آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

جا ن

محفلین
میں نے جتنی یہ بحث پڑھی ہے اس سے تو پھر آپ کو بھی اپنی بات کسی سے نہیں منوانی چاہیے۔ آپ بار بار ایسا ظاہر کرچکے ہیں کہ آپ کی بات ہی ٹھیک ہے اور دوسرے کی غلط۔ ایسا کیوں؟
اگر علما غلط ہیں تو آپ کیسے صحیح ہوسکتے ہیں؟
ایسا کہاں کہا گیا ہے یا ظاہر کیا گیا ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ کوئی شخص یہ دعوی کر رہا ہو کہ میں ہی صحیح ہوں اور میری ہی بات مانو؟ کچھ نمونے عطا ہوں تاکہ بات واضح ہو۔ بات صرف اتنی ہو رہی ہے کہ کوئی بھی شخص دنیا میں عقل کل نہیں رکھتا اور ان میں علماء بھی شامل ہیں۔ اس لیے علماء پرستی کی بجائے تھوڑی سی زحمت عقل کو بھی دینی چاہیے۔
 

ناظر

محفلین
ایسا کہاں کہا گیا ہے یا ظاہر کیا گیا ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ کوئی شخص یہ دعوی کر رہا ہو کہ میں ہی صحیح ہوں اور میری ہی بات مانو؟ کچھ نمونے عطا ہوں تاکہ بات واضح ہو۔ بات صرف اتنی ہو رہی ہے کہ کوئی بھی شخص دنیا میں عقل کل نہیں رکھتا اور ان میں علماء بھی شامل ہیں۔ اس لیے علماء پرستی کی بجائے تھوڑی سی زحمت عقل کو بھی دینی چاہیے۔
تو پھر یہ کہنا کہ فلاں فلاں فتوی غلط ہے کا کیا مطلب؟ اگر آپ کسی کو غلط ثابت کرتے ہیں تو دلیل سے کریں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو آپ صحیح ہوئے۔ اور اگر آپ یہ نہیں مانتے تو پھر آپ کا یہ جواب غلط ہوا۔
تو یہ بات صرف ان علماء کے لیے کیوں جو آپ کے نظریے کے خلاف ہے؟ یہ آپ اور اس بحث میں علماء کے خلاف فتوے دینے والوں کے خلاف کیوں نہیں؟
 

جا ن

محفلین
تو پھر یہ کہنا کہ فلاں فلاں فتوی غلط ہے کا کیا مطلب؟ اگر آپ کسی کو غلط ثابت کرتے ہیں تو دلیل سے کریں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو آپ صحیح ہوئے۔ اور اگر آپ یہ نہیں مانتے تو پھر آپ کا یہ جواب غلط ہوا۔
تو یہ بات صرف ان علماء کے لیے کیوں جو آپ کے نظریے کے خلاف ہے؟ یہ آپ اور اس بحث میں علماء کے خلاف فتوے دینے والوں کے خلاف کیوں نہیں؟
آپ اپنی بات حوالہ جات اور اراکین محفل کے اقتباسات لے کر واضح کریں تاکہ آپ کی بات کو ٹھیک سے سمجھا جا سکے! شکریہ۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو پھر یہ کہنا کہ فلاں فلاں فتوی غلط ہے کا کیا مطلب؟ اگر آپ کسی کو غلط ثابت کرتے ہیں تو دلیل سے کریں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو آپ صحیح ہوئے۔ اور اگر آپ یہ نہیں مانتے تو پھر آپ کا یہ جواب غلط ہوا۔
تو یہ بات صرف ان علماء کے لیے کیوں جو آپ کے نظریے کے خلاف ہے؟ یہ آپ اور اس بحث میں علماء کے خلاف فتوے دینے والوں کے خلاف کیوں نہیں؟
بھائی آپ جدید ریاست کے خدوخال سمجھیں۔ دور جدید میں ریاستیں آئین و قانون پر چلتی ہیں۔ علما کرام کے فتاویٰ کی اب کوئی عملی حیثیت نہیں رہی۔
 
