آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

فرقان احمد

محفلین
کیا یہاں قادیانی کا بھی لیبل لگتا رہا ہے؟؟؟؟

اگر لگتا رہا ہے تو ہم کچھ دکھانا چاہیں گے

کفریہ عقائد

عقائد
اولاد ابن سبائ حصہ دوم
ترتیب : ابو النعمان رضا

اللہ جھوٹ بولتا ہے
عقیدہ ۱؂ :۔
۱) ’’ کذب داخل تحت قدرت ہے ۔ ‘‘ ( فتاویٰ رشیدیہ ، جلد ۱ ، صفحہ ۱۹ )
۲) ’’ اگر حق تعالیٰ کلام کاذب پر قادر نہ ہوگا تو قدرت انسانی قدرتِ ربّا نی سے زائد ہو جائے گی ۔ ‘‘ ( الجہد المقل ، مولوی محمود الحسن دیوبندی ، صفحہ ۴۴ )
۳) ’’ کذب متنازعہ صفات ذاتیہ میں داخل نہیں بلکہ صفات فعلیہ میں داخل ہے ۔
( الجہد المقل ، صفحہ ۴۰ )
۴) ’’ امکان کذب کا مسئلہ تو اب کوئی جدید کسی نے نہیں نکالا ، بلکہ قدماء میں اختلاف ہوا ہے کہ خلف وعید آیا جائز ہے یا نہیں ۔ ‘‘
( براہین قاطعہ ، مولوی خلیل احمد انبیٹھوی ، صفحہ ۲ )
قادیانی عقیدہ ۱؂ :۔
’’ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی ایک آنے والی بالا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشنگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۹۸ )

’’ پس نص قرآن سے ثابت ہے کہ عذاب کی پیشنگوئی کا پورا ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘
( تتمہ حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۳۱ )

اللہ تعالیٰ جہت اور مکان سے پاک نہیں
عقیدہ ۲؂ :۔
مولوی اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں ’’ تنزیہ اد تعالیٰ از زمان و مکان و جہت و اثبات روئت بلا جہت و محاذات ۔۔۔ ۔۔۔ ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است راگر صاحب آں اعتقاداتِ مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ فی شمارد ‘‘
( رسالہ ایضاح الحق ، صفحہ ۳۵ )
ترجمہ :۔ ’’ اللہ تعالیٰ کو زماں و مکاں و جہت سے پاک جاننا اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کو بلا جہت و محاذات ماننا ، یہ بدعات حقیقیہ سے ہے ، جب کہ ان اعتقادات کو عقائد دینیہ سے شمار کرے ۔ ‘‘

قادیانی عقیدہ ۲؂ :۔
’’ انی مع الرسول اقوم و افطر و اصوم۔ ‘‘ ( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۰۷ )

ترجمہ :۔ میں ( اللہ تعالیٰ ) اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں اورمیں افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا ۔

’’ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اے مرزا ، خدا تری عرش پر حمد کرتا ہے اور عرش پر تیری تعریف کرتا ہے ۔ ‘‘
( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، صفحہ ۲۲ )

خدا کون
عقیدہ ۳؂ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ خدا ان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے
مرے مولا مرے ہادی تھے بیشک شیخ ربانی ‘‘
( مرثیہ گنگوہی ، صفحہ ۸ )

مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنے ترجمہ قرآن مطبوعہ شیخ برکت اینڈ سنز لاہور کے صفحہ ۱ پر الحمد للہ رب العالمین کا ترجمہ یوں کیا ہے ’’ سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربی ہیں ہر ہر عالم کے ‘‘ ۔ ثابت ہوا کہ مربی اور رب دونوں ہم معنی ہیں ۔ خلائق جمع ہے ۔ خلائق کا لفظ ثابت کرتا ہے یہاں تمام عالموں کی تمام مخلوقات مراد ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ امام ربانی تمام عالموں کے تمام خلائق کے رب ہیں یعنی گنگوہی رب العالمین ہیں۔ ( العیاذ باللہ )

قادیانی عقیدہ ۳؂ :۔
’’ و رایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو ۔ ‘‘
( آئینہ کمالات ، صفحہ ۵۶۴ )

ترجمہ : میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں اللہ ہوں اور میں نے یقین کر لیا کہ بے شک میں وہی ہوں ۔

’’ اور دانیال نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں خدا کے مانند۔ ‘‘
( اربعین نمبر ۳ ، صفحہ ۲۵ ، حاشیہ )

اللہ کا جسم ہے
عقیدہ ۴؂ :۔
’’ تو ہمارے سامنے ہوتا ہم تیرے پاؤں پکڑ لیتے ۔ ہم تجھ سے چمٹ جاتے ۔۔۔۔۔۔تو ہی ہم کو جولی میں چھپالے ۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنی گود میں لے لے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
( طارق جمیل صاحب تبلیغی کی دعا )
قادیانی عقیدہ ۴؂ :۔
’’ یہ مجموعہ عالم خدائے تعالیٰ کیلئے یطور ایک اندام واقع ہے ۔ قیوم العالمین ( یعنی خدا ) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجوداعظم کی تاریں بھی ہیں ۔ ‘‘
( توضیح المرام ، صفحہ ۳۳ )

اللہ تعالیٰ افعال قبیحہ کر سکتا ہے

عقیدہ ۵؂ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ افعال قبیحہ مقدور باری تعالیٰ ہیں ۔ ‘‘ ( الجہد المقل ، صفحہ ۸۳ )
’’ کلیہ مسلمہ اہل کلام ہے ، جو مقدور العبد ہے وہ مقدور اللہ ہے ۔ ‘‘ ( تذکرۃ الخلیل ، صفحہ ۱۳۵ )

قادیانی عقیدہ ۵؂ :۔
’’ میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی ۔۔۔۔۔۔ کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ وحی الہٰی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پورا ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ خطا کر سکتا ہے ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۰۳ )

’’ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی یہ حالت ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ‘‘
( اسلامی ٹریکٹ ، صفحہ ۳۴ ، مصنفہ قاضی یار محمد )

قبلہ

عقیدہ ۶؂ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ
جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوقِ عرفانی ‘‘
( مرثیہ گنگوہی ، صفحہ ۱۳ )
قادیانی عقیدہ ۶؂ :۔
ظہیر الدین اورپی لکھتا ہے : ’’ اور خدا کی عبادت کرتے وقت مسجد اقصیٰ اور مسیح موعود کے مقام ( قادیان ) کی طرف منہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی ۔ ( المبارک ، صفحہ ۳ )

انبیاء کرام جھوٹ بولتے تھے ( العیاذباللہ)
عقیدہ ۷؂ :۔
’’ دروغ ( جھوٹ ) بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں ۔ ہر قسم سے نبی کا معصوم ہونا ضروری نہیں ۔ ‘‘
( تصفیۃ العقائد ، مولوی قاسم نانوتوی ، صفحہ ۲۳ )
قادیانی عقیدہ ۷؂ :۔
’’ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشنگوہی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی ۔ ‘‘
( ازالہ اوہام ، صفحہ ۴۳۹ )

’’ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ) کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔ ‘‘
( حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ، صفحہ ۵ ؍۱۵ )

انبیاء گناہ سے معصوم نہیں
عقیدہ ۸؂ :۔
’’ بالجملہ علی العموم کذب کو منافیِ شان نبوت بایں معنی سمجھنا کہ یہ معصیت ہے اور انبیاء معاصی سے پاک ہیں ۔ خالی غلطی سے نہیں ۔ ‘‘
( تصفۃ العقائد ، مولوی قاسم نانوتوی ، صفحہ ۲۵ )

’’ ایک واقعہ کی تحقیق کی غلطی ہے جو علم و فضل یا ولایت بلکہ نبوت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
( بوادرالنوادر ، مولوی اشرف تھانوی ، صفحہ ۱۹۷ )
قادیانی عقیدہ ۸؂ :۔
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت یحییٰ کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کی ۔ ‘‘
( دافع البلا ، صفحہ ۴ ، حاشیہ )

انبیاء کرام سے افضلیت کا دعویٰ
جو کمالات انفرادی طور پر انبیاء کرام کو ملے تھے ان سارے کمالات کی جامع سرکارِ گنگوہیت مآب مولوی رشید احمد صاحب کی ذات ہے ۔ گنگوہی صاحب تمام انبیاء کرام سے افضل ۔

عقیدہ ۹؂ :۔
’’ حسن یوسف ، دم عیسیٰ ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ھمہ دارند تو تنہا داری ‘‘
( تذکرۃ مشائخ دیوبند ، صفحہ ۱۱۲ ، مفتی عزیر الرحمن نہٹوروی )
قادیانی عقیدہ ۹؂ :۔
’’ انبیاء گرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زکسے
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقیں ہر کہ گوید دروغ است و لعیں ‘‘
( درثمین ، ۲۸۷ ۔ ۲۸۸ )

’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے۔ آپ کا درجہ مقام کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ کا شاگرد اور آپ کا ظل ہونے کا تھا ۔ دیگر انبیاء علیہم السلام میں سے بہتوں سے آپ بڑے تھے ۔ ممکن ہے سب سے بڑے ہوں ۔ ‘‘
( الفضل قادیان ، جلد ۱۴ نمبر ۸۵ ، مورخہ ۲۹ ، اپریل ۱۹۲۷ ؁ء )

وحی کا نزول
عقیدہ ۱۰؂ :۔
ایک مرتبہ قاسم نانوتوی نے حاجی امداد اللہ سے شکایت کی : ’’ جہاں تسبیح لے کر بیٹھا ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیے زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘

اس کا جواب حاجی صاحب نے یہ دیا : ’’ یہ نبوت کا آپ کے دل پر فیضان ہوتا ہے اوریہ وہ ثقل ( بوجھ ) ہے جو حضور ﷺ کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ۔ ‘‘
( سوانح قاسمی ، جلد ۱ ، صفحہ ۲۵۸ ۔ ۲۵۹ )
قادیانی عقیدہ ۱۰؂ :۔
’’ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں ۔ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں ۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۲۱۱ )

’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی وحی اپنی جماعت کو سنانے پر مامور ہیں ۔ جماعت احمدیہ کو اس وحی اللہ پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے کیونکہ وحی اللہ اسی غرض کے واسطے سنائی جاتی ہے ورنہ اس کا سنانا اور پہنچانا ہی بے سود اور لغو فعل ہوگا ۔ جب کہ اس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا مقصود بالذات نہ ہو۔
یہ شان بھی صرف انبیاء ہی کو حاصل ہے کہ ان کی وحی پر ایمان لایا جاوے حضرت محمد ﷺ کو بھی قرآن شریف مین یہی حکم ملا اور ان ہی الفاظ میں ملا اور بعدہ حضرت احمد علیہ السلام کو ملا ۔ پس یہ امر بھی آپ کی ( مرزا صاحب ) کی نبوت کی دلیل ہے ۔ ‘‘

( موسومہ النبوۃ فی الالہام ، صفحہ ۴۸ ، مولفہ قاضی محمد یوسف )

رحمۃ للعالمین کون
عقیدہ ۱۱؂ :۔
’’ سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ رحمۃللعالمین مخصوص آنحضرت ﷺ سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں ؟
جواب : لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاصہ رسول اللہ ﷺ کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیاء و انبیاء اور علماء ربانیین بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں اگر چہ جناب رسول اللہ ﷺ سب میں اعلیٰ ہیں لہذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے ۔فقط ‘‘
( فتاویٰ رشیدیہ ، صفحہ ۲۴۵ )
قادیانی عقیدہ ۱۱؂ :۔
’’ و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین ‘‘
( حقیقۃالوحی ، صفحہ ۸۲ )
ترجمہ : اور ہم نے تجھے ( اے مرزا ) تمام دنیا پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔

تحریفِ قرآن
عقیدہ ۱۲؂ :۔
’’ میں ( انور شاہ ) کہتا ہوں کہ لازم آتا ہے اوپر اس مذہب کے کہ ہو قرآن بھی تحریف شدہ کیونکہ بیشک تحریف معنوی نہیں ہے تھوڑی اس میں بھی اور جو بات ثابت ہے ۔ میرے نزدیک یہ ہے کہ تحریف ہے اس میں لفظی بھی تاہم یہ جو ہے ارادے سے ہے ان کے ( صحابہ کے ) یا مغالطے سے ہے پس اللہ خوب جانتا ہے یہ بات ۔ ‘‘
( فیض الباری ، انور شاہ کاشمیری ، جلد ۳ ، صفحہ ۳۹۸ )
قادیانی عقیدہ ۱۲؂ :۔
’’ قرآن دنیا سے اٹھ گیا تھا ۔ میں اس کو دوبارہ آسمان سے لایا ہوں ۔ ‘‘
( ازالہ الاوہام ، صفحہ ۷۲۱ )

