ریٹرننگ افسر اور اخلاقی حدود - طلعت حسین
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 بندوق کی ایسی گولیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جو ہر سامنے آنے والے پر داغی جا رہی ہیں۔ کچھ گولیاں نشانے پر بیٹھ رہی ہیں اور کچھ اچکتی ہو ئی ناحق خون کا باعث بن رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ا س میں آدھا قصور سیاست اور سیاسی اخلاقیات کی بحث کا ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے سیاست کا معیار کارکردگی نہیں بلکہ ظاہری شکل و صورت، وضع قطع اور چند ایک طور طریقوں تک محدود کر دیا۔ ہم سیاسی اخلاقیات کی اسی تعریف کو لے کر چلتے رہے۔ آئینی ترامیم کرنے کے باوجود اسی تعریف پر قائم رہے۔ آج بھی محترم سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا فرمانا ہے کہ ریٹرننگ افسر دعائے قنوت اور آیت الکرسی اس وجہ سے سن رہے ہیں کہ آرٹیکل 62 منتخب ہونے والے یا انتخاب کی خواہش رکھنے والے امیدواروں کا اسلام کے بارے میں تسلی بخش علم رکھنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ اس آفاقی دین کی سمجھ بوجھ رکھنا اور چند آیات یا کسی سورۃ کا ازبر کرنے کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
اس پر محترم سیکریٹری صاحب نے کو ئی روشنی نہیں ڈالی۔ ہمیں اسلام کے علم کو اگر اسی معیار پر پرکھنا ہے تو ایسے بہت سے غیر مسلم موجود ہیں جو آیات اور احادیث ہم سے کئی گنا بہتر سنا سکتے ہیں اور پھر یہ کس نے فیصلہ کر لیا کہ صرف اسی ذریعے سے اس دینِ حتمی کی اساس کو سمجھنے کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ کو ئی کتاب، کوئی دستاویز، کو ئی بنیادی اراکین ِاسلام کے حوالے سے معلومات کا دوسرا پیمانہ کیا موجود نہیں ہے، یقیناً ہے لیکن چونکہ ریٹرننگ افسران کو اسکولوں میں یہی پڑھایا گیا ہے کہ اصل مسلمان وہی ہے جو دعائے قنوت پڑھ سکتا ہے لہٰذا وہ اپنی محدود دینی سوچ کو امیدواروں پر ٹھونس رہے ہیں۔
یہ معیار بھی یکساں نہیں ہے کسی سے ایک سوال پوچھا جا رہا ہے تو کسی سے دوسرا۔ نظریہ پاکستان سے لے کر بہترین مسلمان ہونے کی تمام صفات کو چار سوالوں میں جان لینے والے کیا خود اتنے پارسا ہیں کہ یہ سوال اٹھا سکیں۔ حتمی علم خداوند تعالیٰ کے متعین کردہ انبیاء کے پاس ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو اپنے ادوار میں اپنے امتیوں اور آنے والی اقوام کے لیے قائم کیا۔ ان کے بعد نیکی اور پارسائی کے تمام دعویدار نامکمل علم کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں مگر چونکہ ہم نے معاشرے میں نیکو کار اسی کو سمجھا جو منہ سے خود کو اچھا ثابت کر سکے لہٰذا انتخاب کے موقع پر اسی روایت کے تحت فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ وہ ریٹرننگ افسروں کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا، ایک حیران کن دعویٰ ہے۔ ریٹرننگ افسران اپنی طاقت اور کرسی صرف اسی وجہ سے حاصل کر سکے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کا آغاز کیا اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کا آغاز اسی وجہ سے کر پایا کہ آئین نے اس کا حکم دیا۔ آئین کے اندر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صاف اور شفاف انتخابات کرانے ہیں۔ امیدواروں کے لیے ایک ایسا میدان تیار کرنا ہے جس پر بغیر رکاوٹ کے اکٹھے مقابلہ کر سکیں۔کسی کے نہ ہاتھ باندھے جائیں نہ پائوں۔ اگر ریٹرننگ افسران کے فیصلے اس اہم ترین آئینی ضرورت کو پورا نہیں کرتے یا بعض جگہوں پر ان تقاضوں سے متصادم نظر آتے ہیں تو الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہا۔ ریٹرننگ افسران نظام پرحاوی نہیں ہوسکتے، ان کو آئینی ضروریات کے مطابق کام کرنا ہے۔ آئین سے ماوراء ہر کام چیلنج کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے اور اگر یہ نہیں کرنا تو پھر سب کے لیے وہی معیار اپنانا ہو گا جو امیدواروں پر لاگو کیا جا رہا ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا نگراں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ، جنہوں نے وہی حلف لیا جو منتخب نمایندگان الیکشن جیتنے کے بعد لیتے ہیں، آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترتے ہیں، کیا ان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے اسلامیات کا امتحان پاس کرایا گیا؟ کیا کسی نے نگراں وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کے نظریہ پاکستان کے بارے میں خیالات جاننے کی زحمت کی، کیا ان سے کسی نے چھٹا کلمہ سنا۔
نگراں حکومت اس ملک کو چلا رہی ہے، ہو سکتا ہے اس میں ایسی شخصیات بھی موجود ہوں جوکسی کے خیال میں شاید کسی عوامی عہدے پر فائز ہونے کے لائق نہ ہوں، ان سے کوئی سوال نہیں پوچھ رہا مگر ان کے تحت ہونے والے انتخابی عمل میں شریک ہونے والوں کے لیے ایک ایسا معیار اپنایا جا رہا ہے جو رب العزت کے پسندیدہ افراد کے سوا کوئی اور پورا نہیں کر سکتا۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ لیجیے کہ انتخاب میں امیدواروں کو کھلی چھٹی مل جا نی چاہیے، ان کی پکڑ ضروری ہے مگر ان معاملات پر جو محدود انسانی عقل اور موجودہ قوانین کے دائر ہ کار میں آتے ہیں اور جن کی کو ئی عملی حیثیت ہے۔ جعلی ڈگریاں رکھنے والے قابلِ گرفت ہیں، ٹیکس چور کی گردن پکڑنی ہو گی، جرائم پیشہ افراد کو انتخابی عمل سے نکالنا ہو گا، دھوکا باز، بد دیانت لٹیروں کو مکھن میں سے بال کی طرح نکالنا ہو گا۔
لیکن اگر ایک خاص رائے کے اظہار اور ضیاء الحق (جو خود سیاسی دوغلے پن کے استاد جانے جاتے ہیں) کے بنائے گئے اخلاقی معیارپر ریٹرننگ افسران کے فیصلے حتمی قرار دیے جانے لگے تو پھر ضیاء الحق ہی الیکشن جیتیں گے کوئی اور نہیں۔ پاکستان کے لیے یہ انتخابات انتہائی اہم ہیں، اس سے اگر کوئی بڑی روشن تبدیلی نہ بھی آئے تو بھی ایک امید منسلک ہوچکی ہے۔ کسی ریٹرننگ افسر کو یہ اجازت نہیںدی جاسکتی کہ اس امید کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرے۔ ریٹرننگ افسران کو کاغذات کی درستگی کرنی ہے۔ انسانوں کی درستگی نہیں۔ ان انتخابات کے موقع پر اگر ہم معاشرے میں اخلاق سے متعلق منافقانہ رویوں کو رد کرنے کی بنیاد بنا پائیں تو شاید ہماری قومی سوچ میں اجتماعی ترقی ہو جائے۔ ریٹرننگ افسران اگر اپنی حد میں رہ کر ہی کام کریں تو کافی ہے۔