ٓ
تو پھر یہ کہنا کہ فلاں فلاں فتوی غلط ہے کا کیا مطلب؟ اگر آپ کسی کو غلط ثابت کرتے ہیں تو دلیل سے کریں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو آپ صحیح ہوئے۔ اور اگر آپ یہ نہیں مانتے تو پھر آپ کا یہ جواب غلط ہوا۔
تو یہ بات صرف ان علماء کے لیے کیوں جو آپ کے نظریے کے خلاف ہے؟ یہ آپ اور اس بحث میں علماء کے خلاف فتوے دینے والوں کے خلاف کیوں نہیں؟

یہ بات سمجھئے کہ "فتوے بازی" قانون سازی ہے، کسی کا بھی یہ فرمانا کہ یہ دلی کے ہندو عالموں کا فتوی یا قانون ہے ، اس لئے آپ سب مانیں ، کیا آپ کی نظر میں درست ہوگا؟
اسی طرح ، بغداد کے رزتشت عالموں کا فتوی یا قانون ہو یا مسلم عالموں کا فتوی یا قانون ہو۔ اس فتوے کو عوام میں رائج کرنے کے لئے، اس کا سارے پاکستان کا ماننا ضروری ہے۔ یہ اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی بھی فتوی یا قانون ، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش ہو اور منتخب نمائندے اس پر ووٹ دیں اور صدر اس پر دستخط کرے تو ہی یہ قانون بنتا ہے اور لاگو ہوتا ہے۔
آپ کا تجویز کردہ طریقہ کہ چونکہ وہ شخص عالم تھا ، لہذا اس کا بنایا ہوا قانون اب سب پر لاگو ہوگیا ، کس طرح درست ہوگا ،

کسی بھی عالم کے فتوے یعنی قانون سازی کو حرف بہ حرف ، عوام پر ٹحونسا نہیں جاسکتا ، جب تک کہ دلائیل اور قانون یعنی فتوے پر قومی اسمبلی میں بحث نا ہوئی ہو اور اس کو بطور قانون نا نافذ کردیا گیا ہو۔ اب یہ قومی اسمبلی کے نمائندوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کے حق میں دلائیل دے یا مخالفت میں

لہذا یہ کہنا کہ یہ ایک عالم کا قانون ، فتوی یا حکم ہے ، اس کو مانو ورنہ جان سے جاؤ گے، یہ بغداد شریف کا قانون تھا۔
پاکستان قرآن شریف کے قانون اور احکامات پر چلتا ہے ، جس میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ "مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں"
اس لئے آپ کوشش کیجئے کہ اسمبلیوں میں قابل لوگ بھیجئے تاکہ مرضی یا ذاتی خواہشات کی پیروی کے بجائے ، بہتر فیصلے ہوں اور بہتر قوانین بنیں جو قرآن شریف اور سنت کے مطابق ہوں نا کہ بغداد شریف، دلی شریف یا دیو بند شریف یا بریلی شریف سے درآمد شدہ ہوں۔

والسلام
 

جاسم محمد

محفلین
لہذا یہ کہنا کہ یہ ایک عالم کا قانون ، فتوی یا حکم ہے ، اس کو مانو ورنہ جان سے جاؤ گے، یہ بغداد شریف کا قانون تھا۔
پاکستان قرآن شریف کے قانون اور احکامات پر چلتا ہے ، جس میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ "مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں"
اس لئے آپ کوشش کیجئے کہ اسمبلیوں میں قابل لوگ بھیجئے تاکہ مرضی یا ذاتی خواہشات کی پیروی کے بجائے ، بہتر فیصلے ہوں اور بہتر قوانین بنیں جو قرآن شریف اور سنت کے مطابق ہوں نا کہ بغداد شریف، دلی شریف یا دیو بند شریف یا بریلی شریف سے درآمد شدہ ہوں۔
(y)(y)(y)
 

