سخنور اور وارث برادران، آپ دونوں کا بہت شکریہ۔ آپ نے واقعی بہت اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں۔
علامہ اقبال کے فارسی کلام سے بدقسمتی سے ابھی تک اردو دان طبقہ ناہونے کے برابر مستفید ہوا ہے۔
اسکی کیا وجوہات ہیں؟ آپ لوگ ذرا تفصیل سے میرے اس سوال کا جواب دیجئیے۔
اور شروع سے میرا ایک اور سوال تھا۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ ہم جیسے لوگ جو کہ پاکستان سے دور دراز بیٹھے ہوئے ہیں اور جنہیں شاعری سمجھنے کے لیے کوئی اساتذہ میسر نہیں اور جن کا پورا انحصار صرف اچھی اور آسان کتب کی دستیابی پر ہے ۔۔۔ تو ہم جیسوں کو اقبال فہمی یا پھر عمومی شاعری فہمی کے لیے اردو دان طبقے نے کس حد تک اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں؟
میں بہت شروع سے زور لگا رہی تھی کہ علامہ اقبال کی اردو کتب نیٹ پر آ گئی ہیں، لیکن ان کی "شروح" جو لکھی گئی ہیں ان میں سے ایک کتاب بھی نیٹ پر نہیں آئی ہے۔ میری اردو دان طبقے سے بھرپور گذارش رہی ہے کہ ان "شروح" کو بھی لازمی طور پر ڈیجیٹائز کیا جائے۔
میں صرف اپنے تجربے کے متعلق کہہ سکتی ہوں کہ وطن سے دور ہوتے ہوئے کتابوں کے سہارے میں نے اردو ادب کو تو کسی حد تک سمجھ لیا، مگر اردو شاعری میں بغیر استاد کے دلچسپی پیدا ہونا مشکل کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں شاعری سے ہمیشہ دور رہی (کیونکہ شاعری کی کتب پڑھتے ہوئے بوریت ہونے لگتی ہے اور وجہ اسکی یہ ہے کہ بہت سے چیزیں سمجھ نہیں آ رہی ہوتی ہیں)۔
اللہ تعالی ہماری توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ امین۔
والسلام۔
علامہ اقبال کے فارسی کلام سے مستفید ہونا تو پھر دور کی بات ہے - اقبال کے اردو کلام سے بھی اردو دان طبقہ ابھی تک صحیح طور سے مستفید نہیں ہوسکا - جہاں تک فارسی کلام کا تعلق ہے - تو اسکی بظاہر وجہ تو بہت سادہ ہے کہ ہمیںفارسی نہیںآتی اور فارسی اب کسی بھی ادارے میں شائد نہیںپڑھائی جاتی اور اگر پڑھائی بھی جاتی ہے تو صرف طلبا کا اس سے مقصد بہتر نمبر حاصل کرنا ہوتا ہے - اب میری ہی مثال لیجئے کہ مجھے بہت سا اقبال کا اردو کلام ازبر ہے - اور تقریبا" تمام اردو کلام کی تفہیم رکھتا ہوں - لیکن فارسی کلام سے ابھی تک مستفید نہیں ہو سکا - جسکی وجہ صرف یہی ہے کہ میں فارسی سے نابلد ہوں - ہمارے اردو دان طبقے کو تو عام شعر سمجھ میںنہیں آتے تو اقبال، غالب، یا راشد تو بہت دور کی بات ہے -
جہاں تک شعر فہمی کا تعلق ہے - اسکا ربط استاد سے نہیں قلب سے ہے - جسکے قلب پر شاعری اترنی شروع ہو جائے اسے نہ کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی تشریح کی - اور جب شاعری کی مکمل تفہیم ہونے لگے تو نثر بچوں کا کھیل دکھائی دیتی ہے - کیونکہ شاعری جزو کو کل میں بند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ نثر کو لمبی لمبی بحثوں کی ضرورت ہوتی ہے -
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہِ بینا نہ ہوا
کہا جاتا ہے جہاں چاہ وہاں راہ - اگر شاعری سے ذرا سی بھی دلچسپی پیدا ہو جائے تو کچھ مشکل نہیں رہتی -
شاعری الہام کی صورت دل میں اترتی ہے -
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
شاعری میں دلچسپی اور اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے - وہ خود بخود اپنے آپ کو آشکار کرنے لگے گی -