سر بات یہ ہے کہ فقہی مسائل میں بے طرح انداز میں الجھنا مناسب نہ ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑی کے موضوع سے ہم کافی دور نکل جاتے ہیں۔ اصول دین کا معاملہ شاید ایسا مشکل اور پیچیدہ نہ ہے۔ فقہی مسائل کا تو یہ ہے کہ عوام مختلف مسائل کی بابت پوچھتے چلے گئے اور ان کے جوابات بھی آتے چلے گئے۔ اس پر بحثیں ہوتی رہیں تاہم ان میں سےزیادہ تر روزمرہ زندگی کے مسائل بھی نہ تھے۔ یہاں تک معاملہ ایسا بڑھا کہ فرضی مسائل بھی پیش کیے جاتے رہے اور ان کے جوابات بھی آتے چلے گئے۔ ان پر ایک حد سے زیادہ فوکس کرنا ہماری دانست میں ایک غلطی رہی ہے گو کہ یہ کہتے ہوئے بھی ہم فقہی مسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کم و بیش ہر معاملے پر سوال اٹھاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو انٹرنیٹ پر سوالات جوابات کے فورمز اور متعلقہ ویب سائٹس دیکھ لیجیے۔ آپ کو غیر مسلم بھی ایسے ملیں گے جو ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی بابت استفسار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک طرف چلتا رہے تو کوئی ایشو نہیں تاہم اس کو مرکزی اہمیت دینا دراصل ہماری غلطی ہو گی چاہے یہ غلطی ہم اور آپ کریں یا مذہبی اسکالر کریں۔
اقبال کا ایک شعر ہے،
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
یہ ابحاث اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے بنیادی مسائل ہیں؟ یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب کی بات ہوئی۔ کیا وہ تمام عمر انہی ابحاث میں الجھے رہے۔ ایسا نہیں ہے اور جو سنجیدہ علمائے کرام ہیں، وہ صرف ایسی بحثوں میں ہی الجھے ہوئے نہیں رہتے ہیں۔ دراصل، ہم ان معاملات پر بوجوہ زیادہ فوکس کر لیتے ہیں۔ آپ ہی فرمائیے، ان اختلافی مسائل میں الجھ کر ہمیں کیا حاصل ہو گا۔ کسی نے توہین کی یا نہ کی، اس حوالے سے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں اور اس کا کوئی ایک نتیجہ نکالنے پر بضد رہنا مناسب نہیں۔ یعنی ہم اسے لا یعنی معاملہ کہیں گے تو یہ کہا جائے کہ آپ کو اس بڑے ایشو کا خیال نہیں اور اگر اس ایشو پر ہم رائے دیں گے تو شاید کوئی الگ فتویٰ جڑ دیا جائے گا جب کہ معاملہ زیر بحث کا لڑی سے بھی تعلق نہ ہے۔ آپ ایک صاحب علم ہستی معلوم ہوتے ہیں تاہم آپ ایک دو معاملات کو لے کر بڑے بڑے نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ رویہ غیر متوازن معلوم ہوا۔ امید ہے برا محسوس نہ کریں گے۔ آپ میں کچھ قابلیت دیکھی تو گزارشات پیش کر دی ہیں۔