فہد مقصود

محفلین
سر بات یہ ہے کہ فقہی مسائل میں بے طرح انداز میں الجھنا مناسب نہ ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑی کے موضوع سے ہم کافی دور نکل جاتے ہیں۔ اصول دین کا معاملہ شاید ایسا مشکل اور پیچیدہ نہ ہے۔ فقہی مسائل کا تو یہ ہے کہ عوام مختلف مسائل کی بابت پوچھتے چلے گئے اور ان کے جوابات بھی آتے چلے گئے۔ اس پر بحثیں ہوتی رہیں تاہم ان میں سےزیادہ تر روزمرہ زندگی کے مسائل بھی نہ تھے۔ یہاں تک معاملہ ایسا بڑھا کہ فرضی مسائل بھی پیش کیے جاتے رہے اور ان کے جوابات بھی آتے چلے گئے۔ ان پر ایک حد سے زیادہ فوکس کرنا ہماری دانست میں ایک غلطی رہی ہے گو کہ یہ کہتے ہوئے بھی ہم فقہی مسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کم و بیش ہر معاملے پر سوال اٹھاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو انٹرنیٹ پر سوالات جوابات کے فورمز اور متعلقہ ویب سائٹس دیکھ لیجیے۔ آپ کو غیر مسلم بھی ایسے ملیں گے جو ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی بابت استفسار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک طرف چلتا رہے تو کوئی ایشو نہیں تاہم اس کو مرکزی اہمیت دینا دراصل ہماری غلطی ہو گی چاہے یہ غلطی ہم اور آپ کریں یا مذہبی اسکالر کریں۔
اقبال کا ایک شعر ہے،
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
یہ ابحاث اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے بنیادی مسائل ہیں؟ یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب کی بات ہوئی۔ کیا وہ تمام عمر انہی ابحاث میں الجھے رہے۔ ایسا نہیں ہے اور جو سنجیدہ علمائے کرام ہیں، وہ صرف ایسی بحثوں میں ہی الجھے ہوئے نہیں رہتے ہیں۔ دراصل، ہم ان معاملات پر بوجوہ زیادہ فوکس کر لیتے ہیں۔ آپ ہی فرمائیے، ان اختلافی مسائل میں الجھ کر ہمیں کیا حاصل ہو گا۔ کسی نے توہین کی یا نہ کی، اس حوالے سے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں اور اس کا کوئی ایک نتیجہ نکالنے پر بضد رہنا مناسب نہیں۔ یعنی ہم اسے لا یعنی معاملہ کہیں گے تو یہ کہا جائے کہ آپ کو اس بڑے ایشو کا خیال نہیں اور اگر اس ایشو پر ہم رائے دیں گے تو شاید کوئی الگ فتویٰ جڑ دیا جائے گا جب کہ معاملہ زیر بحث کا لڑی سے بھی تعلق نہ ہے۔ آپ ایک صاحب علم ہستی معلوم ہوتے ہیں تاہم آپ ایک دو معاملات کو لے کر بڑے بڑے نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ رویہ غیر متوازن معلوم ہوا۔ امید ہے برا محسوس نہ کریں گے۔ آپ میں کچھ قابلیت دیکھی تو گزارشات پیش کر دی ہیں۔ :)

آپ کا کہنا ہے کہ فقہی مسائل میں زیادہ تر ایسے تھے جن کا تعلق روزمرہ زندگی کے مسائل سے بھی نہ تھا۔ یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا۔ ہر مسلمان پر پانچ وقت نماز پڑھنا فرض ہے۔ آئیے آپ کو ذرا ایک جھلک دکھاتا ہوں کہ فقہ میں کیا کیا ہوا ہے۔ یہاں نماز سے متعلق کتابِ ہدایۃ (فقہ حنفی کی معتبر کتاب) سے چند عبارتوں کا صحیح احادیث سے تقابل کیا گیا ہے۔ یہ تقابل سید بدیع الدین شاہ الراشدی صاحب کی مشہور کتاب فقہ و حدیث کے جزء اول میں سے لیا گیا ہے۔

namaz.jpg

اب آپ اس پر کیا فرمائیں گے؟؟؟ کیا اب بھی بحث نہ کی جائے؟؟؟ کیا ایسے فقہی مسائل جو کہ قرآن اور حدیث سے متصادم ہوں کیا ان پر خاموش رہا جائے؟؟؟ کیا نماز کا تعلق روزمرہ زندگی سے نہیں ہے؟؟؟ پاکستانی مسلمانوں کو سنت کی پیروی سے کیوں محروم رکھا جائے؟؟؟ تقی عثمانی صاحب تو خود حنفی فقہ کے پیروکار ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ پاکستانیوں کو علماء وتر نماز پڑھنے کے بارے کیا بتاتے رہے ہیں؟؟؟؟ حقیقت یہ ہے صاحب

