آمنہ تارڑ

لاہور ہائی کورٹ نے گیارہ سالہ امنہ تاڑڑ کو پاکستانی باپ کی تحویل سے لیکر فرانیسی غیر مسلم ماں برجر کے حوالے کردیا

http://tribune.com.pk/story/337833/lhc-gives-custody-of-11-year-old-to-french-mother/
عدالت میں امنہ نے ماں کے ساتھ جانے سے انکار بھی کیا اور مزاحمت بھی کی مگر پولیس اور فرانسیسی سفارتی اہلکار زبردستی پکڑ کر گاڑی میں ڈال کر لےگئے۔ باپ رزاق تاڑڑ اسپتال میں داخل ہے اور دادا نے اس موقع پر کہاکہ وہ بچی کو صرف "اسلام" کی خاطر پاکستان لے کر ائے تھے۔ فرانسیسی ماں بچی کو لیکر اسلام اباد فرار ہوگئی جہاں سے وہ فرانس جلد روانہ ہوجائے گی تاکہ کوئی اور رکاوٹ نہ اسکے۔
بچی مزاحمت اور یہ کہنا کہ میں کافر ماں کے ساتھ نہیں جاوں گی۔ جذباتی منظر تھا۔

مگر یہ کونسا اسلام ہے کہ پہلے غیر ملکی سے شادی کی جائے پھر اسکو اسلام کی طرف راغب بھی نہ کیا جاوے اور جب بچہ ہوجائے تو اس کے اسلام کی فکر پڑجاوے۔ کیا رزاق کو برجر کے اسلام کی فکر نہ تھی؟ کیا رزاق نے شادی سے پہلے اولاد کے مستقبل کے لیے نہ سوچاتھا۔ کیا وہ واقعی اپنی اولاد کے اسلام کے لیے فکرمند ہے؟ کیا وہ واقعی برجر کو انسان سمجھتا تھا یا وہ اسے یورپ میں رہنے اور مستقل ہونے کا ذریعہ بنانا چاہتا تھا؟ کیا برجر انسانی جذبات سے عاری ہے کہ اولاد کو باپ کا سایہ دینا نہیں چاہتی۔ اس جیسے کئی سوالات ہیں جو ذہن میں اتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ کہاں جارہا ہے۔ لوگ روزگار کے لے بیرون ملک جاتے ہیں اور قسم قسم کی برائیاں کرتے ہیں۔ کیا یہ برائیاں ہمارے معاشرے کی سوچ کی عکاس ہیں؟ باھر جاکر لوگ وہاں کی مقامی عورتوں کو ایک طرح سے استعمال کرتے ہیں اور ان کو وقت انے پر چھوڑ بھی دیتے ہیں۔ کیا اسلام یہی تعلیم دیتا ہے؟ کیا ضرورت کی شادی اسلام میں جائز ہے؟ کیا یہ سوچ کر مستقل شہریت مل جائے گی تو غیر ملکی بیوی کو چھوڑ دیں گے درست رویہ ہے۔ کیا وہ لوگ جن کی پہلے سے بیوی بچے موجودہیں پھر بھی بغیر بتائے غیرملک میں شادی کرتے ہیں ایک اسلامی رویہ ہے؟

ہم پاکستان جب باہر جاکر جوکچھ بھی کرتے ہیں وہ پاکستان میں موجود سوچ کی عکاس ہوتی ہے ۔ معاشرے کا عکس ہوتاہے مجھے لگتا ہے کبھی کبھا رکہ پاکستان معاشرہ دنیا کے پست ترین میعار کا حامل ہے۔ ہم کدھر جارہے ہیں۔
 

زیک

مسافر
یہ تو سیدھا سادا اغواء کا کیس ہے. باپ بیٹی کو اغواء کر کے پاکستان لایا تھا اور اس وقت سے چھپتا پھر رہا تھا
 