خاتم النبیین میں معنوی تحریف
عقیدہ ۱۳؂ :۔
’’ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم ( ﷺ ) کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ، مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۳ )
قادیانی عقیدہ ۱۳؂ :۔
’’ جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ تو قرآن کریم کی مذکور بالا آیت پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ان سے رسول کریم ﷺ کی عزت و شان اس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اور شان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ ‘‘
( احمدیت کا پیغام ، صفحہ ۹ ، مؤ لفہ مرزا محمود امحمد )

’’ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ۔ اس آیت مین ایک پیشنگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب بنوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت ﷺ کا وجود ہے ۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروزی محمدی جو قدیم سے موعود تھا ۔ وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت پر مہر ہے ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدی کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا ۔ سو وہ ظاہر ہوگیا ۔ اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمے سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔
( ایک غلطی کا ازالہ ، صفحہ ۷۵ )

ختم نبوت
عقیدہ ۱۴؂ :۔
’’ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو ، جب بھی آپ ( ﷺ ) کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔ ‘‘
’’ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ بنوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۱۳ ، صفحہ ۲۴ )
قادیانی عقیدہ ۱۴؂ :۔
’’ ایسے نبی بھی آسکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کے لیے بطور ظل کے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کے نبیوں کی آمد سے آپ ( ﷺ ) کے آخر الانبیاء ہونے میں فرق نہیں آتا ۔ ‘‘
( دعوت الامیر ، صفحہ ۲۵ ، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود )

’’ خاتم النبیین ﷺ کے بعد ایک ہزار نبی پیدا ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
( ایک غلطی کا ازالہ ، صفحہ ۳ )

امتی عمل میں نبی سے ممتاز
عقیدہ ۱۵؂ :۔
’’ انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں ، باقی رہا عمل ، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں ، بلکہ بڑھ جاتے ہیں ۔ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۵ )
قادیانی عقیدہ ۱۵؂ :۔
’’ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے ۔ حتی کہ محمد ﷺ سے بڑھ سکتا ہے ۔ ‘‘
( الفضل ، قادیان ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ ؁ ء )

سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی


امام حسین کی گستاخی
عقیدہ ۱۷؂ :۔
مولوی حسین علی دیوبندی لکھتتے ہیں: ’’ کو ر کور انہ مرد در کربلا
تا نیفتی چوں حسین اندر بلا ‘‘
( بلغۃ الحیران ، صفحہ ۳۹۹ )
ترجمہ : اے اندھے اندھا ہوکر کربلا میں نہ جانا تاکہ امام حسین کی طرح مصیبت میں گرفتار نہ ہو ۔

’’ امام حسین نے جماعت میں تفرقہ ڈالا اور جماعت سے الگ ہو کر آپ شیطان کے حصے میں چلے گئے۔ ‘‘ ( رشید ابن رشید ، صفحہ ۲۲۵ ۔۲۲۶ )
’’ پس حسین باغی اور بیعت توڑنے والے تھہرے ۔ ‘‘
( رشید ابن رشید ، صفحہ ۱۸۴ )
قادیانی عقیدہ ۱۷؂ :۔
’’ میں ( مرزا ) خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے ۔ پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ۔ ‘‘ ( نزول المسیح ، صفحہ ۸۱ )

’’ کربلا ئسیت سیر ہر آنم صد حسین است در گریبا نم ‘‘
( نزول المسیح ، صفحہ ۴۷۷ )
ترجمہ : میری سیر کا ہر لمحہ ایک کربلا ہے سینکڑوں حسین میرے گریبان میں ہیں ۔

درود
عقیدہ ۱۸؂ :۔
’’ لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں اللھم صل علی سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی حالانکہ اب بیدار ہوں خواب نہیں ۔ ‘‘
( رسالہ الامداد ، صفحہ ۳۵ ، صفر المظفر ۱۳۳۶ ؁ ھ )
قادیانی عقیدہ ۱۸؂ :۔
’’ اللھم صل علی محمد و احمد و علی اٰل محمد و احمد کما صلیت علی ابراھیم و علی اٰل ابراھیم انک حمید مجید ۔ ‘‘
( رسالہ درود شریف ، صفحہ ۴۴ ، مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان )
آزادیء نسواں کے موضوع سے ہم کافی دور نکل گئے۔ واپس آ جائیے۔
 

محمد سعد

محفلین
آزادیء نسواں کے موضوع سے ہم کافی دور نکل گئے۔ واپس آ جائیے۔
بات آپ کی درست ہے لیکن آپ کو یاد آنے، بلکہ یاد نہ آنے کے مواقع بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر، جب بات آزادی نسواں سے دہریہ دہریہ کی تکرار کی جانب مڑ جاتی ہے۔ :whistle:
 

فرقان احمد

محفلین
بات آپ کی درست ہے لیکن آپ کو یاد آنے، بلکہ یاد نہ آنے کے مواقع بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر، جب بات آزادی نسواں سے دہریہ دہریہ کی تکرار کی جانب مڑ جاتی ہے۔ :whistle:
شکریہ!

ہم کسی کو دہریہ تصور نہیں کرتے اور نہ کسی کو کہا ہے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
یہ علماء کے کام سے مدد لے کر اس کی روشنی میں اپنی رائے بنانے کے بجائے انہی کی رائے کو من و عن اپنا لینے کا گلہ ہو رہا ہے۔

اس چل رہی بحث کے علاوہ بھی آپ کو یاد ہو گا کہ حالیہ ایک اور بحث میں آپ سے کچھ لوگوں نے اس بات پر گلہ کیا تھا کہ آپ اختلاف کرتے ہوئے اپنی عقل کو قابل اعتبار جتاتے ہیں جبکہ سوال پوچھنے پر اپنے اوپر ذمہ داری لینے کے بجائے یہ بہانہ بناتے ہیں کہ میں تو علماء کی رائے پر چل رہا ہوں کیونکہ میری اپنی عقل کی کوئی حیثیت نہیں۔
ہاں صحیح تو ہے، میرا تو اب یہی کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں میری اپنی کوئی رائے نہیں۔ اور یہ سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ بھلا ایک غیر عالم، عالم کے برابر کیسے ہوسکتا ہے، چاہے بات دنیاوی علم کی ہو یا دینی علم کی۔ میرا یہ موقف دو ٹوک ہے۔
باقی آپ کا یہ کہنا کہ ’’علماء کے کام سے مدد سے لے کر اس کی روشنی میں اپنی رائے بنانا‘‘ تو میرے بھائی اس کی چند عملی مثالیں (علمِ دین کے حوالے سے) دیں تا کہ پتہ چل سکے کہ آپ کے نظریے میں کتنا وزن ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرا تو اب یہی کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں میری اپنی کوئی رائے نہیں۔
اگر یہ بات ہے تو پھر آپ یہاں بے وجہ کی بحث نہ کریں۔ پہلے کم از کم اتنا علم حاصل کر لیں کہ اپنی رائے کا قیام اور اس کا دفاع خود پیش کر سکیں۔ اس وقت تک محض علما کرام کے اقتباسات پیش کرنے سے بات نہیں بن گی۔
 

محمد سعد

محفلین
ہاں صحیح تو ہے، میرا تو اب یہی کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں میری اپنی کوئی رائے نہیں۔ اور یہ سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ بھلا ایک غیر عالم، عالم کے برابر کیسے ہوسکتا ہے، چاہے بات دنیاوی علم کی ہو یا دینی علم کی۔ میرا یہ موقف دو ٹوک ہے۔
ایک اور بات پر بھی اپنا دو ٹوک موقف بیان کر دیجیے گا۔ دنیا میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو خوب علم دین سیکھ لینے کے بعد دین چھوڑ گئے۔ کیا ان کے پیچھے بھی اسی طرح تقلید میں لگا جا سکتا ہے اپنی عقل کو معطل کر کے؟ عام آدمی سے تو وہ زیادہ ہی علم رکھتے ہیں آخر۔

تمام رانگ نمبرز کی کامیابی کا انحصار لوگوں کو یہ باور کرانے پر ہی ہوتا ہے کہ یہ چھوٹے موٹے "عام لوگ" ان کی باتوں اور ان کے دعووں کو جانچنے کے لیے درکار عقل نہیں رکھتے، اور "خاص لوگ" جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں صرف وہی ہیں جو ان کے ساتھ پہلے ہی سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک "دو ٹوک" سچائی ہے۔
خیر، میں نے جو کچھ کہنا تھا، اچھی طرح کہہ چکا ہوں۔ مزید رانگ نمبرز کے ساتھ وقت ضائع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ معذرت۔
آپ فہد کے ساتھ اپنی بحث جاری رکھیں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ کون رانگ نمبر ہے اور کون نہیں۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
ایک چیز کی طرف میں اب تک اشارہ کرنے سے کترا رہا تھا لیکن آپ اپنے علماء کے قول کے دفاع کرنے کی وجہ سے اب تک اس طرف توجہ نہیں دے سکے ہیں۔

اشرف علی تھانوی صاحب کے بتائے ہوئے اس طریقے میں کہیں بھی یہ نہیں درج ہے کہ عورت بیت الخلاء جاتے ہوئے یہ تعویذ باندھی رہے گی یا نہیں؟ البتہ یہ ضرور درج ہے کہ ولادت کے بعد کھولے۔

مثال کے طور پر وہ باندھی رہتی ہے تو ذرا خود سوچئے کہ نجاست تعویذ پر لگنے کا کتنا امکان ہوگا؟ میں اس سے زیادہ اور کیا بیان کروں کہ کیسے کیسے نجاست لگ سکتی ہے؟ دوسری اہم بات تعویذ ولادت کے بعد کھولنے کا کہا گیا ہے۔ کیا ولادت کے دوران کوئی نجاست تعویذ سے نہیں لگے گی؟ کیا آپ کے پاس ضمانت ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ کیسے کیسے اہانت ہو سکتی ہے!!! تعویذ چاہے سو طرح کی تہوں میں ملفوف ہو کیا بیت الخلاء میں لے جانے سے کسی قسم کی بے ادبی ہوگی یا نہیں؟

کیا آپ اور آپ کے علماء جو اس طریقہ کار کو جائز سمجھتے ہیں، کے نزدیک واقعی کسی بھی قسم کی قرآن کے بے ادبی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ہے؟

میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ بات تعویذ کی شرعی حیثیت پر نہیں ہو رہی ہے بات ہو رہی ہے اس طریقہ کار کی وجہ سے ہونے والی اہانت پر!!!
جواب یہاں دیکھیے۔
پھر بھی تشفی نہ ہو تو بدگمانی رکھنے کے بجائے علمائے کرام سے براہِ راست رابطہ کر کے آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
لگتا ہے صاحب آپ نے اس مراسلے کے بعد والے میرے مراسلے پڑھے ہی نہیں! میں نے اس مراسلے کے بعد تین اور مراسلے اسی صفحہ پر کیے ہیں۔ براہ مہربانی آپ ان کو پڑھئے۔ وہاں میں نے متعدد علماء کے فتاوٰی بھی شامل کیے ہیں اور میں نے ان میں نشاندھی کی ہے کہ امام ابنِ تیمیہ کی رائے پر احادیث کو فوقیت دی گئی ہے۔ یہ قرآن یا حدیث میں کہاں درج ہے کہ اگر کسی عالم کی بات قرآن اور حدیث کے مطابق نہ لگے تب بھی اسے حجت مانو؟

جہاں تک امتِ مسلمہ میں اختلافات حل کرنے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں تو ہمیں قرآن سے ہی ہدایت مل جاتی ہے:

اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو جب تمہارا کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے، اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ (سورۃ النسآء، ۵۹)

میں آپ کو دارالاندلس کی شائع کردہ ’تعویذ اور عقیدہ توحید‘ نامی کتابچہ کا ایک باب : ص97 تا 114 جو کہ محدث میگزین میں شائع ہوا تھا پیش کرنا چاہوں گا۔

یہاں صاف صاف تعویذ کے قائلین کی حجت کے بارے میں تحریر ہے "اگر حقیقتِ امر یہی ہے تو فریق اول کا قول کسی قوی حجت پر مبنی نہیں۔"