آپ وتر نماز کیسے ادا کرتے ہیں؟

اور آپ چاہتے ہیں کہ ان کا احتساب نہ ہو اور عوام کے سامنے سچ نہ آئے؟؟؟ ان سے سوال نہ کیا جائے کہ آخر صحیح احادیث کی موجودگی میں یہ سب کچھ کیوں کیا جاتا رہا ہے؟؟؟

سچ تو یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کو فقہ پر فوقیت حاصل ہے اور قرآن اور حدیث کے مقابلے میں جو بھی آئے گا اس کا سختی سے رد بھی کیا جائے گا اور کرنے والے پر تنقید بھی کی جائے گی چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، چاہے مدِمقابل کتنا ہی بڑا عالم مفتی شیخ ہی کیوں نہ ہو!!!! ان کا کہا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ہے! پہلا حق اللہ کا ہے اور اللہ کے حقوق پہچاننے کی کوشش کی جانی چاہئے چاہے جتنے ہی اختلافات سامنے کیوں نہ آئیں اور چاہے کسی کی عزت پر حرف ہی کیوں نہ آئے!!!

دین و شریعت صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں ہو سکتا ہے کہ جن کی ہر بات تسلیم کی جا سکتی ہو! دین کا مخاطب ایک عام انسان ہے اور اللہ رب العزت نے دین اتنا مشکل نہیں بنایا ہے کہ ایک عام انسان کتاب و سنت کو سمجھ نہ سکے۔ صحیح احادیث کا مطالعہ کر کے ایک عام انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ کہاں کہاں غلطیاں ہیں اور وہ سوال بھی پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ آخر قرآن اور حدیث کی موجودگی میں کیوں یہ مختلف اور نئی باتیں دین میں شامل کر دی گئی ہیں؟؟؟؟ اور وہ یہ بھی حق رکھتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کی حقیقت سب کے سامنے لائے کیونکہ یہ دینِ اسلام کا معاملہ ہے۔

اسے آپ فقہ کا نام دیں یا فروعی مسائل کا لیکن حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ کب تک عوام ان علماء کی غلط تعلیمات کی پیروی کرتی رہے گی؟؟؟ کبھی نہ کبھی تو یہ سب ختم ہوگا اور ضرور ہوگا!!!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
اگر آپ قائل ہو گئے ہیں تو کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
اگر قائل نہیں ہوئے تو آپ کے جو بھی اعتراضات ہیں، وہ علمائے کرام سے براہِ راست رابطہ کر کے پیش کریں اور چاہیں تو ان کا جواب یہاں بھی شئیر کر دیں۔

میں بات جنوب کی کرتا ہوں آپ کو لگتا ہے میں نے بات شمال کی کی ہے! جناب جب اتنے فتاویٰ یہاں آچکے ہیں تو کیوں میں کچھ پوچھوں اور کیا پوچھوں؟؟ اتنا دماغ تو میرے پاس بھی ہے کہ صحیح احادیث سے استدلال سمجھ سکوں۔ دینِ اسلام کا مخاطب عام انسان ہے اور ہر بات مذہب میں اس طرح موجود ہے کہ اگر کوئی سمجھنا اور سیکھنا چاہے تو آرام سے سمجھ سکتا ہے۔ میرے پاس یہاں صحیح احادیث موجود ہیں، ان سے استدلال بھی موجود ہے آئمہ اور علماء کی رائے بھی موجود ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ جو آپ مجھے سمجھانا چاہتے ہیں اور آپ کے حساب سے وہ صحیح ہے اس کو میں اور بہت سے لوگ بھی صحیح ہی جانیں۔ میں بس آپ کے حق میں اب دعا ہی کر سکتا ہوں۔

