سید اسد محمود
محفلین
انہی پروفیسر صاحب کے کچھ کارنامے ذیل میں درج ہیںیہ صاحب تو خود 62 63 پر پورے نہیں اترتے دوسروں کو کیا سبق دے رہے ہیں ۔ یہ پڑھیے
کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟ “وہ کبھی اپنی نئی گاڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھتا اور کبھی بچے کو دیکھتا ۔ بالآخر اس نے بچے سے پوچھا “ کہاں ہے تمہا را بھائی ؟ “ بچہ اسے گاڑیوں کے پیچھے لے گیا ۔ ایک نوجوان جو ٹانگوں سے معذور تھا بے بسی سے زمین پر پڑا تھا۔اس نے اور بچے نے ملکر اسے اٹھایا اور ویل چیئر پر بٹھایا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرف دیکھے بغیر ویل چیئر کو دھکیلتا ایک طرف چلا گیا۔یہ کہانی ایک دوست نے ای میل کے ذریعے بھیجی ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین کو یہ پہلے ہی معلوم ہو لیکن اصل مسئلہ کہانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو اس کہانی سے نکلتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسے سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم سب تیز رفتاری کا شکار ہیں۔نئی گاڑیاں ہیں۔ تازہ جوانیاں ہیں۔ ترقی کرنے کے ہدف ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہشات ہیں۔دولت کمانے کی دھن ہے۔ شہرت پانے کی آرزو ہے۔ بڑے سے بڑا منصب حاصل کرنے کیلئے تگ و دو ہے۔ اولاد کیلئے بہت کچھ چھوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔ زمین ، محلات ،گاڑیاں ، زیورات ، جواہرات اور ساز و سامان اکٹھا کرنے کی فکر ہے۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے ہم بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں۔ خدا کا نہ مخلوقِ خدا کا۔دوسروں کے حقوق کا نہ اپنے فرائض کا۔ یہاں تک کہ کہیں سے ایک زور کی اینٹ آتی ہے ۔ کار کا دروازہ ٹوٹتا ہے ۔ تب ہم رکتے ہیں اور اس ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اینٹ لگنے سے پہلے رُک جائیں ۔ یا کم از کم اپنی رفتار ہی کم کر دیں؟ کیا ہم اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دنیا میں دولت، منصب ، شہرت اور چکا چوند کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ آخر ہم اینٹ ہی کا کیوں انتظار کرتے ہیں ؟یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت تیز رفتار لوگوں کے پنجے میں بلکہ شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ گٹھڑیاں انکے سروں پر ہیں۔ تھیلے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ گٹھڑیاں ، یہ تھیلے سونے اور جواہرات سے بھرے ہیں۔ یہ لوگ مزید سونے اور مزید جواہرات کیلئے بھاگے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ایک اینٹ زور سے لگنے والی ہے جس کے بعد انہیں ہر حال میں رُکنا پڑےگا۔لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ عام طور پر ہمارا تائثر یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کا شکار یہ لوگ دنیا دار ہیں ، دنیا پرست ہیں اور دین کے نام لیوا ان میں شامل نہیں ۔ کاش ایسا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ گٹھڑیاں سروں پر اُٹھائے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے ان لوگوں میں سیاست دان ہیں، بیوورو کریٹ ہیں ،جرنیل ہیں، تاجر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی باقاعدہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان لوگوں سے مختلف بلکہ برتر ہونے کا گمان رکھتے ہیں جن کا شمار بقول ان کے سگانِ دنیا میں ہے۔اس المیے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے۔یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ 1981ءکا سال تھا۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو جنرل ضیا کا فرمان وصول ہوتا ہے : ”میں نے منظوری دےدی ہے کہ ”آئی پی ایس “ کو، جو اس وقت F-6/1میں واقع ہے ، ایک مناسب عمارت بنانے کیلئے متعلقہ سائز کا پلاٹ دیا جائے۔ یہ وہی سائز چاہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس اعلیٰ کام کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ پہلے سے کر رہا ہے اور سہولیات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پلاٹ اس طرح کی الاٹمنٹوں کی نارمل قیمت کی ادائیگی پر دیا جا ئےگایہ ” تحقیقاتی" ادارہ [ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز]ایک ایسے پروفیسر صا حب کا ہے جو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے ممتاز رہنما ہیں اور طویل عرصہ سے اسکی نمائندگی سینیٹ میں بھی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پلاٹ سیکٹر ایچ ۔ نائن میں دئیے جاتے تھے۔ یہ پلاٹ لیز پر ہوتے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کےمطابق ناقابل فروخت اور ناقابلِ انتقال ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو بھی پلاٹ ایچ نائن سیکٹر ہی میں دیا جا رہا تھا لیکن جنرل ضیا نے ایک بار پھر مداخلت کی اور دو کنال کا یہ پلاٹ جناح سپر مارکیٹ میں دیا گیا جہاں کوئی اور تعلیمی یا تحقیقاتی ادارہ کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ مارکیٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ پھر یوں ہوا کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ملنے والے اس پلاٹ پر تین منزلہ پلازہ بن گیا جس میں مشہور بین الاقوامی برانڈز کی دکانیں کھُل گئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا ۔ 2009ءمیں ترقیاتی ادارے نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کو اجازت دے دی کہ پلاٹ پر بنے ہوئے عالیشان پلازے کو ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام منتقل کر دیا جائے۔ اور یہ انتقال ہو بھی گیا۔یعنی ملکی قوانین صرف پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ یا جرنیلوں ہی کیلئے نہیں بدلتے۔ یہاں گٹھری سر پر رکھے اور تھیلا ہاتھ میں پکڑے بھاگنے والوں میں ماشا ءاللہ وہ بھی حسب توفیق شامل ہیں جو اقامت دین کے دعویدار ہیں۔ پہلے تو صدارتی طرفداری سے پلاٹ وہاں الاٹ کرایا گیا جہاں تعلیمی مقاصد کے لیے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمارت کا ایک حصّہ خالص منافع آور استعمال میں رکھ دیا گیا۔ پھر اس پلاٹ کو جو لیز پر ہے اور ناقابلِ فروخت اور ناقابلِ انتقال ہے بیچ دیا گیا۔ اس ” تحقیقاتی “ کار و بار سے کتنے ارب روپے کا منافع ہوا اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو جناح سپر مارکیٹ کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ کہا یہ جائےگا کہ یہ سب کچھ ترقیاتی ادارے کی اجازت سے کیا گیا۔ اب یہ کس کی مجال ہے کہ پوچھے کہ ترقیاتی ادارے نے یہ غیر قانونی اجازت کیوں دی اور کس کے دباو پر دی؟ اگر ترقیاتی ادارہ یہی حرکت کسی اور کیلئے کرتا تو سینیٹ میں قانون شکنی کےخلاف ایک دھواں دھار تقریر کی جاتی اور ترقیاتی ادارے کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا !معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو اور بھی ہے۔ اس پر بھی غور فرما یئے ۔ جب جنرل ضیا نے ترقیاتی ادارے کو پلاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت یہ ادارہ ایف سکس سیکٹر میں واقع تھا ۔ اب پلاٹ اور پلازہ فروخت کر کے یہ ادارہ اسی سیکٹر یعنی ایف سکس میں دوبارہ واپس چلا گیا ہے ! ! ! ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا ....سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سببورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھیتو جناب ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ....صبح ہو تے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگگٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کیاور اس میں سب شامل ہیں۔ کسی ایک پر الزام نہ لگائیے۔ دنیا کے پیچھے صرف وہی نہیں بھاگ رہے جنہیں ہم آپ دنیا دار سمجھتے ہیں !
In view of his pioneering work and contributions towards the development of Islamic Economics as an academic discipline, he was awarded the First Islamic Development Bank Award for Economics in 1988.
His contributions to the Islamic cause were also recognized in the form of King Faisal International Prize,1990, which is the equivalent of the Nobel Prize in the Muslim World.
In recognition of his services in Islamic Economics & Finance, he was given 5th Annual Prize of American Finance House, LaRiba, US in July 1998.
[edit]