قادری صاحب سمیت کسی شخص کے پاس اس سوال کا تشفی بخش جواب موجود نظر نہیں آ رہا کہ 70 دنوں کی مسلسل گھن گرج کے بعد انھوں نے اچانک اسلام آباد میں انقلاب بستی کے نام پر لگائے کیمپ کیوں اٹھا لیے۔ معقول جوابات موجود نہ ہوں تو افواہ سازوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔
مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہمیں ویسے بھی بہت بھاتا ہے۔ اسی لیے کہانیوں کا ایک طومار ہے جس میں ’’عباسی گرڈ‘‘ کا تذکرہ بھی ہے اور اسحاق ڈار صاحب کی لاہور کے داتا دربار سے وابستہ عقیدت کے ذریعے بنائے رشتے بھی۔ قادری صاحب کی اٹھان میں نواز شریف کے مرحوم والد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی وجہ سے تذکرہ وزیر اعظم کے کچھ ’’ٹیلنٹڈ کزنز‘‘ کا بھی ہو رہا ہے۔ دیت کے حوالے سے ممکنہ رقم کا تخمینہ بھی کئی زرخیز ذہن اپنے طور پر لگانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
ذاتی طور پر میں قادری صاحب کا کبھی مداح نہیں رہا۔ مجھے ان جیسے لوگوں سے خیر کی امید ہی نہیں ہوتی۔ اس سب کے باوجود ایک پرانی وضع کا صحافی ہوتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے معروف لوگوں کی پگڑی اچھالنے کی ہمت سے قطعی محروم ہوں۔ مجھے تو وزیر اعظم کے ایک معتمد ترین مشیر نے بہت شدت کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ قادری صاحب کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ ابھی تک ان کی بتائی کوئی بات چونکہ غلط ثابت نہیں ہوئی اس لیے قادری صاحب کے حوالے سے کیا گیا ان کا دعویٰ بھی فی الحال قبول کرنے پر خود کو مجبور پا رہا ہوں۔
قادری اور ان کے اعتماد والے لوگوں تک میری کوئی رسائی نہیں۔ زندگی میں صرف ایک بار اپنے ایک مرحوم ساتھی کے ساتھ انھیں ملا تھا۔ اس ساتھی نے ان کا ٹیلی وژن کے لیے ایک انٹرویو کرنا تھا۔ ایک دو سوالات کرنے مجھے بھی ہمراہ لے گئے۔ اسلام آباد کے F-8 سیکٹر کا ایک گھر تھا۔ وہاں خشخشی داڑھیوں والے کچھ نوجوان ٹی شرٹس اور جینز پہنے کافی متحرک نظر آئے۔ مختلف کمروں میں کمپیوٹروں پر کام ہو رہا تھا۔
جنرل مشرف 2002ء کے انتخابات کا اعلان کرنے والے تھے اور قادری صاحب جس گھر میں مقیم تھے وہ Prime Minister in Waiting کے دفتر والا تاثر دے رہا تھا۔ قادری صاحب نے البتہ مجھے بالکل متاثر نہ کیا۔ کافی روکھے اور اپنی ذات و ذہانت پر ضرورت سے زیادہ ناز کرنے والے نظر آئے۔ پورے ماحول میں نجانے کیوں ’’دونمبری‘‘ کی فضاء بہت نمایاں تھی۔ ایسی فضاء کبھی ان دفاتر میں موجود ہوا کرتی تھی جو پاکستانیوں کو ویزے لگوا کر غیر ممالک نوکریوں کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ قادری صاحب کو ایک بار دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھنے کی ہوس کبھی نہ ہوئی۔
کسی بھی کل وقتی صحافی کے لیے مگر وہ بڑے کام کی چیز ہیں۔ 24/7 کو Ratings چاہیے۔ قادری صاحب کی ذات اور اندازِ سیاست میں وہ سب کچھ ہے جو Good Television بناتا ہے۔ اسی لیے جب بھی وہ کینیڈا سے دھرنا دینے پاکستان آتے ہیں تو اسکرینوں پر چھا جاتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے کئی روز تک انھوں نے اسلام آباد میں ایک بہت ہی کامیاب شو لگایا۔
سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا عزم لیے یہاں وارد ہوئے اور پھر کچھ بھی حاصل کیے بغیر کینیڈا واپس لوٹ گئے۔ اب کی بار ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے آئے تھے۔ مجھے پہلے دن سے یقین تھا کہ ہماری دھرتی ’’انقلاب‘‘ کے حوالے سے کافی بانجھ ثابت ہوئی ہے۔ گھر بیٹھا اسکرین کے ذریعے ان کے مارچ سے محظوظ ہوتا رہا۔ میرے کئی بہت ہی پڑھے لکھے ساتھیوں نے اگرچہ اپنی تحریروں سے مجھے سمجھانا چاہا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اب ایک شخصیت نہیں Phenomenon بن چکے ہیں۔
