی ہو اور نہ کنویں کے آگے۔ تندرست ہو اور صحیح و سالم ہو۔ یہ نہ ہو کہ کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے کام نہ لیا جا رہا ہو اور اس میں کوئی داغ بھی نہ ہو۔”
گائے ذبح کرنے میں کٹ حجتیوں کی سزا:۔ غرض یہ کہ یہ قوم جتنے سوال کرتی گئی، پابندیاں بڑھتی ہی گئیں۔ ان ساری پابندیوں کے بعد بس اب ان کے ہاں صرف ایک ہی گائے رہ گئی جو تقریباً سنہری رنگ کی بے داغ اور جواں تھی اور ایسی ہی گائے ہوتی تھی جسے پوجا پاٹ کے لیے انتخاب کیا جاتا تھااور جس سے بنی اسرائل کی گہری وابستگی تھی۔
مرکزی خیال:
اس واقعے کا مرکزی خیال یہی ہے کہ اللہ کے احکامات پر سمعنا واطعنا یعنی ہم نے سن لیا اور اطاعت کی کا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔ نیز یہ کہ غیر ضروری سوالات بعض اوقات مشکل میں پھنسا دیتے ہیں۔
تذکیری و اخلاقی پہلو
۱۔ سمعنا واطعنا
جب ایک شخص اللہ کی بندگی کا اقرا ر کرنے کا عہد کرلے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ وہ رب کے احکامات پر پس و پیش کا اظہار کرے۔ بنی اسرائیل کو جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اس پر اپنے اعتراضات کرنے شروع کردئیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو ٹالنا چاہتے تھے۔
۲۔اجمال کی نعمت
دین میں یہ اجمال اور سادگی ایک نعمت ہے لیکن جو لوگ دین کے مزاج سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اپنے اور دوسروں کے لئے مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ ہم مسلمانوں میں بھی بے شمار معاملات ایسے ہیں جو دین میں مجمل اور آسان بیان ہوئے ہیں لیکن لوگوں کی بے جا کھوج کی وجہ سے ان پر عمل درآمد مشکل تر ہوجارہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز کو لے لیجئے۔ نماز میں ہاتھ کانوں تک اٹھائے جائیں یا کاندھوں تک، تشہد میں انگلی مسلسل ہلائی جائے یا ایک بار، رکوع میں کمر کتنی سیدھی ہو، سجدے میں ناک کی ہڈی کتنی سختی سے زمین پر ٹکے؟ یہ سب وہ بحثیں ہیں جو اصل مقصود نہیں بلکہ نماز کے بنیادی مقصد یعنی خدا کی یاد سے دور کرنے والی ہیں۔
۳۔سوال کرنے کا انداز
دین میں سوال کرنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ سوال کرنے کا عمل علم میں اضافے کا اہم ذریعہ ہے۔ لیکن سوال کرنے کا ادب اور طریقہ یہ ہے کہ سنجیدگی، متانت اور اخلاص کو مدنظر رکھا جائے۔ بنی اسرائیل نے س اندازمیں سوال کیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ غیر سنجیدہ تھے نیز وہ اس حکم پر عمل کی بجائے اس سے گریز کرنے پر زیادہ آمادہ تھے۔
۴۔ آسانی کی نعمت اور ہمارا معاشرہ
بعض اوقات دین میں ایک چیز بہت سادہ اور آسان طریقے سے بیان کی جاتی ہے لیکن غیر ضروری سوالات کی کثرت اس حکم کو پیچیدہ اور بعض اوقات ناقابل عمل بنادیتی ہے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج فرض ہے۔ ایک شخص وہاں بیٹھا تھا وہ پوچھنے لگا کہ کیا ہر سال فرض ہے۔ آپ خاموش رہے۔ اس نے پھر اپنا سوال دہریا۔ تو آپ نے ناراض لہجے میں اسے جواب دیا کہ اگر میں کہوں ہر سال فرض ہے تو تم سے نبھایا نہ جائے گا۔ اسی طرح ایک حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دین بہت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا وہ اس پر غالب آجائے گا، پس تم لوگ میانہ روی کرو اور (اعتدال سے) قریب رہو اور خوش ہو جاؤ (کہ تمہیں ایسا دین ملا) اور صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ رات میں عبادت کرنے سے دینی قوت حاصل کرو۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 38)
چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کی فراہم کردہ آسانی سے فائدہ اٹھائیں ناکہ اسے مزید دشوار بنالیں۔
تحریر و ترتیب: پروفیسر محمد عقیل
نوٹ: اس مضمون کا ترجمہ و تفسیر مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تیسیر القرآن سے لیا گیا ہے۔
 
Top