علمائے دیوبند کا بھی کم و بیش یہی موقف ہے اور پرانا موقف ہے، لیکن اعتدال کے درجے میں۔
یعنی جائز کو ناجائز قرار نہ دینا، لیکن چونکہ ترک افضل ہے اس لیے عوام کو بتدریج تعویذ کے بجائے مسنون اذکار کی جانب راغب کرنا۔
دوسری بات یہ کہ تعویذ ہوں یا دیگر غیر مسنون لیکن جائز اذکار یا دم اور جھاڑ پھونک، یہ خالصتاً بطور علاج استعمال کیے جاتے ہیں، یہ دین کا حصہ نہیں، شاید اس بات کو میں نے پہلے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

اچھا یہ دین کا حصہ نہیں ہے تو یعنی کچھ بھی کیا جاسکتا ہے؟؟؟ یہ جو عامل بابے پاکستان کی ہر دوسری گلی میں بیٹھتے ہیں وہ بھی تعویذ دے رہے ہوتے ہیں علاج کے نام پر اور یہ تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ قرآن کی آیات الٹی کر کے لکھتے ہیں اور نجاست بھی استعمال کرتے ہیں۔ کیا ان کا ایسا کرنا بھی جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟؟؟؟
 

فہد مقصود

محفلین
اس لڑی کو شوق سے پڑھا۔ نظارہ کرتا رہا۔
تمام فتووں میں ایک بات کھل کر بیان کی ہے کہ تعویذ اور باندھنے کے طریقے کی حوصلہ افزائی بالکل نہیں کی گئی ہے۔ بالکہ کمزور ترین اعتقاد کے مسلمانوں کے لیے "اس شرط پر کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی علاج ممکن نہ ہو"۔ جب یہ شرط رکھ دیا گیا تو پھر اس بات پر علما کو تنقید کا نشانہ بنانا صرف اپنی اتھارٹی کو منوانے کے مترادف ہے، اور کچھ نہیں۔


آپ کی دوست نے جو جو ٹیسٹ یا علاج وغیرہ کیے، ان کے نام پہلے یہاں درج کریں۔ کیوں کہ فتووں میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ اگر کوئی اور علاج کارآمد نہ ہوتو ایسا کرنا کم ترین درجے میں کیا جاسکتاہے۔

کیا آپ نے واقعی یہاں پر شریک کئے گئے ہر فتوے کو بغور پڑھا ہے؟ یہاں پر تعویذ ٹانگ پر باندھنے اور قرآنی آیات کو نجاست سے لکھے جانے کے لئے جواز فراہم کرنے اور ان طریقہ کار کے دفاع میں کچھ فتاویٰ موجود ہیں اور کچھ تعویذ کے قائلین اور مانعین کے جواز کو سامنے لا کر تعویذ استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی پر مبنی فتاویٰ موجود ہیں۔

آپ کا یہ سوئیپنگ سٹیٹمنٹ بہت کچھ واضح کر رہا ہے۔ یا تو آپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح علماء کے ہر عمل کو درست قرار دیں یا پھر آپ نے کچھ یہاں پڑھا ہی نہیں ہے۔ اگر آپ نے واقعی کچھ پڑھا ہے تو چلیں یہی بتا دیجئے کہ علماء کن جواز کی بنیاد پر تعویذ باندھنے کو جائز قرار دینے سے کتراتے ہیں؟ تین وجوہات ہی لکھ دیں یا دو ہی بیان کر دیجئے۔

یہاں کوئی اپنی اتھارٹی نہیں منوا رہا ہے۔ بات ہو رہی ہے صحیح احادیث سے ایسے کاموں کے متصادم ہونے کی! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جانتے بوجھتے صحیح احادیث کے خلاف چلا جائے اور ہر 'عمل' کو آنکھ بند کر کے درست مان لیا جائے؟