ہماری قسمت کے لندن اور واشنگٹن میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے ’’افغان جہاد‘‘ کے ذریعے ’’سخت گیر اسلام‘‘ کے جن کو بوتل سے باہر نکال کر اب پچھتا رہے ہیں۔ انھیں اب اسلام کے ایک Soft Version کو فروغ دینا ہے۔ قادری صاحب صوفی ازم پر مبنی بریلوی مکتبِ فکر کے تخلیقی احیاء کے ذریعے پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم کو روک کر جدید نوعیت کی کوئی Interfaith Harmony پیدا کر سکتے ہیں۔
کسی زمانے میں فیض کے اشعار سنا کر مارکسی انقلاب لانے کے خواہاں لبرل حضرات کو قادری صاحب اس لیے بھی بہت بھائے کہ بظاہر وہ بے زمین کسانوں میں سے اٹھے اور اب پنجاب کے چھوٹے قصبات میں بسے نوجوانوں کی محرومیوں کو زبان دے کر اشرافیہ کو للکارنے کی طاقت بخش دی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ حقیقت بھی کہ دین کے نام پر سیاست کرنے والے قادری صاحب کے انقلابی دستوں میں خواتین ایک کثیر تعداد میں موجود تھیں۔ عورتوں کی آزادی اور انھیں مردوں کے برابر حقوق دلوانے کی خواہش رکھنے والے ’’لبرلز‘‘ یہی کچھ دیکھنے کے خواہاں ہوا کرتے تھے۔
قادری صاحب میں اسلام کا Soft Version دیکھنے والوں کو ہرگز یاد نہیں رہا کہ اسلام آباد پہنچ کر اس کے ریڈ زون کی طرف جاتا راستہ صاف کرنے کے لیے قادری صاحب کے ہر اوّل دستے نے کونسے ’’آلات‘‘ استعمال کیے تھے۔ غلیل کا انقلابی استعمال اسی دستے نے کیا اور پھر شاہراہِ دستور پر چیک پوسٹیں قائم کر کے ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ کی صورتوں کا قیام۔ قادری صاحب کے جناتی انگریزی میں لکھنے والے مداحین مگر میرا موضوع نہیں۔
میں ذاتی طور پر قطعی حیران و پریشان اس کمانڈ اینڈ کنٹرول پر ہوں جو قادری صاحب کو اپنے پیروکاروں کے سلسلے میں خطرناک حد تک میسر ہے۔ وہ حکم دیں تو ان کی سپاہ ریاست کے اداروں پر چڑھ دوڑنے کو تاتاریوں کے لشکر کی طرح تیار نظر آتی ہیں۔ 70 دنوں تک اسلام آباد کے سب سے زیادہ محفوظ سمجھے جانے والے ’’ریڈ زون‘‘ اس لشکر کے مستقل قبضے میں رہے۔
باوردی پولیس والے باقاعدہ تلاشیاں دے کر اور اپنے سرکاری طور پر مہیا کردہ ہتھیار ان کے پاس امانتاََ رکھوا کر سپریم کورٹ وغیرہ جانے کی اجازت حاصل کرتے رہے۔ مگر ’’امتِ مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت کے حامل ملک‘‘ کی پولیس اور انتظامیہ کو قطعی طور پر بے بس کر دینے والے اس لشکر میں سے کسی ایک جانباز نے اس وقت اُف بھی نہ کی جب ان کے قائد نے بغیر کوئی وجہ بتائے انھیں اسلام آباد میں لگائے کیمپ اکھاڑ کر اپنے گھروں کو چلے جانے کا حکم دیا۔ اپنے پیروکاروں پر ایسا کمانڈ اور کنٹرول میں نے ہٹلر وغیرہ کے حوالے سے صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔ اپنی آنکھوں سے ایسے کمانڈ اینڈ کنٹرول کا عملی مظاہرہ میں نے 2006ء کے لبنان میں حزب اللہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں دیکھا تھا۔
پاکستان میں اگرچہ شاہراہِ دستور کے ایک مخصوص حصہ میں سہی ایسا کمانڈ اینڈ کنٹرول میں نے پہلی بار بھگتا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد میں ہرگز یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ قادری صاحب کا یہ ’’آخری پھیرا‘‘ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ 14 اگست 2014ء کے بعد اپنی طاقت کے تمام تر امکانات کو بھرپور طریقے سے آزمانے کے بعد وہ چند مہینوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر اپنا جلوہ دکھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کاش ان کے آیندہ حملے سے پہلے ’’گو نواز گو‘‘ ہو جائے اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں۔ عمران خان کی لائی ’’تبدیلی‘‘ کے بعد طاہر القادری اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تو بہت مزہ آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت جاوید