میں چاہوں گا کہ آپ اسے پورا پڑھیں اور پھر بتائیے کہ کیا امام ابنِ تیمیہ کی رائے کو فوقیت دی گئی ہے؟

http://magazine.mohaddis.com/shumar...r-masoor-duaon-se-bane-taveez-aur-un-ka-hukam

میں پھر کہوں گا کہ آپ اگر قرآن اور حدیث سے قرآنی آیات کو نجاست سے لکھنے اور قرآنی آیات کو جسم کے ایسے حصوں سے باندھنے، جس کی وجہ سے بے ادبی ہونے کے بے اشمار امکانات ہوں، کے لئے استدلال لا سکتے ہیں تو ضرور لائیے۔ ہم منتظر ہیں!!!
یا تو میں اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا، یا صرف آپ کے لیے صرف وہ دلیل قابلِ قبول ہے جو ایک خاص مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی ہو۔
بہرحال، محترم علمائے اہلِ حدیث کی جانب سے تعویذ سے متعلق جاری کردہ فتویٰ ملاحظہ فرمائیے۔

تعویذات

  • تاریخ اشاعت : 2012-05-07
  • مشاہدات : 543
سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آیات قرآنی سے تعویذگلے میں ڈالنا یا بازو پرباندھناجائزہے یانہیں ؟ جوازیا عدم جواز پرقرآن وحدیث سے کیادلائل ہے ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکوۃ ٰ میں ہے :

«عن عمروبن شعیب عن ابیه عن جدہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال اذافزع احدکم فی النوم فلیقل اعوذبکلمات اللہ التامات من غضبه وعقابه وشرعبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون فانهالن تضرہ وکان عبداللہ بن عمرویعلمهامن بلغ من ولدہ ومن لم یبلغ منہم کتبهافی صک ثم علقهافی عنقه رواہ ابوداؤدوالترمذی وهذالفظه» (مشکوۃ باب الاستعاذۃ ص 217)
’’عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادے (عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ )سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جواپنی نیندمیں گھبرائے وہ یہ کلمات پڑھے’’ اعوذالخ ‘‘یعنی میں خدا کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتاہوں ۔اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندوں کے شرسے اورشیاطین کے وسوسوں سے اور اس سے کہ میرے پاس حاضرہوں ۔‘‘ پس وہ خواب اس کوبالکل نقصان نہیں دے گی۔ اورعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی اولادسے جوبالغ ہوجاتا،عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ اس کویہ کلمات سکھادیتے اورجونابالغ ہوتا کاغذپرلکھ کر اس کےگلے میں ڈال دیتے ۔اس کوابوداؤداورترمذی نے روایت کیا۔‘‘

عموماً جواز کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے مگراس پراعتراض ہوتاہے کہ یہ صحابی کافعل ہے اورصحابہ رضی اللہ عنہما دوسری طرف بھی ہیں تو پھرفیصلہ کیاہوا؟

نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے ’’دین خالص‘‘میں پہلے یہ حدیث ذکرکی ہے :

«عن ابن مسعودرضی اللہ عنه قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان الوقی والتمائم والتولة شرک رواہ احمدوابوداؤد۔»
’’ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادم ،تعویذ،عمل جب یہ شرک ہے ۔‘‘

اس کے بعداس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

«اقول ان العلماء من الصحابة والتابعین فمن بعدهم اختلفوافی جواز تعلیق التماءم التی من القرآن واسماء اللہ تعالیٰ وصفاته فقالت طائفة یجرز ذلک وهوقول ابن عمروبن العاص وهوظاہرماروی عن عائشة وبه قال ابوجعفر الباقرواحمدفی روایة وحملوا الحدیث علی التمائم التی فیهاشرک وقالت طائفة لایجوز ذلک وبه قال ابن مسعودرضی اللہ عنه وابن عباس رضی اللہ عنه وهوظاهرقول حذیفة وعقبة بن عامروابن عکیم وبه قال جماعة من التابعین منهم اصحاب ابن مسعود و احمدفی روایة واختارهاکثیرمن اصحابه وجزم بہ المتاخرون واحتجرابهذاالحدیث ومافی معناه» (دین خالص حصہ اول ص 344)
صحابہ ،تابعین اور ان کےبعدعلماء میں قرآن مجیداوراسماء اورصفات الہیٰ کے تعویذوں کے متعلق اختلاف ہے ۔ایک جماعت جواز کی قائل ہے ان سے عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بھی ظاہرہوتاہے اور ابوجعفرباقررحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور امام احمدرحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے موافق ہے اورحدیث مذکورکوشرکیہ تعویذوں پرمحمول کرتے ہیں۔اور ایک جماعت عدم جواز کی قائل ہے اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے اورحذیفہ رضی اللہ عنہ اورعقبہ بن عامررضی اللہ عنہ اور ابن عکیم رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہی ظاہرہوتاہے اور ایک جماعت تابعین رحمہ اللہ سے بھی اسی کی قائل ہے ان سے اصحاب ابن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں۔ اورایک روایت امام احمدرحمہ اللہ سے بھی اسی کے موافق ہے امام احمدرحمہ اللہ کے بہت سے اصحاب نے اسی کواختیارکیاہے اورمتاخرین کابھی یہی مذہب ہے اور دلیل اس کی حدیث مذکورہ اور اس کے ہم معنی دیگر روائتیں پیش کرتے ہیں۔‘‘

اس سے معلوم ہواکہ مسئلہ مختلف فیہاہے اور دونوں طرف صحابہ رضی اللہ عنہما ہیں تو اب فیصلہ کسی اوردلیل سے ہوناچاہیے صرف کسی صحابی رضی اللہ عنہ کاقول وفعل پیش کردینا کافی نہیں ۔پس اب سنیئے :

حدیث مذکورمیں تین چیزیں ذکرہوئی ہیں ۔رقیہ ،تمیمہ ،تولہ ۔ یعنی دم ،تعویذاورعمل حب ۔حدیث میں ان تینوں پرشرک کاحکم لگایاگیاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ نفس ان تینوں کاشرک ہے یاان کی کئی قسمیں ہیں جیسے بعض شرک ہیں بعض غیرشرک ہیں ۔کچھ شک نہیں کہ نفس دم یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب کی شرک نہیں۔ بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں اوراس کی تائیداس حدیث سے بھی ہوتی ہے جومشکوۃ میں ہے :

«عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنانرقی فی الجاهلیة فقلنایارسول اللہ کیف تری فی ذلک فقال اعرضوارقاکم لابأس بالرقیٰ مالم یکن فیه شرک» (مشکوۃ کتاب الطب ص 388)
’’عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت میں دم کیاکرتے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس کی بابت دریافت کیا توفرمایا: اپنے دم مجھ پرپیش کرو۔جب دم میں شرک نہ ہوتوکوئی حرج نہیں۔‘‘

اس کی ہم معنی اوربھی کئی احادیث ہیں جومشکوۃ وغیرہ میں موجودہیں ۔اور یہ صرف جاہلیت کے دموں کے متعلق ہیں اورجودم قرآن وحدیث کے ہیں وہ ان کے علاو ہ ہیں ۔ ان سے معلوم ہواکہ نفس دم مرادنہیں۔ بلکہ اس کی بعض قسمیں (کلمات شرکیہ)مرادہیں ۔اور جب اس کی بعض قسمیں مراد ہوئیں تو باقی دو میں بھی بعض مراد ہوں گی۔ کیونکہ جیسے دم کی بعض قسمیں شرکیہ ہیں بعض غیرشرکیہ اسی طرح باقی دوکا حال ہے۔ پس تفریق کی کوئی وجہ نہیں ۔اسی لیے جوجواز کے قائل ہیں ،انہوں نے حدیث مذکورہ کوشرکیہ تعویذوں پرمحمول کیاہے جیسے نواب صاحب رحمہ اللہ کی عبارت مذکورہ میں اس کی تصریح ہے ۔

اورتمیمہ اورتولہ کی تفسیربھی اسی کی مؤیدہے چنانچہ نیل الاوطارجلد8کتاب الطب باب ماجاء فی الوقی والتمام ص 444میں ہے ۔

«التمائم جمع تمیمة وہی حرزات کانت العرب تعلقها علی اولادهم یمنعون بهاالعین فی زعمهم فابطله الاسلام»
’’یعنی تمیمہ منکے ہیں جونظرسےبچاؤکےلیے عرب اپنے اعتقادکی بناء پراپنی اولادکےگلے میں باندھتے تھے۔پس اسلام نے اس کوباطل کردیا۔‘‘

اورتولہ کی تفسیرمیں لکھاہے :۔

«قال الخیل التولة شبیہ بالسحر»
’’یعنی خلیل رحمہ اللہ کہتے ہیں تولہ جادوکے مشابہ ہے ۔‘‘

اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری جزء 23باب الرقی بالقرآن الخ ص 418میں لکھتے ہیں :

«والتولة شئی کانت امرأۃ تجلب بہ محبة زوجهاوهونوع من السحر»
’’یعنی تولہ ایک شئے ہے جس کے ذریعے اپنے خاوندکی محبت کھینچ لیتی ہے اور وہ ایک قسم جادوہے ۔‘‘

نیل الاوطارمیں خلیل رحمہ اللہ کےقول کے بعدیہ بھی لکھاہے :۔

«وقدجاء تفسیرہ عن ابن مسعودکمااخرجه الحاکم وابن حبان وصححاہ انه دخل علی امرأۃ وفی عنقها شئی معقودفجذبه فقطعه ثم قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول ان لرقی والتمائم والتولة شرک قالوایااباعبداللہ هذاالتماءم والرقی قدعرفناہافماالتولة قال شئی یصنعه النساء یتحببن الی ازواجهن یعنی من السحرقیل هوخیط یقرأفیه من السحراوقرطاس یکتب فیه شئی منه یتحبب بہ النساء الی قلوب الرجال اوالرجال الی قلوب النساء فاماماتحبب به المرأۃ الی زوجهامن کلام مباح کمایسمی الغنج وکماتلبسه للزینة اوتطعمه من عتمارمباح اکله اواجزاء حیوان ماکول ممایعتقدانه سبب الی محبة زوجهالمااودع اللہ تعالی ٰ فیه من الخصیصة بتقدیراللہ لاانه یفعل ذلک بذاته قال ابن رسلان فالظاهران هذاجائز لااعوف الئن مایمنعه فی الشرع انتهیٰ۔»
’’اورتولہ کی تفسیرخودعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے آئی ہے جس کوحاکم رحمہ اللہ اورابن حبان رحمہ اللہ نے روایت کیاہے اورصحیح بھی کہاہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے اپنی بیوی کے گلے میں کچھ بندھا ہوا دیکھ کراس کوتوڑ دیا اورکہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنافرماتے تھے رقیٰ اورتمائم اورتولہ شرک ہے۔ لوگوں نے کہا اے ابوعبدالرحمن !رقی ٰ اورتمائم کوتوہم جانتے ہیں تولہ کیاشئے ہے ؟کہا:ایک شئے ہے جوعورتیں خاوندوں کی محبت کے لیے بناتی ہیں یعنی جادوکی قسم ہے ۔کہاگیا وہ ایک تاگہ ہے جس پرجادوسے کچھ پڑھاجاتاہے یاکاغذہے جس میں جادوسے کچھ لکھاجاتاہے جس کے ذریعے عورتیں مردوں کومحبوب بناتی ہیں یا مردعورتوں کومحبوب ہوجاتے ہیں۔ بہرحال کلام مباح سے عمل حب نزاکت اور زینت کی طرح یا کوئی مباح جڑی بوٹی کھلاکر یا حلال جانورکے اجزاء کھلاکرجن کے متعلق اعتقاد ہوکہ ان میں تقدیرالہیٰ کے ساتھ نہ ذاتی طور پر محبت پیدا کرنے کی خاصیت ہے اس قسم کے عمل حب کی بابت ابن سلمان نے کہاہے: کہ ظاہریہی ہے کہ یہ جائزہے ۔شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں۔ ہاں پرہیز افضل ہے جس کی دو وجہیں ہیں ۔ایک یہ کہ اختلافی بات میں اختلاف سے نکل جانابہترہے روجانی علاج میں زیادہ تر ان باتوں پرعملدرآمدچاہیے جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورعام طورپرسلف رحمہ اللہ کاعمل ہو یا احادیث میں ان کی ترغیب ہو۔کیونکہ روحانیات کاتعلق اعتقادسے زیادہ ہے اوراعتقادعموماً عمل سے ظاہرہوتاہے ۔

