arifkarim
معطل
آجکل کے نوجوانوں کی سوچ بھی تو یہیں تک ھے ورنہ شیخرشید جیسے لوگ ہی کیوں منظر عام پہ آئیں ،
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں
جی نہیں۔ ہمارے نوجوان ملک کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اگر انکو موقع ملے تو۔
آجکل کے نوجوانوں کی سوچ بھی تو یہیں تک ھے ورنہ شیخرشید جیسے لوگ ہی کیوں منظر عام پہ آئیں ،
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں
آجکل کے نوجوانوں کی سوچ بھی تو یہیں تک ھے ورنہ شیخرشید جیسے لوگ ہی کیوں منظر عام پہ آئیں ،
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں
میں پڑھنے کے بعد آؤنگی یہاں دوبارہ
شکریہ زونی ۔ آپ نے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑا ۔ مگر لفظوں کی پٹاری کھل جائے تو کہاں کبھی کوئی مطمئن ہوا ہے ۔ متحدہ ہندوستان کے اس وقت نعرے لگانے والے اور اب بھی خواب دیکھنے والے کم نہیں ۔ مگر عارف کریم نے جو علم کا دریا بہایا ہے اسی میں سے "چند موتی" نکال کر رکھ دوں کہ غدار نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہیں ۔ کسی کے ڈانڈے سعودی عرب سے جا ملتے ہیں ، کوئی پس پردہ گریٹر ایران ہی کو اپنا اصل وطن سمجھتا ہے اور کسی کو متحدہ ہندوستان کی "پیڑ" اٹھتی ہے ۔ مگر یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اگرچہ وطن پرستی ملت اسلامیہ کے متضاد چیز معلوم ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کوئی چیز نہیں رہی البتہ وطن سے آپ ایک ملت ضرور تشکیل دے سکتے اور وہ تمام تر نظریات و عقائد پر ہمیشہ بھاری ثابت ہوئی ہے ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔وسلام
آپ اسی کو سمجھنے کی کوشش کریں ، سچ اس سے اسان اور واضح تو میں بھی نہیں لکھ سکتا۔ آپ یوں سمجھیں "زمینی حقائق" بیان کرنے کی کوشش کی ہے
وسلام
یاا للہ یہ پھر بحث شروع ہو گئی
آپ سمجھنے میں تھوڑی غلطی کر گئے ۔ ملت اسلامیہ کا وجود اب باقی نہیں رہا۔ اور موجودہ حالات کے تناظر میں ہم جس طرح پہلی صدی کی ملت اسلامیہ چاہتے ہیں وہ بنتی نظر نہیں آتی ۔ آپ کا یہ سوالیہ تجزیہ درست ہے کہ "جس کے افراد ذاتی مفادات کے غلام بن کر دوسری قوموں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں ۔ " وطن پرستی کسی بھی طور پر ملت اسلامیہ کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ۔ مگر اصل مسئلہ میرے نزدیک یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے دوبارہ وجود کے لئے جو حالات درکار ہیں وہ ہمیں میسر نہیں ۔ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو مسلمانوں کی عظمت ایک بنیادی چیز کے سبب رہی۔ اور وہ انصاف ہے۔ انصاف وہ بنیاد ہے جو کسی بھی ملت کو لازوال عروج بخشتی ہے ۔ اور انصاف کے لئے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو۔ اور قانون کی حکمرانی بغیر کسی تعلیم و ترقی یافتہ وطن کے ممکن نہیں۔ اور ایسا وطن تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب آپ اپنے وطن کی محبت میں بری طرح مبتلا ہوں ۔ اسے اوپر دیکھنا چاہیں روشن دیکھنا چاہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں جو اخلاقی قدریں دینی طور پر حاصل ہیں وہ کسی اور ملت کے پاس نہیں ۔ اگر ہمارا ملک اس مقام پر ہو کہ جہاں ہم دیگر اقوام مسلمین کی سربراہی و رہنمائی کر سکیں تو بلاشبہ ملت اسلامیہ کو دوبارہ موجود کیا جا سکتا ہے ۔ چونکہ نظریاتی و مادی مسائل میں ہم بری طرح جکڑے گئے ہیں اسلئے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اس حالت میں کسی بھی قسم کی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
آپ کے تحریر کردی زمینی حقائق تو یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ
" ملت اسلامیہ " صرف نام کی اک ملت ہے ،
جس کے افراد ذاتی مفادات کے غلام بن کر دوسری قوموں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں ۔
کیا " وطن پرستی " " ملت اسلامیہ کے مخالف ہے ۔؟
اگر وطن پرستی ملت اسلامیہ کے مخالف ہے تو کیسے اک ملت کی تشکیل ہو سکتی ہے ۔؟
نایاب
ہائے اللہ آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ۔ سلیقے سے بات ہو تو اچھا ہے نا ۔ ورنہ ہمارا یہ ذہنی جمود ہمیں کہاں لے آیا ہے آپ بھی جانتی ہیں ۔یاا للہ یہ پھر بحث شروع ہو گئی
آپ پرسدا سلامتی ہو زونی بہنا
جن شخصیات نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔
انہیں بیک جنبش قلم " دوغلا ' کہہ دینا مناسب نہیں ۔
کہ وہ شخصیات بھی اپنی مخالفت کی اک دلیل رکھتی ہیں ۔
اور 1947 سے لیکر 2009 تک ہند کے کچھ " صدور" کو اقلیت سے ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
اس لیے ' اقلیت ' سے نکل کر ' اکثریت ' میں آنا ہی صرف آزادی کا مقصد نہیں تھا ۔
نایاب
برطانوی راج سے صرف ثانوی آزادی حاصل کی تھی ۔ کیونکہ بعد کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہمنے اپنا سرکاری، سیاسی، معاشی، عدلی اور تعلیمی نظام وہی برطانوی راج کے وقت جیسا ہی رکھا۔ اور ابھی تک ہے۔ اگر آزادی کیلئے واقعی جدو جہد کی تھی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک منفرد اور بہتر نظام زندگی متعارف کر وانا چاہئے تھا۔ مگر یہ کیا کہ نعرہ آزادی کا لیکن نظام وہی پرانے آقاؤں کا!
پھر چلیں برطانوی راج کو چھوڑ دیں۔ لیاقت علی خان ہی کے دور سے پاکستان نے ریاست ہائے ہائے امریکہ سے قریبی مراسم جوڑنا شروع کر دئے۔ اور پھر امپورٹڈ جنگی دفاعی نظام جسکی اولً تو کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومتی بجٹ کا حصہ بنا رہا۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک ابھی آزاد ہوا ہے تواسکو خود مختار رکھنے کیلئے اور عوام کی فلاح کیلئے لانگ ٹرمز ترقیاتی کام شروع کئے جاتے۔ ملک کو از سر نو جدید دور کے تقاضوں کے تحت ڈیزائن کیا جاتا۔ یہ وہ کام تھا جو ابتدائی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ اسکے بر عکس ہم تو بس کبھی فوجی آمروں اور کبھی غیر قوموں کے آلہ کار بنے رہے۔ پھر انتہائی غربت و مصیبت کی حالت میں امپورٹڈ جنگی سامان کیساتھ نکل پڑے بھارت سے دو جنگیں کرنے۔ جسکا خمزیادہ ابھی تک معاشی بھونچال اور کبھی نہ ختم ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی صورت میںبھگت رہے ہیں۔ جنگیں کرنے سے پہلے ملک کی معاشی و اقتصادی حالت تو دیکھ لیتے۔ یہ تو سمجھ لیتے کہ ان جنگوں کا حقیقی فائدہ بھارت یا پاکستان کو نہیں بلکہ محض ان غیر قوتوں کی صنعتوں کو ہونا ہے جنکی روزی روٹی اسکی سیل پر منحصر ہے۔ہائے پاکستان کا اللہ حافظ!
مگر انڈیا نے کب حملہ کیا پاکستان پر؟
زونی بالکل ٹھیک کہ رہے ہیں عارف۔ ہمیں بھارت کو سمجھانا چاہیے تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی پاکستان پر حملہ نہ کرے کیونکہ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں اور ہمارے پاس اپنے ہتھیار نہیں ہیں۔
یہ زونی اور سخنور مجھے ایک ہی آئیڈی لگ رہی ہے!
یہ زونی اور سخنور مجھے ایک ہی آئیڈی لگ رہی ہے!
خیر۔ اگر پاکستان اور بھارت مغربی اسلحہ خریدنے کی بجائے اپنا سرمایہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میںلگاتے تو نہ بھارت کو پاکستان سے کوئی خطرہ ہوتا اور نہ پاکستان کو بھارت سے! ایک ملک کو دوسرے سے صرف اسلئے خوف محسوس ہوتا ہے جب ایک پاس تو حملے کی طاقت ہو جبکہ دوسرا خدا کے رحم و کرم پر ہو!
جاپان کو دیکھ لیں۔ انکے پاس بہت کم فوج ہے اور وہ بھی دوسرے ممالک میں "امن کے قیام" کیلئے موجود ہے، جبکہ علم و ہنر کے میدان میں وہ لوگ مغرب سے آگے ہیں۔