__________________________
ایک برطانوی ادارے نے پاکستانی انتخابات میں دفعہ64,63 کے اطلاق پر تنقید کی ہے۔ کہا جاتا ہے جو اپنے لئے پسند ہو، وہی دوسروں کے لئے ہونا چاہئے۔ کیسی عجیب خلاف ورزی ہے کہ اپنے لئے تو یورپی ممالک اور امریکہ63,62کی دفعہ پسند کریں اور پاکستان کے لئے ناپسند۔امریکہ اور یورپ میں کوئی ایسا آدمی الیکشن نہیں لڑ سکتا جو مالی یا اخلاقی کرپشن میں ملوث ہو اور اسی لئے یہ ملک ترقی کر گئے۔ کوئی رُکن پارلیمنٹ بن جائے یا حکومتی عہدہ حاصل کر لے اور پھر پتہ چلے کہ کسی سکینڈل میں ملوث ہے تو وہاں ایسا نظام ہے کہ مقدمہ چلنے کی نوبت ہی نہیں آتی، ’’ملزم ‘‘ خود ہی استعفیٰ دے دیتا ہے او رپاکستان کے لئے یہ حضرات چاہتے ہیں کہ ہر قسم کے ’’دیوالیے ‘‘منتخب ہو جائیں۔ پاکستان دیوالیہ پارٹی نے پانچ برسوں میں ملک کا جو حشر کیا ہے۔شاید برطانوی ادارہ چاہتا ہے کہ اگلے پانچ سال بھی ایسا ہی رہے۔
دفعہ64,63 مرحوم ضیاء الحق کا گاڑا گیا ’’کلّا‘‘ ہے اور مرحوم نے کہا تھا، میرے کلّے بہت مضبوط گڑے ہیں۔ اب دیکھ لیجئے، یہ گڑا ہوا کلّا پیپلزپارٹی کے دور میں کیسا برآمد ہوا۔ مولانا قادری جب اپنا کینٹینر لے کر اسلام آباد پہنچے تو جو ڈرامہ سٹیج ہوا، سب نے دیکھا ۔ڈرامے کا بھرم بھار رکھنے کے لئے حکومت نے کاغذی معاہدہ کیا جس میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ63,62پر عمل ہوگا۔ کسے خبر تھی کہ یہ کاغذی وعدہ لوہے کا کلّا بن کر نکلے گا۔
بحث میں زور تب آیا جب اس دفعہ کے تحت ایاز امیر کے کاغذ ات مسترد ہوئے۔
ایاز امیر اسلام اور پاکستان اور نظریہ پاکستان پر خاصی مدت سے مہربان ہیں۔ ان تینوں پر ان کی ’’کالم باری‘‘ ایک عرصے سے جاری ہے۔ بہرحال، اب اکھنڈ بھارت تو بننے سے رہا نہ ہی اسلام پر پابندی لگانا کسی کے بس میں ہے اور نہ ہی بال ٹھاکرے کو پاکستان کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ کرسٹائن کیلر کی ’’سوانح حیات‘‘ کو خواتین کے لئے ’’رول ماڈل‘‘ بنا دیا جائے۔ اس سب پر ایاز میر سے پوری ہمدردی ہے لیکن اصل بات جو بحث کاروں نے چھپا دی ،وہ یہ ہے کہ موصوف کو نظریہ پاکستان کا تمسخر اڑانے پر یا اسلام اور پاکستان کے لئے اپنے ’’دلی جذبات‘‘ کے پھپھولے پھوڑنے پر نااہل نہیں قرار دیا گیا۔ ان کے خلاف جو ہوا وہ ان کے اعترافِ مے نوشی پر ہوا۔ ان کا ہر دوسر اکالم اسلام، پاکستان اور نظریہ پاکستان کے باب میں ’’گریہ‘‘ ہوتاہے تو ہر تیسرا کالم ولایتی شراب نہ ملنے کا نوحہ!
بحث کار تو کیا درست کریں گے لیکن جن قارئین کو پوری معلومات نہیں، وہ اپنا ریکارڈ البتہ صحیح فرمالیں۔
ربط: عبداللہ طارق سہیل کا کالم، روزنامہ نئی بات