نواب صاحب رحمہ اللہ نے بھی جائز قراردیتے ہوئے آخریہی فیصلہ کیاہے کہ پرہیز افضل ہے ۔چنانچہ عبارت مذکورہ بالا (جس میں سلف کااختلاف ذکرکیاہے )کے بعدلکھتے ہیں :

« قال بعض العلماء وهذا(ای عدم الجواز)هوالصحیح لوجوہ ثلثة تظهرللمتامل الاول عموم النهی ولامخصص الثانی سدالذریعة فانه یغض الی تعلیق من لیس کذلک الثالث انه اذاعلق فلابدان یمتهنه بجمله معه فی حال قضاء الحاجة والا ستنجاء ونحوذلک قال وتامل هذہ الاحادیث وماکان علیه السلف یتبین لک بذلک غربة الاسلام خصوصاً ان عرفت عظیم ماوقع فیه الکثیربعدالقرون المفضلة من تعظیم القبورواتحاذهاالمساجدوالاقبال الیهابالقلب والوجه وصرف الدعوات والرغبات والرهبات وانواع العبادات التی هی حق اللہ تعالی الیهامن دونه کماقال تعالی ولاتدع من دون اللہ مالاینفعک ولایضرک فان فعلت فانک اذامن الظالمین وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف له الاهووان یروک بخیرفلارادلفضله ونظائرہافی القرآن اکثرمن ان یحصرانتهیٰ۔قلت غربة الاسلام شئی وخکم المسئلة شئی احروالوجه الثالث المتقدم لمنع التعلیق ضعیف جدالانه لامانع من نزع التمائم عندقضا ء الحاجة ونحوہالساعة ثم یعلقهاوالراجح فی الباب ان ترک التعلیق افضل فی کل حال بالنسبة الی التعلیق الذی جوزہ بعض اهل العلم بناء علی ان یکون بماثبت لابمالم یثبت لان التقویٰ له مراتب وکذاالاخلاص وفوق کل رتبة فی الدین رتبة اخری والمحصلون لهااقل ولهذاوردفی الحدیث فی حق السبعین الفایدخلون الجنة بغیرحساب انهم هم الذین لایرقون ولایسترقون مع ان الرقی جائزة وردت بهاالاخباروالاثارواللہ اعلم بالصواب والمتفقی من یترک مالیس به ...خرفاً ممافیه باس» ۔(فضل ردشرک الرقی والتمائم صفحه 344۔345)
’’بعض علماء نے کہاہے کہ عد م جواز ہی صحیح ہے جس کی تین وجہیں ہیں ایک یہ کہ حدیث مذکورعام ہے اورمخصص کوئی نہیں ۔ دوم سدباب کیونکہ تعویذکی اجازت دی جائے۔ تو لوگ آہستہ آہستہ مشتبہ یاشرکیہ الفاظ والے تعویذ بھی استعما ل کرنے لگ جائیں گے ۔سوم پاخانہ پیشاب کے وقت تعویذ ساتھ لے جانے سے کلام الہیٰ اوراسماء الہیٰ کی توہین ہوگی۔ اور ان بعض علماء نے کہاہے کہ ان احادیث میں اور روش سلف میں غورکرتاکہ تیرے لیے غربت اسلام واضح ہوجائے خاص کرجبکہ تودیکھے کہ خیرقرون کے بعدلوگ کس قدرخرابیوں میں واقع ہوگئے۔ قبروں کی تعظیم ،ان کو مسجدیں بنانا دل وجان سے ان کی طرف آمدورفت۔ قبروالوں کوپکارنا،ان سے امیدوخوف رکھنا،کئی طرح کی عبادت کرنا جو خاص خداکاحق ہے۔ قرآن مجیدمیں ہے :

’’ایسی شئے کونہ پکارو جو نہ کچھ نفع دے سکے نہ نقصان۔ اگرتو ایساکرے گا توظالم ہوجائے گا۔اورخدا اگرتجھے ضررپہنچائے توکوئی اسے کھولنے والا نہیں اور اگرتیرے ساتھ خیرکا ارادہ کرتے توکوئی اسے کے فضل کو ردکرنے والا نہیں ۔‘‘

اس قسم کی آیتیں بہت ہیں ۔میں (نواب صدیق حسن )کہتا ہوں کہ غربت اسلام علیحدہ شئے ہے اورمسئلہ علیحدہ شئے ہے۔اورتیسری وجہ بالکل کمزور ہے کیونکہ تھوڑی دیرکے لیے پاخانہ پیشاب کے وقت تعویذکھولاجاسکتاہے اورافضل ترک تعویذہے۔ وہ تعویذجس کوبعض علماء نے بوجہ ثبوت کے جائز قراردیاہے نہ کہ وہ تعویذجس کاکوئی ثبوت نہیں۔ اورجوثابت ہے اس کا ترک اس لیے افضل ہے کہ تقوی اوراخلاص کے کئی مراتب ہیں اور دین میں ہرمرتبہ کے اوپردوسرامرتبہ ہے اور اس کے حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ۔ اسی واسطے ستر ہزار آدمی جوبغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ان کےمتعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وہی ہیں جونہ دم کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں حالانکہ دم جائز ہے۔ چنانچہ اخبارآثارمیں آیاہے اورمتقی وہ ہے جواس شئے کی وجہ سے جس میں ڈرہے اس شئے کوبھی چھوڑدے جس میں ڈرنہیں ۔‘‘

نواب صاحب مرحوم نے اس عبارت میں بعض علماء کی پہلی وجہ کی طرف اس لیے توجہ نہیں کی کہ وہ ظاہرالبطلان ہے۔کیونکہ دم ،تمیمہ ، تولہ کی ذات شرک نہیں بلکہ بعض قسمیں شرک ہیں۔ چنانچہ اوپر بیان ہوچکاہے توحدیث عموم پرکیسے محمول ہوسکتی ہے ۔دوسری وجہ کونواب صاحب رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر ردکردیاہے کہ غربت اسلام علیحدہ شئے ہے اورمسئلہ علیحدہ شئے ہے گویاسدباب سے بعض علماء کا مطلب یہ تھاکہ جیسے قبروں کا معاملہ برائی کی طرف ترقی کرکے غربت اسلام کا باعث ہوگیا اسی طرح قرآن وحدیث کے الفاظ کے ساتھ تعویذکرتے کرتے کہیں غیرمشروع الفاظ کےساتھ بھی تعویذوں کاراستہ نہ کھل جائے جوغربت اسلام کا ذریعہ بن جائے ۔ نواب صاحب رحمہ اللہ نے اس کاجواب دیاکہ اس طرح کی غربت اسلام اصل مسئلہ میں مخل نہیں ۔مثلاً قبروں میں خرافات ہونے سے مسنون طریق پران کی زیارت منع نہیں ہوسکتی ۔ ٹھیک اسی طرح تعویذکا معاملہ ہے ۔تیسری وجہ پرنواب صاحب نے بہت کمزور ہونے کاحکم لگایاہے ۔ اورواقعی وہ بہت کمزورہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی پہنتے تھے ۔پیشاب کے لیے جانے کے وقت اتاردیتے تھے پھرمڑھانے کی صورت میں شایدیہ بے ادبی بھی نہ رہے ۔بہرصورت جواز میں کوئی شبہ نہیں۔مگر ان الفاظ کے ساتھ جوقرآن وحدیث سے ثابت ہوں یا ان کے ہم معنی ہوں ۔مشتبہ نہ ہوں لیکن باوجودجواز کے نواب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترک فضل ہے ۔کیونکہ حرام سے بچ کرجائز پراکتفاکرنا اگرچہ تقوی ہے مگرتقوی اوراخلاص اسی پرختم نہیں بلکہ اس کے بہت سے مراتب ہیں اور ہرمرتبہ کے اوپر ایک اورمرتبہ ہے جس کوکم لوگ پہنچتے ہیں ۔اسی لیے 70ہزارآدمی جوبغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ وہ ہیں جونہ دم کرتے ہیں نہ کراتے ہیں حالانکہ دم کے جواز میں احادیث اورآثارسلف بہت آئے ہیں ۔تواگرتقوی کی حدصرف جواز تک ہوتی توپھرترک دم کے ساتھ ان سترہزارکی تعریف کیوں ہوتی ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ اصل تقوی جائز پراکتفاکرنے میں نہیں بلکہ جائز کوبھی چھوڑکراحتیاط والی صورت اختیارکرنے میں ہے ۔پس افضل ترک ہے۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص188
 

عدنان عمر

محفلین
ایک اور بات پر بھی اپنا دو ٹوک موقف بیان کر دیجیے گا۔ دنیا میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو خوب علم دین سیکھ لینے کے بعد دین چھوڑ گئے۔ کیا ان کے پیچھے بھی اسی طرح تقلید میں لگا جا سکتا ہے اپنی عقل کو معطل کر کے؟ عام آدمی سے تو وہ زیادہ ہی علم رکھتے ہیں آخر۔

تمام رانگ نمبرز کی کامیابی کا انحصار لوگوں کو یہ باور کرانے پر ہی ہوتا ہے کہ یہ چھوٹے موٹے "عام لوگ" ان کی باتوں اور ان کے دعووں کو جانچنے کے لیے درکار عقل نہیں رکھتے، اور "خاص لوگ" جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں صرف وہی ہیں جو ان کے ساتھ پہلے ہی سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک "دو ٹوک" سچائی ہے۔
خیر، میں نے جو کچھ کہنا تھا، اچھی طرح کہہ چکا ہوں۔ مزید رانگ نمبرز کے ساتھ وقت ضائع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ معذرت۔
آپ فہد کے ساتھ اپنی بحث جاری رکھیں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ کون رانگ نمبر ہے اور کون نہیں۔
سوال گندم، جواب چنا۔
 

عدنان عمر

محفلین
اگر یہ بات ہے تو پھر آپ یہاں بے وجہ کی بحث نہ کریں۔ پہلے کم از کم اتنا علم حاصل کر لیں کہ اپنی رائے کا قیام اور اس کا دفاع خود پیش کر سکیں۔ اس وقت تک محض علما کرام کے اقتباسات پیش کرنے سے بات نہیں بن گی۔
تمھاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
 

عدنان عمر

محفلین
عدنان عمر
حضرت، ایک بات تو بتائیے گا۔ آپ کبھی کسی دلیل کے اپنے میرٹس پر بات کیوں نہیں کرتے؟ ہمیشہ آپ کی دلیل یہ کیوں ہوتی ہے کہ میں فلانے عالم کے پیچھے چل رہا ہوں اس سے پوچھو یا تم فلانے کے پیچھے چل رہے ہو تو اس کی بات تو سنے بغیر ہی ناقابل قبول ہے کیونکہ جس فلانے عالم کے پیچھے میں چل رہا ہوں اس سے وہ مختلف بات کرتا ہے؟
اس بات سے کہ آپ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسی سے کچھ بحث کر رہے ہیں، اتنا تو پتہ چلتا ہی ہے کہ آپ ایک دماغ شریف رکھتے ہیں جو کہ سوچنے سمجھنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قیمتی نعمت کے استعمال سے پھر آپ اتنے گریزاں کیوں ہیں؟
یہ تو آپ سراسر عیسائیوں کی پاپائیت کی نقل کر رہے ہیں۔
دورانِ مطالعہ ایک فکر انگیز مضمون پڑھنے کو ملا۔ سوچا آپ کو بھی شریک کر لوں۔ شاید پاپائیت کے حوالے سے آپ کے کسی سوال کا جواب اس میں موجود ہو، ورنہ فوڈ فار تھاٹ کے طور پر ہی پڑھ لیجیے۔


تجدد پسندوں کا تصور اجتہاد
تحریر: مولانا زاہد الراشدی

ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
جنوری ۲۰۰۷ء
بخاری شریف میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ (صحرائی جانور) کے بِل میں گُھسا ہے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’تو اور کون ہے‘؟