1101453602-1.jpg

آمنہ فرانس پہنچنے کے بعد ائر پورٹ سے باہر ارہی ہے۔ ایکسپریس

آیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس بچی کا حامی ناصر ہو۔ اے اللہ اس کا ایمان سلامت رکھ اور ایمان پر موت دے۔
اس لڑائی میں اس بچی کا کوئی قصور نہیں۔ یااللہ تو اس کی حفاظت فرما۔ تیرے نام پر لینے والے ملک کے باسیوں نے اس کا کوئی خیال نہ رکھا۔ تو ہی اسکا خیال رکھ۔ ہم سب تو صرف اللہ ہی کافی ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
آمین ثمہ آمین
پر کیا یہ وہی بات نہیں ہوئی کہ ع
ہوا کام مشکل تو توکل کیا
ارے بھائی جب وہ پاکستان میں تھی تو کیا کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی نہیں تھا جو اپیل کرتا یا مقدمے کو اتنا طویل کردیا جاتا کہ اس کا باپ صحت مند ہوکر خود عدالت میں پیش ہوجاتا۔ کس قانون کے تحت ایک مسلمان بچی کے ساتھ زبردستی کی گئی ۔ ہم اتنے لاچار اور مجبور کیوں ہیں کہ ہمارے ملک سے ہی ہمارے قاتلوں کو تو آزاد کرا کر لے جایا جاتا ہے ہمارے ملک کے سینکڑوں افراد دوسرے ممالک میں سزائیں بھگت رہے ہوتے ہیں۔ اور ایک مسلمان بچی کو یہاں ایک کافر کے حوالے صرف اس لئے کردیا جاتا ہے کہ اسکے باپ نے ایک اہلِ کتاب سے شادی کا جرم کیا اور جب اولاد ہوئی تو اسکی اپنے دین کے مطابق تربیت کی خاطر اسکو پاکستان لے آیا ۔ کیا اس پر حق صرف اس کی ماں کا ہی تھا۔ اگر سزا دی جاتی تو اس کے باپ کو دی جاتی پر اب اسکا کیا قصور تھا وہ تو بیچاری اپنے دین سے بھی گئی کوئی اس خاتون کو ہی سمجھا دیتا شاید یہ سب اتنی جلدی ہوا یا اتنی دیر سے میڈیا پر آیا جب تک کہ تیر کمان سے نکل چکا تھا
 
انشاللہ دین سے نہیں جائے گی۔
اس کےباپ کو چاہیے کہ ہمت نہ ہارے اور رو رو کر اپنے رب سے دعا کرے۔ دعا تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ تمام مسلمانوں سے التجا ہے کہ اس بے چاری آمنہ کے ایمان کی سلامتی کی دعا کریں
 
لگتا ہے جاوید چوہدری بھی اردو محفل پڑھتا رہتا ہے
کئی بار مجھے شبہ ہوا کہ بی بی سی بھی یہاں سے لائن لیتی ہے
 

زیک

مسافر
اگر انصاف اتنی دیر نہ لگاتا اور باپ آمنہ کو برین واش نہ کرتا تو وہ نہ چیختی چلاتی
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے جو پڑھا ہے اس کے مطابق فرانسیسی عدالت نے پہلے ہی بچی کو والدہ کی تحویل میں دے دیا تھا۔ باپ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اور بچی کو اغوا کر کے لایا۔ جب بچی اغوا شدہ تھی اور پاکستانی شہری بھی نہیں تو پاکستانی عدالت کس قانون کی بنیاد پر بچی کو اس کی ماں کے حوالے نہ کرتی؟ باپ نے تو فرانس میں بھی قانون توڑا ہے نا۔ ویسے بھی اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے ماں کی تحویل میں دیے جاتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی معقول وجہ ہو تو پھر عدالت باپ کے حوالے یا پھر کسی اور کو بھی دے سکتی ہے۔ ویسے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ باپ نے گیارہ سال انتظار کیا پھر فیصلہ کیا کہ بچی کو غیر مسلم ماں کے ساتھ نہیں رہنے دینا چاہیئے اور عدالتی فیصلے کے باوجود بچی کو اغوا کر لایا۔ اس بندے کی اخلاقی پستی تو واقعی ہے
 
میری ذاتی رائے میں باپ کو اپنی بیٹی کو ماں سے جدا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بیٹی سے پہلے بیٹی کی ماں پر کام کرنا چاہییے تھا۔
 
میں نے جو پڑھا ہے اس کے مطابق فرانسیسی عدالت نے پہلے ہی بچی کو والدہ کی تحویل میں دے دیا تھا۔ باپ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اور بچی کو اغوا کر کے لایا۔ جب بچی اغوا شدہ تھی اور پاکستانی شہری بھی نہیں تو پاکستانی عدالت کس قانون کی بنیاد پر بچی کو اس کی ماں کے حوالے نہ کرتی؟ باپ نے تو فرانس میں بھی قانون توڑا ہے نا۔ ویسے بھی اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے ماں کی تحویل میں دیے جاتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی معقول وجہ ہو تو پھر عدالت باپ کے حوالے یا پھر کسی اور کو بھی دے سکتی ہے۔ ویسے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ باپ نے گیارہ سال انتظار کیا پھر فیصلہ کیا کہ بچی کو غیر مسلم ماں کے ساتھ نہیں رہنے دینا چاہیئے اور عدالتی فیصلے کے باوجود بچی کو اغوا کر لایا۔ اس بندے کی اخلاقی پستی تو واقعی ہے
باپ پانچ سال کی عمر میں پاکستان لے ایا تھا۔
 

ساجد

محفلین
دِ ل پہ مت لیں۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
اگرچہ یہ کہانی تھوڑی مختلف ہے لیکن بیٹیوں کے معاملے میں ہماری مردانہ غیرت اور خود کے لئیے کچھ بھی کرنے کی "آزادی" کی بہت اچھی تصویر دکھائی ہے پاکستانی فلم "بول "نے۔
 
Top