یعنی آپ کا کہنا یہ ہے کہ کم ترین درجے میں علاج کی خاطر ٹانگ پر تعویذ باندھا جاسکتا ہے یا نجاست سے قرآنی آیات لکھی جاسکتی ہیں؟؟؟؟ واضح جواب دیجئے گا۔ جیسا یہ گول مول مراسلہ کیا ہے ایسا جواب نہ دیجئے گا۔ اور ایک بات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دم کے طریقہ کار کا آپ نے کیوں نہیں ذکر کیا؟؟؟ یہ سیدھا تعویذ باندھنے کی جانب کیوں آئے؟؟؟ کیونکہ آپ کا مقصد بھی صرف دفاع کرنا ہے؟؟؟؟

میری معلومات کے مطابق فتوے کے لیے بہت سارے علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا پاکستانی قانون ساز ان علوم کو جانتے ہیں؟

اور پاکستانی قانون سازوں کو دین کا کتنا علم ہے؟ ہمارے سینیٹروں تک کو قرآنی آیات بھی نہیں آتی۔ فتوے دینا تو دور کی بات۔

کیوں نا علماء کی اکثریت کے ذرا صرف عقائد کا ہی جائزہ لے لیا جائے؟ اس سے ہی ان کے علم اور مہارت کا بہت اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا۔

عقیدہ توحید میں وحدت الوجود اور امکان کذب کی صورت میں اضافہ، نہ صرف یہ عقائد ہیں بلکہ خدا کا جسم رکھنا اور اللہ تعالیٰ نعوذباللہ قبیحہ افعال کر سکتا ہے جیسے عقائد کی ترویج بھی ان کی کتب میں پائی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلیہ علیہ وسلم کے علاوہ اپنے بزرگوں کو رحمۃ اللعالمین ماننا، اپنے بزرگوں پر وحی نازل ہونے اور ان کا عمل میں انبیاء علیہم السلام سے بڑھ جانے، انبیاء کرام علیہم السلام کے جھوٹ بولنے اور معصوم نہ ہونے اپنی کتب میں تعلیم دینا، تحریفِ قرآن اور خاتم النبیین میں معنوی تحریف جیسی باتیں بھی ان کی کتب میں شامل ہیں۔ نماز کے متعلق ان کے احکامات پڑھیں اور صحیح احادیث کو پڑھیں، صاف تضاد نظر آجائے گا۔ صرف نماز ہی کیا اور بھی نجانے کتنے احکامات ہیں جو صحیح احادیث سے متصادم ہیں پھر بھی فقہ میں ان کو مانا جاتا ہے۔

آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

دیوبندی حضرات اہلِ سنت نہیں ہیں

فقہ و حدیث | Fiqha wa Hadees | کتاب و سنت

مذہبی عقائد اور نظریات

عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ

پہلے یہ سب پڑھئے! پھر آئیے گا ہر 'عالم' کو درست قرار دینے اور ان کی اندھی تقلید کرنے کا دفاع کرنے کے لئے!!! اور ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھئے گا کہ سب سے پہلا حق قرآن اور حدیث کا ہے۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مخالف جو بھی آئے گا وہ ناقابلِ قبول ہوگا !! یہ دماغ میں رکھ کر پڑھئے گا یقیناً افاقہ ہوگا!!!

تو پھر یہ کہنا کہ فلاں فلاں فتوی غلط ہے کا کیا مطلب؟ اگر آپ کسی کو غلط ثابت کرتے ہیں تو دلیل سے کریں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو آپ صحیح ہوئے۔ اور اگر آپ یہ نہیں مانتے تو پھر آپ کا یہ جواب غلط ہوا۔
تو یہ بات صرف ان علماء کے لیے کیوں جو آپ کے نظریے کے خلاف ہے؟ یہ آپ اور اس بحث میں علماء کے خلاف فتوے دینے والوں کے خلاف کیوں نہیں؟

کہاں بغیر دلیل کے بات کی گئی ہے؟؟؟ کیا صحیح احادیث سے استدلال آپ کو نظر نہیں آیا!!! آپ نے کچھ پڑھا ہی نہیں ہے جناب ورنہ ایسی غلط بیانی سے کام نہیں لیتے یا پھر آپ کا مقصد ایسی عجیب توجیہات دے کر اپنے من پسند علماء کے قول و فعل کو درست قرار دینا ہے؟؟؟؟
 
آخری تدوین:
Top