اس حدیث مبارک کی تشریح میں محدثین کرام نے مختلف پہلو ذکر کیے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہود ونصاریٰ نے جس طرح توراۃ، انجیل اور زبور میں تحریفات کا راستہ اختیار کیا اوراللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں معنوی تبدیلیوں اور خدائی احکام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ تک بدل ڈالے اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی جو صورتیں انہوں نے اختیار کیں، مسلمانوں میں بھی ایسے گروہ ہوں گے جو اس ڈگر پر چلیں گے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی خواہش یا فہم ودانش کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسی طرح کی صورتیں اختیار کریں گے۔ چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے لیے بیسیوں گروہ آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نت نئے معانی پہنانے کی کوشش کی اور یہود ونصاری ٰ کی یاد تازہ کردی۔ البتہ قرآن وسنت کے الفاظ میں ردوبدل کی سہولت انہیں کبھی حاصل نہیں رہی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لے کر اس کے ساتھ اس کی عملی تشریح کے طورپر جناب نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت کو بھی قیامت تک محفوظ رکھنے کا اہتمام کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں میں ایسے گروہوں کا سارا زور معنوی تحریف پر صرف ہوتاچلا آرہاہے اور علامہ اقبالؒ کے بقول ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘ کے مصداق قرآنی تعلیمات ایسے گروہوں کی تحریفی تلبیسات کا مسلسل شکار ہوتی چلی آرہی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اوراجتماعی دھارے نے اپنے لیے ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا ٹائٹل اختیار کرکے اس تحریف وتلبیس کے راستے میں بھی مضبوط اور ناقابل شکست دیوار کھڑی کررکھی ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورجماعت صحابہ کو دین کی تعبیر وتشریح کا حتمی معیار تسلیم کرلینے کے بعد کسی ایسی تحریف وتلبیس کا راستہ کھلا نہیں رہ جاتاجس پر چل کر یہود ونصاریٰ کی طرح قرآن وسنت کو من مانے معانی اور خود ساختہ تعبیرو تشریح کا جامہ پہنایا جاسکے۔ البتہ یہ کشمکش مسلسل جاری ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتی رہے گی۔

اس پس منظر میں ہمارے’’ تجدد پسند‘‘ دانش وروں کی فکری وعلمی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آتاہے جس کا ہم آج کی محفل میں مختصر تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں اوروہ یہ کہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب میں نصاریٰ کے بعض علما نے، جن میں جرمن مسیحی راہ نما مارٹن لوتھر سرفہرست ہیں، پاپائے روم کے خلاف بغاوت کی اور پاپائیت کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بائبل کی تعبیرو تشریح کا ایک نیا سسٹم قائم کیا جس کی بنیاد پر پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا اور پاپائے روم کے کیتھولک فرقہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی یہ کشمکش بائبل کی تعبیرو تشریح اور مسیحی تعلیمات کے سوسائٹی پر عملی اطلاق کے حوالہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔

ہمارے بعض دانش ور دوستوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کرسکتے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کرکے اس کی نفی کریں اورمارٹن لوتھر کی طرح قرآن وسنت کی نئی تعبیرو تشریح کی بنیاد رکھیں چنانچہ انہوں نے بھی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی’’ قدم بہ قدم ‘‘پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن وسنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا۔ لوتھر کی وفات ۱۵۴۶ عیسوی میں ہوئی، جبکہ اکبر بادشاہ کی ولادت کاسن ۱۵۴۲ عیسوی ہے۔ گویا عالم اسلام میں لوتھر کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جلال الدین اکبر، لوتھر کی زندگی میں ہی جنم لے چکاتھا۔

اکبر بادشاہ کی ابتدائی زندگی ٹھیٹھ مذہبی تھی، مگر درباری قسم کے علما اور دانش وروں کی مذبوحی حرکات نے اس کے دل میں یہ خیال پیداکیا کہ دین اسلام کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں اور اس کی تعبیرو تشریح پرانی ہوگئی ہے جس کی تجدید ضروری ہے اور اب کوئی ایسا ’’مجتہد مطلق‘‘ سامنے آنا چاہیے جو دین کی نئی تعبیرو تشریح کے لیے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرے اور اس کی بات کو دین کے معاملے میں فیصلہ کن تصور کیاجائے، چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علما ے امت کے اس اجتہادی نظام کو چیلنج کیا جس نے دین کی تعبیرو تشریح کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کیا ہوا تھا اور جس کی موجود گی میں دین کے کسی حکم کی کوئی ایسی تشریح ممکن نہ تھی جسے مارٹن لوتھر کی تعبیرات وتشریحات کی طرح ’’ری کنسٹرکشن‘‘ قراردیاجاسکے، چنانچہ اس نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کا منصب ضروری خیال کیا اور خود اس کے ایک درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’منتخب التوریخ ‘‘میں اس محضر نامے کا یہ متن نقل کیا ہے جس پر ملک بھر کے علماے کرام سے جبراً دستخط کرائے گئے، اور جنہوں نے دستخط کرنے سے گریز کیا، وہ ملا عبداللہ سلطان پوری ؒ اورملا عبد النبی گنگوہی ؒ کی طرح جلاوطنی اور شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔ اکبر بادشاہ کو ’’مجتہد مطلق ‘‘قراردینے کا محضر نامہ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول یہ ہے کہ :

’’خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اورحضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اورعلم والے ہیں۔ اس بنیادپر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ثاقب ذہن اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے پیش نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اس کو معین کر دیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اوراجماعی قرارپائے گا اوررعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی وناگزیر ہوگی۔‘‘

اس کے بعد جلال الدین اکبر نے ملا مبارک، ابوالفضل اور فیضی جیسے ارباب علم ودانش کی معاونت ومشارکت سے اسلام کی جو ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی، وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس تعبیر نو کی بنیاد اسلام کو محدود ماحول سے نکال کر مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اوراسلامی احکام وقوانین کو تقلید وجمود کے دائرے سے نکالنے کے تصور پر تھی اور خود اکبر بادشاہ کے درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی کی تصریحات کے مطابق اس کا عملی نقشہ کچھ یوں تھا کہ:
  • سورج کی پوجا دن میں چار وقت کی جاتی تھی۔
  • بادشاہ کو سجدہ کیاجاتاتھا۔
  • کلمہ طیبہ میں لاالٰہ الا اللہ کے ساتھ ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہنا لازمی کردیاگیاتھا۔
  • بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے درج ذیل عہد لیاجاتا تھا کہ ’’میں اپنی خواہش، رغبت اوردلی شوق سے دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے علیحدگی اورجدائی اختیار کرتاہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل ہوتاہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبوں یعنی ترک مال، ترک جان، ترک ناموس وعزت اور ترک دین کو قبول کرتاہوں۔‘‘
  • بادشاہ کے مرید آپس میں ملتے تو ایک ’’اللہ اکبر‘‘کہتا اور دوسرا جواب میں ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یہی ان کا سلام وجواب ہوتاتھا۔
  • خط کے آغاز میں ’’اللہ اکبر‘‘ لکھنے کا رواج ڈالا گیا۔
  • سود اور جوئے کو حلا ل قرار دیاگیا، شاہی دربار میں جواگھر بنایا گیا اور شاہی خزانہ سے جواریوں کو سودی قرضے دیے جاتے تھے۔
  • شراب کی محفلوں میں فقہاے کرام کا مذاق اڑایاجاتا اور اکبر بادشاہ کا درباری ملا فیضی اکثر شراب پیتے وقت کہتاکہ یہ پیالہ میں فقہا کے ’’اندھے پن‘‘ کے نام پر پیتا ہوں۔
  • ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیاگیا اور ڈاڑھی کا مذاق اڑانے کا رواج عام ہوا۔
  • غسل جنابت کو منسوخ کردیاگیا۔
  • ایک سے زیادہ شادی کو ممنوع قرار دیاگیا۔
  • سولہ سال سے کم عمر لڑکے اورچودہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح ممنوع قراردیاگیا۔
  • حکم صادر ہوا کہ جوان عورتیں جو کوچہ وبازار میں نکلتی ہیں، باہر نکلتے وقت چاہیے کہ چہرہ یا کھلا رکھیں یا چہرے کو اس وقت کھول دیاکریں۔
  • زنا کو قانوناً جائز قراردیاگیا اور اس کے لیے باقاعدہ قحبہ خانے بنائے گئے۔
  • بارہ سال کی عمر تک لڑکے کا ختنہ کرانے کو ممنوع قراردیاگیا۔
  • مردہ کو دفن کرنے کے بجائے یہ حکم تھا کہ خام غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیاجائے اور جس جگہ پانی نہ ہو، جلا دیاجائے یا چینیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیاجائے۔
  • سور اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ قراردیاگیا۔ شاہی محل کے اندر اور باہر یہ دونوں جانور رکھے جاتے تھے اور صبح سویرے ان کے دیکھنے کو بادشاہ عبادت خیال کرتا تھا۔
  • شیر اور بھیڑیے کا گوشت حلال کردیاگیا جبکہ گائے، بھینس، گھوڑے، بھیڑ اور اونٹ کا گوشت حرام قراردیاگیا۔
  • حکم صادر ہوا کہ کوئی ہندو عورت اگر کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہوکر مسلمانوں کا مذہب اختیار کر لے تو اس عورت کو جبراً وقہراً اس کے گھر والوں کے سپرد کیاجائے۔
  • یہ حکم صادر ہوا کہ علوم عربیہ کی تعلیم ختم کردی جائے اور نجوم، طب، حساب اورفلسفہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ عربی پڑھنا عیب سمجھا جانے لگا اور فقہ، تفسیر اورحدیث پڑھنے والے مردود ومطعون ٹھہرائے گئے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول ان اقدامات کے نتیجے میں مدرسے اور مسجدیں سب ویران ہوئے، اکثر اہل علم جلا وطن ہوئے اور ان کی اولاد ناقابل جو اس ملک میں رہ گئی ہے، پاجی گیری میں نام پیدا کررہی ہے۔
  • ایسے حروف جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلاً ث، خ، ع، ص، ض، ط، ظ، ان کو بول چال سے بادشاہ نے خارج کردیا۔
  • ملا عبد القادر بدایونی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے بارے میں اکبر بادشاہ کے ایک خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلا جاتاہے اور راز ونیاز کی نوے ہزار باتیں خدا سے کرتاہے، لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتاہے۔ تعجب ہے لوگ اس دعویٰ کو مان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔
  • احمد، محمد، مصطفی وغیرہ نام بیرونی کافروں اور اندرونی خواتین کی وجہ سے بادشاہ پر گراں گزرنے لگے۔ اپنے خاص لوگوں کے نام اس نے بدل ڈالے، مثلاً یار محمد خان اور محمد خان کو وہ ’رحمت‘ ہی کے نام سے پکارتاتھا۔
  • علمائے سو اپنی تصنیفات میں خطبہ سے بچنے لگے۔ صرف توحید اور بادشاہی القاب کے ذکر پر قناعت کرتے تھے۔ ان کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک زبان قلم پر لاتے۔
  • نماز، روزہ اور حج ساقط ہوچکے تھے اور دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز اداکرسکے۔
  • نماز، روزہ اور وہ ساری چیزیں جن کا تعلق نبوت سے ہے، ان کا نام’’تقلیدات ‘‘رکھا گیا یعنی یہ سب حماقت کی باتیں ٹھہرائی گئیں اور مذہب کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔
  • اسلام کی ضد اور اس کے توڑ پر ہر وہ حکم جو کسی دوسرے مذہب کا ہوتا، اس کو بادشاہ نص قاطع اور دلیل قطعی خیال کرتے۔ بخلاف اسلامی ملت کے کہ اس کی ساری باتیں مہمل، نامعقول، نوپیدا اور عرب مفلسوں کی گھڑی ہوئی خیال کی جاتیں۔
  • جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے، وہ بادشاہ کے نزدیک کشتنی، مردوداور پھٹکارا ہوا شمار ہوتا تھا اور اس کا نام ’’فقیہ ‘‘رکھ دیا جاتا تھا۔
مارٹن لوتھر نے پاپائیت اور ملوکیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کے کچھ واضح اسباب بھی تھے۔ پاپائے روم کو بائبل کی تعبیر و تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور بات دلیل کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ پوپ کو خدا کا نمائندہ تصورکیا جاتاتھا اور اب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں اندلس کی اسلامی معاشرت اور تعلیم کے نتیجے میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی علوم نے آگے بڑھنا شروع کیا تو کلیسا اس کی راہ میں مزاحم ہوا۔ پاپائیت نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر ظلم وجبر کی تکون قائم کردی اور سائنس کی ترقی کو کفر کے مترادف قرار دیا۔ بادشاہ اور جاگیر دار کے مظالم کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کے بجائے پوپ نے ظلم وجبر کا ساتھی بننے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ کی طرف سے بائبل کی شخصی اور جانبدارانہ تعبیر و تشریح کی مزاحمت کے لیے مارٹن لوتھر آگے بڑھا اور جب دیکھا کہ پاپائیت اپنے عوام دشمن اورعلم دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی پید اکرنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے علم بغاوت بلند کرکے پاپائیت کی نفی کردی اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیاد رکھی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی نئی تعبیرو تشریح کی اساس بنی۔ مغرب کی معروضی صورت حال ایسی ہی تھی اور مغرب کی یہ ضرورت تھی کہ وہاں یہ تبدیلی آئے، لیکن ہمارے مہربانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ مغرب کے اس عمل کے لیے پائے جانے والے اسباب ہمارے پاس موجود ہیں یا نہیں اور ہماری معروضی صورتحال اس کی متقاضی ہے یا نہیں، صرف اس شوق میں کہ چونکہ مغرب نے اپنے مذہب کی تشکیل نو کی ہے اورمسیحیت کی تعبیر وتشریح کے قدیمی فریم ورک کو مسترد کردیاہے، اس لیے ہمیں بھی یہ کام ضرور کرنا ہے اور جیسا کہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار مار کر سرخ کرلیا جائے، ہم نے اپنے ہی منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دیے جو اب تک مسلسل برستے چلے جا رہے ہیں۔

ہمار ے جدت پسندوں نے دو مفروضوں پر اپنی فکری کاوشوں کی بنیاد رکھی۔ ایک یہ کہ انہوں نے مسیحیت کے پاپائی سسٹم کی طرح اسلام کی تعبیر و تشریح میں فقہا کے قائم کردہ فریم ورک کو بھی پاپائیت قرار دے دیا، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاپائیت میں فائنل اتھارٹی شخصیت کو حاصل ہے اور اسے خدا کا نمائندہ تصور کیاجاتا ہے جبکہ اسلام میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کی یہ کہہ کر نفی کر دی تھی کہ میں قرآن وسنت کے مطابق چلوں گا تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کردو۔ یہ فرما کر حضرت صدیق اکبرؓ نے شخصیت کے بجائے دلیل کی بالادستی کا اعلان کیا اور جب حضرت ابو بکر صدیق کو کسی نے خلیفۃ اللہ کہہ کرپکارا تو انہوں نے فوراً ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اس ارشاد کا مطلب بھی پاپائیت کے اس تصور کی نفی تھا کہ کوئی شخص خود کو خدا کا نمائندہ کہہ کر دین کی تعبیر و تشریح میں حتمی اتھارٹی قرار دینے لگے۔

پھر جن ائمہ کرام کے فقہی اصولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات کو صرف اس لیے قبول کیا جائے کہ وہ بات امام ابو حنیفہ ؒ نے کہی ہے یا امام شافعیؒ نے کہی ہے یا امام مالکؒ نے کہی ہے یا امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔ اگر کوئی شخص تقلید کا یہ معنی سمجھتاہے تو وہ سرے سے اجتہاد اور تقلید کے مفہوم سے واقف نہیں ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی بات کو قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلیل، قبول کرنے والے کے نزدیک زیادہ وزن رکھتی ہے اور امام شافعی ؒ کی بات کو ان کے پیروکار ترجیح دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ذہن کار فرما ہوتاہے کہ ا ن کی دلیل دوسروں سے زیادہ وزنی ہے۔

جب ہر امام کے پیروکار یہ کہہ کر ان کی بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہے مگر اس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہے اور جب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے سامنے بیٹھ کر ان کے شاگرد ان سے اختلاف کررہے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کے بجائے اپنے استدلال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس سارے عمل کو پاپائیت کے مترادف قراردینے والے دوست یا تو پاپائیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں اور یا پھر اجتہاد اور تقلید کے مسلمہ فریم ورک کے ادراک سے محروم ہیں، اس لیے کہ پاپائے روم کی بات کو قبول کرنے کی بنیاد ان کی شخصیت ہے اور ائمہ مجتہدین کے ا رشادات کو قبول کرنے کی اساس ان کی دلیل اور استدلال ہے۔ اتنی واضح سی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تو اس میں اجتہاد اور تقلید کے فریم ورک کا کیا قصور ہے؟

اس حوالے سے ہمارے جدت پسندوں کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے لیے اس کی تعبیر وتشریح کے پرانے فریم ورک کو چیلنج کرنا اور اس کی نفی کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ مارٹن لوتھر نے ایسا ہی کیاتھا۔ جبکہ دین کی تعبیرو تشریح کے پرانے فریم ورک نے جسے اجتہاد اور تقلید کے نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی پاپائیت کی طرح وقت کی ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار نہیں کیا اور جب بھی ضرورت پیش آئی ہے، اجتہاد اور تقلید کے نظام میں ایسی لچک اورگنجائش موجود رہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو اس میں سمویا جا سکے اور چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی ایسے مرحلے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی کہ اجتہاد اور تقلید کے روایتی نظام نے قرون مظلمہ کی پاپائیت کی طرح علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو، سائنس کے ارتقا کی مخالفت کی ہو، جاگیردار اور بادشاہ کی طرفداری اس طرح کی ہو کہ پورے کا پورا سسٹم ظلم وجبر کا پشت پناہ بن گیا ہو۔ افراد کی بات الگ ہے، ظالم حکمرانوں کو افراد ضرور ایسے ملتے رہے ہیں جو دین کے نام پر ان کے ظلم وجبر کو سند جواز فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن پاپائیت کی طرح دین کی تعبیرو تشریح کا پورا نظام ظلم و جبر کا ساتھی بن گیا ہو، اس کی ایک مثال بھی پوری تاریخ اسلام میں پیش نہیں کی جاسکتی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مجتہدین نے حق کی خاطر ،عوام کے حقوق کی خاطر، اور ظلم وجبر کے خلاف ہر دور میں جیلیں آباد کی ہیں، پھانسی کے تختے کو چوما ہے اور ظلم وجبر کا حوصلہ واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیاہے۔ اس لیے دین کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد وتقلید کے روایتی نظام کو کسی بھی حوالہ سے پاپائیت سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے اور ایسا کرنا صریحاً ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتاہے، مگر ہمارے جدت پسند مہربان پورے زور کے ساتھ اسے پاپائیت قراردینے پر مصر ہیں، صرف اس لیے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے روایتی نظام اورفریم ورک پر پاپائیت کی پھبتی کسے بغیر اسے چیلنج کرنے اور اسے مسترد کرکے دین کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے، اور ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہم اس پر اظہار خیال کرتے رہیں گے۔ سرِدست جناب نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں کہ’’تم یہود ونصاریٰ کی قدم بہ قدم پیرو ی کروگے‘‘، اس کے صرف ایک پہلو کی طرف ہم قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں کہ مارٹن لوتھر نے جو کچھ مسیحیت کی تعبیر نو کے لیے ضروری سمجھا، اس سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اورہمارے ہاں وہ اسباب جنہوں نے مارٹن لوتھر کو اس کام کے لیے مجبور کیاتھا، پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس کی پیروی کو ہر حال میں ضروری تصورکیا جارہاہے۔ کیا’’قدم بہ قدم پیروی‘‘ کی اس سے بہتر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟
 

فہد مقصود

محفلین
آزادیء نسواں کے موضوع سے ہم کافی دور نکل گئے۔ واپس آ جائیے۔

بالکل جناب دور تو ہم نکل ہی گئے ہیں۔ ویسے یہ اس فورم پر اتنی انہونی بات تو نہیں ہے۔ دور تو نکلتے ہی رہتے ہیں چاہے وہ خلیل الرحمن قمر والا دھاگہ ہو یا بائیولوجیکل وار والا دھاگہ!
 

فہد مقصود

محفلین
جواب یہاں دیکھیے۔
پھر بھی تشفی نہ ہو تو بدگمانی رکھنے کے بجائے علمائے کرام سے براہِ راست رابطہ کر کے آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔

کیا کرتے ہو صاحب! آپ کے دئیے گئے ربط والے صفحہ پر لکھا ہے۔

"حاملہ کو جب درد زہ شروع ہونے لگے تو حاملہ کی بائیں ران پر گھٹنہ کے نزدیک باندھ دیں کپڑے میں باندھا ہوا تعویذ ٹانگ کے اندر کی طرف اور گانٹھ باہر کی طرف ہو۔"

بلاتبصرہ!!!!!

اور علماء سے اتنی بار تو پوچھ چکے ہیں اور آپ خود نہ جانے کتنے اس طریقہ کار کے دفاع میں فتاوٰی یہاں شریک کر چکے ہیں۔ ایک ہی جیسی باتیں ہیں! ہر فتویٰ میں تعویذ کے شرعی طور پر جائز ہونے کی دلالت کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر ٹانگ پر باندھنا بھی جائز قرار دے دیا جاتا ہے! اب بتائیے اور کیا پوچھنا باقی رہ گیا ہے؟
 

فہد مقصود

محفلین
یا تو میں اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا، یا صرف آپ کے لیے صرف وہ دلیل قابلِ قبول ہے جو ایک خاص مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی ہو۔
بہرحال، محترم علمائے اہلِ حدیث کی جانب سے تعویذ سے متعلق جاری کردہ فتویٰ ملاحظہ فرمائیے۔

تعویذات




    • تاریخ اشاعت : 2012-05-07
    • مشاہدات : 543
سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آیات قرآنی سے تعویذگلے میں ڈالنا یا بازو پرباندھناجائزہے یانہیں ؟ جوازیا عدم جواز پرقرآن وحدیث سے کیادلائل ہے ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکوۃ ٰ میں ہے :

«عن عمروبن شعیب عن ابیه عن جدہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال اذافزع احدکم فی النوم فلیقل اعوذبکلمات اللہ التامات من غضبه وعقابه وشرعبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون فانهالن تضرہ وکان عبداللہ بن عمرویعلمهامن بلغ من ولدہ ومن لم یبلغ منہم کتبهافی صک ثم علقهافی عنقه رواہ ابوداؤدوالترمذی وهذالفظه» (مشکوۃ باب الاستعاذۃ ص 217)
’’عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادے (عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ )سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جواپنی نیندمیں گھبرائے وہ یہ کلمات پڑھے’’ اعوذالخ ‘‘یعنی میں خدا کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتاہوں ۔اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندوں کے شرسے اورشیاطین کے وسوسوں سے اور اس سے کہ میرے پاس حاضرہوں ۔‘‘ پس وہ خواب اس کوبالکل نقصان نہیں دے گی۔ اورعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی اولادسے جوبالغ ہوجاتا،عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ اس کویہ کلمات سکھادیتے اورجونابالغ ہوتا کاغذپرلکھ کر اس کےگلے میں ڈال دیتے ۔اس کوابوداؤداورترمذی نے روایت کیا۔‘‘

عموماً جواز کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے مگراس پراعتراض ہوتاہے کہ یہ صحابی کافعل ہے اورصحابہ رضی اللہ عنہما دوسری طرف بھی ہیں تو پھرفیصلہ کیاہوا؟

نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے ’’دین خالص‘‘میں پہلے یہ حدیث ذکرکی ہے :

«عن ابن مسعودرضی اللہ عنه قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان الوقی والتمائم والتولة شرک رواہ احمدوابوداؤد۔»
’’ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادم ،تعویذ،عمل جب یہ شرک ہے ۔‘‘

اس کے بعداس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

«اقول ان العلماء من الصحابة والتابعین فمن بعدهم اختلفوافی جواز تعلیق التماءم التی من القرآن واسماء اللہ تعالیٰ وصفاته فقالت طائفة یجرز ذلک وهوقول ابن عمروبن العاص وهوظاہرماروی عن عائشة وبه قال ابوجعفر الباقرواحمدفی روایة وحملوا الحدیث علی التمائم التی فیهاشرک وقالت طائفة لایجوز ذلک وبه قال ابن مسعودرضی اللہ عنه وابن عباس رضی اللہ عنه وهوظاهرقول حذیفة وعقبة بن عامروابن عکیم وبه قال جماعة من التابعین منهم اصحاب ابن مسعود و احمدفی روایة واختارهاکثیرمن اصحابه وجزم بہ المتاخرون واحتجرابهذاالحدیث ومافی معناه» (دین خالص حصہ اول ص 344)
صحابہ ،تابعین اور ان کےبعدعلماء میں قرآن مجیداوراسماء اورصفات الہیٰ کے تعویذوں کے متعلق اختلاف ہے ۔ایک جماعت جواز کی قائل ہے ان سے عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بھی ظاہرہوتاہے اور ابوجعفرباقررحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور امام احمدرحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے موافق ہے اورحدیث مذکورکوشرکیہ تعویذوں پرمحمول کرتے ہیں۔اور ایک جماعت عدم جواز کی قائل ہے اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے اورحذیفہ رضی اللہ عنہ اورعقبہ بن عامررضی اللہ عنہ اور ابن عکیم رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہی ظاہرہوتاہے اور ایک جماعت تابعین رحمہ اللہ سے بھی اسی کی قائل ہے ان سے اصحاب ابن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں۔ اورایک روایت امام احمدرحمہ اللہ سے بھی اسی کے موافق ہے امام احمدرحمہ اللہ کے بہت سے اصحاب نے اسی کواختیارکیاہے اورمتاخرین کابھی یہی مذہب ہے اور دلیل اس کی حدیث مذکورہ اور اس کے ہم معنی دیگر روائتیں پیش کرتے ہیں۔‘‘

اس سے معلوم ہواکہ مسئلہ مختلف فیہاہے اور دونوں طرف صحابہ رضی اللہ عنہما ہیں تو اب فیصلہ کسی اوردلیل سے ہوناچاہیے صرف کسی صحابی رضی اللہ عنہ کاقول وفعل پیش کردینا کافی نہیں ۔پس اب سنیئے :

حدیث مذکورمیں تین چیزیں ذکرہوئی ہیں ۔رقیہ ،تمیمہ ،تولہ ۔ یعنی دم ،تعویذاورعمل حب ۔حدیث میں ان تینوں پرشرک کاحکم لگایاگیاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ نفس ان تینوں کاشرک ہے یاان کی کئی قسمیں ہیں جیسے بعض شرک ہیں بعض غیرشرک ہیں ۔کچھ شک نہیں کہ نفس دم یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب کی شرک نہیں۔ بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں اوراس کی تائیداس حدیث سے بھی ہوتی ہے جومشکوۃ میں ہے :

«عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنانرقی فی الجاهلیة فقلنایارسول اللہ کیف تری فی ذلک فقال اعرضوارقاکم لابأس بالرقیٰ مالم یکن فیه شرک» (مشکوۃ کتاب الطب ص 388)
’’عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت میں دم کیاکرتے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس کی بابت دریافت کیا توفرمایا: اپنے دم مجھ پرپیش کرو۔جب دم میں شرک نہ ہوتوکوئی حرج نہیں۔‘‘

اس کی ہم معنی اوربھی کئی احادیث ہیں جومشکوۃ وغیرہ میں موجودہیں ۔اور یہ صرف جاہلیت کے دموں کے متعلق ہیں اورجودم قرآن وحدیث کے ہیں وہ ان کے علاو ہ ہیں ۔ ان سے معلوم ہواکہ نفس دم مرادنہیں۔ بلکہ اس کی بعض قسمیں (کلمات شرکیہ)مرادہیں ۔اور جب اس کی بعض قسمیں مراد ہوئیں تو باقی دو میں بھی بعض مراد ہوں گی۔ کیونکہ جیسے دم کی بعض قسمیں شرکیہ ہیں بعض غیرشرکیہ اسی طرح باقی دوکا حال ہے۔ پس تفریق کی کوئی وجہ نہیں ۔اسی لیے جوجواز کے قائل ہیں ،انہوں نے حدیث مذکورہ کوشرکیہ تعویذوں پرمحمول کیاہے جیسے نواب صاحب رحمہ اللہ کی عبارت مذکورہ میں اس کی تصریح ہے ۔

اورتمیمہ اورتولہ کی تفسیربھی اسی کی مؤیدہے چنانچہ نیل الاوطارجلد8کتاب الطب باب ماجاء فی الوقی والتمام ص 444میں ہے ۔

«التمائم جمع تمیمة وہی حرزات کانت العرب تعلقها علی اولادهم یمنعون بهاالعین فی زعمهم فابطله الاسلام»
’’یعنی تمیمہ منکے ہیں جونظرسےبچاؤکےلیے عرب اپنے اعتقادکی بناء پراپنی اولادکےگلے میں باندھتے تھے۔پس اسلام نے اس کوباطل کردیا۔‘‘

اورتولہ کی تفسیرمیں لکھاہے :۔

«قال الخیل التولة شبیہ بالسحر»
’’یعنی خلیل رحمہ اللہ کہتے ہیں تولہ جادوکے مشابہ ہے ۔‘‘

اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری جزء 23باب الرقی بالقرآن الخ ص 418میں لکھتے ہیں :

«والتولة شئی کانت امرأۃ تجلب بہ محبة زوجهاوهونوع من السحر»
’’یعنی تولہ ایک شئے ہے جس کے ذریعے اپنے خاوندکی محبت کھینچ لیتی ہے اور وہ ایک قسم جادوہے ۔‘‘

نیل الاوطارمیں خلیل رحمہ اللہ کےقول کے بعدیہ بھی لکھاہے :۔

«وقدجاء تفسیرہ عن ابن مسعودکمااخرجه الحاکم وابن حبان وصححاہ انه دخل علی امرأۃ وفی عنقها شئی معقودفجذبه فقطعه ثم قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول ان لرقی والتمائم والتولة شرک قالوایااباعبداللہ هذاالتماءم والرقی قدعرفناہافماالتولة قال شئی یصنعه النساء یتحببن الی ازواجهن یعنی من السحرقیل هوخیط یقرأفیه من السحراوقرطاس یکتب فیه شئی منه یتحبب بہ النساء الی قلوب الرجال اوالرجال الی قلوب النساء فاماماتحبب به المرأۃ الی زوجهامن کلام مباح کمایسمی الغنج وکماتلبسه للزینة اوتطعمه من عتمارمباح اکله اواجزاء حیوان ماکول ممایعتقدانه سبب الی محبة زوجهالمااودع اللہ تعالی ٰ فیه من الخصیصة بتقدیراللہ لاانه یفعل ذلک بذاته قال ابن رسلان فالظاهران هذاجائز لااعوف الئن مایمنعه فی الشرع انتهیٰ۔»
’’اورتولہ کی تفسیرخودعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے آئی ہے جس کوحاکم رحمہ اللہ اورابن حبان رحمہ اللہ نے روایت کیاہے اورصحیح بھی کہاہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے اپنی بیوی کے گلے میں کچھ بندھا ہوا دیکھ کراس کوتوڑ دیا اورکہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنافرماتے تھے رقیٰ اورتمائم اورتولہ شرک ہے۔ لوگوں نے کہا اے ابوعبدالرحمن !رقی ٰ اورتمائم کوتوہم جانتے ہیں تولہ کیاشئے ہے ؟کہا:ایک شئے ہے جوعورتیں خاوندوں کی محبت کے لیے بناتی ہیں یعنی جادوکی قسم ہے ۔کہاگیا وہ ایک تاگہ ہے جس پرجادوسے کچھ پڑھاجاتاہے یاکاغذہے جس میں جادوسے کچھ لکھاجاتاہے جس کے ذریعے عورتیں مردوں کومحبوب بناتی ہیں یا مردعورتوں کومحبوب ہوجاتے ہیں۔ بہرحال کلام مباح سے عمل حب نزاکت اور زینت کی طرح یا کوئی مباح جڑی بوٹی کھلاکر یا حلال جانورکے اجزاء کھلاکرجن کے متعلق اعتقاد ہوکہ ان میں تقدیرالہیٰ کے ساتھ نہ ذاتی طور پر محبت پیدا کرنے کی خاصیت ہے اس قسم کے عمل حب کی بابت ابن سلمان نے کہاہے: کہ ظاہریہی ہے کہ یہ جائزہے ۔شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں۔ ہاں پرہیز افضل ہے جس کی دو وجہیں ہیں ۔ایک یہ کہ اختلافی بات میں اختلاف سے نکل جانابہترہے روجانی علاج میں زیادہ تر ان باتوں پرعملدرآمدچاہیے جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورعام طورپرسلف رحمہ اللہ کاعمل ہو یا احادیث میں ان کی ترغیب ہو۔کیونکہ روحانیات کاتعلق اعتقادسے زیادہ ہے اوراعتقادعموماً عمل سے ظاہرہوتاہے ۔

نواب صاحب رحمہ اللہ نے بھی جائز قراردیتے ہوئے آخریہی فیصلہ کیاہے کہ پرہیز افضل ہے ۔چنانچہ عبارت مذکورہ بالا (جس میں سلف کااختلاف ذکرکیاہے )کے بعدلکھتے ہیں :

« قال بعض العلماء وهذا(ای عدم الجواز)هوالصحیح لوجوہ ثلثة تظهرللمتامل الاول عموم النهی ولامخصص الثانی سدالذریعة فانه یغض الی تعلیق من لیس کذلک الثالث انه اذاعلق فلابدان یمتهنه بجمله معه فی حال قضاء الحاجة والا ستنجاء ونحوذلک قال وتامل هذہ الاحادیث وماکان علیه السلف یتبین لک بذلک غربة الاسلام خصوصاً ان عرفت عظیم ماوقع فیه الکثیربعدالقرون المفضلة من تعظیم القبورواتحاذهاالمساجدوالاقبال الیهابالقلب والوجه وصرف الدعوات والرغبات والرهبات وانواع العبادات التی هی حق اللہ تعالی الیهامن دونه کماقال تعالی ولاتدع من دون اللہ مالاینفعک ولایضرک فان فعلت فانک اذامن الظالمین وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف له الاهووان یروک بخیرفلارادلفضله ونظائرہافی القرآن اکثرمن ان یحصرانتهیٰ۔قلت غربة الاسلام شئی وخکم المسئلة شئی احروالوجه الثالث المتقدم لمنع التعلیق ضعیف جدالانه لامانع من نزع التمائم عندقضا ء الحاجة ونحوہالساعة ثم یعلقهاوالراجح فی الباب ان ترک التعلیق افضل فی کل حال بالنسبة الی التعلیق الذی جوزہ بعض اهل العلم بناء علی ان یکون بماثبت لابمالم یثبت لان التقویٰ له مراتب وکذاالاخلاص وفوق کل رتبة فی الدین رتبة اخری والمحصلون لهااقل ولهذاوردفی الحدیث فی حق السبعین الفایدخلون الجنة بغیرحساب انهم هم الذین لایرقون ولایسترقون مع ان الرقی جائزة وردت بهاالاخباروالاثارواللہ اعلم بالصواب والمتفقی من یترک مالیس به ...خرفاً ممافیه باس» ۔(فضل ردشرک الرقی والتمائم صفحه 344۔345)
’’بعض علماء نے کہاہے کہ عد م جواز ہی صحیح ہے جس کی تین وجہیں ہیں ایک یہ کہ حدیث مذکورعام ہے اورمخصص کوئی نہیں ۔ دوم سدباب کیونکہ تعویذکی اجازت دی جائے۔ تو لوگ آہستہ آہستہ مشتبہ یاشرکیہ الفاظ والے تعویذ بھی استعما ل کرنے لگ جائیں گے ۔سوم پاخانہ پیشاب کے وقت تعویذ ساتھ لے جانے سے کلام الہیٰ اوراسماء الہیٰ کی توہین ہوگی۔ اور ان بعض علماء نے کہاہے کہ ان احادیث میں اور روش سلف میں غورکرتاکہ تیرے لیے غربت اسلام واضح ہوجائے خاص کرجبکہ تودیکھے کہ خیرقرون کے بعدلوگ کس قدرخرابیوں میں واقع ہوگئے۔ قبروں کی تعظیم ،ان کو مسجدیں بنانا دل وجان سے ان کی طرف آمدورفت۔ قبروالوں کوپکارنا،ان سے امیدوخوف رکھنا،کئی طرح کی عبادت کرنا جو خاص خداکاحق ہے۔ قرآن مجیدمیں ہے :

’’ایسی شئے کونہ پکارو جو نہ کچھ نفع دے سکے نہ نقصان۔ اگرتو ایساکرے گا توظالم ہوجائے گا۔اورخدا اگرتجھے ضررپہنچائے توکوئی اسے کھولنے والا نہیں اور اگرتیرے ساتھ خیرکا ارادہ کرتے توکوئی اسے کے فضل کو ردکرنے والا نہیں ۔‘‘

اس قسم کی آیتیں بہت ہیں ۔میں (نواب صدیق حسن )کہتا ہوں کہ غربت اسلام علیحدہ شئے ہے اورمسئلہ علیحدہ شئے ہے۔اورتیسری وجہ بالکل کمزور ہے کیونکہ تھوڑی دیرکے لیے پاخانہ پیشاب کے وقت تعویذکھولاجاسکتاہے اورافضل ترک تعویذہے۔ وہ تعویذجس کوبعض علماء نے بوجہ ثبوت کے جائز قراردیاہے نہ کہ وہ تعویذجس کاکوئی ثبوت نہیں۔ اورجوثابت ہے اس کا ترک اس لیے افضل ہے کہ تقوی اوراخلاص کے کئی مراتب ہیں اور دین میں ہرمرتبہ کے اوپردوسرامرتبہ ہے اور اس کے حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ۔ اسی واسطے ستر ہزار آدمی جوبغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ان کےمتعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وہی ہیں جونہ دم کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں حالانکہ دم جائز ہے۔ چنانچہ اخبارآثارمیں آیاہے اورمتقی وہ ہے جواس شئے کی وجہ سے جس میں ڈرہے اس شئے کوبھی چھوڑدے جس میں ڈرنہیں ۔‘‘

نواب صاحب مرحوم نے اس عبارت میں بعض علماء کی پہلی وجہ کی طرف اس لیے توجہ نہیں کی کہ وہ ظاہرالبطلان ہے۔کیونکہ دم ،تمیمہ ، تولہ کی ذات شرک نہیں بلکہ بعض قسمیں شرک ہیں۔ چنانچہ اوپر بیان ہوچکاہے توحدیث عموم پرکیسے محمول ہوسکتی ہے ۔دوسری وجہ کونواب صاحب رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر ردکردیاہے کہ غربت اسلام علیحدہ شئے ہے اورمسئلہ علیحدہ شئے ہے گویاسدباب سے بعض علماء کا مطلب یہ تھاکہ جیسے قبروں کا معاملہ برائی کی طرف ترقی کرکے غربت اسلام کا باعث ہوگیا اسی طرح قرآن وحدیث کے الفاظ کے ساتھ تعویذکرتے کرتے کہیں غیرمشروع الفاظ کےساتھ بھی تعویذوں کاراستہ نہ کھل جائے جوغربت اسلام کا ذریعہ بن جائے ۔ نواب صاحب رحمہ اللہ نے اس کاجواب دیاکہ اس طرح کی غربت اسلام اصل مسئلہ میں مخل نہیں ۔مثلاً قبروں میں خرافات ہونے سے مسنون طریق پران کی زیارت منع نہیں ہوسکتی ۔ ٹھیک اسی طرح تعویذکا معاملہ ہے ۔تیسری وجہ پرنواب صاحب نے بہت کمزور ہونے کاحکم لگایاہے ۔ اورواقعی وہ بہت کمزورہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی پہنتے تھے ۔پیشاب کے لیے جانے کے وقت اتاردیتے تھے پھرمڑھانے کی صورت میں شایدیہ بے ادبی بھی نہ رہے ۔بہرصورت جواز میں کوئی شبہ نہیں۔مگر ان الفاظ کے ساتھ جوقرآن وحدیث سے ثابت ہوں یا ان کے ہم معنی ہوں ۔مشتبہ نہ ہوں لیکن باوجودجواز کے نواب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترک فضل ہے ۔کیونکہ حرام سے بچ کرجائز پراکتفاکرنا اگرچہ تقوی ہے مگرتقوی اوراخلاص اسی پرختم نہیں بلکہ اس کے بہت سے مراتب ہیں اور ہرمرتبہ کے اوپر ایک اورمرتبہ ہے جس کوکم لوگ پہنچتے ہیں ۔اسی لیے 70ہزارآدمی جوبغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ وہ ہیں جونہ دم کرتے ہیں نہ کراتے ہیں حالانکہ دم کے جواز میں احادیث اورآثارسلف بہت آئے ہیں ۔تواگرتقوی کی حدصرف جواز تک ہوتی توپھرترک دم کے ساتھ ان سترہزارکی تعریف کیوں ہوتی ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ اصل تقوی جائز پراکتفاکرنے میں نہیں بلکہ جائز کوبھی چھوڑکراحتیاط والی صورت اختیارکرنے میں ہے ۔پس افضل ترک ہے۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص188

بات آپ کے سمجھانے کی نہیں ہے برادر، اصل میں آپ میری بات نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ شرعی طور پر تعویذ جائز ہوسکتا ہے لیکن جیسے میں نے اتنے دلائل یہاں شریک کئے تو افضل یہی ہے کہ اسے ترک کیا جائے۔ ترک کرنے کی وجوہات بے شمار ہیں جن میں بے ادبی ہونے کے امکانات بھی شامل ہیں۔
اب اس فتویٰ کے بارے میں عرض کردوں۔ اس فتویٰ میں شرعی دلائل تعویذ ترک کرنے کی وجہیں وہی ہیں جو میں بھی شریک کرچکا ہوں۔ ہاں البتہ اس میں تیسری وجہ یعنی بیت الخلاء میں تعویذ لے جانے کی وجہ کمزور درج ہے کیونکہ بیت الخلاء جاتے ہوئے کھولا جاسکتا ہے۔ یہ نواب صدیق حسن صاحب کا موقف ہے۔
اس پر آگے صاحبِ فتویٰ تبصرہ فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی پہنتے تھے ۔ پیشاب کے لیے جانے کے وقت اتاردیتے تھے پھر مڑھانے کی صورت میں شاید یہ بے ادبی بھی نہ رہے ۔" لفظ "شائد" پر غور کریں۔ یہاں یقینی طور پر نہیں کہا گیا ہے کہ بے ادبی ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ اس کے لئے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ذکر کیا ہے۔
یاد رہے کہ فتویٰ میں سوال گلے میں لٹکانا اور بازو پر باندھنے سے متعلق ہے۔ ٹانگ پر باندھنے پر تو بات ہی نہیں ہوئی ہے!
صاحب آپ اسے میری بدگمانی کہیں یا کچھ بھی لیکن میرا دل اور دماغ کسی صورت ٹانگ یا کسی اور ایسے عضو پر باندھنے پر تیار نہیں ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے بے ادبی ہونے کے امکانات ہوں۔ اور جیسے دوسرے علماء کا تعویذ باندھنے پر اعتراض ہے تو میرا بھی اعتراض برقرار ہے اور اعتراضات وہی ہیں جو علماء اٹھاتے ہیں اور ان میں ایک اعتراض بے ادبی کا بھی ہے چاہے اسے کسی ایک فتویٰ میں کمزور کہہ دیا گیا ہو۔ اب تک میں آپ کے پیش کردہ دلائل سے مطمئن نہیں ہوسکا ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
بالکل جناب دور تو ہم نکل ہی گئے ہیں۔ ویسے یہ اس فورم پر اتنی انہونی بات تو نہیں ہے۔ دور تو نکلتے ہی رہتے ہیں چاہے وہ خلیل الرحمن قمر والا دھاگہ ہو یا بائیولوجیکل وار والا دھاگہ!
سر بات یہ ہے کہ فقہی مسائل میں بے طرح انداز میں الجھنا مناسب نہ ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑی کے موضوع سے ہم کافی دور نکل جاتے ہیں۔ اصول دین کا معاملہ شاید ایسا مشکل اور پیچیدہ نہ ہے۔ فقہی مسائل کا تو یہ ہے کہ عوام مختلف مسائل کی بابت پوچھتے چلے گئے اور ان کے جوابات بھی آتے چلے گئے۔ اس پر بحثیں ہوتی رہیں تاہم ان میں سےزیادہ تر روزمرہ زندگی کے مسائل بھی نہ تھے۔ یہاں تک معاملہ ایسا بڑھا کہ فرضی مسائل بھی پیش کیے جاتے رہے اور ان کے جوابات بھی آتے چلے گئے۔ ان پر ایک حد سے زیادہ فوکس کرنا ہماری دانست میں ایک غلطی رہی ہے گو کہ یہ کہتے ہوئے بھی ہم فقہی مسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کم و بیش ہر معاملے پر سوال اٹھاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو انٹرنیٹ پر سوالات جوابات کے فورمز اور متعلقہ ویب سائٹس دیکھ لیجیے۔ آپ کو غیر مسلم بھی ایسے ملیں گے جو ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی بابت استفسار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک طرف چلتا رہے تو کوئی ایشو نہیں تاہم اس کو مرکزی اہمیت دینا دراصل ہماری غلطی ہو گی چاہے یہ غلطی ہم اور آپ کریں یا مذہبی اسکالر کریں۔
اقبال کا ایک شعر ہے،
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
یہ ابحاث اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے بنیادی مسائل ہیں؟ یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب کی بات ہوئی۔ کیا وہ تمام عمر انہی ابحاث میں الجھے رہے۔ ایسا نہیں ہے اور جو سنجیدہ علمائے کرام ہیں، وہ صرف ایسی بحثوں میں ہی الجھے ہوئے نہیں رہتے ہیں۔ دراصل، ہم ان معاملات پر بوجوہ زیادہ فوکس کر لیتے ہیں۔ آپ ہی فرمائیے، ان اختلافی مسائل میں الجھ کر ہمیں کیا حاصل ہو گا۔ کسی نے توہین کی یا نہ کی، اس حوالے سے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں اور اس کا کوئی ایک نتیجہ نکالنے پر بضد رہنا مناسب نہیں۔ یعنی ہم اسے لا یعنی معاملہ کہیں گے تو یہ کہا جائے کہ آپ کو اس بڑے ایشو کا خیال نہیں اور اگر اس ایشو پر ہم رائے دیں گے تو شاید کوئی الگ فتویٰ جڑ دیا جائے گا جب کہ معاملہ زیر بحث کا لڑی سے بھی تعلق نہ ہے۔ آپ ایک صاحب علم ہستی معلوم ہوتے ہیں تاہم آپ ایک دو معاملات کو لے کر بڑے بڑے نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ رویہ غیر متوازن معلوم ہوا۔ امید ہے برا محسوس نہ کریں گے۔ آپ میں کچھ قابلیت دیکھی تو گزارشات پیش کر دی ہیں۔ :)
 

عدنان عمر

محفلین
کیا کرتے ہو صاحب! آپ کے دئیے گئے ربط والے صفحہ پر لکھا ہے۔

"حاملہ کو جب درد زہ شروع ہونے لگے تو حاملہ کی بائیں ران پر گھٹنہ کے نزدیک باندھ دیں کپڑے میں باندھا ہوا تعویذ ٹانگ کے اندر کی طرف اور گانٹھ باہر کی طرف ہو۔"

بلاتبصرہ!!!!!

اور علماء سے اتنی بار تو پوچھ چکے ہیں اور آپ خود نہ جانے کتنے اس طریقہ کار کے دفاع میں فتاوٰی یہاں شریک کر چکے ہیں۔ ایک ہی جیسی باتیں ہیں! ہر فتویٰ میں تعویذ کے شرعی طور پر جائز ہونے کی دلالت کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر ٹانگ پر باندھنا بھی جائز قرار دے دیا جاتا ہے! اب بتائیے اور کیا پوچھنا باقی رہ گیا ہے؟
اگر آپ قائل ہو گئے ہیں تو کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
اگر قائل نہیں ہوئے تو آپ کے جو بھی اعتراضات ہیں، وہ علمائے کرام سے براہِ راست رابطہ کر کے پیش کریں اور چاہیں تو ان کا جواب یہاں بھی شئیر کر دیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
میرا کہنا یہ ہے کہ شرعی طور پر تعویذ جائز ہوسکتا ہے لیکن جیسے میں نے اتنے دلائل یہاں شریک کئے تو افضل یہی ہے کہ اسے ترک کیا جائے۔
علمائے دیوبند کا بھی کم و بیش یہی موقف ہے اور پرانا موقف ہے، لیکن اعتدال کے درجے میں۔
یعنی جائز کو ناجائز قرار نہ دینا، لیکن چونکہ ترک افضل ہے اس لیے عوام کو بتدریج تعویذ کے بجائے مسنون اذکار کی جانب راغب کرنا۔
دوسری بات یہ کہ تعویذ ہوں یا دیگر غیر مسنون لیکن جائز اذکار یا دم اور جھاڑ پھونک، یہ خالصتاً بطور علاج استعمال کیے جاتے ہیں، یہ دین کا حصہ نہیں، شاید اس بات کو میں نے پہلے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
 
آخری تدوین:
ٓمیری ایک دوست کو دست آرہے ہیں ، اس کا تعویذ کہاں باندھا جائے گا اور پر کیا لکھا جائے گا؟ ماہرین توجہ فرمائیں تو عنایت ہوگی
 
Top